منگل، 15 دسمبر، 2020

مجذوب ‏سے ‏ملاقات ‏

0 تبصرے
چودہ سال کی عمر میں اک مجذوب سے ملاقات 

سوالات جوابات کا یہ سیشن محترم تعبیر اور شاہ جی کے مابین ہے . یہ سیشن ۲۰۱۲ میں ہوا تھا.. 

نایاب بھائی اس آیت کو پسند کرنے کی کچھ خاص وجہ؟؟؟ہو سکے تو کچھ تفصیل بتائیں اس بارے میں؟؟؟​
بہت بچپن ہی سے آوارہ گرد ی کرتے " ملنگوں درویشوں فقیروں " کا لبادہ اوڑھے بہت سی ہستیوں کی صحبت حاصل رہی ۔​
دکھی انسانیت کو ان کو " اللہ والا " سمجھتے ان کے پاس آتے اپنی مشکلوں کو بیان کرتے اور دعا کی التجا کرتے جھڑکیاں کھاتے ​
بہت بار دیکھا ۔ تجسس ہوا کہ یہ لوگ اس مقام پر کیسے پہنچے ہیں ؟ کیا اسم ہے ان کے پاس ۔ ؟ ​
چونکہ ان سے میرا یاری دوستی والا ناطہ تھا ۔ اور میرا وقت ان کے پاس ہی گزرتا تھا ۔ اس لیئے میں ان کی حقیقت سے بخوبی واقف تھا ​
اور ان کے پہنے لبادوں کی حقیقت بھی مجھ سے مخفی نہ تھی ۔ ان میں اکثر صرف اس دھندے سے اپنے بال بچوں کا رزق تلاشتے تھے ۔ میری نظر میں یہ سب نشئی دھوکہ باز اور ڈھکوسلے تھے ۔ اور خلق خدا کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے تھے ۔ ​
ان میں اک کاغذ چننے والا بھی تھا جس کی واحد مصروفیت سڑکوں پر موسم سے بے نیاز گھومنا اور پھٹے پرانے اخباری کاغذوں کا ​
جمع کرنا اور انہیں کسی بلند جگہ اکٹھا کر کے باندھ دینا تھی ۔ میں اسے پاگل سمجھتا تھا ۔ کبھی کبھار میں نے دیکھنا کہ کسی درویش ملنگ کے پاس کوئی مرد یا عورت روتے ہوئے اپنی فریاد بیان کر رہے ہیں ۔ تو اس شخص نے اچانک اس مرد یا عورت کو اک لکڑی سے ضرب لگانی اور اسے مجمع سے دور لے جا کر اسے کچھ کہنا اور مارتے اسے بھگا دینا ۔ جیسے ہی وہ فریادی وہاں سے بھاگتا ۔ سب مجمع اس بات پر اتفاق کرتا کہ اس فریادی کا بیڑا پار ہو گیا ہے ۔ اور یہ حقیقت اپنی جگہ کہ دوبارہ وہ فریادی جب نظر آتا تھا ۔ تو اس کے پاس ان صاحب کے لیئے مٹھائی یا کپڑوں کا جوڑا یا پیسے ہوتے تھے ۔ لیکن یہ صاحب کچھ بھی قبول نہ کرتے تھے ۔ اور کھڑے کھڑے وہ لباس اور وہ مٹھائی وہ پیسے مجمع میں موجود کسی بھی دوسرے کی جانب اچھال دیتے تھے ۔ اور اس فریادی کو کچھ کشمیری پنجابی زبان میں بے ربط سے جملے کہتے تھے ۔ جن کا مفہوم کچھ ایسا ہوتا تھا کہ " اب نہیں بھولنا اور سدا اس کا ذکر کرنا ہے " ​
میری اس سے بھی دوستی تھی اکثر اسے اپنے پاس بٹھا چائے سگریٹ کھانا کھلاتا تھا ۔ مجھے تجسس تھا کہ یہ کیا تلقین کرتا ہے فریادی کو ؟ اک دن وہ جانے کس موج میں تھے ۔ مجھے اپنی لکڑی سے اک ضرب لگا کہنے لگے کہ ۔​
" اٹھ نشئیا ۔ کیوں بزرگاں نوں بدنام کرنا ایں " مجھے بہت حیرت ہوئی کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا ۔ اٹھ کر ان کے پیچھے گیا ۔ اور پوچھا کہ سائیں جی خیر تو ہے ۔ کہنے لگے پہلے چائے پلا اور کچھ کھلا ۔ بہت بھوک لگی ہے ۔ میں اکیلا ہی ڈیرے پر تھا ۔ سو ناچار ہوٹل پر گیا چائے اور بسکٹ لایا ۔ انہیں کھلایا ۔ کھا پی کر دیوانہ وار ہنسے اور کہنے لگے کہ " سیدا تو تو سردار ہے ۔ مگر تیری عقل نے تجھے گمراہی میں دھکیل دیا ہے ۔ توبہ کر لے ۔ یہ نشے بازی چھوڑ ماں باپ کی اطاعت کر ، ورنہ بہت دھکے کھائے گا پچھتائے گا ۔ لیکن گیا وقت پھر ہاتھ نہ آئے گا ۔ بول کیا چاہتا ہے تو ؟ میں موقع غنیمت سمجھا اور کہا کہ ۔ سائیں جی آپ صرف اتنا بتا دیں کہ آپ کیا اسم بتاتے ہیں کہ پریشان حال لوگ خوشی خوشی آ کر آپ کو مٹھائی کپڑے پیسے دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ؟​
یہ سن کر پھر قہقہے لگانے لگے ۔ پھر کچھ دیر خاموش رہ کر کہنے لگے کہ " سید تو بہت شاطر ہے " میں بھی اسی شاطری کا شکار ہوتے اجڑا برباد ہوں ۔ یہ کہہ کر وہ اٹھے اور مجھے نلکہ گیڑنے پر لگا کپڑوں سمیت ہی نہانے لگے ۔ خوب اچھی طرح نہا کر گھٹنوں پر بیٹھ گئے ۔ اور ​
قران پاک کے بارے ذکر فرمانے لگے ۔ کبھی یہ سورت کبھی وہ سورت ۔ مجھے کچھ اکتاہٹ ہونے لگی تو کہنے لگے کہ ۔ سیدتو جو تجسس میں گمراہ ہو چکا ہے تو بس یہ اک کلمہ یاد کر لے ۔ اس کے ذکر سے تیرا بھی بھلا ہو گا اور ان کا بھی جن تک یہ کلمہ پہنچے گا ۔ ​
"اللہ نورالسماوات و الارض " 1977 میں چودہ سال کی عمر میں سنا یہ کلمہ آج بھی (جبکہ پچاس کے قریب ہوں میں )اسی جوش و جذبے سے روشن ہے ۔ اور بلاشبہ اس کے ذکر کو بہت بابرکت پایا ہے ۔ ​
نماز چاہے گنڈے دار ہی کیوں نہ ہو ئی ​
آیت الکرسی ​
سورت الحشر کی آخری سات آیات​
یا اللہ یا رحمان یا رحیم یا کریم یا ذوالجلال و الاکرام انی مغلوب فا انتصر​
رب زدنی علماء ​
اللھم صلی علی محمد و علی آل محمد و بارک وسلم ​
آوارہ گردی کرتےان ہی کلمات پاکیزہ کو پایا ہے ۔ اور ان ہی کا مبلغ ہوں ۔

0 تبصرے: