جمعرات، 16 مارچ، 2023

سید نایاب حسین نقوی عرف شاہ بابا رحمتُ اللہ

0 تبصرے

​شاہ بابا:  سید نایاب حسین نقوی کی باتیں


https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2792728511055031&id=100009537288172


https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2791278851199997&id=100009537288172


https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2791151151212767&id=100009537288172


https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2791067217887827&id=100009537288172


https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2804332499894632&id=100009537288172


https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2804669376527611&id=100009537288172


https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2803382186656330&id=100009537288172


سید نایاب حسین شاہ نقوی سیالکوٹ کے اک گاؤں آلو مہار کے رہنے والے تھے.سادات حسنی حسینی ہونے کے ناطے ان کے والد بذات خود نیک سیرت،  چشم سیرت انسان تھے. حسنین کریمین رضی تعالی عنہ کی رسم و رواج نبھاتے وہ بذات خود   "سبطِ حسن " کے نام سے جانے جاتے تھے.  والد کی تربیت و مزاج نے ان کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کیا مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنی کھوج پر روانہ ہوئے،  اپنی ذات کی تسخیر کا سفر اپنے یقین و جسجو کے بل پر کیا.  سادات امروہوی کے جد امجد سید جلال سرخ پوش بخاری ہیں مگر امروہوی سادات کرام کی سب سے نمایاں شخصیت سید شرف الدین عرف شاہ ولایت ہیں. شاہ ولایت ان کا لقب ہے اور ان کا مزار ہندوستان میں ہے. اس کے علاوہ رئیس امروہوی،  نامور خطاط صادقین، شاعر جون ایلیا ان کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں. 


جب سن دس میں داخل ہوئے توعجیب و غریب تجربات سے دوچار ہوتے خدا کے بہت قریب ہوگئے یہاں تک کہ حیات کے مقصد سے آشنا ہوگئے. دکھی انسانیت کی خدمت.  حساسیت بدرجہ اتم موجود ہوتے ہوئے بھی بجائے کہ حساسیت کے اسیر ہوتے، اپنی حساس طبع سے اسیر کرلیا.  محبت بانٹنا شروع کردی. شریعت و طریقت کا سفر آغازِ حیات سے شروع ہوا،  نوجوانی میں معرفت حقیقت کی تلاش میں سرگرداں رہے، جگہ جگہ پھرتے رہے مگر حقیقت و معرفت سے سرفراز تب کیے گئے جب انہوں نے اپنے والد کو سچا مرشد تسلیم کرتے ان کی خدمت کو اہم جانا. 


معاشرے میں پدرسری نظام کے خلاف خاموش آواز اٹھائی.  بہت سی خواتین جن کو ان کے اپنے جبری استحصال کے بعد اپنانے سے انکار کردیتے تھے ان سے ربط رکھتے ان کی شادیاں کراتے رہے اور تو کہیں معاشرتی،  معاشی نظام یا ذات پات کے مسائل کی وجہ سے جن خواتین کو معاشرے کا ناسور تصور کرلیا جاتا، سید صاحب ان کو تحریک دیتے رہے کہ وہ خود اپنے حق کے لیے مضبوط ہوکے کھڑی ہوجائیں.  


ذات کے مست فقیر،  قطبی ستارے کی طرح راہ دکھاتے رہے. اللہ سے براہ راست ربط تو ان کا تھا ہی مگر ان کے صاحب دعا ہونے کا ماجرا ان کی اپنی بیان کردہ روایت سے جڑا ہے. کسی جھگڑے کے دوران ان کے منہ سے اچانک کسی شخص کے لیے بددعا نکل گئی. الفاظ جیسے ہی منہ سے نکلے وہ شخص وہیں کھڑے کھڑے مرگیا. اس کے بعد دعائیہ کلمات ان کی زبان سے سدا جاری رہے. جو بات منہ سے نکال دیا کرتے وہ پوری ہوجاتی. جس کو دعا دیا کرتے اس کو من کی مراد مل جایا کرتی. 


بابا بلھے شاہ اور شاہ منصور سے متاثر تھے.  اکثر بلھے شاہ کا کلام ان کی زبان پر رہا کرتا. کوئ بات سمجھانی ہوتی تو ان کے کلام کے ضرب المثل جملوں سے سمجھایا کرتے تھے. رسمی تعلیم حاصل نہیں کی تھی مگر باوجود اس کے ظاہری و باطنی علوم کا خزانہ پاس تھا. اردو، عربی زبان.پر.دسترس تھی اور انگلش زبان سمجھ لیا کرتے تھے. 


ان کی ساری زندگی اس بات کی ترجمان ہے کہ ہر بات خدا کی اور ہر یاد رہے خدا کی.  اپنے ذکر وفکر میں مشغول رہنے کے باوجود دنیا داری و فرائض منصبی بطریق احسن سر انجام دیے کہیں کوتاہی نہیں کی.  دینے والے نے اس شان سے دِیا کہ اس کی شان سلامت!


https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2803382186656330&id=100009537288172

0 تبصرے: