بدھ، 14 فروری، 2024

اکتیسویں نشست

0 تبصرے
اکتیسویں نشست

متواتر بات چیت و گفتگو ایک مربوط رشتہ قائم کردیتی ہے. اور گفتگو میں تواتر بجانب خدا عطیہ ہوتا ہے. حکیمانہ صفت لیے لوگ اور اللہ کے دوست ایسا سکون رکھتے ہیں کہ ان سے جاری اطمینان کی لہریں قلب و نگاہ میں معجزن ہوجاتی ہے.مجھے حکم ہوا 

قران پڑھو

میں نے ان سے کہا کہ یہ آسان کتاب نہیں ہے.....اسکا پڑھنا  عام لوگوں کے لیے نہیں. بلکہ یہ علماء کرام پڑھاتے ہیں....

فرمانے لگے:  یہ کہاں لکھا کہ خود پڑھنا نہیں ہے یا اسکے لیے استاد چاہیے؟ 

میں نے کہا کہ اس کی زبان اتنی مشکل ہے. اسکی عربی کی گرائمر نہیں آتی ....

شاہ بابا:  آپ قرآن پاک شروع کردیں پڑھنا....آپ سے نہیں پڑھا جاتا تو آپ پانچ آیات روز پڑھ لیا کریں ....ترجمے کے ساتھ .....اسکو ایسے پڑھیں جیسے محب و محبوب کی چٹھی ہے ......پڑھنے کا ایک وقت مقرر کرلیں.. سارا دن قرآن پاک لیے بیٹھنا نہیں بلکہ ہر آیت کا مفہوم اللہ آپ پر واضح کرتا جائے گا...... جس وقت پڑھنے بیٹھیں اسی وقت اس ایک آیت پر غور و فکر کیجیے

میں نے سورہ العلق کھولی ...اسکو پڑھنے لگی ...میری سوئی  تفاسیر پر اٹک گئی کہ اسکا مطلب میں کس تفسیر سے ڈھونڈیں ...

بابا، میں قرآن نہیں پڑھ سکتی. یہ تو علماء و مفسرین پڑھ سکتے.اسکے لیے باقاعدہ نصاب ہوتا ہے

بابا جان فرمانے لگے 

بیٹی،  قرآن پاک اللہ کا کلام ہے.وہ اپنے قاری پر خود اسکے معانی کھولتا ہے.. تفاسیر تو گنجلک وادیاں ہیں جو فرقہ پرستی کو ہوا دیتی ہیں. فلاں مسلک کی تفسیر، فلاں مسلک کے خلاف ہوتے آپس میں تفرقات کو فروغ دیتی ہے.....آپ سورہ اقراء پڑھیے 

اقرا ------- پڑھ 
کیا پڑھنا --------؟ 
کس کو پڑھنا-------؟ 

اقراء سے مراد کیا ہوگی؟ 
بنی نوع انسان جب تفکر کی گھاٹیوں میں خدا کی تلاش میں چل پڑتی ہے تو وہیں سے فرمانِ اقراء جاری ہوتا ہے ...

قرأت کس بات کی کرنی ہے؟ 
تو کون ہے؟
پوچھا جاتا ہے
پھر بتایا جاتا ہے کہ تری پہچان کیا ہے
ترا خدا سے کیا رشتہ ہے پوچھا جاتا ہے
انسان کہتا ہے وہ نہیں جانتا ہے
تب بتایا جاتا ہے
کس مقصد کے لیے بھیجے گئے ہو 
یہ پوچھا جاتا ہے 
انسان نہیں جانتا
تب اسکو بتایا جاتا ہے

انسان کی *نہیں * اور *معلوم* اسکی پہچان بوسیلہ رب فرمان اقراء ہے....آپ قرآن پاک اسطرح پڑھیں آپ کو معلوم ہو جائے آپ کی تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ آپ کا رب سے رشتہ کیا ہے؟ آپ کو کس مقصد کے لیے بھیجا گیا ...جب آپ کے حاصل کردہ سارے علوم کی نفی ہوگی، تب وہ ذات خود آپ کے اندر قرأت کریگی .....اور سوالات کے جوابات ملنا شروع ہوجائیں گے...

ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی روشن روح اپنے " عین الیقین " کو زمانے کے سامنے آگہی کے روپ میں پیش کرتی رہی ہے ۔ان گنت فلسفی گزر چکے ہیں ۔ جو اپنی اپنی بات میں سچے رہے ۔ وہ بتاتے رہے جو عام انسان کی نگاہ سے اوجھل ہوتا ہے ۔زمانے وقت کے پیہوں پر اپنا سفر جاری رکھتے اک سے بڑھ اک فلسفی کی تعلیمات کو انسان کے سامنے لاتا رہا ۔ان میں چار منتخب ہوئے رب سچے کے دربار میں اپنا پیغام براہ راست انسان تک پہنچانے کے لیے ۔لیکن چونکہ زمانہ تغیر پر استوار ہوتا ہے ۔ اور تغیر سے وہ جو سچے پیغام تھے مرور زمانہ سے دھندلاتے گئے اور انسان کی اپنی خواہشوں کا لبادہ اوڑھتے رہے ۔وقت آن پہنچا اک " امی " تک ۔۔۔۔۔ وہ " امی " جو چالیس سال تک انسان کے اس کائنات میں موجود ہونے کی حقیقت کو جاننے کے لیے غوروفکر میں الجھا رہا ۔اور اپنی سوچ میں سچا اپنے فکر میں پکا رہتے بارگاہ علیم میں مقبول ہوتے " اقرا " کے حکم سے سرفراز ہوا ۔۔۔۔۔

میں کون ہوں؟

میں وہ " نفخ " ہوں ۔ جو "کل " سے " جزو " میں منتقل ہوا ۔ 
میں وہ " پھونک " ہوں ۔ جس کے پھونکنے جانے پر آدم کا " مٹی " کے بے جان پتلا جان پا گیا ۔ 
چونکہ میں " کل " کی پھونک ہوں ۔ سو " جز " ہوتے ہوئے بھی خود میں اسی کی مثال ہوں ۔ اس کا نائب ہوں ۔ اور جسم خاکی میں قید ہوں ۔ 
مجھے " کل " اپنے " علم خاص " سے نوازا ہے ۔ مجھے خود سکھایا ہے ۔ 
میں " آدم " ہوں ۔ اس کی تخلیق ہوں " جس نے چاہا کہ میں جانا جاؤں " ۔ تو اپنی " نعمتوں برکتوں " کی لذات سے نوازتے اپنی عبادت کے لیئے خلق کیا ۔ وہ عبادت کا محتاج نہیں وہ بے نیاز ہے ۔ اس کی عبادت یہی کہ " آدم " کی خدمت کی جائے ۔ آدم کے لیے آسانی پیدا کی جائے ۔ اور اس خدمت کے سہارے میں آدم سے " انساں " کے درجے پہنچا ہوں ۔

اتوار، 15 اکتوبر، 2023

جمعہ، 17 مارچ، 2023

:نشست ۳۰ :کیہ جاناں میں کون

0 تبصرے

​بلھا کیہ جاناں  میں کون !: نشست نمبر ۶


متلاشی کی سوچ کا دائرہ بدلنے لگا ـ اس کے دِل میں سوالات جنم لینے لگے ـ اک استاد کا کام " سوال کرنا سکھانا " ہوتا ہے اور جواب درون سے ملتا ہے ـ روح،  روح سے ربط رکھتی ہے ـ کیا روح بھی جمع ہے؟  درون میں کل کائنات جمع ہو جائے تو سوالات ہونے چاہیے؟  کونسے سوالات ہونے چاہیے؟


متلاشی:  " بلھا کیہ جاناں میں کون؟  اس کے استعاراتی معانی سمجھا دیں ـ کیا بابا بلھے شاہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کون ہیں؟


بلھا کی جاناں میں کون

نہ میں مومن وچ مسیت آں

نہ میں وچ کفر دی ریت آں

نہ میں پاکاں وچ پلیت آں

نہ میں موسٰی، نہ فرعون

بلھا کی جاناں میں کون

نہ میں اندر بید کتاباں

نہ وچ بھنگاں، نہ شراباں

نہ رہنا وچ خراباں

نہ وچ جاگن، نہ سون

بلھا کی جاناں میں کون

نہ وچ شادی نہ غمناکی

نہ میں وچ پلیتی پاکی

نہ میں آبی نہ میں خاکی

نہ میں آتش نہ میں پون

بلھا کی جاناں میں کون

نہ میں عربی، نہ لاہوری

نہ میں ہندی شہر رنگوری

نہ ہندو نہ ترک پشوری

نہ میں رہنا وچ ندون

بلھا کی جاناں میں کون

نہ میں بھیت مذہب دا پایاں

نہ میں آدم حوا جایا

نہ میں اپنا نام دھرایا

نہ وچ بھٹن، نہ وچ بھون

بلھا کی جاناں میں کون

اول آخر آپ نوں جاناں

نہ کوئی دوجا پچھاناں

میتھوں ہور نہ کوئی سیانا

بلھا! او کھڑا ہے کون؟

بلھا کی جاناں میں کون


بدھو بابا:  انسان کے باطن میں ہر لمحہ برپا "خود آگہی " بارے کشمکش کا بیان ہے ۔


ہر حساس روح اپنے " خلق " ہونے کی حقیقت کو جاننا چاہتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔


متلاشی: ( وہ گومگو کیفیت میں لاچار تھی کہ آخر میرے آنے کا مقصد کیا ہوگا ؟ میری حقیقت کیا ہے؟) کیا سادات ِ کرام یہی حقیقت جان سکتے ؟ ہم کیوں جان نہیں سکتے ؟ بلھے شاہ تو سید تھے ، سارے ولی اللہ سادات ِ کرام ہیں ۔


بدھو بابا:  ہمارے نبی پاک ﷺ کا فرمان ہے : کسی گورے کو کسی کالے پر ، کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ۔۔۔ آپ کن سوچوں میں اُلجھ کے راہ کھوٹی کر رہی ہیں ۔۔۔ سب  انسان احساس کے خمیر سے گوندھے گئے اسکی جانب رجوع کرتے ہیں ، اک وقت کے سید نے پہچان کی خاطر نچ کے یار منایا ، کوئی صاحب سالہا سال کنواں میں الٹے لٹکے رہے تاکہ اس کو پہچان سکے ۔ جس دل میں یہ سوال آگیا ، وہ پا گیا ۔۔ بلھے شاہ نے اپنی پہچان پر سوال اٹھایا ہے ۔ انسان کو اللہ نے احسن التقویم پر پیدا کیا مگر اس کے نفس نے اس کو اسفل سافلین تک جا پہنچایا ۔۔ نفس کے مدارج ہیں   ۔۔ معراج پانے والے مصطفی ﷺ اور گرجانے والے شداد و فرعون ۔۔ ان کے مابین انسان سوچ وچار سے تعین کرتا ہے کہ وہ کون ہے


من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ۔۔۔۔ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا


متلاشی : اللہ نے تو قران پاک میں کہا : الم نشرح لک  صدرک ۔۔ یہ سینہ کیسے کھلتا ہے ؟ نبوت کے بھاری بوجھ کی بات کی ، نبوت کا بوجھ بھاری کیونکر ہوتا ہے؟ اگرچہ میں نہیں جانتی  مگر پھر اللہ نے کہا : ووضعنا عنک وزرک ۔ وہ بوجھ اللہ نے آپ پر سے اتار دیا ۔۔۔  سینہ سے متعلق تو روایات پڑھی ہیں کہ سینہ آپﷺ کا چاک کر دیا گیا تھا ، فرشتوں نے تمام کثافتوں کو نکال کر نور ڈالا تھا ۔۔ میں تو کچھ نہیں جانتی ، بس جو پڑھا ہے ، میں وہی لکھ رہی ہوں


تو سب سے بلند تریں انسان حضور پاکﷺ ہوئے جن کی تیسری خصوصیت ورفعنا لک ذکرک ہے ۔۔۔


سبحان اللہ !


سوال یہ ہے جو نہ اسفل ہے اور اور نہ ارفع ۔۔۔ اس کے ساتھ فضل ہوگا یا عدل؟


کیا ۔۔عرفان ذات یہ ہے ۔۔۔ خود کو غائب تصور کرتے ہوئے اس پاک رب کے پاس حضوری ۔۔۔ یا کچھ اور کیونکہ اول آخر اللہ تعالی ہیں نہ کہ انسان ۔۔۔۔ ازل تا ابد وہی ذات


اور پھر بابا بلھے شاہ کا یہ شعر اس بات کا عکاس کہ انکی ذات میں معشوق بس گیا اس کا رنگ اتنا چڑھ گیا کہ ان کا اپنا رنگ مٹ گیا۔۔یہاں پر معشوق ۔۔مرشد ہیں یا ذات باری تعالی ۔۔۔؟؟ اور اگر ذات باری تعالی ہے تو میں اس کو سمجھوں بابا بلھے شاہ کو ادھر عارف با للہ کا درجہ مل گیا ؟


رانجھا رانجھا کر دی نی میں ، آپے رانجھا ہوئی

سدّو نی مینوں دھیدو رانجھا ، ہیر نہ آکھو کوئی

رانجھا میں وچ ، میں رانجھے وچ ، ہور خیال نہ کوئی

میں نہیں اوہ آپ ہے اپنی آپ کرے دل جوئی

جو کوئی ساڈے اندر وسّے ، ذات اساڈی سو ای

رانجھا رانجھا کر دی نی میں ، آپے رانجھا ہوئی

ہتھ کھونڈی میرے اگے منگو ، موڈھے بھُورا لوئی

بلّھا ہیر سلیٹی ویکھو ، کتھّے جا کھلوئی

جس دے نال میں نیونہہ لگایا ، اوہو جیہی ہوئی

تخت ہزارے لے چل بلھیا ، سیالِیں ملے نہ ڈھوئی

رانجھا رانجھا کر دی نی میں ، آپے رانجھا ہوئی


ہم جیسے لوگ رہنمائی کے طلب گار ۔۔۔ نہ الف کا پتا نہ ب کا


اپنے علم سے مزید مستفید کریں


بدھو بابا:یہ جو آپ نے لکھا ہے ،یہ تو خود اک جواب ہے ۔ سوال کیا ہے ؟ میں تو یہی سوچ رہا ہوں ۔۔۔ آپ کس سے رہنمائی کی طالب ہیں ؟ سب کچھ تو آپ کے اندر ہیں ، تو ایویں ای رولا پایا اے ، چل چھڈ سیاپا !   یہی سوچ ، فکر جب وجدان تک پہنچتی ہے تو جواب لفظ کی صورت حرکت پذیر ہوتے روح رکھتا ہے، اسی طرح سوچنے سے عرفان کے در وا ہوتے ہیں ۔۔۔


متلاشی :  آپ کا بہت شکریہ جو آپ نے میرے سوال کو اہمیت دی ، یہ بتائیے کہ  علم نبیوں کی میراث ہے اور نبیوں کے بعد اللہ کے بندوں کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اس نظم کے بارے میں یہ علم تو نہیں تھا کہ اس میں کوئی استعارہ ہوگا مگر میں نے جاننا چاہا ، جو میں نہیں جانتی تھی ۔۔  میں عجمی ہوں ، جس کو قرانِ پاک کی سمجھ نہیں ہے ، میں یہی سنتی آئی ہوں جس نے قران پاک پڑھا ، اس کو ہر حرف کے بدلے ثواب مل گیا ۔۔ حرف بھی اسطرح کہ '' الم '' میں الف ، لام ، میم تین لفظ ہیں ۔ کیا ہم نے اسکو بس ثواب کی خاطر پڑھنا ہے ؟ مجھے کیوں لگتا ہے قرانِ پاک کی ہر صورت جس میں قسمیں کھائیں گئیں ہیں ، اس میں کوئی نہ کوئی معانی موجود ہیں ۔۔  میرے ذہن میں چند مزید سوالات ہیں جن کو میں لکھ رہی ہوں ۔۔  


  11۔ میرا مقام کیا ہے ، میری شفاعت ہوگی یا میں سزا وار ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری مراد اتنی ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں الحمد اللہ اسفل نہیں مگر ارفع بھی نہیں ۔۔۔درمیاں کے لوگوں کے لیے کیا حکم ہے ۔۔۔۔۔۔۔ مجھ پر اللہ کا فضل ہوگا یا عدل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟


۔ نبوت کا درجہ ایک اعلی درجہ ۔۔۔۔۔،نبوت کا بوجھ ۔۔۔کیونکہ نبوت کی بدولت ارفع مقام کے حق دار ہوئے

بوجھ سے کیا مراد ہے ؟


بابا بلھے شاہ پیدائشی عارف ..عارف اپنی پہچان کے لیے ایسا کیوں لکھے ..؟وہ تو معرفت حاصل کر چکے تھے


 


بدھو بابا: صوفی بزرگ ہمیشہ ملامتی روپ اختیار کیئے رکھتے تھے تاکہ عام لوگ ان کے قریب آتے ان کی بات سنتے کوئی جھجھک محسوس نہ کیا کریں ۔ انہیں اپنی بات کہنے اپنے اشکال بیان کرتے کوئی جھجھک نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


۔۔ یہ بھی اک وعظ کی صورت تبلیغ ہی ہے ۔۔۔۔ اللہ واحد و لاشریک کی جانب بلانے کی ۔۔۔۔۔۔۔۔

بلھا کی جاناں میں کون

بابا بلھے شاہ اپنی ذات کو مخاطب کرتے اپنی شناخت تلاش کر رہے ہیں

انسان کی سوچ اس کے باطن سے مخاطب ہے ۔۔۔

نہ میں مومن وچ مسیت آں

مومن کون ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ ؟

جو اللہ پر یقین رکھے اور اس کے احکامات پر بے چون و چرا عمل کرے ۔۔

مسیت ۔۔ مسجد کیا ہوتی ہے ۔۔۔۔۔؟

جہاں نماز کی ادائیگی ہوتی ہے ۔ نماز پڑھتے نمازی کے سامنے دو صورتیں ہوتی ہیں ۔

اک وہ اللہ کے حضور کھڑا اللہ کو دیکھ رہا ہے

دوسرے وہ اللہ کے حضور کھڑا ہے اور اللہ اسے دیکھ رہا ہے ۔

اب وہ " مومن " کیسے ہو سکتا ہے جو مسجد میں کھڑا ہے رکوع و سجود کر رہا ہے ۔

اور ساتھ ہی ساتھ اس کا نفس اسے خواہش میں الجھائے ہوئے ہے ۔ اور جھوٹ فریب دھوکہ کی راہیں سمجھا رہا ہے ۔۔۔۔

سو میں " مومن " نہیں جو کہ اللہ کی مانتا نہیں اور اپنے نفس پر چلتا رہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر میں " مومن " نہیں تو کیا پھر میں " کفر " کی راہ پر ہوں ۔۔۔؟

نہ میں وچ کفر دی ریت آں

کافر جس کا مادہ کفر ہے ۔ وہ حق کے جھٹلانے والا ہے ۔

جس نے " لا الہ الا اللہ " کی صدا سنی مگر تسلیم نہ کی اور اعراض کر گیا ۔۔

لیکن میں تو کلمہ پڑھ چکا ۔۔ اللہ کے آخری رسول پہ آئے پیغام کی تصدیق کر چکا ۔۔۔۔۔۔۔

سو میں " کفر " میں تو مبتلا نہیں ہوں ۔۔۔۔

تو کیا میں پاکیزگی کی بجائے ناپاکی میں مبتلا ہوں ۔۔۔۔؟

نہ میں پاکاں وچ پلیت آں

(اسے نہیں سمجھ پایا )

نہ میں موسٰی، نہ فرعون

نہ میں موسی کے درجے پہ ہوں جسے رسالت سے سرفراز کرتے " تبلیغ " کی امانت کا بوجھ دیا گیا ۔۔۔۔۔

نہ ہی میں فرعون ہوں جسے زمانے کے خزانے دیئے گئے اور وہ خود ساختہ رب بن بیٹھا ۔۔۔۔۔۔۔

بلھا کی جاناں میں کون

تو اب کیسے پتہ چلے کہ " میں " کون ہوں ۔۔ میرا فرض کیا ہے ۔ میری تخلیق کا مقصد کیا ہے ۔

مجھے زمین پہ بھیجا کیوں گیا ہے ۔؟

اب یہاں سے مخاطب بدل گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلے باطن سے خطاب ہو رہا تھا ۔۔۔۔ اب باطن جواب دے رہا ہے ۔۔۔۔۔

نہ میں اندر بید کتاباں

زمانے کی کتابیں پڑھ لے مگر میرا بھید نہ مل سکے گا۔۔۔۔۔۔۔ کہ میری حقیقت کیا ہے ۔۔؟

نہ وچ بھنگاں، نہ شراباں

بھنگ چرس شراب تمام نشے کر کے دیکھ لے مگر بھید نہ مل سکے گا ۔۔۔۔۔

نہ رہنا وچ خراباں

خرابات دنیا میں مگن رہتے تجربہ کر لے میرا بھید نہ ملے گا

نہ وچ جاگن، نہ سون

جاگتے بھی سوچتا رہ اور سوتے بھی خواب دیکھ مگر میرا بھید نہ مل سکے گا ۔۔۔۔۔

بلھا کی جاناں میں کون

بلھے شاہ کیا تو جانا کہ میں کون ہوں ۔؟

نہ وچ شادی نہ غمناکی

خوشی کے عالم میں بھی اور دکھ کی کیفیت میں بھی میرا بھید نہیں ملے گا

نہ میں وچ پلیتی پاکی

ناپاکی اور پاکی میں ڈوبے رہتے بھی میرا سراغ نہ پاسکے گا ۔۔۔۔۔

نہ میں آبی نہ میں خاکی

نہ میں سراپا پانی ہوں نہ ہی سراپا خاک ہوں ۔۔۔

نہ میں آتش نہ میں پون

نہ میں سراپا آگ ہوں نہ ہی سراپا ہوا ہوں ۔۔۔۔۔

بلھا کی جاناں میں کون

تو میں کیا ہوں ۔۔۔۔؟

نہ میں عربی، نہ لاہوری

نہ میں عرب سے ہوں نہ میں لاہور سے

نہ میں ہندی شہر رنگوری

نہ میں ہندی شہر رنگوری ہوں ۔۔۔۔۔

نہ ہندو نہ ترک پشوری

نہ میں ہندو ہوں نہ میں پشاور چھوڑ دینے والا پٹھان

نہ میں رہنا وچ ندون

نہ ہی میں کسی ندون ؟ میں رہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلھا کی جاناں میں کون

تو بلھے شاہ تو کیا جانے میں کون ہوں ۔۔۔؟

نہ میں بھیت مذہب دا پایاں

نہ میں نے کسی مذہب کو اختیار کیا ۔۔

نہ میں آدم حوا جایا

نہ ہی میں آدم و حوا کی اولاد ہوں ۔۔۔۔۔

نہ میں اپنا نام دھرایا

میرا نام اک ہی ہے چاہے کتنے روپ بدلے

نہ وچ بھٹن، نہ وچ بھون

نہ بھٹن کی خانقاہ میں نہ ہی بھون کے مدرسے میں

بلھا کی جاناں میں کون

تو بلھے شاہ کیا تو جانا کہ میں کون ہوں ۔۔۔؟

اول آخر آپ نوں جاناں

ابتدا سے انتہا تک صرف میں ہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔

نہ کوئی دوجا پچھاناں

میرا کوئی دوسرا شریک نہیں

میتھوں ہور نہ کوئی سیانا

مجھ سے زیادہ کوئی علم والا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔

بلھا! او کھڑا ہے کون؟

بلھے شاہ ذرا دیکھ تیرے دل میں کون قائم ہے ۔۔۔۔؟

بلھا کی جاناں میں کون

بلھے شاہ کیا جانا مجھ بارے میں ہوں کون ۔۔۔؟


لاتطمئن القلوب الا بذکر اللہ

اللہ بہترین ذکر یہی ہے کہ اس کے ذکر میں محو رہتے اس کی مخلوق کے لیئے آسانیاں پیدا کی جائیں ۔۔۔


لیس للانسان الا ما یسعی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسان کے لیئے کچھ بھی نہیں سوائے اس کے جس کے لیئے وہ کوشش کرے ۔۔

تو کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم ارفع ہونے کی کوشش کریں ۔ مخلوق خدا کے ساتھ بھلائی کریں

رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی سے پیش آئیں ۔

یہ کہاں کی حکمت کہ جب ہمارے پاس ترقی کی راہ موجود ہو تو ہم قناعت کر جائیں ۔۔۔؟

کون اسفل ہے کون اعلی ہے کون ارذل کون ارفع ہے ۔۔۔۔۔۔۔

یہ حساب کے دن کا مالک خوب جانتا ہے ۔۔۔۔

اس کے حساب میں رائی برابر زیادتی اور کمی نہیں ہو سکتی ۔۔


عدل کریں تے تھر تھر کنبن اچیاں شاناں والے ہو

فضل کریں تے بخشے جاون میں جئے منہ کالے ہو


اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔۔۔۔۔۔۔

نیک نیت ہوتے نیک مراد ملنے پر یقین کامل رکھنا اک بہتر عمل ۔۔۔

اور حساب کے دن کی مالک سچی ذات تو اپنی مخلوق پر ماں سے بھی ستر گناہ زیادہ مہربان ہے ۔

اس کی صفت رحیمی اس کے غضب پر حاوی ہے ۔۔۔۔۔۔۔

اپنی عاقبت کے بارے فکر کرنا بلاشبہ روشن ضمیروں کی عادت ہوتی ہے ۔

مالی دا کم پانی دینا بھر بھر مشکاں پاوے

مالک دا کم پھل پھل لانا لاوے بھانوے نہ لاوے ۔۔

اس شعر کے مصداق اللہ سے ڈرنے والے اس کے ذکر میں محو رہتے مخلوق خدا کے ساتھ بھلائی کیئے جاتے ہیں ۔

اور اجر و ثواب اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں ۔۔۔

عرفان ذات ۔۔۔۔۔ وہ حقیقت بھرا احساس ہے جو کہ بیان میں نہیں آ سکتا ۔

جس کو عرفان ذات نصیب ہوجائے ۔۔ وہ شریعت پر عمل پیرا رہتے طریقت اختیار کرتے معرفت کی منزل پہ پہنچ حقیقت سے آشنا ہو جاتا ہے ۔

لیکن وہ اس راز کو بیان کرنے سے قاصر ہوتا ہے ۔۔۔ کیونکہ سرمد و منصور کی طرح راز افشاء کرنے پر اک تو سولی مقدر دوسرے عام انسان کے لیئے گمراہی کا سبب بنتا ہے ۔

عمومی طور پر جسے عرفان ذات ہوجائے وہ خلق خدا سے محبت میں اپنی ہستی مٹاتا دکھ جاتا ہے ۔۔۔۔

وہ انسانوں سے بے نیاز اور اللہ پر یقین رکھنے والا دکھائی دیتا ہے ۔۔۔۔

عرفان ذات باری تعالی کی حقیقت کھول دیتی ہے ۔ اور صاحب عرفان وجود باری تعالی کے مقام کی الجھن سے بے نیاز ہوجاتا ہے ۔

نبوت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اک امانت ہے ۔ اور زمانے کے بوجھوں سے بڑھ کر اک بوجھ

نبی کو حکم ہوتا ہے ۔ تبلیغ کا ۔ بنا کسی جھجھک کسی مصلحت کے ۔

اور یہ فرض بحسن خوبی ادا کرنا آسان نہیں ہوتا ۔۔۔۔

آپ سورت اقراء ،سورت المزمل، سورت المدثر کو رجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھیں

ان شاء اللہ نافع ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔


متلاشی : درِ نایاب ترے در سے ملے ، ترے سنگ ہم جیسے جیسے چلے ، کسی نے پوچھا کبھی ہم سے کچھ ، ترےنام  کی مالا جپتے رہے ۔ تجھے چاہا ، تری بندگی میں ہم انتہا تک چلے ۔ قفس میں رہے مگر نہ رہے ،یہ عجب اڑان کے ہر لمحہ ترے ساتھ رہے ۔ تری بات لگی دل کو ، ہم پھر دل کی لگی میں رہے ۔ ترا شکریہ ادا کریں کیسے ؟ ہم تو شکریے میں تا عمر رہے

نشست۲۹ : خود کی معافی

0 تبصرے

​ساتویں نشست 

خود کی معافی : 

بددعا سے دُعا کا سَفر 


اثباتِ حق کی تسبیح ...


تغیراتِ زمانہ انسان کو کمینہ بنا دیتے ہیں. میرے اندر کا کمینہ انسان شاہ بابا کے سامنے نادم بیٹھا تھا. نَدامت اک بوجھ کے جیسے تھی جیسا وہ میرے "ہونے " کی منفیت کے اسیر گُمانوں سے واقف ہورَہے تھے . ان کے چہرے کی مسکراہٹ یہ راز مگر افشاء نَہیں کَرتی تھی....جیسے میں اک نومولود گھڑی میں بیٹھی اک کُن سے فیکون کی جنمی روح ہُوں. میں اک خواب کی سی کیفیت میں تھی اور خواب کے اثر میں تھی .... وہم و گُمان کا اثر حقیقت جیسا ہوتا ہے. 


"میں گُنہ گار ہُوں، اتنے گناہ کیے ہیں کہ خُدا معاف نَہیں کرے گا "


"خالق قہار زیادہ ستار ہے 

وہ رحیم سے زیادہ رحمن ہے 

وہ شہید ہے اور شہادت چاہتا ہے 

تم شاہد ہونا نَہیں چاہتی؟  "


ان کی بات مجھ کورے کاغذ کو سمجھ نَہ آسکی مگر دامنِ سیاہ و داغدار دل کو اجیاروں کی نوید ملنے لگی تھی ...میرا دل وہاں تھا اور دل، دل کے سامنے سجدہ ریز. دل کے اندر سے دل والے کی صدا یعنی خواب در خواب ... میں اس تھری لیئرڈ خواب میں خدائی راز سے تھی


تم کو زیب نہیں خود کو سفل  کہو. یہ مقام تو عین سے دور ہو جانے والوں کا ہے. یہ مقام شداد و نمرود کا کہا. فرعون نے ایسے نفس کو بقاء دی ہے ... تم چناؤ سے نہیں بلکہ عطائے ربی سے چلو 


راہ کی کنکریاں ہٹا کے چلا کرو. دل کا صدقہ بنا کے چلو


شاہ بابا:  آپ خود کو معاف کردیں 


خود کو معاف کیسے کیا جاتا ہے؟ میں نے یکسر معصومیت سے سوال کیا


خود کو معاف، خود کو معتبر کرکے کیا جاتا ہے. اب آپ یہ کہیں گی کہ خود کو معتبر کیسے کیا جاتا ہے 

تو سن میری بٹیا 


آپ ہی سچ ہیں بس ...باقی سب جھوٹ ہے ... آپ ہیں تو سب کچھ ہے ... یا میں ہی سب کچھ ہوں اور باقی سب جھوٹ ہے. اگر یہی سچ ہے تو میں ادھر ادھر وقت کیوں ضائع کروں ... میں خود کو خود معتبر نَہ کروں ... اب خود کو کیسے معتبر کرسکتا ہے کوئی؟ اسکا نصاب آپ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ میرے لیے کافی ہے ... وہ اسوہ حسنہ جو قرآن پاک نے میرے لیے بیان کیا ... ہم دنیا سے نہیں ... دنیا ہم سے ہے ... یا میں دنیا سے نہیں دنیا مجھ سے ہے. میں اپنی کائنات کا آپ مالک ہوں


نفرت، کینہ، غیبت، غصہ دل کی سلطنت سے نکال کے خالص اللہ کی جانب رجوع کرنا خود کو معاف کرنا کہلاتا ہے 


آپ کے لیے یہ سب کہنا آسان ہے مگر میں زخموں سے چور،  فگار دل لیے ہوں  مجھے جن سے زخم ملے میں ان کو معاف نہیں کر سکتی ...میں ان سے انتقام لوں گی .. اگر نہ لے سکی تو میری بددعا  اخیر تک ان کا پیچھا کرے گی، جس جس نے میرا دل دکھایا، جس جس نے میرا دامن دل تار تار کرکے میرے وجود میں نفرت کا رعشہ بھر دیا  .میں جو کچھ ہوں وہ انہی لوگوں کی مرہون منت ہے.


شاہ بابا:  آپ نے پہلے کئی مرتبہ انتقام لیا. کیا آپ کامیاب ہو پائیں؟


پہلے پہل تو میں حیران ہوئی کہ ان کو کیسے پتا چلا مگر اب میں جانتی ہوں  خدا کے بندے سب جاننے کی قدرت رکھتے ہیں ... 


ہاں، لیا تھا انتقام مگر وہ دشمنِ جاں کا بال بیکا نَہ کرسکا اور دل میں آگ سلگتی رہتی ہے مجھے بے چین و بے کل رکھتی ہے 


اس بےچینی سے نکلنے کی خواہش ہے آپ کو؟ اس اضطراب سے نکلنے کے لیے آپ کو تھوڑا بہادر بننا ہوگا. آپ ایسا کریں جس سے انتقام کی سوچ دل میں پنپتی ہے اس کے لیے دعا کو ہاتھ اٹھائیں 


میں ایکدم پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی جیسے سینہ خون سے لت پت ہوگیا ..جیسے زخموں سے ناچار وجود کسی سہارے کا متمنی ہو. جیسے معاف کرنے کی خواہش دل میں ابھرتی ہو تاکہ سکون کی جانب قدم رکھ سکوں مگر میں ایسا کر نہیں سک رہی تھی اور اس تھری لئیرڈ ڈریم میں خواب کی سی کیفیت میں مدہوش اک اور نور کو سراپا سسکتا دیکھ رہی تھی جس کو شاہ بابا کی محبت بدل رہی تھی. لہولہان وجود کو جیسے مرہم مل رہا تھا. رگ رگ میں دریائے محبت سے سیرابی پا رہی تھی ...سکون کی یہ کیفیت ابدی نشہ لیے تھی


خوابیدہ کیفیت کے حصار میں میں ان کو محرومی بتانے لگی.  اپنے "ہونے اور نہ ہونے کی سزا کی پاداش میں کیا کیا کرتی رہی وہ بتانے لگی ... اپنی منفیت میں انتہاؤں کا سفر کس قدر اذیت ناک رہا وہ بتاتے جب سہنے کی تاب نہ رہتی تو مجھے منع کر دیا جاتا کہ جتنا جسم اجازت دے، اس قدر توفیق سے دل کے زخم بتائیں جائیں خود سے زخموں کو کھڑونچے نہ دِیے جائیں ... 


میرے گمانوں کے واہمے بدلنے لگے یا بدل رہے تھے


میں بدلنے لگی ... آسان تو نہ تھا نہ مگر مسیحا نے آسان کردیا. اسرار سے واقفیت ملنے لگی. حقیقت کھلنے لگی ...  میں نے معاف کردیا خود کو ... خود سے 

انتقام کی آگ کا آلاؤ بجھنے لگا 

نفرت کی سرانڈ ختم ہونے لگی 

جنبشن ناز میں احرام دل میں موتی تھے اور میں نے عفو کا معانی سیکھا تھا. ذات سے عشق کا پہلا سفر تھا. ذات کی جانب لو لگے تو ذات ہمیں دعا دینا سکھاتی ہے. میں نے معافی سیکھی تھی ابھی دعا مشکل تھی

نشست:۲۸ قسط: توحید

0 تبصرے

14 Episode 

Tahweed


ایک ایسی نشست میں، میں نے شاہ بابا سے سوال پوچھا کہ شرک کیا ہے؟ مشرک کون ہوتے. سورہ التوبہ میں مشرکینِ مکہ کو حج سے متعلق فرائض ادا کرنے سے روک دیا گیا تھا 


تو مجھ سے کہنے لگے پُتر تو نے سورہ الاخلاص پڑھی 


میں نے کہا:  جی بابا 


تو کہنے لگے کہ کیا ملا، کیا پایا؟ کچھ فہم و درک ملا؟ 


میں نے کہا اس میں اللہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اقرار کرنا ہے وہ اللہ ایک ہے. اس کے سوا کوئی معبود نہیں 


کہنے لگے پتر یہیں رک جا 


میں نے کہا بابا، ابھی تو رہتی ہے


فرمانے لگے 

قل ھو اللہ احد.....  

کیا کہا جارہا ہے


میں نے کہا یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہا جارہا ہے ....


قرآن پاک تو نازل ہوچکا اور ترتیل بھی .... آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر 


اس کی ترتیل و نزولِ حرف عین اطلاق ہر اس روح پر ہوتا ہے جو اس کی محبوب ہوتی ہے .......


آپ قرآن پاک اس طرح سے پڑھیں جس طرز ایک محب و محبوب کے درمیان کا مکالمہ ہوتا ہے ..... 


اب بتائیے خدا آپ کو کیا کہہ رہا ہے؟  آپ خدا کی محبوب روح ہیں ... ہر روح اس کی محبوب ہے. یہ محب و محبوب کے درمیان مکالمہ ہے

میں نے کہا خدا کہہ رہا ہے ............

کس کو کہہ رہا ہے؟ وہ گویا ہوئے 

میں نے کہا مجھے ...


کہنے لگے آپ کون ہیں 


میں خاموش  ہوگئی


کہنے لگے مجھے 


آپ نفس ہیں 

جوہر ذات آپ کے نفس سے مخاطب ہے 

ذات آپ کو کہہ رہی ہے کہ نفس اقرار کرے 


اللہ ایک ہے


نفس کیسے اقرار کرے گا؟  نفس تو قلب میں مقید حسیات کا پابند ہے؟ یہ اپنی پانچ حسیات کو استعمال کرتے اپنے ہر عمل کو ذات کے بعین میں ڈھالتا جائے ..قرآن پاک کے احکامات جس میں ذات نفس سے مخاطب ہے اور وہ فرماتا ہے


سورہ الفجر میں ....

اے روح اطمینان والی.

تو لوٹ اپنے رب کی طرف راضی ہونے والی پسندیدہ.

پس تو داخل ہو میرے بندوں میں.

اور داخل ہو میری جنت میں.

سورۃ الفجر (89)

آیت 27-30


نفس کا وہ درجہ وہ ویسا ہوجاتا ہے جیسے خدا کی منشاء ہوتی ہے 


میں نے پوچھا خدا کی منشاء کیا ہے؟ 


فرمانے لگے کبھی پالتو جانور پالے؟ نہیں پالے بھی تو عام مشاہدہ ہے کتے کو اس طرح ٹرین کیا جاتا ہے وہ مالک کے کہنے پر دوڑتا ہے،بھاگتا ہے اطراف میں، اس کے اشارے پر بھونکتا، اس کے کہنے پر کھانا تک کھاتا ہے. اک جانور مالک کا کتنا وفادار ہوتا ہے وہ مالک کا ریموٹ کنٹرول بن جاتا ہے


میں نے کہا آپ کی مراد ہے اللہ فرما رہا ہے 

کہ میں اس کی ایسے مطیع ہوجاؤں جیسا کہ وہ فرماتا ہے؟  میں تو ایسے ہی کرتی ہوں


آپ ابھی علم و مطالعہ نہیں رکھتیں مگر بہت جلد آپ کے پاس ایسے جاری رہنے والے علم کی ترسیل ہوگی کہ کسی سوال کا جواب تشنہ نہ رہے گا .... 

آپ کی فرمانبرداری جنت و دوذخ تک محدود ہے 

آپ کی اطاعت محض اس کے لیے نہیں ہے وہ آپ کو اشارہ کرے ... آپ کو اشارہ سمجھنے کے لیے دل سے باتیں کرنا پڑیں گی. دل والے کو.سچا یار بنانا پڑے گا. جیسا وہ کہے ویسا کرنا پڑے گا


دل .... 

دل؟  دل سے باتیں کیسے ہوتی ہیں؟  


یہ کتنا مشکل کام ہے کہ میں ایسے بات کروں تو سب کہیں گے یہ تو پاگل ہے


یہ دنیا ہے دِل والوں کی .....  

دل جو دھڑکتا ہے دو چھٹانک کا لوتھڑا .... رکھتا ہے خود میں پوری کائنات .... یہیں پر خدا موجود ہے ...دل سے بات کرنا خدا سے بات کرنا ہے


اس سے بات کریِں ...

رنگیلی چوکی پر بٹھا کر برتن دھلوا لیا کریں 

سارے درد دکھ اسکو دیا کریں 

اسکی سنتی جایا کریں 

وہ تھامتا ہے بڑھ کے 

دلوں میں مکین ....

مکان کو گھر بناتا ہے

جب آپ دل والے کے اشاروں پر ناچنا شروع کردیں گی تب توحید مکمل ہوجائے گی 

تب کوئی غم، غم نہیں رہے گا .... 

قرآن سارا عمل کے لیے ہے. نفس جب تک روح (ذات) کا مطیع نہیں ہوجاتا تب تک اطاعت نہیں ہوتی. نفس جب تک ذات کے بعینہ آئنہ ہوتا جاتا ہے بعد اطاعت کے دوئی نہیں رہتی. تب نفس اور روح یکجا مثل آئنہ ہوتے سچ حق دیکھتی ہیں .... یہ وہ تلاش ہے جو باہر نہیں بلکہ درون کے نہاں خانوں میں مکمل ہوتی ہے 


یاد رکھیے 

اللہ آسمان پر 

رسول زمین پر 


وہ فرماتا ہے اللہ آسمانوں زمین کا نور ہے ... 

نفس جب سراپا نور ہوجاتا ہے تب فرق نہیں رہتا 

تب جنت و دوزخ کا فرق نہیں رہتا 

تب فراق و وصال کی گردش نہیں رہتی 

تب صبح و شام کا فرق نہیں رہتا 

تب تنگی و فراخی کا پیمانہ اس کی مرضی سے طے ہوتا ہے 

پھر وہ آزماتا ہے ... 

یہی ایک آیت توحید کی طاری ہو جائے تو زندگی بھر کے لیے کافی ہے 

جب رب خود فرمائے گا 

کہو اللہ ایک ہے 

نفس یہ کہتے خود ضم ہوچکا ہوگا 

پروانہ شمع پر فدا ہوتے شمع میں گرچکا ہوتا ہے 

جب دونوں ایک ہوجاتے ہیں تو توحید مکمل ہوجاتی ہے 

جو ایک نہ ہو پائے وہ مشرک ہے ..اس نے شرک کیا ..


خدا کے کتنے بت بنا لیے 

صورت اولاد 

صورت مآل 

صورت دنیا 

صورت صنم


کسی بھی انسان کو کس موڑ پر اللہ کہے گا 

کہو ... اللہ ایک ہے 

میں نے سوال کیا

یہ بہت اہم سوال ہے بٹیا جی 


جب آپ کے اندر بُت ختم ہوجائیں گے. آپ کے اندر خدا کی وہ صورت باقی رہے گی جس پر جناب آدم علیہ سلام خلق کیے گئے تھے 


میرے اندر بت؟ 

وہ کیسے؟ 


ہر انسان اپنے*ہونے* کے معیارات بناتا ہے. اس کے ہونے کے*معیارات* بتان تشکیل دیتے ہیں ..جیسے پارسائی کا زعم... جس کی وجہ ہم خود کو یا غیر کو معاف نہیں کرتے جبکہ اللہ کرچکا ہوتا ہے،  مال و دولت وجاہ کا بت،حسن و جمال کا بت، عالم ہونے کا بت، اچھے ہونے کا بت،  برے ہونے کا بت، پاک و ناپاک ہونے کا بت....


ایسے بے تحاشا بت اندر جھٹکے در جھٹکے سو ٹوٹ جاتے ہیں اور وہ براجمان ہوتے کہتا ہے 

کہو *میں* ایک ہوں 

تب آپ ایک ہوچکے ہوتے​

قسط ۲۷ :نطق کی حامل روح

0 تبصرے

​سترھویں قسط 


نطق کی حامل روح 


سوال: بابا ـ یہ نطق کی حامل روح کیا ہوتی ہے؟ 

نطق کی حامل روح اویسیت کی حامل ہوتی ہے ..... 

بابا جان: اویسیت کیا ہے؟ نطق کی حامل روح کیا ہوتی ہے؟ 

بٹیا جی!  

اویسیت سے مراد ٹائم اینڈ اسپیس سے پرے کسی روح سے تعلق ہوتا ہے .... سُنا گیا ہے غالب نے اپنا استاد کسی فارسی بزرگ سے منسلک کیا ہے مگر وہ غالب کا فرضی کردار تھا، رہنمائی اسکو اپنی ذات سے ملتی تھی .... کسی ذات کا فیض روح میں جب موجود ہوتا ہے تو روح میں وہ فیض بولتا ہے ...وہ گائیڈ کرتا ہے ... ایسی ارواح، آزاد ارواح کسی کی غُلامی قبول نَہیں کرتی بلکہ دل کے کَہے پر لبیک کرتے صدائیں بکھیر دیتی ہیں ... جیسا کہ اقبال کے پاس مولانا روم کا فیض موجود تھا .... جیسے کہ رومی کے پاس شمس کا فیض موجود تھا ... اسکو اویسیت کہتے ہیں .... جب ان کی روحی نسبتیں ان کو direct کرتی ہیں تب ان کی ذات ڈھلنا شُروع ہوجاتا ہے ... نفس مانندِ روح ہونے لگ جاتا ہے .... اس روح کو ناطق روح کہتے ہیں جو اشجار سے کلام کرے،کتا، بلی، شیر سے ہمکلام ہوجائے ...نفس کا خوف،وساوس سب روح اپنے ہاتھ میں لے کے نفس کو وفادار کتے کی مانند سدھا دے تو عشق سچا ہوجاتا ہے


بابا: ہمیں کیسے پتا چلے کہ روح ہمکلام ہے؟ ہمارا نفس کیسے سدھایا جاسکے؟ 


بٹیا جی! جب آپ کی نسبتیں ظاہر ہونا شُروع ہوجائیں ....آپ کے سامنے وہ ہستیاں ظاہر ہونا شروع ہوجاتی تھری ڈائمنثنل اسپیس میں .... ان سے بات چیت و ملاقات ہونے لگ جاتی ہے... تب شک کی گنجائش نَہیں رہتی ...بٹیا جی ،اگر جنابِ ابراہیم علیہ سلام نے شک میں پڑ  کے آگ میں چھلانگ نَہ لگائی ہوتی تو کیا آگ گُلنار ہوتی؟ 


سنیے! قرآن پاک میں جناب ابراہیم کی کھوج کا قصہ ملتا ہے کہ وہ تڑپ میں، تلاش میں نکل پڑے کہ انہیں خدا باہر سے ملے گا ....چاند و سورج استعارات ہیں ....... درحقیقت خارج یعنی مجاز میں خدا ڈھونڈنے کے بعد اس میں خامی مل جاتی تو ان کو خیال آتا،  خدا تو عیب سے خالی ہے .... یہ خیال ان کو کون دلاتا کہ خدا عیب سے خالی ہے؟ یہ فیض موجود اشارات دیتا تسبیح کراتا ہے ....تفکر و غور کے بعد ان پر آشکار ہوا ---- خدا باہر نَہیں، خدا درون کی گہرائی میں ہے .... اس کھوج کی قسم کھائی گئی ہے سورہ التین میں 


والتین والزیتون الطور السنین اور قسم ہے شہر مکہ کی 


صرف دو.انبیاء ایسے ہیں جنہوں نے اپنی کھوج و جستجو سے خدا کو تلاش کیا ...جناب ابراہیم اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ...باقی سب نے من و.عن.تسلیم کیا ...... 


یہی اویسیت یعنی نطق کی حامل کی روح براہ راست رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت میں ہوتی ہے......  اس روح کو اشارات اسی دَر سے ملتے ہیں .... جنابِ اویس قرنی اس سلسلے کی کڑی ہیں جو پل پل،  دم ہما دم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار میں محو رہا کرتے تھے

قسط۲۶:فریب نظری

0 تبصرے

​Hallucination/فریب نظری 

اٹھارہویں قسط 


شاہ بابا سے تعلق جُوں جُوں استوار ہورہا تھا تُوں تُوں احساس کا طوطا یہ مینا کہانی رٹائے جارہے تھا کہ خیال خوانی سچ میں ہوتی ہے. فرہاد علی تیمور کی دیوتا کی کہانیاں میری امی خود بھی پڑھتی تھیں... اکثر گپ شپ میں خیال خوانی، علم نجوم اور یکسوئی پر گفتگو ہوا کرتی تھی.... تاہم یہ کسی کے حدِ گمان میں نَہیں تھا یہ علم موجودیت کے دھارے سے بہتا ہے ..... 


کتاب کا ذہن میں موجود ہونا، صفحات کا پلٹا جانا اور مزید ایسا کچھ کہ جیسے جیسے صفحات پلٹے جاتے ویسے ویسے ماضی کے پوشیدہ تاریک پہلو میں دیکھنے لگ جاتی. بھولی بسری معصوم یادیں .... جیسے ماضی کی فلم اسکرین پر چلنے لگ گئی ہو..... 


احساساتِ ماضی کا تازہ ہونا.،وہ وقت وہ انسان بیدار کردیتا ہے جو آدمی اس وقت ہوتا ہے. مثال کے طور پر آپ کسی کو قتل کرنا چاہتے تھے ... وہی سفاکی  وہی درندگی، وہی جہالت آپ کے اندر جاگ جائے گی .... آپ کے لیے مشکل ہو جائے گا کہ آپ ماضی میں وہ جیتی جاگتی تصویر ہیں یا حال سے پیوستہ خدائی تحریر .....میں بچپن کے قریہ قریہ گھومی،  لڑکپن کی سرحدیں اور کیفیات کا طاری ہوجانا...... آپ کا لاشعور سامنے کھڑا ہوجائے اور آپ اسکو بیتتا دیکھیں .... وہ آپ بذات خود خدا کرسکتا ہے یا خدائی نُمائندہ ......


یہ اس قدر اذیت ناک جنگ تھی جس نے مجھے ہلکا سا منتشر کیا ...میں نے سجسٹڈ کمانڈز دینا شروع کیں خود کو .... 


مجھے کچھ نَہیں سوچنا 

مجھے خالی رہنا ہے 

مجھے کوئی خیال آئے تو جھٹک دینا ہے


مجھے کچھ وژنز آنا شُروع ہوگئے مگر میں اس وقت ان خبروں کی اہمیت نَہیں سمجھتی تھی ...یہ مجھ پر ہونے والا پہلا تجربہ تھا ... مجھ پر بیت رہا تھا اگر میں کسی کو بتاتی تو کسی کو سمجھ آتی ہے .... وہ بیخودی تو.بھلا گئی کہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے ...خوف مجھ پر طاری ہونے لگ گیا کہ میں اگر ایسا ویسا.سوچوں تو سوچ ادھر چلی جائے گی ....


شاہ بابا سے میں نے کہا آپ تو میرا خیال جانتے. انہوں نے صاف انکار کردیا کہ میں کچھ نَہیں جانتا ... میں سعودی عرب میں بیٹھا،  آپ پاکستان کے اک شہر میں ... میں بھَلا آپ کو کیسے جان سکتا ہوں؟  


آپ میری سوچ پڑھتے ہیں؟  مجھے وژنز ہوتے ہیں 


بٹیا جی ! کوئی کسی کی سوچ نہیں پڑھ سکتا .... ! کسی کے پاس یہ قوت نَہیں ہے ... ماسوا اس کے اللہ چاہے ...


اگر آپ نہیں پڑھ سکتے تو میں کمانڈز کیوں دے رہی خود کو؟ 

 

آپ بُہت بھولی ہیں 

سچ میں بُہت معصوم ہیں 

کمانڈز دے کے دیکھیں ....

آپ نے Inception دیکھ رکھی ہے اور آپ حقیقت سے انجان ہیں ....

 

آپ جو کچھ کر رہے ہیں، ماضی کی یادیں مجسم.ہو رہی ہیں ...وہ سب کچھ جو میں نہیں جانتی اس حد تک اس بپتا کو بھول چکی ہوں. وہ سب آپ دیکھ رہے ہیں .... میں تو اک میڈیم ہوں .... 


 ابھی آپ شزوفرینیا کی تھرڈ اسٹیج پر پہنچ جائیں گی تب خیال مکمل مجسم حالت میں آپ سے ملاقات کریں گے 


آپ کون ہیں؟  

میں نایاب ہوں،  زمانے کو کم  دستیاب رہا 


آپ کا کہنا ہے میں نفیساتی طور پر علاج کی ضرورت ہے؟  


اس بات کی قبولیت .... عظیمت ان کی دل میں اتری وی تھی.... ان کا کہا کیسے ٹال سکتی تھی


اگر آپ کہتے ہیں تو ٹھیک ہے میں نفسیاتی ہوں 


  شزوفرینیا خیال کی وہ طاقتور اسٹیج ہے جہاں یقین خیال کو مجسم کردیتا ہے .... اسکو آپ.اسطرح سمجھیں .... انسان دو طرز میں منقسم ہے 

ابنارمل 

سپرنارمل 


*شزوفرینیا دونوں اقسام میں پایا جاتا ہے .... فریب نظری اور چیز ہے جبکہ وژنز کو حق سچ ہوتے دیکھنا سپر نارمل.ایبیلیٹی ہے ....* وہ بولے 


 انسان تسبیح وظائف کی انتہا کرتے شزوفرینیا کے مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے. انسان کا لاشعور اسکے خیالات کو مجسم کرنے لگتا ہے وہ سمجھتا ہے کوئی اس پر جادو کر.رہا ہے ... درحقیقت اس کا خیال اس کو منتشر کر رہا ہوتا ہے مگر بعض ایسے ہوتے ہیں جن کا رابطہ براہ راست تحت الشعور سے ہوتا ہے ...جن کی ذات براہ راست تحت الشعور سے منسلک ہوتی ہے ان کا خدا سے براہ راست ربط ہوتا ہے 


بٹیا جی!  جب تحت الشعور جاگ جاتا ہے انسان کو کسی کمانڈ کی ضرورت نہیں ہوتی ....  تحت الشعور خود اسکو ہدایات دیتا ہے .... تب اسکو  غارِ حرا سے نکلنا پڑتا ہے ... خدمت کرنی پڑتی ہے .... قربانی کے بعد خُدا ملتا ہے .... ہابیل و قابیل کی لڑائی میں جس کی نَذر قبول ہوئی، وہ راہِ حق میں شہید ہوا جبکہ وہ جس کی مقبول نہ ہو سکی اسکو دُنیا مل گئی ..... 


آپ مجھے تسبیحات گن گن پڑھنے سے اس لیے منع کرتے ہیں؟  

بٹیا جی .... اسکو گن کے کیوں یاد کیا جائے جو بے حساب دیتا ہے .... اسکو تو ایسے یاد رکھا جائے کہ دل یار وچ ہتھ کار اچ .... بٹیا جی!  ذکر چاہے اک لفظ کا کیوں نہ ہو ... وہ یار کو مجسم کردے ..... 


آپ کو ٹیلی پیتھی آتی ہے؟ مجھے یقین ہے .... 

مجھے سکھائیں ٹیلی پیتھی 


بٹیا جی!  میں اک سادہ سا بندہ ہوں ... مجھے ٹیلی پیتھی کا پتا نہیں....


آپ چاہیں دس بار بھی انکار کریں گے میں اپنے دل کے یقین پر چَلوں گی ... میرے دل نے کَہا آپ خیال کو جاننے کی دسترس رکھتے ....


بٹیا جی!  آگہی سے بڑا کوئی عذاب نَہیں ہے ...جب انسانی سوچ کا گٹر کھلتا ہے تب کرب و اذیت سہنا جگر کا کام ہے ... یہ خیال کا جاننا کسب سے نَہیں بلکہ عطا سے ہے .. آپ سرنڈر کردیں ...اپنی *میں* کو مٹا دے ...قربان کردیں خود کو .... ماں کو اپنی مرشد مان لیں .... وہ دن کو دن کہیں تو دن کہیں .. وہ رات کو رات کہیں ...رات کہیں ...پھر دیکھیں کیسے سب کچھ آپ پر کھلتا ہے ...آپ سب جان جائیں گی .... ..... 


آپ نے ویلے تایا جی کا ذکر سن رکھا ہے .. آگہی نے ان کی کیسے مت مار دی تھی .... وہ جو دیکھتے ...اسکو سچ ہوتا پاتے ...اس سچ نے ان کو پاگل کردیا ...ہوش سدھ بدھ کھو دی ... آگہی کو وہ سہہ پاتا ہے جس کا ربط خدا سے ہو ...

ذات کی معنویت:پچیسویں نشست

0 تبصرے

​انیسویں قسط ***** ذات کی معنویت****


بابا جی ... آپ کی کیا مصروفیات ہیں آج کل؟


کرم ہے سچی ذات پاک کا ۔ مزدور بندے کی کیا مصروفیات ۔ مزدوری ہی چلتی رہتی ہے ۔ آج کل چونکہ سپانسر شپ تبدیل کرائی ہے ۔ تو نئی جگہ نئے بندوں سے میل جول میں وقت گزر جاتا ہے۔ وقت نے کروٹ لی مجھے کفیل بدلنا بدلتے اک نئی جگہ آنا پڑا جہاں نیٹ کی پابندی نہیں ۔ اور اب آپ کے سوالوں کے جواب میں داستان لکھنے میں مصروف ہوں ۔ شاید کہ اسی طور میں بھی اس نایاب کو جان جاؤں پہچان جاؤں ۔ جس کے بارے آپ نے اس قدر سسپنس سے بھرپور باتیں لکھ ڈالیں ... آپ کا ایک سوال ...


پاکستان میں دورانِ سیاحت کن کن مقامات نے آپ کو تحیر میں لیتے یہ سبق دیا کہ زندگی تو کتنی بڑی معلم ہے؟

کسی نے کہا تھا کہ ہمیں در در نچایا اور پھرایا یار نے ۔۔۔۔۔

میرے پاس یار نہیں تھا نشہ تھا ۔ اور پاکستان کے طول وعرض میں جہاں بھی گیا ۔ بس یہی سوچ آئی کیا فرق ہے تجھ میں کسی بادشاہ میں


کل جہاں بادشاہ کروفر سے دربار لگائے ہوئے تھا تو آج وہاں بیٹھ نشہ کر رہا ہے ۔ کسی بھی مقام کی اپنی کوئی اہمیت نہیں اس کی اہمیئت ہمیشہ اس کے مقیم سے وجود میں آتی ہے ۔۔۔۔ یہ جسم خاکی جس کو بنا سنوار کر شان و فخر سے نمایاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ نمایاں ہونا لمحاتی ہے ۔ اگر اس جسم خاکی میں موجود روح کو بنا سنوار لیا جائے ۔ تو بنا نمایاں ہونے کی خواہش سے ایسے نمایاں ہو جاتا ہے انسان کہ جہاں اس کے قدم پڑیں وہ مقام بھی نمایاں ہوجاتا ہے ۔ اس سے منسوب ہو جاتا ہے ۔


میرے نزدیک تو یہ گزرتا وقت جسے زندگی کہتے ہیں ہر پل اک معلم کی صورت ہمیں اپنے اسرار و رموز سکھا رہا ہوتا ہے ۔


گھڑیال دیتا ہے ہر پل یہ منادی گردوں نے اک گھڑی اور گھٹا دی

میاں محمد بخش رح کیا خوب تنبیہ فرما گئے ہیں

لوئے لوئے بھر لے کُڑیے جے تدھ بھانڈا بھرنا

شام پئی، بن شام محمد گھر جاندی نے ڈرنا


یہ پیغام سب کے لیئے ہے ان کے لیئے بھی جو قدرت پر یقین رکھتے ہیں اور ان کے لیئے بھی جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔


آپ نے رسمی تعلیم کیوں حاصل نَہیں کی جبکہ آپ کا علم اتنا وسیع ہے کہ مجھے احساس ہوتا ہے اصل تعلیم یہی ہے ....جو کچھ آپ کے پاس ہے .... اگر آپ تعلیم حاصل کرپاتے تو کیا بنتے؟ 


کوئی بہت مشہور و معروف انجینئر کہلاتا ۔۔۔۔۔ مگر یہ میری حماقت و نادانی کہ میں نے سکول کی تعلیم کو کبھی کسی قابل نہ سمجھا ۔ اور اس کی سزا مزدور کی صورت انجیئروں کے تحت مزدوری کرتے پائی ۔

اس پر بٹیا نے سوال کر دینا ہے کہ کیا یہ اللہ کی حکمت تھی کہ سکول سے بھاگے اور سزا پائے۔۔ ؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ نے اپنی حکمت کے تحت مجھے اچھا تیز ذہن دیا جو سوچ و خیال و وجدان کے درمیان بہترین ربط قائم کرنے پر قادر رہا ۔ اور میں اس پر غرور کرتے حماقت میں مبتلا ہوگیا ۔ میں نے یقین کر لیا میں سب جانتا ہوں ۔ مجھے سکول و مدرسے کی ضرورت نہیں ۔ بلا شک میں نے زندگی کو اپنی مرضی سے بتاتے ٹھوکریں کھاتے اپنے علم میں مہارت تو حاصل کر لی مگر میرے پاس وہ کاغذ کا ٹکرا نہیں جسے سند کہتے ہیں ۔ اور دنیا کے نظام میں ان پڑھوں میں قرار پاتا ہوں ۔

بلا شک ماں سچ کہتی تھی اس حقیقت کا جب علم ہوا تو بہت دیر ہوچکی تھی وقت گزر چکا تھا ۔ ۔

چوبیسویں نشست: مرشد کون مرا

0 تبصرے

​بیسویں نشست: میرا مرشد کون ہے؟ 


مرشد سچا شکل صورت دا ہوندا 

مرشد عشقہ دی مورت جیا ہوندا 


سید نایاب حُسین نقوی جب اور جس طرح مجھے مِلے .... وہ تو ایسے ملے ....


 وہ آئے، مجھے دیکھا اور ان کی ہوگئی 


جب شاہ صاحب سے بات کی ابتدا ہوئی تو بظاہر اسکی وَجہ معلوم نَہیں تھی کیونکہ میں تو اپنی بات اللہ سے کرتی تھی.... مجھے احساس نَہیں تھا طلب کا تعین اس کے بھیجے گئے نمائندے سے ہوتا ہے کہ دعا مقبول ہوئی یا نَہیں ....مجھے ان سے شدید قسم کی کشش پیدا ہوئی..... میں نے اُن سے کہا کہ ایسی کشش تو میں نے کبھی کسی سے بات کرتے محسوس نہیں کی. آپ کے پاس کچھ ایسا ہے جو آپ مجھ سے چھپا رہے.... میں نے ان کو بتایا کہ میں نے ان کو اپنے گھر دیکھا ہے چلتے پھرتے مگر وہ مجھے ہی دکھائی دِیے .... 


میرے درون میں تعظیم کیساتھ ایک شدید قسم کا ڈر پیدا ہوگیا کہ یہ پراسرر انسان ہیں. ان سے بَچ کے رہنا چاہیے ....میں ان سے دور بھاگتی ....وہ اتنی کشش........ مجھے ان کے قریب لاتی رہی ....میں نے ان کے سامنے ماجرائے دل رکھا .... ان سے کہا کہ میرا تو رنگ کالا ہے ....آپ کا رنگ بھی کالا ہے ...مگر آپ کا سیاہ رنگ مقناطیسی ہے ...آپ کے دل کا قطب نُما مجھے کھینچ رہا ہے ..


قطب نمائی ان کی اُجاگر ہوگئی .ان کے مقناطیس یا جوہر ذات سے جُڑ گئی بِنا کسی تسبیح کے، بِنا کسی وظیفے کے،بنا طریقے کے، فاصلے درمیان .... مگر ملتان اور سعودی عرب کے بین بین ایک اور دنیا بھی ہے جَہاں عالم امر کے حجاب نَہیں ہوتے .... شعوری دنیا میں رہتے اس تحت الشعور کی دنیا میں رہنا کسی جگر سے کم نَہیں مگر یہ حوصلہ، یہ قوت، یہ طاقت مرے شاہِ من مرے دلدارِ من نے مجھے عطا کی ....


میں نے پوچھا آپ کون ہیں؟  

فرمانے لگے: میں ملامتی ہوں ... آپ اویسی ہیں 

یا تو اویسی ملامتی ہوجائے یا ملامتی اویسی ہوجائے 


میں ان کی بات سَمجھ نَہیں سکی ....میرے سَر سے گزر گئی .... اویسی تو جناب اویسی قرنی تھے مگر نہ تو وہ دور موجود ہیں نہ وہ بارگہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں رہنے والے .......جوہر ذات سے جڑ جانے کے بعد نئی دنیا کے منکشف ہونے والے اسرار کو انعامات ربی سمجھنے کے بَجائے میں ان پر گُمان کرنے لگی کہ یہ کچھ کر رہے ہیں ....


میں بولی:  یہ سب آپ کر رہے ہیں .... میں نے زندگی میں فقط دو خواب دیکھے اس کے علاوہ مجھے حسرت رہی کوئی خواب کوئی نوید ہو ....


وہ فرمانے لگے: میں جب *لا* کہتا ہوں تو *الا* میں جو ہےاسی کی پھونک سے عدم سے وجود میں آتا ہوں .... کبھی مجھے *فاعل* کیا جاتا ہے کبھی *مفعول* کیا جاتا ہے .....*فعل* کیا ہے؟ 


اتنی مشکل و پیچیدہ باتیں سمجھ میں نَہیں آتی 

آپ آسان الفاظ میں سمجھایا کریں 


بٹیا جی!  وقت کھول دیگا آپ پر سب گرہیں ...سوچ کے سب در وا ہوتے جائیں گے .....


وقت اور تبدیلی .... وقت یعنی دو اور ماہ گزرے تو انقباض کی شدید کیفیت طاری ہونے لگ گئی چونکہ شاہ صاحب نے خود کو رہنما declare نَہیں کیا تھا ... یہی فرمایا تھا 


*آپ کو استاد مِلے گا،  اس کے کہنے کے مطابق آپ کو خوراک کھانی ہوگی  ، وہ جیسا کہے اسکی سننا ہوگی * 


اس لیے میں شدید کشمکش میں آگئی ....میں ان سے کہا* آپ مرے مرشد ہیں * 


مرشد کون ہوتا اسکی الف، ب کا علم نَہیں تھا .....مگر میں اتنے شدید کیفیات کے زلزلے میں تھی کہ مجھ پر بیت کیا رہا ہے. اگر شاہ صاحب خود کو استاد اس وقت declare کر بھی دیتے تب میں نے بھاگ جانا تھا ... کیونکہ میرا ارادہ کسی ایسی راہ پر.چلنے کا نَہیں تھا ..... میرا ارادہ تو تھا خدا مری گھتیاں سلجھانے والا بھیج دے کوئی ... خدا نے two in one تحفہ بھیج دیا ...جس کی قدر خدا خود کروائی  .....


میں نے ایک سوال اس انقباضی کیفیت میں سامنے رکھدیا ....


بہت دنوں سے ایک سوال نے پریشان کر رکھا ہے ، اس سوال نے دل میں عجیب سی تڑپ پیدا کردی کہ اب کسی جواب سے سوال کی تشفی نہیں ہورہی کہ ایسا ہے کہ لگتا ہے دل پگھل کر باہر نکل آئے گا۔۔۔یوں محسوس ہوتا ہے روح بدن کے پیرائے سے نکلنا چاہتی ہے اور نکل نہیں پاتی ۔۔ اس جستجو میں میری روح مجھے بڑا پریشان کرتی ہے ۔۔۔ میں یہ لکھ بھی تڑپ میں رہی ہوں کہ مجھے پرواہ نہیں آپ کیا کہتے اور کیا جواب دیتے ....... ، بس دل میں ایک آگ ہے ، میں چاہتی ہوں وہ آگ اتنی بڑھ جائے اور مجھے جلا دے اور کچھ نہیں رہے مجھ میں ۔۔  میرا مطمع نظر کیا ہے وہ میں جانتی ہوں اور مجھے منزل سے دوری محسوس ہوتی ہے۔۔رہنما کون ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔؟ یوں لگتا ہے میں منزل جس کا سوچتی ہوں مجھے مل جائے گی اور کبھی اتنی مایوسی ہوتی ہے کہ نہیں ملے گی ۔۔جب مایوس ہوتی ہیں دل بہت تڑپتا ہے ۔۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا جب سے میں نے لکھنا شروع کیا۔۔۔یہ حالت ہوگئی ۔۔ اس پر تحقیق کی میں نے ایسا  کیوں ہے ۔۔۔ جواب جو پایا کہ لکھنے سے انسان لاشعور کے قریب ہوجاتا اور اس کے بعد تحت الشعور تک رسائی ہوتی۔۔۔۔۔کیا اسکی دوسری صورت یہی ہے کہ میں *معمول* معمول رہی  کیونکہ لاشعور عمر کا وہ حصہ یاد دلاتا ہے جب آپ بالغ ہو رہے ہوں یا اس سے بھی چھوٹے  اور تحت الشعور پیدائش کے بعد کے حالات سے اور پیدائش کے بھی ۔۔۔۔


میری منزل کیا ہوگی ؟

میں جو حاصل کرنا چاہتی مجھے ملے گا؟

یقین کی حالت ڈگمگاتی کیوں ہے ؟

میں اتنی بے چین کیوں ؟


دکھ کی تشریح تو میں نے کردی مگر تعبیر کون دے گا اور یہ تعبیر کتنی درست ہوسکتی اور میں یقین کی منزل کیسے  طے کر سکتی ہوں ایک لمحے کو دل میں معصم ارادہ اور یقین کامل اور دوسرے پل یا اگلے دن کیفیت برعکس ۔۔۔ پھر اس سے اگلے دن کامل یقین۔۔۔ یہ تو وہ بات ہوئی ایک مسلمان کے دل میں دو قلب سما نہیں سکتے ۔۔یا تو یقین ہو یا بے یقینی ۔۔یہ یقینی اور بے یقینی کے بین بین کی کیفیت کیوں ؟ اس کو ختم کرکے آگے کیسے جاؤں ۔۔


اور اگر جھوٹ ہے کیفیت  تو میرے اندر کا سچ کیا ہے ؟


میری محترم بٹیا

یہ جو سوالوں کے جھنجھٹ نے آپ کو گھیر لیا ہے ۔ اور آپ پریشان ہو چکی ہیں ۔

ان سوالات کے جواب پانے کی جستجو میں آپ تنہا نہیں ہیں ۔ اک زمانہ ازل سے ان سوالات کا اسیر ہے ۔

ہر روشن روح جو اس کائنات کے بارے غورفکر کرتی ہے ۔

خالق کے منتخب کردہ بندوں کے ذریعے ابن آدم تک پہنچنے والے خالق کے پیغامات

" جسم خاکی " میں مقید " کثافت و تاریکی " کی اسیر اس روح روشن کے لیئے

اپنی اور کائنات کی حقیقت سمجھنے اور جاننے کے لیئے مفید و معاون ہوتے ہیں ۔

حقیقت تک پہنچنے کے اس عمل میں اک " عنصر " بہت اہمیت رکھتا ہے ۔

جسے " یقین کامل " کہا جاتا ہے ۔

یہ یقین کامل اپنے ہاتھ سے بنائے گئے بتوں سے مراد پا لیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قران پاک جو کہ خلاق العظیم کی جانب سے اپنے بندوں تک بھیجے جانے والے تمام پیغامات کا مجموعہ عظیم ہے ۔

اس میں دانائی کی حامل روحوں کی علامت " غوروفکر " میں مصروف بتائی گئی ہے ۔

غور و فکر صرف سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لیئے ہی کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


رہنما کون ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔؟


یہ آپکا سوال ہے.....


آپ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دونوں جہانوں کے لیئے رحمت بنا بھیجا گیا ہے ۔

آپ جناب علیہ السلام ہر اک کے رہنما ہیں جو بھی ان کی ذات پاک پر درود بھیجے

اور ان کے بارے قران پاک میں بیان کردہ اسوہ حسنہ کو اپنا عمل بنا لے ۔ وہ آپ کی رہنمائی میں ہے ۔

ان شاء اللہ


آپ کا سوال: میری منزل کیا ہوگی ؟

میں جو حاصل کرنا چاہتی مجھے ملے گا؟


سچے علیم الحکیم کا یہ فرمان مبارک ہے کہ

انسان کے لیئے وہی کچھ ہے جس کے لیئے اس نے کوشش کی

اور وہ اپنی حکمت سے خوب باخبر ہے


یقین کی حالت ڈگمگاتی کیوں ہے ؟

میں اتنی بے چین کیوں ؟


اس سے کسی بھی حساس روح کا مفر پانا ناممکن امر ہے ۔

یہ ہر حساس روح میں پایا جانے والا احساس ہے ۔

جو اسے تلاش حق میں مصروف رکھتا ہے ۔۔۔


یوں لگتا ہے میں منزل جس کا سوچتی ہوں مجھے مل جائے گی اور کبھی اتنی مایوسی ہوتی ہے کہ نہیں ملے گی ۔۔


جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

نیت خالص کوشش پیہم اور اللہ کی حکمت پر راضی رہنا ۔۔۔۔۔۔۔۔

مایوسی کو پاس نہیں آنے دیتا ۔

امید زندگی اور مایوسی کفر ہے ۔۔۔۔۔۔

اللہ سوہنا آپ پر رحم و کرم فرمائے آپ کو نیت کی سچی مراد سے نوازے آمین ۔

بہت دعائیں

تئسویں نشست: دعا کیا ہے

0 تبصرے

​بائیسویں نشست: دعا کیا ہے؟ 


بابا جان جب ہمارا دِل کسی سے دُکھی ہوجاتا ہے تو بددعا دل سے نکل جاتی ہے. آپ کہتے ہیں دُعا دیا کرو .. دعا تو دل سے نکلتی جب کہ میں دل سے نفرت کو کیسے اتار پھینکوں 


بٹیا جی : وہ کہتے ہیں نا.......

رنگ لاتی ہے حِنا، پتھر پر پِس جانے کے بعد 

اک آپ ہی پِس کر باقی سب کے لیے باقی سب کے لیے آسانیاں پیدا کر جائیں تو............ 

بلاشک آپ کا نام بھی زندو شُمار کِیا جائے گا ...

یہ جو ہمارے اپنے ہوتے  ...  

ان کی زبانیں،  ان کے رویے ہماری روح تک میں چھید کرجاتے ہیں .......

یہی وقت ہوتا ہے

جب ہمیں اپنے رب کی حکمت کو تسلیم کرنا ہوتا ہے ......

کہ اے مرے رب مری روح تری امانت ہے...

نفرت / محبت کی ضد ہے ...  

جب کبھی کسی سے شکوہ و شکایت محسوس ہو .... 

آپ دِل میں اسکی وہ خوبیاں لایا کریں جس جس خوبی نے آپ کو نفع دِیا 

شُکر ادا کیا کریں اس سچے رب کا کہ اس نے کسی کو آپ کے لیے خیر کا سبب بَنایا 

شُکر اس بات پر کیا کریں آپ کو اس نے کسی کی خامی یاد دلاتے اسکی خوبی کی معرفت بخش دی.

آپ کی نفرت زائل ہوجائے گی


قرآن پاک اٹھا کے تدبرو فکر کریں کہ پیامبران خُدا نے دُعا ہی کی کبھی قوم کے لیے تو کبھی اپنے نفس کے لیے .... کہیں خدا نے خود کسی کو لعین قرار دِیا  اس کا نام دے کر لعنت بھیجی ہے .... ہمیں کوشش کرنی چاہیے پیامبران خُدا کی دعا کی سنت کو اپنائیں  ... دعا و فکر کو ہتھیار بَنالیں .... 


بابا: آپ نے کبھی بددعا نَہیں دی 

بٹیا جی:  اپنی تو بددعا یہی ہے جا ترا بیڑا ترے 


لڑکپن میں کسی نے جائیداد کی غرض سے مجھ پر ناحق الزام لگایا. سر بازار مرا گریبان پکڑ کے مجھ سے بدکلامی کی ... مرے دل میں دکھ کا شدید احساس جاگزیں ہوا ... اس شخص کو اَجل نے وَہیں آ تھاما  .... وہ دِن اور آج کا دِن خود سے شرمندہ رہتا ہوں اور دعائیں دیتا رہتا ہوں

بائسویں نشست :مجذوبیت

0 تبصرے

​نشست ۳: مجذوبیت 


تلاش اور کھوج کی سوئی مَقامِ دل کے گھڑیال پر منادی دے رَہی تھی، تو جِس کی تَلاش میں کھوئی کھوئی رَہی، جس کو پانے کی خاطر، جس کی دید کی لَگن مانند آتش رواں تن من کو جَلا رَہی تھی ... وِجدان کی ترتیب نئی فریکوئنسی پر مرتب ہورَہی تھی وہ ارتعاش مانندِ  دُھواں دُھواں وجود میں اک الوہی تار جَگا رَہی تھی. وہ اَلوہی تار تھا کہ میں کون ہوں؟  میرا شُمار کیا اسفل سافلین میں ہے یا اس سے بھی نچلے درجے میں.... جس کو میں پاتال کی گہرائی سے معتبر کرتی ہوں ..یہ سَفر تو شُروع روز اول سے ہوتا ہے جب آپ پیدا ہوتے ہیں ...گاہے گاہے آپ کو خبر مل جاتی ہے کہ آپ کیساتھ اللہ ہے مگر اللہ کو دیکھنے کی لگن نے اس کے خلاف جنگ شُروع کردی بالکل ایسے نمردو نے تیر فلک پر پھیکنے کہ خدا پر حملہ کرے ...  میں نے بھی گستاخانہ کلمے ادا کیے ....نماز میں اللہ نَہیں ملتا تھا..... مجھے نماز کی تلقین کی جاتی تو میں کہا کرتی 

*کہاں ہے اللہ؟  لاؤ اللہ کو دکھاؤ *.

پہلے میں اللہ کو دیکھوں گی..... 

پھر نَماز پڑھوں گی....


میری ساری زندگی گناہوں میں لتھڑی گزری ہے. اس لیے اس گنہگار کو رب بُہت پیار کرتا جو بڑے پیار سے مان سے اسکی جانب قدم رکھتا .... میں نے شاہ بابا کو بَتایا 


*میں نے جب اللہ کے وجود سے انکار کیا تھا، میں نماز نَہیں پڑھ سکتی تھی مگر تب تب جب ماہِ رمضان ہوتا .... میں خشوع و خضوع سے نَماز ادا کیا کرتی .... میں نے شہر ملتان میں کسی سید سے پوچھا کہ اسکی وجہ کیا ہے؟ 


وہ کہنے لگے: آپ کا معاملہ اور ہے .... خُدا آپ پر آپ کی گرہیں جلد کھول دیگا * 


شاہ بابا:  نور بابا سے اتنا نَہ ہوسکا کہ آپ کو آپ کے بارے میں آگاہ کرتے. یہ اللہ بنے بیٹھے ہیں. مخلوق کی راہ کھوٹی کرتے ہیں اللہ کی ضد سے لَگا کے ان کو دنیا تھما کے ..... یہ صریحا شرک ہے ... ایک کی خواہش کئی لوگوں کے معصوم خواہشوں کا گلا گھونٹ دیتی ہیں، کئی گھر اجاڑ دیتی ہیں ...بلاشک یہ گھاٹے کا سودا کر رہے ہیں ......


میں اس تَمام میں دم بَخود تھی کہ ان کو کیسے علم ہُوا کہ ان کا نام نور بابا ہے ..... میں نے اپنی chat ساری ٹٹولی کہ دیکھوں کہ کہیں میں نے تو نام نَہیں لکھ دِیا مگر میں نے ایسا نام نَہیں لکھا تھا .....


ان سید بابا جن کو لوگ نور بابا بھی کَہا کرتے میری حالت ٹھیک ہوئی مگر انہوں نے نذرانے کا نام پر ہزاروں روپے ادا مانگے. میرے لیے ممکن نَہ تھا ان کو دینا مگر مجھے ان سے بات کرکے بہت سَکون ملا تھا   ..... ہر ہفتے ہزاروں روپے سکون کی خاطر نہیں دے سکتی تھی اس لیے تعلق قائم نَہ ہوسکا .... 


مجھے تو خود علم نَہیں تھا مری روح کا سوال کیا ... میں نے الٹی سیدھی حرکات شروع کردیں ...کچھ ناولز کے کردار کا تاثر تھا کچھ اندر درد کی شدید لہریں پیدا ہوتا جن کو برداشت کرنا ناقابل فہم ہوتا گیا. اس درد کی لہر کو دبانے کے لیے اللہ سے لو لگائی .... درد کی سانجھ ایسی تھی کہ چوٹ کسی کو لگتی، تکلیف مجھے ہوتی تھی... درد کی دَوا کرنی نَہیں آتی تھی تو ایک کونے میں بیٹھ کے خدا سے گیان کیا کرتی تھی ....  مجھے جو شدت سے درد کی چوٹ پہنچتی ہے ویسی چوٹ میرے بہن بھائی بھی محسوس کرتے ہیں؟  وہ تو ہنستے کھیلتے ... جبکہ میں معاشرے سے کٹ کے اپنی تخلیق شُدہ میں گم .... 


شاہ بابا بولے!  بٹیا جی .... انسان کی اپنی تخلیق کیساتھ موکلات و فرشتے جنم لیتے ہیں .. یہی صدقہِ ناریہ و صدقہِ جاریہ بنتے ہیں ....  جس بات کو آپ شکوہ و گستاخی کہہ رہی ہیں    وہ آپکا کفر نَہیں تھا   ... وہ کچھ اور بات تھی ..   وقت گرہ کھول دیگا .... آپ مجذوبیت کی جانب جارہی ہیں    نور بابا آپ کو یہ خبر نہ دے سکے ... نَماز پڑھواتا اللہ ہے .. جو اللہ رمضان المبارک میں پڑھواتا ہے وہ اتنا نامہربان ہے آپ کو باقی ایام میں روکے گا ..  بٹیا جی!  خود سے نکلیں ..  درد سے نکلیں ..   جہان سارا درد سے پُر ہے ..  جذب میں رہنے کے بجائے خود کو بھی سَہارا دیں، زمانے کو بھی سَہارا دیں ....  آپ کیا سَمجھتی ہیں یہ جو بَڑے بَڑے بزرگ گزرے ہیں، ان کو تکلیف نَہیں پُہنچی کیا کبھی؟  انہی کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچی ہے اور انہوں نے اس تکلیف پر سرخم کیا ہے ...شکر ادا کیا ہے کہ مالک جس حال میں رہے، مالک کا بندہ اس سے راضی ہے .....

اکیسویں نشست :عشق کا کوئی امام نہیں ہوتا

0 تبصرے

​نشست: اکیسویں 

            عشق کا کوئی اِمام نَہیں ہوتا


لکھنے کا سَفر بڑا کٹھن ہوتا ہے . وہ سَفر جو سچ سے شُروع ہو اس میں ملامت سَفرِ زندگی میں ہاتھ آتی ہے ... میں عشق سے نَڈھال تھی کہ عشق نے مقدر میں وصلت کے بَجائے ہجرت کا طوق گلے میں ڈال دیا. میں نے جس آگ کو عشق کا نام دِیا تھا. وہ نرگیسیت اور ناہلزم nihilism تھی ... مجھے اَنا سے آگے کوئی عزیز نَہ تھا  چونکہ مجھ سا باغی و دکھی اس خدا کی سلطنت میں کوئی نَہ تھا. اس لیے لکھنے کی ٹھانی ... لکھنا تن بیتی تھا  . جس پر تنقید گنوارا نہ ہوتی کیونکہ کسی افسانے کی صورت میں نے خون جگر ڈالا ہوتا تھا .. غزل میں ہنجو پروئے ہوتے تھے. اردو زبان سے مکمل نابلد ... انگریزی میں لکھنا شُروع کیا تھا مگر ساتھی دوست نے کہا اگر معنویت و شہرت چاہیے تو اپنی زُبان اپناؤ.... میں نے اس تئیں افسانہ فورمز جوائن کیے اور شاعری سیکھنے کے لیے اردو محفل فورم .....


 خانقاہی نظام اب بَدل چُکا ہے. اب رابطے کی سائیٹ پر خانقاہی نظام مرتب ہوتا ہے ...کون کس روپ میں چھپا ہے ...کس نے بہروپ بھرا ہوا ہے .... وہ بھی نَہیں ظاہر ہونے نَہیں دیتا جبکہ خدا بھی ظاہر ہونے نہیں دیتا.... میں نے افسانے لکھنا شروع کیے اور فورمز پر پیش کیے. ان پر ہونے والی تنقید سے زیادہ وہاں پر جاری سیاست نے شدید متاثر کیا ....یہی افسانہ فورم جہاں پر میرے دلائل سے اور انداز گفتگو سے مجھے اک مرد کے طور پر پروموٹ کیا جا رہا تھا .... مجھ سے ویڈیو کالز کی شرائط رکھی گئیں ...تصاویر مانگی گئیں ... یہ ہوا کس کی اڑائی گئی تھی مگر میں نے ان شرائط کو پورا نَہیں کیا .... مشاعروں و ادبی نشستوں کے پروگرامز مرتب کرنیوالے نے مجھے مدعو کیا تھا ... مگر اس شناخت کے مسئلے نے لکھنے میں اور ادباء کے لیے دل میں رنجش پیدا کردی .... اسی جگہ شاہ صاحب بھی موجود اکثر تبصرے کیا کرتے تھے ....  ان کا انباکس میں مجھے میسج آیا ...


بٹیا جی!  زندگی کی جنگ لڑتے لڑتے ان کو مردانہ وار لڑتے آپ کا انداز گفتگو بھی ایسا ہوگیا ...جیسا کہ آپ نے لکھنا ہوتا ہے *میں گئی تھی* آپ نے لکھا *میں گیا تھا* پڑھنے والے قارئین اس صیغے کے فرق  سے آپ کو ایسے لیبل کررہے ہیں ... آپ مایوس نہ ہو.....


بابا جی:  میں اتنی بکھر کیوں گئی ہوں؟  

.بٹیا جی، کائنات کو دیکھیں کہ کیسا مالک نے اسکا پھیلاؤ کیا ہے. یہ کتنے ٹکروں میں بنٹی ہوئی ہے


             میں اب افسانے نَہیں لکھوں گی ....

             میں سچ نَہیں لکھوں گی .... 


بٹیا جی!  آپ اگر اسلیے لکھ رہی ہیں کہ آپ کی واہ واہ ہو تو بلاشبہ آپ کو لکھنا چھوڑ دینا چاہیے. اگر آپ اپنی ذات کے اظہار کے لیے لکھ رہی ہیں تو پھر تنقید و ستائش سے بے نیاز ہوجائیں................  سچا سمیع العلیم قلم کو جیسے چاہے حرکت دے ......


میں نے تاہم لکھنا وقتی طور پر بند کردیا تھا .... شاید وقت کا تقاضہ بھی یہی تھا سوچ کے پرندوں کو آزاد نَہ ہونے دو .... سوچ کے پرندے جو آزاد ہوئے تو نفس نے روح کیساتھ انا کی تلوار سنبھال کے سب کچھ زخمی زخمی کردیا ....  


 شاہ صاحب نے کَہا : آپ لکھیں ... آپ کے قلم میں بزرگی ہے ...  قلم آپ کو ننھیال سے عطا کردہ ہے .. آپ کے نانا جان لکھا کرتے تھے یا ان کے والد .............  آپ کا ننھیال خواجہ معین الدین چشتی رح سے فیض یافتہ ہے ........    آپ کے ننھیال کے ددھیال میں سادات سے رشتہِ زوجیت میں کسی کا انسلاک ہے .... .... ............... وہ بُہت کچھ بتاتے رہے ....  جس کو سُن کے یک ٹک سو اور دھڑکنیں. بے ترتیب........... ...انکشافات نے ششدر کردیا ...  سب وہ جو بتاتے رہے وہ میں گھر سے تصدیق کراتی رہی .... ان کی کَہی باتیں سچ تھیں   ....ان کی عظمت کی گواہی دل میں مزید معتبر ہوگئی ......... آپ لکھیں .......


           میں نے کَہا:  میں نَہیں لکھوں گی 

                  میں آپ کی بات کیوں مانوں؟ 

                   میرا دل کہے گا تو لکھوں گی .......    

                 آپ مجھ سے نَہیں لکھوا سکتے ......


میں نے دو تین مرتبہ کے اصرار کے بعد انکار کردیا .. ... میری عادت تھی نعت لگا کے سوجایا کرتی تھی .... اللہ جانے کیا ہونے لگا ....مدہوشی چھانے لگی اور قلم کیا لکھتا؟ کیسے لکھتا؟  میں صبح اٹھا کرتی تھی تو دیکھتی کہ میں نے کوئی تحریر لکھ رکھی ہے جو میں نے لکھی بھی ہے کہ نَہیں ... میں نے ان کو کہا ..


آپ کے پاس موکلات ہیں ... آپ کے پاس شکتیاں ہیں ..آپ خود چل کے آتے ہیں ...مجھے لکھوا دیتے ہیں...مجھے تو اردو آتی ہی نَہیں ... اگر یہ سب میں نے لکھا ہوتا تو میں اپنے لکھے الفاظ کی لغت کیوں تلاش کرتی؟ مجھے اپنے لکھے لفظ  لگ رہے ہیں .... یہ آپ کا لکھا ہے ....آپ کا ہے ...جو چیز آپ کی ہے وہ میری کیسے ہوسکتی ہے ... آپ کا کمایا میرا نَہیں ... آپ اپنا علم اپنے پاس رکھیں ...میں تب لکھوں گی جب خدا مجھ سے لکھوائے گا .....


میں نے چند الفاظ ایسے لکھے ..

                 درد کے میں سوت کاٹوں!

                 یا غم  کی رات کاٹوں!

                   خون بہتا کیسے دیکھوں؟ 

                  پےسہوں مخمور ہو کے ؟

                  رقص بسمل کا کرنے لگی 

                   مور کی مانند ناچنے لگی 

                     ''تم'' سنو فریاد میری!

                    نالہ غم کس سے کہوں؟

                   ''تجھ'' بنا کیسے رہوں میں ؟

                    لوگ قصہ عام کرنا چاہتے ہیں!

                     اور مجھے بدنام کرنا چاہتے ہیں!

                    خود تو محوِ عشق ہیں ''وہ'' !


میں چونکہ وارداتِ قلبی کسی کو بَتا نَہیں سکتی تھی. میں نے گرچہ بتانے کی کوشش کی تھی ...میں نے اپنے دو تین احباب کو بَتایا کہ یہ ایسے شخص ہیں جو بُہت پراسرار ہیں. یہ میرے گھر میں بھی آجاتے ہیں ...یہ مجھے لکھوا جاتے ہیں ...مجھے سب احباب نے کَہا کہ وہم ہے سر پر سوار کرلیا ہے. تمھارا ماضی تمھیں تنگ کر رہا ہے. کسی دکھ کا تم پر اثر ہوگیا ہے ... مجھے جب مایوسی ہوئی تب میں نے ایک نیٹ ورک کے روحانی بابا سے پوچھا کہ بتائیں یہ سب کیا ہے .... 


         روحانی بابا بولے اسکائپ پر آؤ .......

           میں نے کہا میں نہیں آسکتی.......

         کہنے لگے:  یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نَہیں جاتا 

    میں نے کہا:  شاہ صاحب بھی یہی کہتے 

        محبت کے لیے کچھ خاص دِل مخصوص ہوتے ہیں 

           یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاتا 

            کیا آپ شاہ صاحب کو جانتے ہیں؟ 

           کیا انہوں نے میرے بارے میں آپ کو بتایا ہے اس لیے آپ ایسے لفظ دہرا رہے ؟ 

     جس کے آگے وہ اپنے جلال میں آگئے اور میں وہاں سے بھاگ لی 


میں نے لکھا تو مجھے سے بیشتر لوگ پُوچھا کرتے آپکا اِمام کون ہے؟ مجھے تصوف کی الف، ب کا علم نَہیں تھا ...  لوگ پوچھتے آپ کس سلسلے سے؟  وہ پوچھتے کس کی اِجازت سے لکھ رہی ہیں؟  


بٹیا جی:  آپ کی نسبتِ اویسی ہے ... نسبتِ اویسی کیا ہے؟ آپ جانتی تو ہیں ...جنابِ اویسِ قَرنی کو .... فاصلوں پر رہتے کیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف رہے. آپ کی روح براہ راست جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت میں ہے ... آپ سے جو پوچھے ...آپ اسکو بَتا دیا کریں .... میرے مرشد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ........

 

مجھ سے بیشتر لوگ سوال کرتے تو میں جوابا یہی جواب رٹا رٹایا دے دیا کرتی. جس پر انگلی اٹھا دی جاتی کہ یہ نری گمراہی ہے. بِنا سلسلے کے، بنا تسبیح کے، بنا ذکر کے، بنا پیر کے ان کی بات کرنا ....


             میں نے یہی سوال کیا

   بابا جان:  لوگ مجھے گمراہ کہتے ہیں، کیا میں گُمراہ ہوں؟ 


بابا جان بولے: بٹیا جی!  اویسیت کیا ہے؟ اویسیت نام ہے کھوج و جستجو کا. وہ کھوج و جستجو جس کو بنیاد بَنا کے جناب ابراہیم علیہ سَلام نے خُدا کی تَلاش کی ....  وہ کھوج و جستجو جس کی نسبت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غار حرا میں تفکر و گیان میں رہے. اویسیت نام ہے کھوج و جستجو کا .....  

یہ جو قلم سے لفظ بکھرتے ہیں آپ کے....... یہ ایسے نَہیں بکھرتے ..... کوئی غالب تو کوئی اقبال ہوا .... کسی کو روم میں شمس مِلا ... کوئی رانجھا ہیر کے لیے دلگیر ہوا ...... یہ آپ کا بَراہ راست انسلاک ہے ..... جو بیعت کا پوچھے ان سے کہیے 


            عشق کا کوئی امام نہیں ہوتا 

               عشق کا کوئی سلسلہ نہیں ہوتا  

                عشق  کا رہبر خدا خود ہوتا ہے


ان سے پوچھیں: جناب مریم علیہ سَلام کا تعلق براہ راست اللہ سے تھا جبکہ جناب زکریا علیہ سَلام وقت کے نبی ان کے ساتھ تھے ... ان کو خدا نے وَحی کی .... جناب ابو بکر صدیق کو اس وقت رہبر کون تھا جس وقت معراج کی تصدیق آپ نے کی ...  جناب رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے مربی جناب بو طالب تھے مگر وہ یقین کہاں سے آیا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر ان کے ہاتھ پر سورج دوسرے پر چاند رکھدیا جائے تو تبلیغ نہ چھوڑیں گے .... یہ جو ذکر و اذکار یا سلاسل ہیں ...یہ سب ایک ہی بات کرتے ہیں ...

                      اپنی چھوڑ دو....

                ایک کے ہو جاؤ .....

            اس کے لیے اسوہِ حسنہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرنا ہر طریقہ سکھاتا ہے ......   

                  یہ ذکر و اشغالات .....

            میں تو ان کے حق میں ہی نَہیں 

           نکل کر خانقاہ سے ادا کر رسمِ شبیری ...........

         عمل سے غافل ہوا اور کیا تسبیح کا بَہانہ.........

جمعرات، 16 مارچ، 2023

سید نایاب حسین نقوی عرف شاہ بابا رحمتُ اللہ

0 تبصرے

​شاہ بابا:  سید نایاب حسین نقوی کی باتیں


https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2792728511055031&id=100009537288172


https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2791278851199997&id=100009537288172


https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2791151151212767&id=100009537288172


https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2791067217887827&id=100009537288172


https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2804332499894632&id=100009537288172


https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2804669376527611&id=100009537288172


https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2803382186656330&id=100009537288172


سید نایاب حسین شاہ نقوی سیالکوٹ کے اک گاؤں آلو مہار کے رہنے والے تھے.سادات حسنی حسینی ہونے کے ناطے ان کے والد بذات خود نیک سیرت،  چشم سیرت انسان تھے. حسنین کریمین رضی تعالی عنہ کی رسم و رواج نبھاتے وہ بذات خود   "سبطِ حسن " کے نام سے جانے جاتے تھے.  والد کی تربیت و مزاج نے ان کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کیا مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنی کھوج پر روانہ ہوئے،  اپنی ذات کی تسخیر کا سفر اپنے یقین و جسجو کے بل پر کیا.  سادات امروہوی کے جد امجد سید جلال سرخ پوش بخاری ہیں مگر امروہوی سادات کرام کی سب سے نمایاں شخصیت سید شرف الدین عرف شاہ ولایت ہیں. شاہ ولایت ان کا لقب ہے اور ان کا مزار ہندوستان میں ہے. اس کے علاوہ رئیس امروہوی،  نامور خطاط صادقین، شاعر جون ایلیا ان کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں. 


جب سن دس میں داخل ہوئے توعجیب و غریب تجربات سے دوچار ہوتے خدا کے بہت قریب ہوگئے یہاں تک کہ حیات کے مقصد سے آشنا ہوگئے. دکھی انسانیت کی خدمت.  حساسیت بدرجہ اتم موجود ہوتے ہوئے بھی بجائے کہ حساسیت کے اسیر ہوتے، اپنی حساس طبع سے اسیر کرلیا.  محبت بانٹنا شروع کردی. شریعت و طریقت کا سفر آغازِ حیات سے شروع ہوا،  نوجوانی میں معرفت حقیقت کی تلاش میں سرگرداں رہے، جگہ جگہ پھرتے رہے مگر حقیقت و معرفت سے سرفراز تب کیے گئے جب انہوں نے اپنے والد کو سچا مرشد تسلیم کرتے ان کی خدمت کو اہم جانا. 


معاشرے میں پدرسری نظام کے خلاف خاموش آواز اٹھائی.  بہت سی خواتین جن کو ان کے اپنے جبری استحصال کے بعد اپنانے سے انکار کردیتے تھے ان سے ربط رکھتے ان کی شادیاں کراتے رہے اور تو کہیں معاشرتی،  معاشی نظام یا ذات پات کے مسائل کی وجہ سے جن خواتین کو معاشرے کا ناسور تصور کرلیا جاتا، سید صاحب ان کو تحریک دیتے رہے کہ وہ خود اپنے حق کے لیے مضبوط ہوکے کھڑی ہوجائیں.  


ذات کے مست فقیر،  قطبی ستارے کی طرح راہ دکھاتے رہے. اللہ سے براہ راست ربط تو ان کا تھا ہی مگر ان کے صاحب دعا ہونے کا ماجرا ان کی اپنی بیان کردہ روایت سے جڑا ہے. کسی جھگڑے کے دوران ان کے منہ سے اچانک کسی شخص کے لیے بددعا نکل گئی. الفاظ جیسے ہی منہ سے نکلے وہ شخص وہیں کھڑے کھڑے مرگیا. اس کے بعد دعائیہ کلمات ان کی زبان سے سدا جاری رہے. جو بات منہ سے نکال دیا کرتے وہ پوری ہوجاتی. جس کو دعا دیا کرتے اس کو من کی مراد مل جایا کرتی. 


بابا بلھے شاہ اور شاہ منصور سے متاثر تھے.  اکثر بلھے شاہ کا کلام ان کی زبان پر رہا کرتا. کوئ بات سمجھانی ہوتی تو ان کے کلام کے ضرب المثل جملوں سے سمجھایا کرتے تھے. رسمی تعلیم حاصل نہیں کی تھی مگر باوجود اس کے ظاہری و باطنی علوم کا خزانہ پاس تھا. اردو، عربی زبان.پر.دسترس تھی اور انگلش زبان سمجھ لیا کرتے تھے. 


ان کی ساری زندگی اس بات کی ترجمان ہے کہ ہر بات خدا کی اور ہر یاد رہے خدا کی.  اپنے ذکر وفکر میں مشغول رہنے کے باوجود دنیا داری و فرائض منصبی بطریق احسن سر انجام دیے کہیں کوتاہی نہیں کی.  دینے والے نے اس شان سے دِیا کہ اس کی شان سلامت!


https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2803382186656330&id=100009537288172

منگل، 14 مارچ، 2023

نشست ۱۵ : اپنی ذات سے عشق سچا باقی سب افسانے

0 تبصرے

​نشست نمبر ۱۵ 

اپنی ذات سے عشق سچا ،باقی سب افسانے 


میں نے بابا سے کَہا کہ مجھے آپ کی بیٹی والی رمز سَمجھ نَہیں آتی ہے .... مجھے اتنا پَتا کہ محبت پیاس کی مانند ہے. اگر آپ کو آپکی گوہر مراد نَہ ملے تو آپ کے پاس مرنے کے علاوہ کوئی چارہ نَہیں رہ جاتا ہے...........


پیاس کے لیے کیا دَر دَر مارے پھرنا .... 

ایک در کے ہوجاؤ.... 

وہیں در پہ بیٹھ جاؤ کہ مالک دروازہ کھولے ... 

پیاس و تشنگی سب کی سب اندر سے بجھتی ہے 

بٹیا جی!  کچھ نَہیں ہے

سب کچھ اندر ہے ....

اندر والا جب کنڈا کھولتا ہے تو ساری باہر والی محبتیاں پھُل جاندیاں نیں ... .


میں نے جواب دیا.... بات ایک محبت کی نَہیں ... جب انسان کو بار بار ریجیکشن کا سامنا کرنا پڑے، تب احساسِ ذلت نفس پر کوڑے کی طرح بَرستا رہتا ہے.... مجھ سے پہلی نظر کی محبت کی کوتاہی ہوئی سو ہوئی  ، کوئی آپ کے پاس آکے محبت کا دعوی کرے..... میرے ساتھ بھی ایسا ہوا...


دوسری بار... .


لوگ کہتے ہیں کہ اگر محبت نَہ ملے تو اسُکے ہوجاؤ جس نے آپ کے چرن چھوئے ہوں ... میرے چَرن چھونے والا مجھے دیوی بَنانے آیا.... جب اس نے دیکھا میں دیوی بَن گئی ہُوں تب مرے دیوی بننے کے پرمان کو بنا کسی دوش کے پاش پاش کردیا.... میری اَنا پر ایسی کاری وار لگی کہ اپنے ہونے کا احساس بھول گیا سید .. ...زندگی میں بے معنویت نے رَس تو بری طریق سے گھول دِیے تھے ....اس پر تنہائی کی مار نے قریب المرگ کردِیا.... خدا کا مہربان تصور چھن گیا ... غضب ناک دیوتا بَن گیا .... سَماج کا رویہ مرے خدا کو جنم دے گیا .... سَماج کے آئنے سے خدا کبھی تخلیق ہوا ہے کبھی؟


پھر سّید جی کیا ہوا....


ایک اور شخص آن وارد ہوا... پہلے کیطرح محبت کا دعویدار.... بچپن سے تو محبت کے دعویدار ایسے دیوار سے نکل آئے جیسا کہ چوہے بِل سے نکل آتے ہوں..... دعوی بھی کرکے بھاگ گئے.... 


بولا: بھاگوان ہے تو...

عمرہ کرنے کے دوران خانہِ کعبہ میں بیٹھ کے رب سے کَہا:  تحفہ عنایت کردو...

سید جی: وہ کہتا تھا کہ خانہ کعبہ کے مَکین نے ترا خیال جھٹک سے دِل میں ڈال دِیا.... پھر اس نے بُہت چاؤ مان سے خود سے منسوب کیا.... شادی کے قریب قریب دھتکار کے چَل بَسا.... مجھے توڑ کے،

بابا جی .... 

جیسا کسی کھلونے کو توڑتے 

میری نفسیات کے دھاگے خلط ملط کردیے

اس نے اتنی تحقیر کی 

میں نے اس کے قدم چوم لیے کہ محبت کا جنازہ نَہ نکلے

وہ جھٹک کے چَل دِیا.....

اس نے ایسا گُمان کیا کہ یہ عام سی بات ہے  وہ مغرب زدہ ثقافت کا متاثر جس کے لیے عیش و عشرت کی زندگی عورت کے بِنا ممکن نَہ تھی ...شراب و کباب کے ساتھ زندگی گُزارنے والے کے لیے کسی کو چھوڑنا معمول کی بات تھی... میرے لیے اُس سے تعلق کا ٹوٹ جانا جیتے جی مرجانے والی بات تھی....

پھر میں مَر گئی .... جاں بَلب مردہ .....

بیہوشی ... موت کا سکتہ طاری ہوگیا....


 

کچھ دیر کو خاموشی طاری رَہی .... .

جیسے استاد،مربی چھوٹے بچے کی کیفیت جانچ و پَرکھ رَہا ہوتا ہے.....خاموشی کے ایسے لمحات میں خیال وحدت بَن کے نقاشِ اول کی مصوری کو تکتے ہیں ... نور نے جب نقاشِ اول کی مصور کو بصورت انسان میسر پایا تب اس کے اندر اطمینان لازمان و لامکان سے در آیا.... 


کہنے لگے 


سوہنی من موہنی بٹیا جی 

میں کہ اک ٹھگ ... 

ٹھگوں کا ٹھگ .... 

وہ شخص آپ کی محبت کے قابل نَہیں تھا...

اس محبت کو عشق میں بدلا .... 

آپ کو جس نے دھتکارا ...

آپ نے بیک وقت اسی کے خیال سے محبت بھی کی... 

اسی کے خیال سے نفرت بھی کی ہے.....

لیکن نفرت و محبت کے جذبے کے ساتھ ساتھ وہ آپ کے خیال میں موجود رہا ہے.محبت ایک تسبیح کی مانند ہے جس کے ہونے سے سرشاری کے نغمے پھوٹتے ہیں ... آپ نے اپنی محبت کی مانگت میں مانگا کیا؟  محبت؟ یہ محبت کی توہین ہے. اگر وہ محبت کے جواب میں نفرت دے گیا تھا تو نفرت کو ایسے قبول کرنا تھا جیسا کہ وہ محبوب کے آنگن سے آئے گلدستے خوشبو چھوڑتے ....یہ کام آسان نَہیں ہوتا.اس لیے ہم جان نہیں سکتے محبت ہے کیا.... محبت چاہے جانے کا نام ہے ...محبوب کی تسبیح کرنے کا نام ہے کہ وہ اچھا کرے یا برا....آپ کا جواب محبت ہو... جو اس کے پاس تھا وہ اس نے تجھے دیا.. ترے خدا نے تجھ سے اسکو محبت دلوائی ..


بھول جائیں اسے....

اسکی یاد کو....

جو دکھ دیے اس نے...

وہ بددعا واپس لیں جو آپ نے اسکو دی....

دعا دیں اسکو...

یاد رکھیں بٹیا جی  ..

ہم دعا دینے والوں سے ہیں ...

بددعا دینے والوں سے نہیں ....

معاف کرناجب مشکل ہونے لگے تو طائف کا وہ منظر یاد کیجیے گا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لہولہان تھے ... خون بہہ رہا تھا.... مٹی خون جذب کررہی تھی..... اس وقت قادر مطلق کو جلال آگیا....آپ نے ان کے لیے کیا کیا؟ دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے ... ان کی آنے والی نسلوں کے لیے....ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتے معاف کرنا ہے .... دعائیں دینی ہے...یاد رکھیے گا یہ کائنات دعا سے چل رہی ہے....  


میرے ذہن کے آگے ان کے کہتے کہتے وہ منظر گھومنے لگا....جیسا سیدی بولتے گئے.... وہ بولتے گئے...  میرا دل صاف ہوتا گیا....میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چشم تصور سے طائف کے میدان میں پتھر کھاتا دیکھ رہی تھی ...لہولہان ہوتے...... اور ان کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھ گئے تھے ....


.دعا نکل گئی ...... بددعا پر شرمساری ہوگئی

انسانی نفس کی خباثت و کمینگی یہی ہے کہ وہ بددعا پر اتر آئے اور امتی ہونے کا دعوی کرے ...ان سے عشق کا دعوی کرے مگر اتباع محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بہت پیچھے ہو....

اس وقت مجھے اپنے نفس کی کمینگی کی پہچان ہوئی 

میں نے شاہ صاحب سے یہی بات کی تو کہنے لگے


آپ بہت نادان ہیں ...اللہ کی مخلوق(خود میں) کجی ڈھونڈ رہی ہیں .... خود کی بھی معاف کریں ہر گناہ کے بار سے اور دعا دینے والوں میں رہیں

تو مثلِ خُدا ہے

0 تبصرے

​زندگی کے پُر کٹھن مرحلات میں ...

ترا تصور میرا سوز ہوگیا 

ترا طَریقہ مری بندگی ہوگیا

تو نے کہا،میں ہوگیا

اے مرے ہمنوا 

اے مرے سیدِ مَن ....

تری چاہتوں کی دستار سے 

تری باتوں کے حصار میں 

رمزِ حی علی الفلاح ہے 

تری نگاہ کے آذان سے 

مجھے طریقہِ نماز مِلا 

تری آیتوں کے جھرمٹ میں 

قرآنی صحیفہ کھلا مِلا

لا یمسہ الا مطھرون 

وہ بات بات میں 

وہ نور ازل کی پردہ اٹھا 

وہ نور ابد کی جھلک ملی 

سید من، پیر من،قبلہِ من 

خدا کی کوئی مثال نَہیں 

مگر تو مثلِ خدا ہے 

تو کب رب سے جدا ہے

پیر، 13 مارچ، 2023

نشست ۱۴

0 تبصرے

​نشست ۱۰ 


ایک صحرا میں ایک  نوجوان مسافر اونٹ کی نکیل تھامے پانی کی تلاس میں ہے ... صحرا میں ایک برگد کا درخت ہے.  اس پیڑ کے تلے ایک شخص بانسری بَجا رَہا ہوتا ہے.....


بانسری کی آواز اتنی مدھر ہوتی ہے کہ نوجوان کو اپنی پیاس و تشنگی بھول جاتی ہے .... وہ اونٹ کو باندھ کے اس شخص کے پاس بیٹھ جاتا تاکہ وہ اس راگ کی مدھرتا سے لطف اندوز ہو سکے...... وہ بیٹھتا ہے اور بانسری کی ہوک سے کچھ یاد آنا شروع ہوجاتا ہے ....برگد نشین کو اتنی محویت سے تکتے تکتے نوجوان کو احساس نَہیں ہوتا کہ وہ اس برگد نشین کے خواب کی دُنیا میں داخل ہوجاتا ہے کیونکہ برگد نشین آنکھ بند کیے محویت سے بانسریا تھامے گُم .... اسکو پروا نَہیں ہوتی زمانہ اسکی سُنے یا نَہ سنے... وہ بانسری بَجا رَہا ہوتا ہے..... شاید نوجوان سالار کا یَہاں اس صحرا میں برگد نشین کے پاس پہنچنا بھی قدرت کی شطرنج کی ایک بازی تھی جس میں ایک پیادہ تو دوجا شہسوار.....


جیسے ہی نوجوان کی تار سے تار مل جاتی ہے ....اس کو برگد نشین کے خواب میں داخل ہونے کا اذن مل جاتا ہے


حاضر!  

حاضر! 

حاضر! 


ایک تار جو پُل صراط کی مانند ہے ...اس پر نوجوان سالار چَل رَہا ہے.... وہ نوجوان سالار جیسے جیسے تار پر چلتا ہے لوہے کی تار میں تیزی و کاٹ اس کے پیر لہولہان ...خون کی دھار بہنا شروع ہوجاتا ہے.... وہ تار پر آگے بڑھتا جاتا ہے اسی رفتار سے خون بہتا رہتا ہے ... ایک وادی میں یہ تار جا کے کسی ہستی کے ہاتھ میں جا کے مل جاتی ہے...وہ مہربان ہستی اس سالار کو جونہی تار سے اتارتی ہے توں ہی اس کی نظر برگد نشین پر پڑ جاتی ہے ...وہاں ایک نَہیں بلکہ کئی لوگ ایک صدائے راندانہ پر رقص میں ہوتے ہیں .. برگد نشین بھی رقص میں ہوتا ہے جبکہ سالار کو وہ ہستی سینے سے لگاتی ہے ....  اس کے بعد وہ سالار کھڑے ہوکے ایک نعرہ لگاتا ہے


در حیدر دلم بینا است 

درِ حیدر دلم گمشدہ است 

یا حیدر یا حیدر یا حیدر 


وہ سالار حیدر حیدر کہتے کہتے اس رقص میں شامل ہوجاتا ہے جَہاں پر سارا زمانہ محو رقص ہوتا ہے ..... جہاں پر سب کی تاریں ایک اس بڑی ہستی سے جڑی ہوتی ہیں. سب اس ایک تار پر رقص کرتے ہیں ..... 

یا علی ... 

مست ولائے علی ہوں 

رندِ میخانہِ علی ہوں 


یہ خواب تھا اسکا احساس نہ ہوسکا...یہ تو منظر نامہ تھا مگر پیروں میں گرمی تپش،سوجن کیوں تھی؟ جسم کیوں حدت سے بھرگیا تھا گویا آگ ہی آگ ہو..... تن بدن کی حدت سے دماغ بھی گویا پھٹنا چاہے چاہے


بیٹھے بٹھایا کیا ہوا؟ 

ابھی تو میں سوچ رہی تھی شاہ صاحب کتنے بڑے ظرف کے ہیں ... بہت دکھی ہوں گے ...مجھے ان سے پوچھنا چاہیے تھا...ان کا دل شاید اس لیے دکھی دکھی لگتا ہے ...کرب کی لہر مرے دل میں ایسے تو نہیں اٹھتی ...میں بھی کتنی خود غرض ہوں ....ان کو تسلی بھی نہیں دی ....


میں نے لکھا: میں بُہت خود غرض ہوں ...

اپنی کرتی رہتی ہوں .... مجھے شدید دکھ ہو رہا ہے... 


بٹیا جی:  عشق اپنی ذات سے ....

باقی تو سب افسانے ہیں ....

آپ جاب شروع کریں 


میں نے نہیں کرنی جاب .... 

سولہ سال کی تھی جب جاب شروع کی ... نو سال کرکے دل بھرگیا...اب مرا دل نہیں کرتا ... سوچا تھا سی ایس ایس کروں گی تو اچھی لگژری جاب ہوگی ...ٹیچنگ نری خواری ہے ...


فرمانے لگے: اب کریں آپ سی ایس ایس....

آپ کامیاب ہوں گی ...


میں نے ایک ایک کتاب اپنی ہر ماہ کی سیلری سے لی تھی. سی ایس ایس کی بکس اکٹھا کرنے میں سال لگ گیا ....  اب تو سب نوٹس جَلا دیے ...بکس راکھ کا ڈھیر ہوچکی ہیں ...  رجسٹر، lay outs سب پھاڑ کے پھینک دیے .... میرے پاس ہمت نَہیں پھر سے سی ایس ایس کروں ... میرا ٹیچنگ سے دل اتنا اچاٹ ہے ...میری ایلوکیشن گورنمنٹ سیکٹر میں ہوگئی تھی مگر میں نے خود جوائن نَہیں کیا....مجھے ٹیچر ہونے سے نفرت ہے..... 


بٹیا جی: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلم بنا کے بھیجا گیا.... آپ اس مقدس شعبے کو دھتکار آئیں ... سی ایس ایس کریں ...کامیاب ہوں گی ...یہ آپ نے جو اتنے مشکل حالات میں تعلیم مکمل کی ... ان حالات میں تو کوئی بھی تعلیم حاصل نہ کرپاتا.... کس چیز نے آپ کو چَلایا؟ 


Will Power 


سوچیے ارداہ کیا ہے؟ 

قوت ارادی کیا ہے؟ 

ارادے کا جنم کہاں سے ہوتا ہے؟ 

نیت کرکے ارادہ یقین پر باندھ کے چلنا ہوتا ...

رب سچا نیت سچی پر سب نواز دیتا ہے.... 

سی ایس ایس نَہیں کرنا ...تو ٹیچنگ کریں ... 

جاب تو آپ کرنی ہی پڑیگی ...  

آپ کے ذمے امانتیں ہیں ... 

آپ کو امانتیں تقسیم کرنی ہوں گی ...

آپ کو گھر سے نکلنا ہوگا..... .

لوگوں سے ملنا ہوگا .... 


جاری ہے....

نشست ۱۳

0 تبصرے

نشست نمبر ۹ 


بابا جان:  میں تو ہر بات اللہ کی مانتی ہوں. پھر مجھ میں *میں* کیسی ہوئی؟ 


بٹیا جی: اللہ کو ماننا الگ بات ہے ... اللہ کی ماننا الگ بات ہے... آپ کو جس قدر بھی دکھ ملے ...وہ آپ کی *میں* کی بدولت ملے ... یاد رکھیے گا.... اللہ کبھی کسی کو دکھ نَہیں دیتا ... انسان درد خود کماتا ہے.... ...


آپ مجھے تفصیل سے سمجھائیں ....میں نے کب کب اللہ کی نہیں مانی ... مجھے آپ وقت دیں، آپ کے پاس فرصت ہو اگر .......


بٹیا جی ....

اک تجھے تو دستیاب ہوں.... 

سارے زَمانے کے لیے تو نایاب رَہا ہوں....

مرے گھر والوں کو بھی مجھ سے یہی شکایت رَہی.... نایاب کدھر ہے....؟ نایاب تو کبھی دستیاب نہیں ہوا.... نایاب جو ٹھہرا....

پھر توقف کے بعد فرمانے لگے ....

آپ وہ گانا سنیے گا..... 

تجھ میں رب دکھتا ہے یارا میں کیا کروں.....

سجدے میں سر جھکتا ہے یارا میں کیا کروں....

لوگوں مجھے ڈھونڈتے رہتے ہیں مگر میں کہ تری دسترس میں ہوں ....... ایسی گنتی کی چند ہستیاں ہیں جن سے مری گفتگو رہی ہے ... تو ان میں سے ایک ہے ....


میں نرگیست میں مبتلا ہوں؟ میں *میں * کو کیسے ختم کروں؟ میں نے تو وہی کیا ہے جو اس نے چاہا ...


ہم اسکے ہاتھ کٹھ پتلیاں ہیں...

وہ تاگے کھچی جاندا... 

اَسی کھمی جاندے....

بٹیا جی!  آزادی کے نام پر بہلائے گئے ہیں ہم....


یہ جو محبت ہوتی ہے نا ....

یہ بہت خالص جذبہ ہوتا ہے... یہ خارج سے ابھرتا ضرور ہے مگر اسکا مسکن ہمارا دل ہوتا ہے... اک عمر لگ جاتی ہے انسان کو جاننے میں کہ محبت کی کونپلیں باہر نہیں ،دل کے اندر پنپتی ہیں.... ہم اس کو مجاز میں ڈھونڈتے رہتے ہیں ....یہ بھی تو اسکے چکر ہیں ...کسی کو مجاز میں الجھاتا ہے تو کسی کو براہ راست حقیقت سے ملوا دیتا ہے .... سن چودہ برس کا عشق تیس برس عمر کی انجام کو پُہنچا.... جس سے ملنے کے لیے سولہ برس ہجرت کی تپش سَہی ... جب اس سے شادی ہوئی تو میں نے اس سے پُوچھا کہ مجھ سے کتراتی کیوں ہو..  میرے ہاتھ نَہیں آتی ... کہنے لگی


سید!  آپ پر اعتبار و یقین خود سے زیادہ ہے مگر آپ سے محبت نہیں کرتی .... 


وہ مری من چاہی ...

میری بیٹی ... 

اپنی بیٹی کے والدین کے پاس گیا... اُن سے بات کی اور اسکی شادی وہاں کرادی .... جَہاں اسکی خوشی تھی ...


میں نے حیرت آپ سے پوچھا کہ آپ کی بیوی، آپ کی بیٹی کیسے ہوسکتی ہے؟ اگر اس سے شادی ہوگئی تھی تو آپ نے اسکو جانے دیا؟ یہ کیسی محبت تھی آپ کی؟ 


بٹیا جی 

آپ نَہیں سمجھیں گی ... 

عورت جس روپ میں ہو....

وہ آپ کی اولاد جیسی ہی ہے... 

اس رمز کو آپ جان نَہ سکیں گے... 

محبت یہی تو ہے مری محترم بٹیا جی!  

جو وہ کَہے ... 

اسکی خواہش کو مانا جائے ..  

سر جھکایا جائے ...


مجھے آپ کی محبت پر حیرت ہو رہی ہے ... جس کے لیے سولہ برس انتظار کیا ...اسکو تین دِن میں چھوڑ دیا... 


ویسے آپ مرد تھے .. آپ چاہتے تو آپ اسکو رکھ سکتے تھے ...اسکو آپ سے محبت ہوجانی تھی ...  انسانی فطرت یہی ہے...


نا، نا.... 

یہی تو نرگیسیت ہے .... 

میں نے جو چاہا .... 

ہم انسان جب اسکی رضا پر چلتے ہیں تو وہ ہمیں وہ بھی نواز دیتا ہے جس کی خواہش میں ہم کبھی در بدر پھرے ہوتے ہیں .... 


اگر کچھ بننا ہے تو مٹا دے اپنے ہستی کو.... 

خاک میں دانا ملتا ہے، دانا بمعنی بیج 

تبھی تو جا کے وہ گلزار ہوتا ہے ...  

خاک ہوجائیں ویسے جیسا خدا چاہے

ویسا خاک ہونا بھی کیا خاک ہونا... جو ہوئے بھی خاک تو اپنے مرضی سے ... 

بٹیا جی!  یہ بھی نرگیست ہے

بس اپنی ذات سے عشق سچا ، باقی سب افسانے 

ایک میں ہی تو سچ ہوں، باقی سب تو جھوٹ ہے 

ایک میں ہوں تو معتبر ہوں، باقی سب تو مایہ ہے​

نشست ۱۱

0 تبصرے

​Nihilism ....

نشست ۷

حصہ چہارم 

نشست 

اللہ اللہ اللہ


آپ کو پہلی مرتبہ زندگی کی بے معنویت کا احساس کب ہُوا؟ 


میں نے دُنیا کو تسخیر کرنا تھا......

مُجھے انقلابی ہونا پسند تھا.......... 

میرے ہونے کا کوئی مقصد ہے اور جب مقصدیت فوت ہوئی تو اپنا ہونا بیکار محسوس ہوا.... پہلی مرتبہ زندگی تب بے معنوی لگی جب مجھے محبت میں ناکامی کا شکار ہونا پڑا.....


بٹیا جی .....

انسان کو فنا ہے مگر مقصد کو فَنا نَہیں ہے.... .

جسم نے مٹی ہوجانا مگر بُت کے اندر کی صدا باقی رہ جانی .......

سنیں .....

محبت تو فنا نَہیں ہوتی یہ تو زندگی کی ہماہمی کا سریلا گیت ہے.... یہ مقدس راگ ہے جس کو ازلوں سے گایا گیا ہے مخصوص دلوں پَر........آپ کو کیوں لَگا محبت میں ناکامی ہوئی آپکو؟


میں نے جب اسکو دیکھا تو پہلی نَظر میں مجھے لگا اس شخص میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جلوہ ہے.... میں نے پہلی نَظر میں دل دیدیا مگر اسکا دل کسی اور کا تھا ... یکطرفہ محبت کی بھٹی میں سُلگتی رہی .... نَہ وہ ملا، نہ بات ہوئی مگر اسکی یاد نے دِل میں ایسے قرار پکڑا کہ بھوک، پیاس، چین سب اٹھ گَیا..... یَہاں تلک کہ گھر میں بُہت کوشش کی گئی بات بَنائی جا سکے مگر بات نَہ بَن سکی ....  اسکی مجھ سے بات نَہیں ہوئی کبھی بھی .... اسکو تو علم بھی نَہیں تھا کہ میں نے اُس سے محبت کی ....بس اللہ سے دل ہی دل میں کَہا کہ محبت کے نام پَر یہ پودا لگا رَہی.... اگر اسکو پھیلاؤ مل گیا تو مجھے آس کا سکندر مل جائے گا   مگر وہ نَہ ملا اور آس کا کشکول ٹوٹ گیا...... جوگ لگ گیا دل کو....مجھے لگا کہ میرے ہونے کا مقصد فوت ہوگیا...... 


وہ فرمانے لگے:

آپ کے ہونے کا مقصد، آپ کی تڑپ سے ہے.آپ کے وجود سے ہے اور خیال کی سمت و بے سمتی دین سے دور لیجاتی ہے.... محبت کی تپش سے کاغذ نَہ جَلے تو وہ اُس سے کیسے ملے گا؟ یہ محض آپ کا گُمان تھا ... آپ کی یکطرفہ محبت میں حصول کی خواہش نَہ ہوتی تو یہ نرگیسیت میں آپ کو مبتلا نَہ کرتی ..... 


نرگیسیت کیا ہوتی ہے؟ میں نے پوچھا


مجھے چاہا جائے ..... .

اسکو "میں "کہتے ہیں 

جبکہ "انا" یہ ہے کہ اسکو چاہا جائے.....

اسکی مانی جائے....

آپ میں *انا* کم ہے اور *میں* زیادہ ہے.....


پھر پوچھا: existentialist اور Nihilism کا فرق کیا ہے... اس پر تحقیق کریں اور پھر بات کریں مجھ سے....


میں نے جوابدیا....

ناہلسٹ ہر چیز کو بے معانی قرار دیتا ہے  ہر عقیدے کو، مذہب کو ..... اس کے نزدیک اسکا زندہ رہنا بیکار ہے ... بیشتر ادیب نائیلزم کا شکار ہوتے خودکشی کرتے ہیں یا کسی موذی مرض سے مرجاتے ہیں یا زندہ رہنے کے لیے ان میں 

Escapist tendencies 

پیدا ہوجاتی ہے. خیالات کی دُنیا میں اگر ان کی ذات ان کو معنویت نہ بخشے تو وہ خودکشی کرتے ہیں ....جیسا کہ شیکسپر ایک nihilist تھا... اس کی زندگی اسکی محبت تھی. اس نے اپنے ہر play میں عورت کو بیوفا تصویر کیا ہے.اسکا مشہور مقولہ .... 

 Farilty,thy name is woman!


ورجینا وولف،شیلے جیسے مفکر ادیب زندگی کا معنوی لطف کشید نہ کرسکے اور خودکشی کی.... جبکہ مصطفی زیدی ایک ناہلسٹ تھا جس نے خودکشی کرکے جان دیدی.... اس کے بَجائے ساغر صدیقی ایک  existentialist تھا جس نے اپنے بے معنویت سے معنویت کو حاصل کرلیا......


میرے جواب پر وہ فرمانے لگے


اسکا مطلب ہے جتنے ادیب و فلسفی گزرے انہوں نے اپنا لکھا جھوٹ ثابت کردیا ....  وہ اپنے لکھے پر قائم نَہ رہ سکے اور خود کو جھوٹا ثابت کرگئے.....


اللہ اللہ اللہ


جاری ہے.......

نشست ۱۰

0 تبصرے

​Nihilism 


نشست ۷....

حصہ سوم ----- 

اللہ اللہ اللہ


مجھے شاہ صاحب نے ایک پیراگراف دِیا ... کَہا کہ یہ پڑھیں اور اسکا ترجمہ کردیں. کہنے لگے 

میری محترم بٹیا جی 

آپ کو تو پَتا ہے میں پڑھا لکھا نَہیں 

میں انگریزی زبان اپنی چھوٹی بیٹی غزل سے سیکھتا ہوں .... 

آپ اسکو ترجمہ کردیں تاکہ مجھے علم حاصل ہوسکے..... 

وہ پیراگراف ناہلزم سے ریلیٹڈ تھا......


وہ پڑھے لکھے نَہیں تھے مگر nihilism کو جانتے تھے ... میں پڑھی لکھی تھی مگر nihilist  تھی، یہ میں نَہیں جانتی تھی.... وہ سائکالوجسٹ بھی نَہیں تھے مگر سائکو تھراپی کے لیے نہ مشورے دے رہے تھے، نہ مجھ سے معلومات لے رہے تھے بلکہ مجھے بتاتے بتاتے جہاں تکلیف حد سے بڑھ جاتی ....مجھے روک دیا کرتے ....جتنا بتانا تھا یا جتنی سَکت اتنا ہی بولیں ... آپ نہ بھی بَتائیں میں تب بھی جانتا ہُوں .......میں نے تَب سوچا تھا کہ ہمارے معاشرے کو ایسے انسانوں کی ضرورت ہے جیسے وہ ہیں ... وہ بیٹی خوش قسمت ہے جس کے وہ باپ ...  وہ عورت خوش نصیب جس کے وہ شوہر.... وہ بیٹے خوش نصیب جن کے لیے وہ گھنا سایہ.... اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں جو جَہاں دِکھا....جو ملتا گیا.   جو دکھی ملا بالخصوص خواتین ...ان کو دُکھ سے نکالنے کی کوشش کی....


میں نے ان کا اسکا ترجمہ کردیا تو کہنے لگے.....

آپ کو لگتا ہے اس میں سے ایک بھی آپ میں ہیں ...

بُہت محبت و شفقت بھرے لہجے میں .... .

اپنائیت کے بیحد انداز میں ....

جیسے اس کائنات میں مجھ سے بڑھ کے اہم ان کے لیے کوئی نَہیں ...

ایک نَہیں لاکھ مرتبہ کَہا

تجھ میں اور مری غزل میں کوئی فرق نَہیں ... 

تجھے غزل میں اور غزل کو تجھ میں دیکھتا ہوں.....


آپ کو زندگی کی معنویت و مقصدیت کیوں محسوس نَہیں ہوتی؟  


مجھے لگتا ہے کہ ہم یَہاں کھانے پینے آئے ہیں .بس! ..  میں بڑے سے بڑا مقصد ایچیو کرلیا ... بہت سی جگہوں پر ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑا ... میرا ہاتھ شکست خوردہ نَہیں مگر مجھے لگتا ہے میں نے کچھ کرنا ہے جو میں کر نَہیں پاتی یا کر نَہیں پائی...اندر ایک کسک ہے.... ایک تُڑپ ہے ... مجھے وہ تَڑپ ہر شے سے یکسر لاتعلق کرتی ہے....

اللہ اللہ اللہ

جاری ہے....

 ......