بدھ، 14 فروری، 2024

اکتیسویں نشست

0 تبصرے
اکتیسویں نشست

متواتر بات چیت و گفتگو ایک مربوط رشتہ قائم کردیتی ہے. اور گفتگو میں تواتر بجانب خدا عطیہ ہوتا ہے. حکیمانہ صفت لیے لوگ اور اللہ کے دوست ایسا سکون رکھتے ہیں کہ ان سے جاری اطمینان کی لہریں قلب و نگاہ میں معجزن ہوجاتی ہے.مجھے حکم ہوا 

قران پڑھو

میں نے ان سے کہا کہ یہ آسان کتاب نہیں ہے.....اسکا پڑھنا  عام لوگوں کے لیے نہیں. بلکہ یہ علماء کرام پڑھاتے ہیں....

فرمانے لگے:  یہ کہاں لکھا کہ خود پڑھنا نہیں ہے یا اسکے لیے استاد چاہیے؟ 

میں نے کہا کہ اس کی زبان اتنی مشکل ہے. اسکی عربی کی گرائمر نہیں آتی ....

شاہ بابا:  آپ قرآن پاک شروع کردیں پڑھنا....آپ سے نہیں پڑھا جاتا تو آپ پانچ آیات روز پڑھ لیا کریں ....ترجمے کے ساتھ .....اسکو ایسے پڑھیں جیسے محب و محبوب کی چٹھی ہے ......پڑھنے کا ایک وقت مقرر کرلیں.. سارا دن قرآن پاک لیے بیٹھنا نہیں بلکہ ہر آیت کا مفہوم اللہ آپ پر واضح کرتا جائے گا...... جس وقت پڑھنے بیٹھیں اسی وقت اس ایک آیت پر غور و فکر کیجیے

میں نے سورہ العلق کھولی ...اسکو پڑھنے لگی ...میری سوئی  تفاسیر پر اٹک گئی کہ اسکا مطلب میں کس تفسیر سے ڈھونڈیں ...

بابا، میں قرآن نہیں پڑھ سکتی. یہ تو علماء و مفسرین پڑھ سکتے.اسکے لیے باقاعدہ نصاب ہوتا ہے

بابا جان فرمانے لگے 

بیٹی،  قرآن پاک اللہ کا کلام ہے.وہ اپنے قاری پر خود اسکے معانی کھولتا ہے.. تفاسیر تو گنجلک وادیاں ہیں جو فرقہ پرستی کو ہوا دیتی ہیں. فلاں مسلک کی تفسیر، فلاں مسلک کے خلاف ہوتے آپس میں تفرقات کو فروغ دیتی ہے.....آپ سورہ اقراء پڑھیے 

اقرا ------- پڑھ 
کیا پڑھنا --------؟ 
کس کو پڑھنا-------؟ 

اقراء سے مراد کیا ہوگی؟ 
بنی نوع انسان جب تفکر کی گھاٹیوں میں خدا کی تلاش میں چل پڑتی ہے تو وہیں سے فرمانِ اقراء جاری ہوتا ہے ...

قرأت کس بات کی کرنی ہے؟ 
تو کون ہے؟
پوچھا جاتا ہے
پھر بتایا جاتا ہے کہ تری پہچان کیا ہے
ترا خدا سے کیا رشتہ ہے پوچھا جاتا ہے
انسان کہتا ہے وہ نہیں جانتا ہے
تب بتایا جاتا ہے
کس مقصد کے لیے بھیجے گئے ہو 
یہ پوچھا جاتا ہے 
انسان نہیں جانتا
تب اسکو بتایا جاتا ہے

انسان کی *نہیں * اور *معلوم* اسکی پہچان بوسیلہ رب فرمان اقراء ہے....آپ قرآن پاک اسطرح پڑھیں آپ کو معلوم ہو جائے آپ کی تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ آپ کا رب سے رشتہ کیا ہے؟ آپ کو کس مقصد کے لیے بھیجا گیا ...جب آپ کے حاصل کردہ سارے علوم کی نفی ہوگی، تب وہ ذات خود آپ کے اندر قرأت کریگی .....اور سوالات کے جوابات ملنا شروع ہوجائیں گے...

ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی روشن روح اپنے " عین الیقین " کو زمانے کے سامنے آگہی کے روپ میں پیش کرتی رہی ہے ۔ان گنت فلسفی گزر چکے ہیں ۔ جو اپنی اپنی بات میں سچے رہے ۔ وہ بتاتے رہے جو عام انسان کی نگاہ سے اوجھل ہوتا ہے ۔زمانے وقت کے پیہوں پر اپنا سفر جاری رکھتے اک سے بڑھ اک فلسفی کی تعلیمات کو انسان کے سامنے لاتا رہا ۔ان میں چار منتخب ہوئے رب سچے کے دربار میں اپنا پیغام براہ راست انسان تک پہنچانے کے لیے ۔لیکن چونکہ زمانہ تغیر پر استوار ہوتا ہے ۔ اور تغیر سے وہ جو سچے پیغام تھے مرور زمانہ سے دھندلاتے گئے اور انسان کی اپنی خواہشوں کا لبادہ اوڑھتے رہے ۔وقت آن پہنچا اک " امی " تک ۔۔۔۔۔ وہ " امی " جو چالیس سال تک انسان کے اس کائنات میں موجود ہونے کی حقیقت کو جاننے کے لیے غوروفکر میں الجھا رہا ۔اور اپنی سوچ میں سچا اپنے فکر میں پکا رہتے بارگاہ علیم میں مقبول ہوتے " اقرا " کے حکم سے سرفراز ہوا ۔۔۔۔۔

میں کون ہوں؟

میں وہ " نفخ " ہوں ۔ جو "کل " سے " جزو " میں منتقل ہوا ۔ 
میں وہ " پھونک " ہوں ۔ جس کے پھونکنے جانے پر آدم کا " مٹی " کے بے جان پتلا جان پا گیا ۔ 
چونکہ میں " کل " کی پھونک ہوں ۔ سو " جز " ہوتے ہوئے بھی خود میں اسی کی مثال ہوں ۔ اس کا نائب ہوں ۔ اور جسم خاکی میں قید ہوں ۔ 
مجھے " کل " اپنے " علم خاص " سے نوازا ہے ۔ مجھے خود سکھایا ہے ۔ 
میں " آدم " ہوں ۔ اس کی تخلیق ہوں " جس نے چاہا کہ میں جانا جاؤں " ۔ تو اپنی " نعمتوں برکتوں " کی لذات سے نوازتے اپنی عبادت کے لیئے خلق کیا ۔ وہ عبادت کا محتاج نہیں وہ بے نیاز ہے ۔ اس کی عبادت یہی کہ " آدم " کی خدمت کی جائے ۔ آدم کے لیے آسانی پیدا کی جائے ۔ اور اس خدمت کے سہارے میں آدم سے " انساں " کے درجے پہنچا ہوں ۔