چودہ سال کی عمر میں اک مجذوب سے ملاقات
سوالات جوابات کا یہ سیشن محترم تعبیر اور شاہ جی کے مابین ہے . یہ سیشن ۲۰۱۲ میں ہوا تھا..
نایاب بھائی اس آیت کو پسند کرنے کی کچھ خاص وجہ؟؟؟ہو سکے تو کچھ تفصیل بتائیں اس بارے میں؟؟؟
بہت بچپن ہی سے آوارہ گرد ی کرتے " ملنگوں درویشوں فقیروں " کا لبادہ اوڑھے بہت سی ہستیوں کی صحبت حاصل رہی ۔
دکھی انسانیت کو ان کو " اللہ والا " سمجھتے ان کے پاس آتے اپنی مشکلوں کو بیان کرتے اور دعا کی التجا کرتے جھڑکیاں کھاتے
بہت بار دیکھا ۔ تجسس ہوا کہ یہ لوگ اس مقام پر کیسے پہنچے ہیں ؟ کیا اسم ہے ان کے پاس ۔ ؟
چونکہ ان سے میرا یاری دوستی والا ناطہ تھا ۔ اور میرا وقت ان کے پاس ہی گزرتا تھا ۔ اس لیئے میں ان کی حقیقت سے بخوبی واقف تھا
اور ان کے پہنے لبادوں کی حقیقت بھی مجھ سے مخفی نہ تھی ۔ ان میں اکثر صرف اس دھندے سے اپنے بال بچوں کا رزق تلاشتے تھے ۔ میری نظر میں یہ سب نشئی دھوکہ باز اور ڈھکوسلے تھے ۔ اور خلق خدا کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے تھے ۔
ان میں اک کاغذ چننے والا بھی تھا جس کی واحد مصروفیت سڑکوں پر موسم سے بے نیاز گھومنا اور پھٹے پرانے اخباری کاغذوں کا
جمع کرنا اور انہیں کسی بلند جگہ اکٹھا کر کے باندھ دینا تھی ۔ میں اسے پاگل سمجھتا تھا ۔ کبھی کبھار میں نے دیکھنا کہ کسی درویش ملنگ کے پاس کوئی مرد یا عورت روتے ہوئے اپنی فریاد بیان کر رہے ہیں ۔ تو اس شخص نے اچانک اس مرد یا عورت کو اک لکڑی سے ضرب لگانی اور اسے مجمع سے دور لے جا کر اسے کچھ کہنا اور مارتے اسے بھگا دینا ۔ جیسے ہی وہ فریادی وہاں سے بھاگتا ۔ سب مجمع اس بات پر اتفاق کرتا کہ اس فریادی کا بیڑا پار ہو گیا ہے ۔ اور یہ حقیقت اپنی جگہ کہ دوبارہ وہ فریادی جب نظر آتا تھا ۔ تو اس کے پاس ان صاحب کے لیئے مٹھائی یا کپڑوں کا جوڑا یا پیسے ہوتے تھے ۔ لیکن یہ صاحب کچھ بھی قبول نہ کرتے تھے ۔ اور کھڑے کھڑے وہ لباس اور وہ مٹھائی وہ پیسے مجمع میں موجود کسی بھی دوسرے کی جانب اچھال دیتے تھے ۔ اور اس فریادی کو کچھ کشمیری پنجابی زبان میں بے ربط سے جملے کہتے تھے ۔ جن کا مفہوم کچھ ایسا ہوتا تھا کہ " اب نہیں بھولنا اور سدا اس کا ذکر کرنا ہے "
میری اس سے بھی دوستی تھی اکثر اسے اپنے پاس بٹھا چائے سگریٹ کھانا کھلاتا تھا ۔ مجھے تجسس تھا کہ یہ کیا تلقین کرتا ہے فریادی کو ؟ اک دن وہ جانے کس موج میں تھے ۔ مجھے اپنی لکڑی سے اک ضرب لگا کہنے لگے کہ ۔
" اٹھ نشئیا ۔ کیوں بزرگاں نوں بدنام کرنا ایں " مجھے بہت حیرت ہوئی کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا ۔ اٹھ کر ان کے پیچھے گیا ۔ اور پوچھا کہ سائیں جی خیر تو ہے ۔ کہنے لگے پہلے چائے پلا اور کچھ کھلا ۔ بہت بھوک لگی ہے ۔ میں اکیلا ہی ڈیرے پر تھا ۔ سو ناچار ہوٹل پر گیا چائے اور بسکٹ لایا ۔ انہیں کھلایا ۔ کھا پی کر دیوانہ وار ہنسے اور کہنے لگے کہ " سیدا تو تو سردار ہے ۔ مگر تیری عقل نے تجھے گمراہی میں دھکیل دیا ہے ۔ توبہ کر لے ۔ یہ نشے بازی چھوڑ ماں باپ کی اطاعت کر ، ورنہ بہت دھکے کھائے گا پچھتائے گا ۔ لیکن گیا وقت پھر ہاتھ نہ آئے گا ۔ بول کیا چاہتا ہے تو ؟ میں موقع غنیمت سمجھا اور کہا کہ ۔ سائیں جی آپ صرف اتنا بتا دیں کہ آپ کیا اسم بتاتے ہیں کہ پریشان حال لوگ خوشی خوشی آ کر آپ کو مٹھائی کپڑے پیسے دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ؟
یہ سن کر پھر قہقہے لگانے لگے ۔ پھر کچھ دیر خاموش رہ کر کہنے لگے کہ " سید تو بہت شاطر ہے " میں بھی اسی شاطری کا شکار ہوتے اجڑا برباد ہوں ۔ یہ کہہ کر وہ اٹھے اور مجھے نلکہ گیڑنے پر لگا کپڑوں سمیت ہی نہانے لگے ۔ خوب اچھی طرح نہا کر گھٹنوں پر بیٹھ گئے ۔ اور
قران پاک کے بارے ذکر فرمانے لگے ۔ کبھی یہ سورت کبھی وہ سورت ۔ مجھے کچھ اکتاہٹ ہونے لگی تو کہنے لگے کہ ۔ سیدتو جو تجسس میں گمراہ ہو چکا ہے تو بس یہ اک کلمہ یاد کر لے ۔ اس کے ذکر سے تیرا بھی بھلا ہو گا اور ان کا بھی جن تک یہ کلمہ پہنچے گا ۔
"اللہ نورالسماوات و الارض " 1977 میں چودہ سال کی عمر میں سنا یہ کلمہ آج بھی (جبکہ پچاس کے قریب ہوں میں )اسی جوش و جذبے سے روشن ہے ۔ اور بلاشبہ اس کے ذکر کو بہت بابرکت پایا ہے ۔
نماز چاہے گنڈے دار ہی کیوں نہ ہو ئی
آیت الکرسی
سورت الحشر کی آخری سات آیات
یا اللہ یا رحمان یا رحیم یا کریم یا ذوالجلال و الاکرام انی مغلوب فا انتصر
رب زدنی علماء
اللھم صلی علی محمد و علی آل محمد و بارک وسلم
آوارہ گردی کرتےان ہی کلمات پاکیزہ کو پایا ہے ۔ اور ان ہی کا مبلغ ہوں ۔
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں