جمعہ، 18 اکتوبر، 2024

تعارف : سید نایاب حسین نقوی

0 تبصرے

 یہ داستان رگ رگ میں نشتر چبھو دے اور خنجر کو مزید خون نہ ملے. کشت و خون،فنا بقا اور زندگی و مرگ کا سلسلہ انسانی نفسیات پر مبنی زیادہ ہے. ایک موت جسم کی اور ایک موت نفس کی ہے.انسانی نفسیات کی موت اسکی فنا اور اثباتِ ایزد ہے.اثبات کا جلوہ تب ظاہر ہوتا ہے جب اکائی ہماری وحدت کو زیرو کرتی ہے.

منجمد خون کی دھار جیسے میرے نقوش، تقویم کی جھڑی میں ایک دیوانی جیسی آنکھ،شبیہ میں صورت یار میں ڈھلتی  یکسوئی کی خواہش،تڑپ میں لازوال چمک لیے اپنے من کی وادیوں میں ڈھونڈ رہی تھی کہ کَہاں ہے میرا رب؟ محبت کا نغمہ متحرک کرکے غائب ہوگیا مگر کیا ہُوا 

وہ نغمہ تجسیم ہوگیا صدیوں کے انتظار کے بعد میری منتظر آنکھوں کے نقوش کو خیرہ کرتے سید نایاب حُسین نقوی کی شکل میں ...... 

صوفیائی کیفیت تو ہر ایک روح میں پائی جاتی ہے جبکہ اولیائی کیفیت اسی صوفیائی کیفیت سے جنم لیتی ہے. شاہ صاحب میں دونوں خصائل بدرجہ اتم موجود تھے. وہ اپنی ولایت کا اظہار نہیں کرتے تھے مگر ولایت ظاہر ہوجاتی ہے بنا کسی دلیل کے اور مخاطب کو ششدر کردیتی ہے.راقم بھی ان کے جوابات پر ایسے ساکت و حیران ہوجاتا کہ وہ جو کہہ رہے ہیں، وہ ہوتا جارہا ہے جو کہ اک صاحبِ دیانت کا اعلی وصف ہے.صاحبِ دیانت کے پاس کن کی کنجی اور مامتا جیسی تخلیقیت ہوتی ہے.وہ نسل انسانی کی روح کو نئے سرے سے تخلیق کرتی ہے.بالکل ایسے ہی شاہ بابا نے مجھے نئے سرے سے تخلیق کیا .جیسا خدا کی مرضی تھی، ویسی صورت ڈھال دی. ویسا کمال دیدیا. 

ماں بچے کو نکھارتی،سنوارتی ہے. اس کی کمیاں، کجیاں یا کوتاہیاں ڈھانپتی ہے . وہ شاہ، وہ سید جس کی عرفیت رب تعالیٰ کے پاس لازوال ہے،  اپنے بچوں بالخصوص بچیوں کے لیے بڑا حساس تھا  اس کی ذمہ داری کا عکس اس بات میں جھلکتا تھا کہ وہ ماں بن کے،تربیت کرکے،مجاہدے سے بچوں کو بہتر بناتے ان سے واپسی کی تمنا سے بے نیاز تھا. مجھ سے جب بات ہوئی،  ربط بنا اور اس تعلق نے آگہی دی کہ وہ شخص دوستی کی رحمت برسا کر بھی بے نیاز ہے..

صاحب دیانت انسان،صاحبِ دیانت ہوتا ہے.ہر صاحب دیانت انسان کے پاس کُن فیکون کی کنجی ہوتی ہے. تخلیقت کا حامل شخص فرد واحد کیطرح امت کے لیے آسانیاں تخلیق کرتا ہے. شاہ بابا کو راقم نے آسانی بانٹتے پایا ہے. ان کے حرف و لفظ دعا سے خالی نہ ہوا کرتے اور جب ان سے بات کی جاتی رہی، ان کے دو لفظ صورت دستخط "بہت دعائیں" سکون کی ٹھنڈی چھاؤں بن جایا کرتے تھے... 

فقیر زمان و مکان کی قید میں نہیں رہتا بلکہ تمام زمانے ماضی و مستقبل کے قلب میں جمع ہوجاتے ہیں. فقیر حال میں رہتا کل وقت کو اپنی مٹھی میں بند رکھتا ہے.وقت کی قید میں تمام اذہان حقیقی کا مشاہدہ کرلیتا ہے...شاہ صاحب کی سنگت نور ایمان بھی وقت کو بھول جایا کرتی اور حال میں خوشی کا کیف پانے لگی. گویا ہفت اقلیم کی دولت اس کی گود میں سما گئی......

شاہ صاحب ایک پل میں شاہ،ایک پل میں گدا ..... جو ہاتھ میں ہوتا وہ سب بانٹ دیا کرتے.ہاتھ میں محض پیسے نہیں ہوتے بلکہ نور و علم و حسن اخلاق کی صورت... سخی بھی،غنی بھی .... صاحبِ عشق کو منصبِ شاہ و گدا عطا کردیا جاتا ہے.عشق ٹیلی پیتھک کنکشن ہوتا ہے. یہ روح جو روح سے جڑ جاتی ہے اور جوڑنے والا عشق کی تار لگا دیتا ہے. برقِ صمیم کی مانند...... برق ندیم بنتے    افقِ زعیم لیے ..... تحسین کی امید الیے.     صاحب عشق شاہ صاحب تھے مگر خود کو چھپا کے ایسا رکھا، کوئی جان نہ پائے،جو جان پائے وہ ٹھگ لیا جائے... دلوں کو ٹھگ جوڑ اللہ والی تار لگانے والے ....

نور ایمان کے بکھرے ٹکرے سمیٹ کے ایک صورت میں یکجا کردیے  ٹوٹا دل تو خدا جوڑتا،جو دل نہ ٹوٹے اور جوڑنے کی حاجت نہ ہو،خدا کا احساس کیسے. خدا اپنا اظہار نمائندہ و چنیدہ بندوں سے کرتا ہے.   شاہ صاحب اللہ کے چنیدہ بندوں سے تھے اور جانے کن کن کے سینے جوڑے.... ..

اوکھے پینڈے..... 
عشق کے سارے معاملات اوکھے پینڈے ہیں. دھیان کی فریکونسی ہوتی ہے. ہر دھیان والے کی فریکونسی ہوتی ہے. فریکونسی جیسے ہی لیول تک پہنچتی ہے انسان خدا سے جا ملتا ہے.ایک نگاہ شاہ صاحب کی دور بیٹھے بیٹھے اللہ سے جوڑے رکھتی تھی

 یہ داستان رگ رگ میں نشتر چبھو دے اور خنجر کو مزید خون نہ ملے. کشت و خون،فنا بقا اور زندگی و مرگ کا سلسلہ انسانی نفسیات پر مبنی زیادہ ہے. ایک موت جسم کی اور ایک موت نفس کی ہے.انسانی نفسیات کی موت اسکی فنا اور اثباتِ ایزد ہے.اثبات کا جلوہ تب ظاہر ہوتا ہے جب اکائی ہماری وحدت کو زیرو کرتی ہے.

منجمد خون کی دھار جیسے میرے نقوش، تقویم کی جھڑی میں ایک دیوانی جیسی آنکھ،شبیہ میں صورت یار میں ڈھلتی  یکسوئی کی خواہش،تڑپ میں لازوال چمک لیے اپنے من کی وادیوں میں ڈھونڈ رہی تھی کہ کَہاں ہے میرا رب؟ محبت کا نغمہ متحرک کرکے غائب ہوگیا مگر کیا ہُوا 

وہ نغمہ تجسیم ہوگیا صدیوں کے انتظار کے بعد میری منتظر آنکھوں کے نقوش کو خیرہ کرتے سید نایاب حُسین نقوی کی شکل میں ...... 

صوفیائی کیفیت تو ہر ایک روح میں پائی جاتی ہے جبکہ اولیائی کیفیت اسی صوفیائی کیفیت سے جنم لیتی ہے. شاہ صاحب میں دونوں خصائل بدرجہ اتم موجود تھے. وہ اپنی ولایت کا اظہار نہیں کرتے تھے مگر ولایت ظاہر ہوجاتی ہے بنا کسی دلیل کے اور مخاطب کو ششدر کردیتی ہے.راقم بھی ان کے جوابات پر ایسے ساکت و حیران ہوجاتا کہ وہ جو کہہ رہے ہیں، وہ ہوتا جارہا ہے جو کہ اک صاحبِ دیانت کا اعلی وصف ہے.صاحبِ دیانت کے پاس کن کی کنجی اور مامتا جیسی تخلیقیت ہوتی ہے.وہ نسل انسانی کی روح کو نئے سرے سے تخلیق کرتی ہے.بالکل ایسے ہی شاہ بابا نے مجھے نئے سرے سے تخلیق کیا .جیسا خدا کی مرضی تھی، ویسی صورت ڈھال دی. ویسا کمال دیدیا. 

ماں بچے کو نکھارتی،سنوارتی ہے. اس کی کمیاں، کجیاں یا کوتاہیاں ڈھانپتی ہے . وہ شاہ، وہ سید جس کی عرفیت رب تعالیٰ کے پاس لازوال ہے،  اپنے بچوں بالخصوص بچیوں کے لیے بڑا حساس تھا  اس کی ذمہ داری کا عکس اس بات میں جھلکتا تھا کہ وہ ماں بن کے،تربیت کرکے،مجاہدے سے بچوں کو بہتر بناتے ان سے واپسی کی تمنا سے بے نیاز تھا. مجھ سے جب بات ہوئی،  ربط بنا اور اس تعلق نے آگہی دی کہ وہ شخص دوستی کی رحمت برسا کر بھی بے نیاز ہے..

صاحب دیانت انسان،صاحبِ دیانت ہوتا ہے.ہر صاحب دیانت انسان کے پاس کُن فیکون کی کنجی ہوتی ہے. تخلیقت کا حامل شخص فرد واحد کیطرح امت کے لیے آسانیاں تخلیق کرتا ہے. شاہ بابا کو راقم نے آسانی بانٹتے پایا ہے. ان کے حرف و لفظ دعا سے خالی نہ ہوا کرتے اور جب ان سے بات کی جاتی رہی، ان کے دو لفظ صورت دستخط "بہت دعائیں" سکون کی ٹھنڈی چھاؤں بن جایا کرتے تھے... 

فقیر زمان و مکان کی قید میں نہیں رہتا بلکہ تمام زمانے ماضی و مستقبل کے قلب میں جمع ہوجاتے ہیں. فقیر حال میں رہتا کل وقت کو اپنی مٹھی میں بند رکھتا ہے.وقت کی قید میں تمام اذہان حقیقی کا مشاہدہ کرلیتا ہے...شاہ صاحب کی سنگت نور ایمان بھی وقت کو بھول جایا کرتی اور حال میں خوشی کا کیف پانے لگی. گویا ہفت اقلیم کی دولت اس کی گود میں سما گئی......

شاہ صاحب ایک پل میں شاہ،ایک پل میں گدا ..... جو ہاتھ میں ہوتا وہ سب بانٹ دیا کرتے.ہاتھ میں محض پیسے نہیں ہوتے بلکہ نور و علم و حسن اخلاق کی صورت... سخی بھی،غنی بھی .... صاحبِ عشق کو منصبِ شاہ و گدا عطا کردیا جاتا ہے.عشق ٹیلی پیتھک کنکشن ہوتا ہے. یہ روح جو روح سے جڑ جاتی ہے اور جوڑنے والا عشق کی تار لگا دیتا ہے. برقِ صمیم کی مانند...... برق ندیم بنتے    افقِ زعیم لیے ..... تحسین کی امید الیے.     صاحب عشق شاہ صاحب تھے مگر خود کو چھپا کے ایسا رکھا، کوئی جان نہ پائے،جو جان پائے وہ ٹھگ لیا جائے... دلوں کو ٹھگ جوڑ اللہ والی تار لگانے والے ....

نور ایمان کے بکھرے ٹکرے سمیٹ کے ایک صورت میں یکجا کردیے  ٹوٹا دل تو خدا جوڑتا،جو دل نہ ٹوٹے اور جوڑنے کی حاجت نہ ہو،خدا کا احساس کیسے. خدا اپنا اظہار نمائندہ و چنیدہ بندوں سے کرتا ہے.   شاہ صاحب اللہ کے چنیدہ بندوں سے تھے اور جانے کن کن کے سینے جوڑے.... ..

اوکھے پینڈے..... 
عشق کے سارے معاملات اوکھے پینڈے ہیں. دھیان کی فریکونسی ہوتی ہے. ہر دھیان والے کی فریکونسی ہوتی ہے. فریکونسی جیسے ہی لیول تک پہنچتی ہے انسان خدا سے جا ملتا ہے.ایک نگاہ شاہ صاحب کی دور بیٹھے بیٹھے اللہ سے جوڑے رکھتی تھی .... نگاہ والا مل جائے، بات بن جاتی ہے.    

پیار و محبت کا فلسفہ اس سادہ لوح شخص کا اتنا سا تھا:  اپنی ذات سے عشق سچا،باقی سب افسانے ...... یا خدا کے دیے گئے اختیارات سمجھانے کے لیے بس یہی جملہ بازگشت ہوتا: آزادی کے نام پر بہلائے گئے ہیں .....اتنا قیمتی انسان جو اپنا تن من مخلوق کے لیے وار دیتا ہے اور یہی ذات سے عشق سچا جس کو عمل سے نبھایا .. یہ شاعر نے انہی کے لیے کہا تھا

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

0 تبصرے: