جمعہ، 9 اپریل، 2021

تیسری ‏نشست: ‏اسفل ‏سافلین ‏

0 تبصرے
تیسری نشست:  اسفل سافلین 

یہ داستان میں نہیں لکھ رہی بلکہ شاہ صاحب نے یہ لوحِ دل پر ثبت کیا ہے اسکو. بظاہر میں سُنا رہی ہوں ہڈبیتی مگر صدا مجھ میں انہی کی ہے. زمان و مکان سے پرے یہ ساتھ، اس ساتھ کو قلم لکھ رہا ہے. 

بُلھے شاہ تو درون کی کشمکش سے بے نیاز ہوگئے اور فلاح پاگئے اور ان کا کلام دلوں میں سرائیت کیے لفظوں سے حرف میں ڈھلتے کبھی سوال، تو کبھی جواب بنتا رَہا ... پہلی نشست اور دوسری نشست کا حاصل "احساس زیاں " کی آگ تھی. اس آگ کو ایک تحریر نے بڑھا اور وہ تحریر "محمود غزنوی " صاحب کی عربی سے ترجمہ شدہ تحریر تھی اور ڈسکرپشن میں اس تحریر کا لنک موجود ہے!

احساس زیاں سے سلگتی، بلکتی روح نے حرفِ دل جانبِ قطبی مقناطیس رَکھ دِیا 

"میرا قطب نُما کھو گیا ہے ... 
کعبہ ء دل نے شرک سے زمین کو بنجر کردیا ہے 
ملحدانہ اطوار مرے 
پاتال میں گرا ہوا طائر ہوں میں 
میں "سفل "ہوں کیونکہ گہرائیاں مجھے پکار چکیں ہیں 
دوذخ کا ایندھن بَنا دل جانے کس اوور جانا چاہتا ہے
کس اوور...

دل سے صدا یہی سُنائی دیتی ہے 
تو سفل ہے 
تو سفل ہے 
تو سفل ہے 
ترا مقام تو پاتال کی گہرائی ہے کیونکہ تو نے ملٹن کے شیطان کی طرح، مارلو کے فاسٹس کی طرح خدا کو للکارا تھا اور فاسٹس کی طرح توبہ کا در بند دکھا. ہر جانب اندھیرا ہے 
چہار سو اندھیرا 
میرا وجود اور ہے احساسِ زیاں 

شاہ بابا:  ایسے کونسے گُناہ کر ڈالے جن کے سبب یہ گُمان ہُوا اور یہ کس وجہ سے گُمان کیا کہ خدا کی محبت پر اسکی قہاری و جباری غالب ہے

انسان چاہے جتنے گناہ کرڈالے،  اسکی محبت،  اسکی قہاری پر حاوی ہے. مایوسی تو کفر ہے بٹیا جی!  امید کے سائے یہ زندگی کی جنگ لڑتا ہے اور بامراد ٹھہرتا ہے

میں تو پڑھا لکھا نہیں ہوں بٹیا جی!
یہ بتائیے فاسٹس کون تھا اور کس وجہ سے راندہ درگاہ ٹھہرا

فاسٹس نے خدائی کو للکارا تھا گویا وہ خود خُدا سے زیادہ طاقتور ہے. شیطان سے آسائشاتِ زیست کے لیے معاہدہ کِیا .....

جب موت کا وقت قریب آیا تو اسے احساس ہوا کہ وہ تو اک حقیر ساذرہ ہے اور توبہ کرنا چاہتا تھا مگر بے یقینی نے اسے ایسا کرنے نہیں دیا

شاہ بابا:  آپ نے خدا کو للکارا مگر اس نے کبھی آپ پر نعمتوں کی بے بہا بارش کم کی؟ اس نے کبھی اپنا نام لینے سے روکا؟ مشکل میں کس کو پُکارا آپ نے؟
یقینا اللہ کو.
پتر!  یاد رکھ!  یہ ہم سوچتے رہتے ہیں کہ ہم اس سے بُرا کریں گے تو وہ بھی جوابا بُرا کرے گا!
سنیں!
دھیان سے ...
خُدا انسان نہیں، انسان کے اعمال سے بے نیاز ہے اور محبت دینے میں اتنا کریم ہے کہ رحمت للعالمین کو ہمارے پاس بھیجا اور ان کی محبت کی شمع دل میں جلائی

میں نے خدا سے شکوہ کیا 
کیوں پیدا کیا؟
پیدا ہونا بھی جُرم تھا کیا ...!
نواز دیتے ہو اچھوں کو 
بُروں کے دنیا میں گِرا دیتے ہو 
پاؤں کی ٹھوکر بَنایا مجھے 
تو سُنو 
اب تم کو نَہیں مانوں گی 
تم ہوتے تو، تو ایسا، ویسا ہوتا میرے ساتھ؟
یہ وقت جو بے رحم ہے، یہی تم ہو تو 
میں تمھارے ہونے سے انکار کرتی ہوں 
نَہیں ہو!
ہاں، نَہیں ہو 
تم.اگر ہو تو فقط تباہی لانے والے عظیم خُدا ہو
پھر تم کو کیونکر مانا جائے

اسکو یہ انکار اچھا کَہاں لَگا تھا اور دل سے یہ صدا کسی موذن کی تلاوت جیسے اُبھرتی رہی 
پاتال کی گہرائی ترا مقدر ہے

شاہ بابا:  آپ کو پَتا ہے کہ آپ کا مسئلہ کیا ہے؟
خدا جب کسی کو اپنے پاس بُلاتا ہے یا قرب عطا کرتا ہے تو اس سے آدم کی طرح گنہ کراتا ہے 
گریہ .... گریہ ... گریہ ..
ہاں!  یہ گریہ ہی تو ہے جو بندے کو عبدیت کا احساس دلاتا ہے 
یاد رکھیے!
انسانی روح کے سفر کا آغاز جناب آدم علیہ سلام سے شُروع ہوتا ہے! جب وہ ممنوعہ شجر کا ذائقہ چکھتا ہے اور آپ نے بھی چکھا اس لیے اب آپکو لگ رہا ہے آپ پاتال کی گہرائیوں میں ہیں!  درحقیقت ایسا نَہیں ہے!  آپ سے اللہ کس قدر پیار کرتا ہے،  آپکو اسکا اندازہ تلک نہیں ہے!

میں دم بَخود ممنوعہ شجر کی اس جَہت پر سوچ رَہی تھی اور احساس ہورہا تھا کہ انکار و اقرار سے پرے خَدا موجود ہے . انسان انکار کرے گا تو احساس ہوگا اقرار و تسلیم کتنی بَڑی نعمت ہے 

"بابا --- ممنوعہ شجر تو قران پاک میں کچھ اور بات بَتاتا ہے "

شاہ بابا: ہر انسان کا صحیفہِ دل الگ ہے اور یہ صحیفہ اسکے لیے اسکا قران ہے. اسے پڑھنا ضروری ہے

اپنا صحیفہ کیا ہوتا ہے؟
کیا دل کاغذ ہوتا ہے؟
کیا دل میں کاغذات کا انبار ہوتا ہے؟
اور اسکو پڑھا کیسے جاسکتا ہے؟

شاہ بابا:  سُن بٹیا میری! 
دل کے مصحف کو پڑھنے کے لیے اُس قران پاک کو پڑھیں، جو صدیوں قبل رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ مبارک پر نازل ہوا

"بابا!  دل کے مصحف کے پڑھنا کیوں ضروری ہے؟
دل کے مصحف کا قران پاک سے کیا رشتہ ہے 

شاہ بابا نے محبت بھری نگاہ ڈالی

بولے 
"بٹیا جی!  
کسی بند کمرے کو کِس سے کھولا جاتا ہے؟
آپ کہیں گی، چابی سے 
قران کریم ایسی چابی ہے جس سے سینہ ایسا کھلتا ہے کہ عرش تلک رسائی ہوجاتی ہے. اک مقام پھر ایسا آتا ہے کہ نہاں عیاں ہوجاتا ہے

یہ الفاظ تھے یا نور کا صندوق جو سینہ میں ایسے دکھنے لگا، 
مقفل صندوق 
مقفل ہے 
قفل کیسے کھلے گا

بدھ، 31 مارچ، 2021

اقوال مرشد

0 تبصرے










 

ہفتہ، 27 مارچ، 2021

قولِ ‏مرشدی ‏

0 تبصرے

جمعہ، 26 مارچ، 2021

درودِ ‏اویسیہ

0 تبصرے

جمعرات، 4 مارچ، 2021

video of Irshadat

0 تبصرے

بدھ، 3 مارچ، 2021

پیر، 1 مارچ، 2021

سچ ‏

0 تبصرے

فرض ‏

0 تبصرے

حجاب

0 تبصرے

محویت

0 تبصرے

جمعرات، 25 فروری، 2021

دل ‏جواب ‏دیتا ‏ہے ‏

0 تبصرے

شہ ‏رگ ‏

0 تبصرے

اتوار، 21 فروری، 2021

بدھ، 17 فروری، 2021

شاہ ‏صاحب

0 تبصرے
اردو محفل سے بہت سے لوگ سید نایاب حسین شاہ کو جانتے ہیں. یہ بات سوال ہے ان میں ایسا کیا تھا؟  میری جب ان کے وصال بعد ان کے گھر بات ہُوئی تو وہ بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ کون ہیں ...  یہ تو لکھا ہے کہ انہوں نے تلاش و کھوج بچپن سے شُروع کی. یہ کھوج نیلے پیلے جادو / چلے / وظائف والے لوگوں سے مجاذیب کے پاس لے گئی ـ یہ بھی وہ لکھ گئے کہ دس سال سے چودہ سال کی عمر میں اکیلے قبرستانوں میں گزارا کرتے تھے ...  قبرستانوں میں غلط/ صیحح چلے ..  پھر کمسنی میں ان کو رستہ مل گیا اور مجاذیب کی محافل میں بیٹھنے لگے 

اک انٹرویو میں لکھا انہوں نے 
کسی مجذوب نے کہا 
اٹھ نشئیا!  کیوں بزرگاں نوں بدنام کرنا ایں 
مجھ پر یہ عقدہ چند ہفتے قبل کھلا کہ نشے سے مراد کیا تھی. بزرگ تو کہتے کہ نشہ اسطرح کرو کہ ہوش سلامت رہیں ... جیسے جگر مراد آبادی کہتے 

یہ ہے میکدہ  یہ ہے میکدہ 
یہاں سب کا ساقی امام ہے

ان کی زندگی نو / دس سال کی عمر سے پچپن سال کی عمر تک انتہائی پرپیچ گزری.  میں نے جب پہلی مرتبہ ان سے بات کی تو میں نے اپنے گھر میں ان کو موجود پایا    میں بہت ڈر گئی تھی کہ یہ کیا ہُوا --- پھر یہ عقدہ بعد میں کھلا  کہ ماجرا کیا تھا .... میں نے ان چار سالوں میں ان کی تصویر دیکھی نہیں تھی کیونکہ محبت میں تقدس کی قائل رہی  جب بات روح کی ہو تو روح سے بات بنے. اک تصویر مجھے کسی نے وصال کے بعد دی ... 

میں پہلی دفعہ اس لیے ان سے الجھی تھی کہ آپ میرے گھر کیسے آگئے ... مجھے ان رمزیہ باتوں / تصوف کی بات کی خبر نہیں تھی. اسی طرح باتوں پر اکثر میں غصہ کرجاتی کیونکہ بتانے والے نے اپنا آپ راز رکھا تھا اور میں نے اسکو بہت عام جانا تھا ..   میری کسی بات پر غصہ نہیں کیا. اکثر مجذوب صفت اویسیت کے حامل بزرگ گالی دے دیتے ہیں کہ مجذوب پر شرعی احکامات کی بات الگ سے لاگو ہوتی ہے بس وہ اللہ کا محبوب ہوتا ہے ... کبھی سخت لفظ تک نہیں سنا ان سے.... جلال کے بجائے جمال کے زیر سایہ رہنے والے نے مجھ کو  رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے قریب کردیا. ان کے باطن کی حقیقت مجھ پر عیاں ہوئی ... دنیا پر عیاں نہیں ہوئی ... اس کی وجہ مجھے علم نہیں ہے کہ قدرت نے ان کو مجھ تک بھیجا ہے ... 

پاکستان میں جگہ جگہ خانقاہوں میں جاتے رہے مگر جہاں بیعت کے لیے جاتے وہاں ان کو بیعت نہیں کیا جاتا ..  بلکہ کہا جاتا تھا جس کا ربط پہلے سے ہو ہم اسکو کیا بیعت کریں ... 

ان کی قدرت نے باطنی نظام میں اک ڈیوٹی لگارکھی تھی:  جہاں دکھی بیٹی دکھتی وہ اس کی مدد کرتے تھے مال کے ذریعے / شادی کراکے یا اس کا خود انحصاری کی جانب لاتے. ان کی یہ ڈیوٹی بھی دس سال کی عمر سے شروع ہوئ ... باطن کا یہ سفر جو دس سال کی عمر میں شروع ہوا،  اس کی حقیقت والد کی خدمت سے پائی ...  

زندگی ان کی بہت آزاد گزری ... قلندر کی مانند آزادانہ اک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنا ان کے لیے بہت آسان تھا مگر پھر بھی کہا کرتے آزادی کے نام پر بہلائے گئے ہیں ...جو تصوف کا کتابی عمل تھا میں نے ان سے پایا ہے جو پایا ہے کہ تصوف تو اصل میں انسانیت ہے ... 

کسی کی تحریر سے باطن تلک پہنچ جاتے تھے. میں بہت حیران ہوتی تھی. یہ راز بعد میں کھلا کہ لفظ بھی سینے سے نکلتے ہیں. منبع تک پہنچنا کہاں مشکل ہوتا ہے ... 

یہ بھی سچ ہے کہ میں نے اک خواب دیکھا تھا سالوں پہلے. وہ اسکی تعبیر بن کے آئے. خوابوں کے حوالے سے میں اس قدر حقیقت پر مبنی باتیں کہاں مان سکتی تھی مگر اللہ جو چاہتا ہے وہ ہوجاتا ہے.

سچ تو یہ ہے کہ میں نے زندگی میں اس رخ کے آنے بارے سوچا ہی نہیں تھا مگر خدا کا منصوبہ تو اور تھا. وہ اکثر باتوں کو پڑھ لیا کرتے کہ سینے میں فرمایا کرتے سب کچھ ہے یہیں سے سب امر پڑھے جا سکتے ہیں ... 
اس لیے اکثر لوگوں کو  جو بتا دیے کرتے وہ سچ ثابت ہوجاتا تھا...میں نے یہ بھی کبھی نہیں سوچا تھا کہ میرا قلم ان کا ذکر کرے گا مگر وہ یہ کہہ گئے تھے  اس لیے انسان بدل جاتا ہے  میں نے ان کا ذکر کیا اپنی فطرت سے ہٹ کے. اصل میں چہرے چہرے میں روپ ہوتا ہے. بس روح پر روپ نقش ہوجاتا ہے. جب نقش یار دکھتا ہے روح ذاکر ہو جاتی ہے. یہ بات انسان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ کچھ کرے بلکہ یہ تو اللہ ہے وہ کہتا ہے کن اور ہو جاتا ہے...

قلب میں روح منتقل ہوجاتی ہے پھر انسان اپنا آپ کیسے ڈھونڈے؟ بس وہ گم ہوجاتا ہے او ذات بیٹھ جاتی ہے شمع کے گرد پروانہ گھومتا رہتا ہے جب تک فنا نہ ہو جائے 

ہاں .....
کچھ ایسی کشش ہے 
فنا ہوجا 
دل میں شمع جل اٹھے 
تو پروانہ تحریک میں آجاتا ہے 
اور بس کیا بچ جاتا ہے؟  
اب کوئ آئنہ ہو جس میں آنکھ والے کا نقش جا بجا دیکھا جائے  دوئی رہے نا بلکہ کثرت میں وحدت رہے .... 


جمعہ، 1 جنوری، 2021

اٹ ‏کھڑکے ‏،ٹکر ‏پکے

0 تبصرے
اِٹّ کَھڑَکّے، ٹُکر پّکے،
تتّا ہووے چُلّھا
آن فِقیر تے کھا کھا جاوَن،
راضِی ہووے بُلّھا

جِس تن لگیّا عشق کمال
ناچے بے سُر، تے بے تال
درد مند نوں کوئ نہ چھیڑے
جس نے آپے دُکھ سہیڑے
جمنا جیونا مُول اُکھیڑے
بُوجھے اپنا آپ خیال
جِس تن لگیّا عشق کمال
ناچے بے سُر، تے بے تال

جِس نے ویس عشق دا کیتا
دُھر درباروں فتوٰے لیتا
جدُوں حضُوروں پیالہ پیتا
کُجھ نہ رہیا جواب سوال
جِس تن لگیّا عشق کمال
ناچے بے سُر، تے بے تال

جِس دے اندر وسّیا یار
اُٹّھیا یار و یار پُکار
نہ اوہ چاہے راگ نہ تار
اینویں بیٹھا، کھیڈے حال
جِس تن لگیّا عشق کمال
ناچے بے سُر، تے بے تال

بُلّھیا! شَوہ نگر سچ پایا
جھُوٹھا رولا سبّھ مُکایا
سچّیاں کارن سچّ سُنایا
پایا اُس دا پاک جمال
جِس تن لگیّا عشق کمال
ناچے بے سُر، تے بے تال
بابا بُلھے شاہ رح

نشست ‏نمبر ‏۲

0 تبصرے
کالا رنگ اور سفید رنگ 
کالا رنگ لاعلمی کی نشاندہی کرتا میرے نزدیک 
مرشد جی کے نزدیک یہ علم کی انتہا کو شو کرتا 
یہ سائنس کی عام سی مثال سے واضح کیا گیا ہے 
سفید رنگ ذات کا سفر کی نشاندہی کرتا ہے 
کالا رنگ اک طرح سے ذات سے دوری کا مظہر 
مگر میرے استاد کے نزدیک یہ انتہائے قربت

نشست نمبر ۲ 

 پہلی ملاقات بُہت عجیب تھی. سچ تو یہ ہے اس ملاقات کے حصار سے میں نکل نہیں سکی تھی. میں trance کے دائرے میں داخل ہوچکی تھی مگر یہ تو  اس trance کی ابتدا تھی. درون کی کیفیات میرے لیے تو نئی تھیں اور نَیا بس باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے ... یہیں سے میرے دِل میں سوال جَنم لینے لگے.. 

میں کون ہوں .....؟
میں اِس دُنیا میں کیوں آئی؟
میں نے مقصدِ حیات کیوں نَہیں پایا؟
 زندگی جینے کا مقصد کیا ہے!  

 اِن سوالوں کی کھوج مجھے "شاہ بابا " کے در پر لے گئی ... یہی سوالات ان کے سامنے رکھ دِیے ... 

شاہ بابا:  ہر حساس روح انہی سوالات سے گزرتی ہے ....انہی جوابات کی جستجو و لگن اسے بامراد کرتی ہے 

آپ اس دنیا میں کیا کرنے آئی ہیں،  یہ سوال آپ اپنے دِل سے پوچھیے ... "

"دِل،  دِل سے بس ابھی ابھی یہی صدا آئی ہے کہ "ترا تو رنگ کالا ہے،  تو کیا کرے گی دنیا میں " 

شاہ بابا:  کالے رنگ سے کیا مراد ہے آپکی؟ 

"فزکس کا اک اصول ہے جب سارے رنگ کسی object سے نکال لیے جائیں تو پیچھے اندھیرا بچتا ہے ... میں نے جذبات کے،  احساسات کے، محبتوں کے اور خواہشات کے رنگ نکال دِیے ہیں ...اب دِل میں کچھ نَہیں بَچا ماسِوا "خلا " کے ... یہی کالا رنگ ہے ... " 

شاہ بابا:  فزکس تو یہ کہتی ہے جب primary رنگ ملا دیے جائیں تو وہ جذب ہوتے کالا رنگ بناتے ہیں ... آپ نے کہاں سے پڑھا ہے یہ سب؟  کبھی آپ نے جبل النور کے پہاڑ دیکھے ہیں؟  وہ کالے ہوئے جاتے ہیں... غور سے دیکھیں ہم جب انہیں دیکھیں  تو یہی بات آشکار ہوتی ہے کہ روشنی و  انوارات کی حدت زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ سرمئی مائل سیاہ دکھائی دیتے ہیں  ...،  

شفاف روحیں انہی گمانوں میں الجھ کے راہ کھوٹی کرتی ہیں 
وہ راہ جو انسانیت کی راہ ہے
وہ راہ جس میں درد لیا جاتا ہے 
درد ہی آشنا کے پاس لیجاتا ہے  ....!

شاہ بابا نے رسمی تعلیم حاصل نہیں کی تھی. ان کا بچپن کھوج، جستجو اور خدا کو پانے کی لگن میں گزرا تھا. میں دل ہی دل میں ان کی فراست کی قائل ہوئے بنا نَہیں رہ سکی ....

 " فزکس یہ بھی کہتی ہے کہ روشنی کی absence سے اندھیرا بنتا ہے،  اندھیرے کا رنگ کالا ہے ... پھر میں دل کو نہ سنوں،  جو کہتا ہے "ترا تو رنگ کالا ہے " 

شاہ بابا:  دل کیوں کہتا ہے ایسا، دل کی مکمل سنا کیجیے !  

" دل کہتا ہے خواہشات کی نفی کرنی ہے...،مجھے خواہش کے ہونے نے جلا دیا ہے ....اب خواہشات کا نہ ہونا مری زندگی کی وہ عبارت ہے جس پر چلنا فریضہِ اولین میرا "

شاہ بابا:  زندگی رواں دواں خواہشات کے ہونے سے ہے ... 
آپ نے غلط تار چُنی تھی، کنکشن اس لیے جڑ نہیں سکا... 
اب آپ نے سمجھ لیا ہے زندگی ختم ... زندگی بہت لمبی ہے اور زندگی کی جنگ یقین، حوصلے اور ہمت سے لڑتی جائیں .. 

" میں نے زندہ رہ کر کرنا کیا ہے؟  اس لیے تو پوچھا ہے کہ مقصدِ حیات کیا ہے میرا؟  "

اِس بات کے آگے اَن کَہی خاموشی نے پہرا لگانا شُروع کردِیا .. دل کی گہرائیوں سے سیپ سطحِ آب پر تیرنے لگے. موجِ رفتہ و فردا مدھم ہوتے معدوم ہونے لگیں.  ساحل سمندر پر لہروں کا شور تھم گیا .. رازداں کے راز کھلنے لگے تھے... ہُوا یوں  کہ شاہ بابا کے دِل سے نکلی روشنی کی شعاعوں نے میرا کالا رنگ دھونا شُروع کردیا ... میری ذہنی رو،  خیالات کی رو، اُن کے خیالات کی برقی رو سے ملنے لگی ... مجھے لگنے لگا اندھیرے میں ذات روشن ہے. دِل میں خواہش بیدار ہوئی جس ذات کے "ہونے " کی رمق ملی ہے میں اس پاک ذات کو سجدہ کروں ... 

" مجھے اپنے من میں ذات کا جلوہ ملا ہے،
بتائیے کہ کیسے سجدہ کروں؟
میں خود سے نکل نہیں سکتی تو سجدہ کیسے ادا ہو؟ 

ابھی جمال میں محو ۔۔۔!!!

ابھی اشکوں نے شرر بار کردیا ! ابھی ندامت میں سر جھک گیا ! ابھی حلاوت نے فرحت ختم کردی ! ابھی رموز و آداب سے واقف نہیں ہوں۔ اس لیے اپنے آپ میں محو ہوں ۔ ابھی سجدہ کیا ! سجدہ کیا کہ معبود کا سجدہ عین العین ہے ۔۔۔ ابھی گُناہوں کی معاف مانگی ۔! انسان سمجھتا نہیں ہے کہ انسان جمال کا طالب ہے ، حسن کا مشتاق ہے اور کچے گھڑے پر بھروسہ ہوتا . حاصل ِ ذات اگر کامل ذات نہ ہو تو فائدہ ؟"

شاہ بابا خاموش تھے اور خاموشی کی ہزار زبانیں ہوتی ہے .. میں تو خوابیدہ کیفیت میں ان کے پاس تھی مگر مجھے خواب میں خواب دکھنے لگا ... شاہ بابا کے سامنے بظاہر مگر وہیں بیٹھے بیٹھے میں کسی اور جہان میں پہنچ گئی. جہاں سے انجانی آواز دور پرے سے آتی محسوس ہوئی ..

"نور کو کالے کپڑے کی ضرورت نَہیں،  رنگوں کا نفی اثبات چلتا رہے گا ... "

میں جس جہان میں تھی وہاں سے آواز اس بات کے جواب میں آتی محسوس ہوئی ... شاید میری اپنی ہی آواز تھی

"تم کون ہو؟  "

وہی الوہی سی آواز پھر سنائی دینے لگی 

"میں کالا رنگ ہوں،رنگینیاں ڈھانپے ہوئے ہُوں .... "
یہ کس ذات نے "کالے رنگ " کی آواز کو جواب دِیا تھا، میں انجان تھی... 

" کالا رنگ تو روشنی کا حجاب ہے "  

کالارنگ: میری حیثیت کیا ہے پھر؟ کیا نسبت تم سے؟ 

 آواز کسی دور اجنبی کنواں سے، ناشناس آواز کی صورت مجھ پر وارد ہوئی! 

"وہی جو "معلوم " سے پہلے کسی شخص کو ہوتی ہے "


یہ مکالمہ جاری رَہا مگر حکمت کی فصیلیں پھلانگ گیا، آگہی کے دَر وا کرتا رَہا.  میں جب multi-layered خواب سے واپس آئی، کچھ نہ بَچا تھا ...کالا رنگ خواہشات کی نفی کا رنگ ہوتا ہے، یہ فلسفہ بَدل چُکا تھا.  اب کالے رنگ کے نَئے فلسفے نے جگہ لے لی تھی، زندگی کا یہ رُخ بہت عجیب، بہت نَیا تھا .بیخودی کا جام ملا تھا اور اس نے مست مدام کر رکھا تھا...

گزشتہ قسط کا ربط:

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2812323092428906&id=100009537288172

نشست ‏نمبر۱

0 تبصرے
نشست  اوّل:
بابا سے پہلی ملاقات سے اخیر تک ، انٹرنیٹ اک میڈیم رہا ۔ میری ان سے ذاتی طور پر ملاقات کبھی نہیں ہوئی مگر روح کو کب   کسی میڈیم کی طلب ہوتی ہے ... یوں تو میرا  ان سے کبھی وٹس ایپ ، کبھی فیس بک پر ، کبھی کسی اور میسنجر پر سلسلہ گفتگو  رہا ۔"انٹر۔نیٹ"   تو بس اک واسطہ/medium تھا، اس واسطے نے پہلی ملاقات کا ذریعہ بننا تھا ۔ Intranet بننے کے لیے۔ وگرنہ یہ ازل کا ساتھ کسی واسطے کا محتاج نہ تھا ، نہ ہے  اور نہ رہے گا۔ روحوں کے سنگم ، تال میل  اور کیمسٹری کو سمجھنا کسی رابطے کی سائیٹ کے لیے ممکن نہیں ہے ۔

اج دی گل نئی رانجھن یارا 
میں ازلوں تیرے نال منگی آں !!!

 میری شاہ بابا سے چند نشستیں اس پہلی  'باقاعدہ'  نشست سے قبل بھی رہیں تھیں،  اس پہلی نشست کو پہلی کہنے کی وجہ یہی ہے کہ یہ نشست  خود میری اپنی ''دعا '' کا ثمر تھی۔  رب بندوں کی سنتا ہے اور شاید وہ درد بھی اس لیے عطا کرتا ہے.  جب میرا پیمانہِ دل درد سے بھرپور ہوا تب شدت ِ دردنے مجھے تھام کے خدا کے حضور کردیا اور میں نے اس کے قدموں میں بیٹھ کے مناجات کیں تھیں ....

یا خدا .. 
اب بس کردے 
کوئی تو  مسیحا ساتھ کردے 
دُکھاں توں  ہاری آں مولا
کوئی تے  ہووئے، جیہڑا دل دے قفل کھولے 
سن لے تو سوہنیا،
تُو  نہ سُنی تے فیر  مولا کس  نے سننا! 

مسیحا تو وہ  سیاہی چوس ہوتا ہے جو سارے دُکھ جذب لے. ذہنی الجھنیں اس قدر زیادہ تھیں کہ سوچ کے سب دھاگے  بار بار الجھ  کر رہ جاتے.
یہ دُعا  ماہِ مبارک کی طاق رات کو رو رو کے مانگی تھی. یقیناً اُس رمضان المبارک کی طاق رات  کی گھڑیوں نے مجھے مبارک کردیا وگرنہ میں کہاں؟ کیا  میری اوقات تھی ایسی؟ 
نہیں ..! نہیں ..! نہیں ..! 
میری اوقات ہرگز نہیں تھی مگر اس لج پال  نے لاج رکھ لی!

جس رات میں نے دُعا مانگی،  اسی رات "message " کی آواز گڑگڑاہٹ و شدت  نے سُن لی اور موبائل کے اس میسج میں کشش نے پردہ چاک کیا ...! 

خدا ہے 
ازل سے ساتھ ہے 
احساس بھی ہے 
پہچان نہیں ہے 
وہ اپنے نمائندوں کو بھیجتا ہے 
ہمیں احساس تک ہونے نہیں دیتا کس نمائندے سے ہمیں کیا ملے گا 
یہ بندے جو ہمیں چلتے پھرتے کچھ دے جاتے ہیں، یہ اس کے نمائندے تو ہوتے ہیں 
کچھ پیامبر ہوتے ہیں 
کچھ رسول ہوتے ہیں 
نہ یہ ظاہر کرتے ہیں، نہ خدا ظاہر کرتا ہے ... پردہ رہتا ہے

بابا کا میسج چَمک رَہا تھا، محبت چَمک رہی تھی اور روشنی نے بابا کو سامنے مجسم کردیا. بظاہر میں میسج پڑھ رہی تھی مگر میں ان کو دیکھ رہی تھی گویا یہ روبرو ملاقات کے جیسی تھی.   یہ ان کا کوئی کمال تھا  جسے مجھ جیسے کم فہم لوگ سمجھ نہیں سکتے یا سمجھ بہت دیر سے آتی ہے. 

مجھے ان کی آواز سنائی دی اور وہ صدا یوں تحریر تھی.

"محبت کسی سے سرِ راہ یونہی نَہیں ہوجاتی ... اُس کاتبِ اول نے ساتھ لکھا ہوتا ہے .. آشنائی کے اس لمحے کو شناسائی میں کب بدلنا ہے، وہ بھی رقم ہے...!  میرے پاس آپ کی امانت ہے اور وہ لوٹانے آیا ہوں ...! "

میں حیرت زدہ ...!
ابھی تو میں سراپا اشک کناں تھی ..، 
اب سراپا حیرت!
دل نے سوال تب کیا تھا یہ کون ہیں؟

میں نے جراَت  نہ کی پوچھنے کی ...،  یہ تو مقام ادب تھا  ...، بے ادبی کیسے کرتی. .. !  ابھی  ہی تو میں نے ان کو دیکھا  تھا،  میرے اندر سکون و محبت کا احساس ہلکورے لینے لگا اور اشک تھم گئے ..میں حیرت میں گُم ہوگئی اک معصوم بچے کی طرح ...! یہ ملاقات کسی ایسے کمرے میں تھی جہاں سامانِ زیست نَہیں تھا.  فرشی نشستیں تھیں .. سامنے شاہ بابا تھے، وہاں ہر منظر دھواں دھواں اور خوشبو گلاب کی پھیلی ہوئی تھی .. . میں بابا کے سامنے سیاہ چادر اوڑھے بیٹھی تھی اور وہ سفید لباس میں روشنی کا مرکز بنے تھے،  میں نے سوال کیا ... 

" کیا واقعی محبت ایسے ہوجاتی ہے؟  آپ نے تو مجھے دیکھا بھی نَہیں،  مجھ سے بات تک نَہیں کی ...! 

 بابا نے مسکرا کے مجھے دیکھا اور سمجھاتے کہنے لگے 

" پتر،  روح کو جاننے کے لیے کِسی مادے واسطے کی ضرورت نَہیں ہوتی ہے .. محبت کا جذبہ ازل سے دِل کی کائنات بَنا ہے اور ایک جیسی کشش والی ارواح کو یہ  پہچان ہوجاتی ہے ... یہ کشش / محبت "پہچان " ہی ہے ... "

وہ صیحح کہتے تھے کہ ایک جیسی ارواح کشش سے  بچ نہیں سکتی تھی. میں نے اپنے دِل میں اس قدر کشش محسوس کی کہ دِل تھامنا پڑا. میں نے دل میں جاری جنگ صورتِ سوال اُنکے سامنے رکھدی

" بابا...!
یہ امانت کیا ہوتی ہے؟  
میں نے کبھی آپ کو کچھ نَہیں دیا ...!  
میں تو آپ کو جانتی تک نَہیں ...! 
پھر آپ نے کیا لوٹانا ہے؟  "

بابا اب  آنکھیں بند کیے بیٹھے تھے  اور ان کے قلب سے روشنی مجھے کچھ ایسی محسوس ہوئی کہ مجھے لگا یہ روشنی اک آنکھ کی سی صورت مجھ پر نِگاہ رَکھے ہوئے ہے ... 

"  امانت کے بارے میں اللہ نے قران پاک میں سورہ الحشر کی آخری آیات میں کیا خوب فرمایا ہے 

 
لَوْ أَنزَلْنَا هَٰذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ} سورة الحشر،

اگر یہ امانت (قران پاک)  کسی پہاڑ پر نازل فرماتا تو وہ اس کی ہیبت سے دب جاتا...  

اللہ کے ہاں "امانت " کا مطلب کچھ اور ہے . جس کو یہ امانت ملتی ہے اس پر لازم ہوتا ہے کہ اسکو سچے حقدار تک پُہنچائے ...  

میں مزید حیرت میں چلی گئی گویا ڈوب گئی اور کسی معصوم سے بچے کی مانند سوال کیا 

" آپ کو کیسے علم ہُوا،  میں حقدار ہوں؟  " 

شاہ بابا:  آپ کی تحریر سے ... ..! 
تحریر مجھ پر عیاں ہوتے "صورت " بَنا دیتی ہے 
یہ وہی صورت ہے،  جس کے بارے میں  یہ روایت مشہور ہے 

خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ

اسی صورت سے جہاں کو دیکھو تو ہر شے کی صورت   بہ رنگِ تجلیات و اسماء الہی منور ہو ہی جاتی ہے اور جاننے والا جان لیتا ہے جو اسے جاننا ہو ...

اس لیے خالق نے فرمایا ہے 
فثمہ وجہ اللہ 
جس جانب منہ پھیرو،  "میری" صورت/ میرا چہرہ ہے. یعنی کہ ہر جانب اس کی جلوہ گری ہے 

میں ہونق بنی یہ سب سن رہی تھی. مجھے اس کی سمجھ نہیں آئی تھی ... میں نے پوچھا 

"اچھا،  تو آپ کوئی روحانی بندے ہیں؟ "
شاہ بابا:  ہم سب روحانی ہیں، ہم سب روح لیے ہیں... 

" میری تحریر میں ایسی کیا بات ہے جس سے آپ کو اندازہ ہوا؟ مجھے تو خود اس کی خبر نہیں "
شاہ بابا:  اب تو میں بھول گیا وہ کونسی تحریر تھی. جب یاد آئے گا تو اس پر بات کروں گا 

میں ایسے بابا کی صدا کو آواز کی صورت میں سن رہی تھی جیسے بیٹھی تو میں ان کے قریب ہوں مگر آواز کسی دور کنواں سے آرہی ہوں .. وہ کنواں اس من مندر کی دنیا میں کہاں سے آگیا...!  دِل کی دنیا عجیب ہوتی ہے یہاں آواز کنواں تک لیجاتی ہے اور کنواں بے نام و نشان رہتا ہے. یہاں خوشبو آتی ہے،  کبھی گلاب تو کبھی موتیے تو کبھی کسی پھول کی. اس رنگ و بو کی دنیا کے نظارے میں اس کی کیا حکمت ہوتی ہے یہ رب جانے اور اس کا کام. میرے پاس تو کسی سوال کا جواب نہیں تھا. میں اتنی صراحت سے بیان کردہ گفتگو کو سن تو رہی تھی مگر ان الفاظ کی چاشنی کو ہی محسوس کر پائی تھی. مجھے اس وقت کچھ سَمجھ نَہیں آیا تھا ... شاید درون کی سمجھ اس نامعلوم دائرے کی جانب لیجاتی ہے جہاں پر اپنی ذات " نا معلوم " ہو جاتی ہے.  بقول شاعر: 

پتہ لگائے کوئی کیا میرے پتے کا پتہ
میرے پتے کا پتہ ہے کہ لاپتہ ہوں میں
(بیدم وارثی) 

میری پیاسی زمین کو محبت کے  " آب حیات" سے ایک قطرہ ملا تھا ،بارش کی وہ پہلی بوند تھی جو دل پر گری اور لگا  کہ دنیا جل تھل ہوگئی ۔۔۔

 بابا جانتے تھے وہ مجھ سے بات کیوں کر رہے ہیں ، انہیں کیوں مجھ تک بھیجا گیا ہے مگر میں نہیں جانتی تھی. مجھے الجھن محسوس ہوئی تھی بُہت زیادہ ..  میں رمضان المبارک کے روزے رکھتی تھی،  پورا سال قران پاک نہیں پڑھتی تھی مگر اس ماہ تو پڑھ لیا کرتی تھی بلکہ race لگاتی تھی .. اللہ سے race کہ دیکھو اس ماہ میں اتنے ختم کرلیے. دیکھ لو !  میں نے  کتنا  زیادہ پڑھ لیا ... نَماز تو ویسے قضا ہوجاتی تھی مگر ماہِ رمضان میں کبھی کوئی نماز قضا ہو جائے ... سب ملنے والوں کو فخر سے بتایا کرتی تھی کہ میں نے اتنے "ختم " کیے.  کبھی کبھی دل میں خلش سی جاگتی اور میں اس خلش کو سُلا دِیا کرتی تھی. مجھے دُنیا کی رنگینی بُہت پرلطف لگا کرتی تھی .... وہ مجھ سے امانت کی بات کر رہے تھے اور انسان کو خالق نے " ظلوما جھولا " کہا ہے. شاید میری یہی نادانی تھی جس کا مجھے علم نَہیں تھا جو پہلے سے جانتا ہو،  وہ بھاگ جاتا ہے. جو نادان ہو وہ اٹھالیتا ہے..

گزشتہ قسط کا ربط 

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2811409795853569&id=100009537288172'

میں ‏اور ‏شاہ ‏بابا ‏

0 تبصرے
اسے کہانی کہا جائے۔ آپ بیتی، تن بیتی، عشق بیتی یا تلاشِ حق کا سفر۔ میں خود اسے کچھ نام دینے سے قاصر ہوں اور اس کا فیصلہ پڑھنے والے پر چھوڑتی ہوں کہ وہ اس میں سے کیا اخذ کرتا ہے۔ میں اپنے طور دیکھوں تو شاید ابھی تک ان راہوں کو پورے سے نہیں اپنا سکی جیسا میرے مُرشد نے حکم دیا۔ لیکن کوشش مستقل جاری ہے اور ان کے حکم کے مطابق جاری ہی رہنی چاہئیے۔

ہاں کچھ امانتیں ہیں جو انہوں نے میرے سپُرد کیں کہ میرا مادی سفر ختم ہونے پر آپ حقداروں کو لوٹانا ہوں گی۔ یہ کاوش ہے مرشد پاک کے اس حکم کی تعمیل میں جس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ جتنا جلد ہوسکے آپ لوگ اپنی اپنی امانتیں وصول کیجئیے۔ جس کے لیے جو ہے اسے وہی سمجھ آئے گی کچھ نہ سمجھ آئے تو سمجھ لیجئیے وہ آپ کے لیے تھا ہی نہیں۔ جو سمجھ آئے بس اسے ہی تھام لیجئیے۔
ہم میں سے اکثر راہِ حق کے متلاشی کہتے ہیں کہ کاش مجھے مرشدِ کامل مل جائے۔ اس کے لیے وہ در در جھانکتے ہیں، ہر جگہ کی خاک چھانتے ہیں۔ کبھی کسی کے روحانی چھابڑے میں ہاتھ مارتے ہیں کبھی کہیں کی ونڈو شاپنگ کررہے ہوتے ہیں۔ کبھی کسی در کا نمک چکھ کر تھُو کردیتے ہیں کہ یہ تو کڑوا ہے یہ میرے ذائقے کا نہیں۔ یہ ایسا نہیں یہ ویسا نہیں۔ درحقیقت ایسا یا ویسا باہر کچھ نہیں ہوتا سب اپنے اندر ہوتا ہے۔ آپ طالبِ صادق بنیں اس عشق کی نگری میں کنواں خود چل کر پیاسے کے پاس آتا ہے۔

یہاں کنواں خود اپنے پیاسے کا پیاسا ہوتا ہے۔ ہاں کنویں کی بھی پیاس ہوتی ہے کہ آؤ اور مجھ سے پانی بھر بھر پیو سیر ہوجاؤ تاکہ میرے سینے کو بھی قرار مِلے۔

جیسے رومی نے راز افشا ہونے پر شمس سے کہا کہ مُجھے آپ کی تلاش تھی تو شمس نے کہاں میں تو خود کب سے تیری تلاش میں سرگرداں تھا کس در کی خاک نہیں چھانی۔ مگر اب تم مجھے مل گئے ہو۔ اب امانتیں لوٹانے کا وقت ھے۔

یہ کہانی بھی کچھ ایسے ہی چھُپے آبِ حیات کے چشمے کی ہے جو چل کر میرے پاس آگیا۔ میں سمجھی میں نے اسے ڈھونڈا یا وہ مل گیا لیکن اس نے مجھے ڈھونڈ نکالا۔ میری روحانی تشنگیاں اور کمیاں کجیاں دُور کیں۔ اور سب سے پہلے مجھے بتلایا کہ اصل مُرشد الرشید ہے۔ مقصد اگرراہِ ہدایت پانا ہے تو سچے طالب بن کر اس کے در پہ آؤ 

اگرراہِ ہدایت کے "متلاشی" ہو تو سچے طالب بن کر اس کے در پہ آؤ وہ تمہیں کسی راز آشنا کے حوالے کردے گا۔ راز آشنا کے قرب میں رہنا بھی راز آشنا ہونا ہی ہے۔ راز، راز میں ہی بھلے لگتے ہیں کھُل جائیں تو عذابِ آگہی کے سِوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

کہتے ہیں اللہ کی تلاش کسی اللہ والے کے در پر ہی لے جاتی ہے۔ اللہ کے گاہک کو 'مرد' کہا جاتا ہے۔ یہی مردانگی ہے اصل حق "الحق" کی تمنا اور اس پرقائم ہوجانا۔ جسمانی صنف اس میں حقیقت نہیں رکھتی۔

دَر دَر دی دُر دُر نالوں دُر بن جا اک دَر دا
صاحب معاف کرے تقصیراں تے رہ جاوے کُج پردا
اس پردے دا اوہ دَر ضامن جس دَر دا توں بَردا
بلھے شاہ جے پھریئے دَردَر فیر صاحب معاف نہ کردا

کسی ایک در پر اپنا آپ تیاگ دو۔ آوارہ نفس/جانور کے حصے لوگوں کا چھوڑا یا پھینکا گند مند ہی آتا ہے۔ جبکہ ایک کھونٹے سے بندھے ہوئے کو بڑے مان سے رکھا جاتا ہے۔ اس کے ہر دُکھ درد کی دوا کی جاتی ہے الغرض ہر طرح سے اس کا خیال رکھا جاتا ہے۔ وہ ہر وقت اپنے 'مالک' کی نظر اور دھیان میں ہوتا ہے۔ لہٰذا جہاں سکون ملے وہیں بیٹھ جاؤ وہیں کہیں اللہ ہے یا اللہ کی رحمت اُتر رہی ہے۔ کیونکہ  بابا کہتے ہیں سکون صرف اللہ میں ہے۔ جہاں اللہ ہے وہاں سکون اور جہاں سکون ہے وہاں اللہ۔ اب اللہ جہاں سے مِلے اس جگہ پہ ٹھوکر نہیں مارنی چاہے وہ کسی کنجری کا کوٹھا ہی کیوں نہ ہو۔ سب اس کو وارا کھاتا ہے تو تم کون ہو اس کی مخلوق اور ان کے اعمال تولنے والے۔
کُن والے کی مرضی ہے جہاں سے بھی بولے۔ کہیں سے بھی جھانکے کسی بھی رنگ میں دِکھے۔ یہ اس کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے معاملات میں مالکِ کُل ہے مختارِ کُل ہے۔
انٹرنیٹ جسے رابطوں کی دنیا کہا جاتا ہے۔ اک جہانِ حیرت جہاں نیکی بدی اچھائی برائی وقتی تعلقات ہر لمحہ جنم لیتے اور اپنی موت مررہے ہوتے ہیں۔ جہاں بہت سوں کو راہ مل رہی ہوتی ہے وہیں بہت سے 'گُم راہ' بھی ہورہے ہوتے ہیں۔ راہیں تو راہیں ہیں۔ راہ غلط نہیں ہوتی ہم غلط ہوتے ہیں۔

میں بھی پیاسی در در بھٹکتی اس جہانِ حیرت میں ڈوبتی اُبھرتی رہتی۔ اندر پارے کی مانند چھلکورے لیتی اک بے قراری تھی جو وقتاََ فوقتاََ لکھنے پر مجبوری کرتی رہتی اور میں قلم کے ذریعے اس درد کو اس رابطوں کی دنیا میں اسکرینوں پر پھیلا دیتی۔ لوگ واہ واہ کرتے سر دھُنتے مگر۔۔ اپنی یہ حالت تھی
" کیا حال سناواں دل دا
 کوئی محرم راز نہ مِلدا​"

اک روز مل ہی گیا۔۔
یونہی چلتے چلتے
ہاں چلتے چلتے یونہی کوئی مل گیا تھا۔۔ یونہی کوئی۔۔
پھر ایسا مِلا کبھی نہ جُدا ہونے کے لیے
اس نے تھام لیا ہمیشہ کے لیے
چلتی راہیں تھم گئیں
گردشِ دوراں کے نئے باب کھُلنے لگے۔۔ وہ تھا ہی ایسا 'نایاب''

ظالم نے دل کی دُنیا ہی لُوٹ لی۔ اب کہیں خاک کی چادر اوڑھے لیٹا ہے مگر ہر دھڑکن کے ساتھ میرے اندر بھی دھڑکتا ہے۔ واقعی 'فقیر' کو ٹھہراؤ نہیں اس کی ڈیوٹی چلتی ہی رہتی ہے۔ اللہ نے کچھ نفوس صرف اپنے لیے بنائے ہیں شاید وہ انہیں میں سے ایک میرے لیے "آبِ حیات" بن کر آیا اور "رموزِ حیات" سکھا کر پڑھا کر میرے اندر انڈیل کر بے نیازی سے آگے چل دیا۔

وہ نام کا ہی نہیں کردار کا بھی نایاب تھا۔ 'رب' نے اسے واقعی نایاب ہی بنایا تھا۔
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
وہ میرے لیے بھی 'نایاب' ثابت ہوا۔ وہ ایسا پارس پتھر تھا جس نے چھُو کر مُجھے کندن کردیا اور خود کو وہی پتھر کا پتھر کہتا رہا۔ نہیں میں پتھر ہوں تم کُندن ہو۔ مگر یہ کُندن تو اسی کے لمس کا مرہونِ منت ہے۔
مگر فقیر کہاں مانتا ہے۔
کورا کاغذ تھا یہ من میرا
لکھ دیا نام اس پہ تیرا

: نایاب۔۔ 'سید نایاب حسین نقوی' نام تھا ان کا
نام اور کردار کے سید۔۔ سید یعنی سردار، بادشاہ، سائیں۔۔ میرا روحانی سِر کا سائیں۔۔
میرے ماں باپ نے مجھے جنما اور عرش سے فرش پر لے آئے،،
اس نے مجھے پھر سے جنما اور فرش سے عرش کی راہ دِکھلا دی۔
میں تھا کیا مجھے کیا بنا دیا
مُجھے عشقِ احمدﷺعطا کیا
ہو بھلا حضورﷺکی آل کا
مُجھے جینا مرنا سِکھا دیا
کیا 'فقیر' ایسے بھی ہوتے ہیں؟

کیا 'بابے' انٹرنیٹ بھی استعمال کرتے ہیں؟
لیکن میں بے خبر یہ نہ جانتی تھی کہ وہ علمِ لدُنی سے مالا مال اور نوازے گئے ہوتے ہیں۔ کائنات کا ہر علم ان پر اپنے در وَا کیے ہوتا ہے اور کھُلی کتاب کی مانند خود کو ان کی خدمت میں پیش کیے رکھتا ہے۔

درحقیقت ان کا اپنا 'نیٹ ورک' اتنا سٹرونگ ہوتا ہے کہ وہ کسی ظاہری ڈیوائس کے محتاج نہیں ہوتے۔ وہ جو اصل 'موبائل فون' اور سیٹلائٹ انسان کے اپنے اندر نصب ہے وہ اس سے کام لیتے ہیں۔ مگر ہم جیسوں کے لیے انہیں ہماری سطح پر مجبوراََ آنا پڑتا ہے۔ میرے جیسی بے کار ڈیوائس کو 'ٹیون اپ' کرنے کے لیے۔

نہ جانے وہ کون سا لمحہ تھا جب اس نے درِ دل پر دستک دینے کے بجائے براہِ راست دل میں پھسکڑا مار لیا۔

وہ آیا۔۔
اس نے دیکھا۔۔!
اور فتح کر لیا۔۔۔!!!

اور دے تار 'اللہ' کے ساتھ جا جوڑی۔ ایسی جوڑی کہ دل و دماغ روشن ہوگئے۔ ہاں میں ایسی ہی اندھیر نگری میں ٹامک ٹوئی مارتی جی رہی تھی۔ اس 'لائن مین' نے آکر 'پیار کی کنڈی' ڈالی اور کنکشن جوڑ دیا۔
اس روشنی میں پھر مجھے اپنے حقیقی در و دیوار روشن نظرآنے لگے۔ گندگیاں، غلاظتیں کجیاں سب نظر آئیں تو شرمندہ ہوئی۔ مگر اس نے مجھے شرمندہ نہیں ہونے دیا بلکہ خود مل مل کہ ہر غلاظت دور کر دی۔
تب سے اب تک وہ بتی روشن ہے اس کے نام کی۔ اس نے میرے دل کی مسجد آباد کی اور اس میں اذان پھونکی۔

ابھی بھی وہ اس مسجد کا موذن ہے۔ جاروب کش ہے، متولی ہے، 'الیکٹریشن' ہے۔ کہ جب کبھی لَو ہلکی پڑنے لگے کرنٹ ختم ہونے لگی یا اسپارکنگ ہونے لگے یا بالکل ہی بجھنے کے قریب ہو تو فوری آگے بڑھ کر کنکشن پھر سے مضبوط کرکے تازہ دم کردیتا ہے۔