جمعہ، 17 مارچ، 2023

قسط۲۶:فریب نظری

0 تبصرے

​Hallucination/فریب نظری 

اٹھارہویں قسط 


شاہ بابا سے تعلق جُوں جُوں استوار ہورہا تھا تُوں تُوں احساس کا طوطا یہ مینا کہانی رٹائے جارہے تھا کہ خیال خوانی سچ میں ہوتی ہے. فرہاد علی تیمور کی دیوتا کی کہانیاں میری امی خود بھی پڑھتی تھیں... اکثر گپ شپ میں خیال خوانی، علم نجوم اور یکسوئی پر گفتگو ہوا کرتی تھی.... تاہم یہ کسی کے حدِ گمان میں نَہیں تھا یہ علم موجودیت کے دھارے سے بہتا ہے ..... 


کتاب کا ذہن میں موجود ہونا، صفحات کا پلٹا جانا اور مزید ایسا کچھ کہ جیسے جیسے صفحات پلٹے جاتے ویسے ویسے ماضی کے پوشیدہ تاریک پہلو میں دیکھنے لگ جاتی. بھولی بسری معصوم یادیں .... جیسے ماضی کی فلم اسکرین پر چلنے لگ گئی ہو..... 


احساساتِ ماضی کا تازہ ہونا.،وہ وقت وہ انسان بیدار کردیتا ہے جو آدمی اس وقت ہوتا ہے. مثال کے طور پر آپ کسی کو قتل کرنا چاہتے تھے ... وہی سفاکی  وہی درندگی، وہی جہالت آپ کے اندر جاگ جائے گی .... آپ کے لیے مشکل ہو جائے گا کہ آپ ماضی میں وہ جیتی جاگتی تصویر ہیں یا حال سے پیوستہ خدائی تحریر .....میں بچپن کے قریہ قریہ گھومی،  لڑکپن کی سرحدیں اور کیفیات کا طاری ہوجانا...... آپ کا لاشعور سامنے کھڑا ہوجائے اور آپ اسکو بیتتا دیکھیں .... وہ آپ بذات خود خدا کرسکتا ہے یا خدائی نُمائندہ ......


یہ اس قدر اذیت ناک جنگ تھی جس نے مجھے ہلکا سا منتشر کیا ...میں نے سجسٹڈ کمانڈز دینا شروع کیں خود کو .... 


مجھے کچھ نَہیں سوچنا 

مجھے خالی رہنا ہے 

مجھے کوئی خیال آئے تو جھٹک دینا ہے


مجھے کچھ وژنز آنا شُروع ہوگئے مگر میں اس وقت ان خبروں کی اہمیت نَہیں سمجھتی تھی ...یہ مجھ پر ہونے والا پہلا تجربہ تھا ... مجھ پر بیت رہا تھا اگر میں کسی کو بتاتی تو کسی کو سمجھ آتی ہے .... وہ بیخودی تو.بھلا گئی کہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے ...خوف مجھ پر طاری ہونے لگ گیا کہ میں اگر ایسا ویسا.سوچوں تو سوچ ادھر چلی جائے گی ....


شاہ بابا سے میں نے کہا آپ تو میرا خیال جانتے. انہوں نے صاف انکار کردیا کہ میں کچھ نَہیں جانتا ... میں سعودی عرب میں بیٹھا،  آپ پاکستان کے اک شہر میں ... میں بھَلا آپ کو کیسے جان سکتا ہوں؟  


آپ میری سوچ پڑھتے ہیں؟  مجھے وژنز ہوتے ہیں 


بٹیا جی ! کوئی کسی کی سوچ نہیں پڑھ سکتا .... ! کسی کے پاس یہ قوت نَہیں ہے ... ماسوا اس کے اللہ چاہے ...


اگر آپ نہیں پڑھ سکتے تو میں کمانڈز کیوں دے رہی خود کو؟ 

 

آپ بُہت بھولی ہیں 

سچ میں بُہت معصوم ہیں 

کمانڈز دے کے دیکھیں ....

آپ نے Inception دیکھ رکھی ہے اور آپ حقیقت سے انجان ہیں ....

 

آپ جو کچھ کر رہے ہیں، ماضی کی یادیں مجسم.ہو رہی ہیں ...وہ سب کچھ جو میں نہیں جانتی اس حد تک اس بپتا کو بھول چکی ہوں. وہ سب آپ دیکھ رہے ہیں .... میں تو اک میڈیم ہوں .... 


 ابھی آپ شزوفرینیا کی تھرڈ اسٹیج پر پہنچ جائیں گی تب خیال مکمل مجسم حالت میں آپ سے ملاقات کریں گے 


آپ کون ہیں؟  

میں نایاب ہوں،  زمانے کو کم  دستیاب رہا 


آپ کا کہنا ہے میں نفیساتی طور پر علاج کی ضرورت ہے؟  


اس بات کی قبولیت .... عظیمت ان کی دل میں اتری وی تھی.... ان کا کہا کیسے ٹال سکتی تھی


اگر آپ کہتے ہیں تو ٹھیک ہے میں نفسیاتی ہوں 


  شزوفرینیا خیال کی وہ طاقتور اسٹیج ہے جہاں یقین خیال کو مجسم کردیتا ہے .... اسکو آپ.اسطرح سمجھیں .... انسان دو طرز میں منقسم ہے 

ابنارمل 

سپرنارمل 


*شزوفرینیا دونوں اقسام میں پایا جاتا ہے .... فریب نظری اور چیز ہے جبکہ وژنز کو حق سچ ہوتے دیکھنا سپر نارمل.ایبیلیٹی ہے ....* وہ بولے 


 انسان تسبیح وظائف کی انتہا کرتے شزوفرینیا کے مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے. انسان کا لاشعور اسکے خیالات کو مجسم کرنے لگتا ہے وہ سمجھتا ہے کوئی اس پر جادو کر.رہا ہے ... درحقیقت اس کا خیال اس کو منتشر کر رہا ہوتا ہے مگر بعض ایسے ہوتے ہیں جن کا رابطہ براہ راست تحت الشعور سے ہوتا ہے ...جن کی ذات براہ راست تحت الشعور سے منسلک ہوتی ہے ان کا خدا سے براہ راست ربط ہوتا ہے 


بٹیا جی!  جب تحت الشعور جاگ جاتا ہے انسان کو کسی کمانڈ کی ضرورت نہیں ہوتی ....  تحت الشعور خود اسکو ہدایات دیتا ہے .... تب اسکو  غارِ حرا سے نکلنا پڑتا ہے ... خدمت کرنی پڑتی ہے .... قربانی کے بعد خُدا ملتا ہے .... ہابیل و قابیل کی لڑائی میں جس کی نَذر قبول ہوئی، وہ راہِ حق میں شہید ہوا جبکہ وہ جس کی مقبول نہ ہو سکی اسکو دُنیا مل گئی ..... 


آپ مجھے تسبیحات گن گن پڑھنے سے اس لیے منع کرتے ہیں؟  

بٹیا جی .... اسکو گن کے کیوں یاد کیا جائے جو بے حساب دیتا ہے .... اسکو تو ایسے یاد رکھا جائے کہ دل یار وچ ہتھ کار اچ .... بٹیا جی!  ذکر چاہے اک لفظ کا کیوں نہ ہو ... وہ یار کو مجسم کردے ..... 


آپ کو ٹیلی پیتھی آتی ہے؟ مجھے یقین ہے .... 

مجھے سکھائیں ٹیلی پیتھی 


بٹیا جی!  میں اک سادہ سا بندہ ہوں ... مجھے ٹیلی پیتھی کا پتا نہیں....


آپ چاہیں دس بار بھی انکار کریں گے میں اپنے دل کے یقین پر چَلوں گی ... میرے دل نے کَہا آپ خیال کو جاننے کی دسترس رکھتے ....


بٹیا جی!  آگہی سے بڑا کوئی عذاب نَہیں ہے ...جب انسانی سوچ کا گٹر کھلتا ہے تب کرب و اذیت سہنا جگر کا کام ہے ... یہ خیال کا جاننا کسب سے نَہیں بلکہ عطا سے ہے .. آپ سرنڈر کردیں ...اپنی *میں* کو مٹا دے ...قربان کردیں خود کو .... ماں کو اپنی مرشد مان لیں .... وہ دن کو دن کہیں تو دن کہیں .. وہ رات کو رات کہیں ...رات کہیں ...پھر دیکھیں کیسے سب کچھ آپ پر کھلتا ہے ...آپ سب جان جائیں گی .... ..... 


آپ نے ویلے تایا جی کا ذکر سن رکھا ہے .. آگہی نے ان کی کیسے مت مار دی تھی .... وہ جو دیکھتے ...اسکو سچ ہوتا پاتے ...اس سچ نے ان کو پاگل کردیا ...ہوش سدھ بدھ کھو دی ... آگہی کو وہ سہہ پاتا ہے جس کا ربط خدا سے ہو ...

0 تبصرے: