ہفتہ، 24 اکتوبر، 2020

انٹرویو ‏ود ‏سید ‏نایاب ‏حسین ‏نقوی ‏----- ‏حصہ ‏سوم

0 تبصرے
نور سعدیہ شیخ نے کہا: ↑
1) آپ کیسے ہیں؟ کیا مصروفیات ہیں آج کل؟
کرم ہے سچی ذات پاک کا ۔ مزدور بندے کی کیا مصروفیات ۔ مزدوری ہی چلتی رہتی ہے ۔ آج کل چونکہ سپانسر شپ تبدیل کرائی ہے ۔ تو نئی جگہ نئے بندوں سے میل جول میں وقت گزر جاتا ہے ۔ اللہ سوہنا والدہ محترمہ کی مغفرت فرمائے (آمین ) آپ نے تعزیتی دھاگہ کھولا ۔ وقت نے کروٹ لی مجھے کفیل بدلنا بدلتے اک نئی جگہ آنا پڑا جہاں نیٹ کی پابندی نہیں ۔ اور اب آپ کے سوالوں کے جواب میں داستان لکھنے میں مصروف ہوں ۔ شاید کہ اسی طور میں بھی اس نایاب کو جان جاؤں پہچان جاؤں ۔ جس کے بارے آپ نے اس قدر سسپنس سے بھرپور ابتدائیہ لکھا ہے


نور سعدیہ شیخ نے کہا: ↑
2) محفل کی سالگرہ کے حوالے سے کیا پیغام دینا چاہیں گے ؟
میرے نزدیک تو اردو محفل اک مدرسے کی مانند ہے ۔ اور ہم سب علم حاصل کرتے علم کی تقسیم کرتے ہیں ۔ ۔ اردو محفل میں ہم رنگ پھول کھلے ہیں اگر کوئی صرف انسانیت کا درس دیتے دہریت کے سردار کا لقب حاصل کیئے ہوئے ہے تو وہیں کچھ ایسی ہستیاں بھی ہیں جنہیں بلا خوف اللہ کا دوست کہا جا سکتا ہے ۔ جن کے لفظوں سے صرف محبت پھوٹتی ہے ۔ احساس جھلکتا ہے ۔ مجھے تو ان دومیں کچھ بھی فرق نہیں دکھتا کہ دونوں میں فقط انسان اور انسانیت سے محبت ہی دکھتی ہے ۔
ہمیں یہاں متحرک رہتے بس یہی خیال رکھنا چاہیئے کہ ہمارے لفظوں سے نفرت فساد انتشار نہ پھیلے
ہم یہاں اپنے لفظوں کا کچھ ایسا ذخیرہ چھوڑ جائیں جو انسان اور انسانیت کی بھلائی کا سبب بنے ۔
اور یاد رہے کہ
جب تک ہے آباد یہ اردو محفل
لفظوں کی صورت ہم بھی زندہ رہیں گے ۔۔۔۔۔
جسم فنا ہوجاتے ہیں ۔ صدا باقی رہ جاتی ہے
ہماری بھی بس صدا ہی رہ جائے گی
دعا یہی کہ سدا سجی رہے یہ اردو محفل

نور سعدیہ شیخ نے کہا: ↑
3) پاکستان میں دورانِ سیاحت کن کن مقامات نے آپ کو تحیر میں لیتے یہ سبق دیا کہ زندگی تو کتنی بڑی معلم ہے؟
کسی نے کہا تھا کہ ہمیں در در نچایا اور پھرایا یار نے ۔۔۔۔۔
میرے پاس یار نہیں تھا نشہ تھا ۔ اور پاکستان کے طول وعرض میں جہاں بھی گیا ۔ بس یہی سوچ آئی کیا فرق ہے تجھ میں کسی بادشاہ میں
کل جہاں بادشاہ کروفر سے دربار لگائے ہوئے تھا تو آج وہاں بیٹھ نشہ کر رہا ہے ۔ کسی بھی مقام کی اپنی کوئی اہمیت نہیں اس کی اہمیئت ہمیشہ اس کے مقیم سے وجود میں آتی ہے ۔۔۔۔ یہ جسم خاکی جس کو بنا سنوار کر شان و فخر سے نمایاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ نمایاں ہونا لمحاتی ہے ۔ اگر اس جسم خاکی میں موجود روح کو بنا سنوار لیا جائے ۔ تو بنا نمایاں ہونے کی خواہش سے ایسے نمایاں ہو جاتا ہے انسان کہ جہاں اس کے قدم پڑیں وہ مقام بھی نمایاں ہوجاتا ہے ۔ اس سے منسوب ہو جاتا ہے ۔
میرے نزدیک تو یہ گزرتا وقت جسے زندگی کہتے ہیں ہر پل اک معلم کی صورت ہمیں اپنے اسرار و رموز سکھا رہا ہوتا ہے ۔
گھڑیال دیتا ہے ہر پل یہ منادی گردوں نے اک گھڑی اور گھٹا دی
میاں محمد بخش رح کیا خوب تنبیہ فرما گئے ہیں
لوئے لوئے بھر لے کُڑیے جے تدھ بھانڈا بھرنا
شام پئی، بن شام محمد گھر جاندی نے ڈرنا
یہ پیغام سب کے لیئے ہے ان کے لیئے بھی جو قدرت پر یقین رکھتے ہیں اور ان کے لیئے بھی جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔

نور سعدیہ شیخ نے کہا: ↑
4) آپ کی بیٹی جس کا نام غزل ہے ، اسکے بارے میں کیا خواب ہے آپ کا ؟
سیدہ معیدہ فاطمہ میری غزل نایاب
اللہ سوہنا اس سمیت میری سب بیٹیوں کی راہ آسان فرمائے کبھی دکھ نہ پائیں سدا مسکرائیں آمین
میری خواہش بس یہی کہ وہ پڑھ لکھ کر اک ایسی خاتون کی صورت زندگی گزارے جس پر انسان اور انسانیت فخر کرے ۔
میرے پاس اس کے لیئے بہت سی بٹیائیں رول ماڈل کی صورت ہیں جن کی تعلیم جن کی گفتگو جن کا خود پر یقین میرے لیئے انتہائی متاثر کن ہے ۔ میں ان کے بارے اس سے بات کرتا ہوں آپ نے اتنا پڑھنا ہے ایسی شخصیت بننا ہے جیسےاردو محفل پر موجود محترم سیدہ شگفتہ محترم فرحت کیانی محترم عائشہ عزیز محترم ورک صاحبہ محترم صائمہ شاہ محترم بوچھی اپیا محترم نور سعدیہ بٹیا ۔ آپ نے اک اچھی خاتون بننا ہے ۔ ابھی تک تو ما شاء اللہ توقع سے زیادہ اچھا رزلٹ ملتا ہے اس کا ۔ اپنی کلاس کی کیپٹن ہے ۔ اپنی تحصیل میں مقرر ہے ۔ ان شاء اللہ رب سوہنا میری خواہش پوری فرمائے گا ۔
آپ سب پڑھنے والوں سے اس خواہش بارے دعا کی التجا ہے ۔

نور سعدیہ شیخ نے کہا: ↑
6) اگر آپ نے رسمی تعلیم حاصل کی ہوتی تو آج کیا بنے ہوتے ؟
کوئی بہت مشہور و معروف انجینئر کہلاتا ۔۔۔۔۔ مگر یہ میری حماقت و نادانی کہ میں نے سکول کی تعلیم کو کبھی کسی قابل نہ سمجھا ۔ اور اس کی سزا مزدور کی صورت انجیئروں کے تحت مزدوری کرتے پائی ۔
اس پر بٹیا نے سوال کر دینا ہے کہ کیا یہ اللہ کی حکمت تھی کہ سکول سے بھاگے اور سزا پائے۔۔ ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ نے اپنی حکمت کے تحت مجھے اچھا تیز ذہن دیا جو سوچ و خیال و وجدان کے درمیان بہترین ربط قائم کرنے پر قادر رہا ۔ اور میں اس پر غرور کرتے حماقت میں مبتلا ہوگیا ۔ میں نے یقین کر لیا میں سب جانتا ہوں ۔ مجھے سکول و مدرسے کی ضرورت نہیں ۔ بلا شک میں نے زندگی کو اپنی مرضی سے بتاتے ٹھوکریں کھاتے اپنے علم میں مہارت تو حاصل کر لی مگر میرے پاس وہ کاغذ کا ٹکرا نہیں جسے سند کہتے ہیں ۔ اور دنیا کے نظام میں ان پڑھوں میں قرار پاتا ہوں ۔
بلا شک ماں سچ کہتی تھی اس حقیقت کا جب علم ہوا تو بہت دیر ہوچکی تھی وقت گزر چکا تھا ۔ ۔

نوٹ ۔۔ سوالوں کی ترتیب کچھ بدل دی ہے ۔
بہت دعائیں

0 تبصرے: