جمعہ، 1 جنوری، 2021

نشست ‏نمبر۱

0 تبصرے
نشست  اوّل:
بابا سے پہلی ملاقات سے اخیر تک ، انٹرنیٹ اک میڈیم رہا ۔ میری ان سے ذاتی طور پر ملاقات کبھی نہیں ہوئی مگر روح کو کب   کسی میڈیم کی طلب ہوتی ہے ... یوں تو میرا  ان سے کبھی وٹس ایپ ، کبھی فیس بک پر ، کبھی کسی اور میسنجر پر سلسلہ گفتگو  رہا ۔"انٹر۔نیٹ"   تو بس اک واسطہ/medium تھا، اس واسطے نے پہلی ملاقات کا ذریعہ بننا تھا ۔ Intranet بننے کے لیے۔ وگرنہ یہ ازل کا ساتھ کسی واسطے کا محتاج نہ تھا ، نہ ہے  اور نہ رہے گا۔ روحوں کے سنگم ، تال میل  اور کیمسٹری کو سمجھنا کسی رابطے کی سائیٹ کے لیے ممکن نہیں ہے ۔

اج دی گل نئی رانجھن یارا 
میں ازلوں تیرے نال منگی آں !!!

 میری شاہ بابا سے چند نشستیں اس پہلی  'باقاعدہ'  نشست سے قبل بھی رہیں تھیں،  اس پہلی نشست کو پہلی کہنے کی وجہ یہی ہے کہ یہ نشست  خود میری اپنی ''دعا '' کا ثمر تھی۔  رب بندوں کی سنتا ہے اور شاید وہ درد بھی اس لیے عطا کرتا ہے.  جب میرا پیمانہِ دل درد سے بھرپور ہوا تب شدت ِ دردنے مجھے تھام کے خدا کے حضور کردیا اور میں نے اس کے قدموں میں بیٹھ کے مناجات کیں تھیں ....

یا خدا .. 
اب بس کردے 
کوئی تو  مسیحا ساتھ کردے 
دُکھاں توں  ہاری آں مولا
کوئی تے  ہووئے، جیہڑا دل دے قفل کھولے 
سن لے تو سوہنیا،
تُو  نہ سُنی تے فیر  مولا کس  نے سننا! 

مسیحا تو وہ  سیاہی چوس ہوتا ہے جو سارے دُکھ جذب لے. ذہنی الجھنیں اس قدر زیادہ تھیں کہ سوچ کے سب دھاگے  بار بار الجھ  کر رہ جاتے.
یہ دُعا  ماہِ مبارک کی طاق رات کو رو رو کے مانگی تھی. یقیناً اُس رمضان المبارک کی طاق رات  کی گھڑیوں نے مجھے مبارک کردیا وگرنہ میں کہاں؟ کیا  میری اوقات تھی ایسی؟ 
نہیں ..! نہیں ..! نہیں ..! 
میری اوقات ہرگز نہیں تھی مگر اس لج پال  نے لاج رکھ لی!

جس رات میں نے دُعا مانگی،  اسی رات "message " کی آواز گڑگڑاہٹ و شدت  نے سُن لی اور موبائل کے اس میسج میں کشش نے پردہ چاک کیا ...! 

خدا ہے 
ازل سے ساتھ ہے 
احساس بھی ہے 
پہچان نہیں ہے 
وہ اپنے نمائندوں کو بھیجتا ہے 
ہمیں احساس تک ہونے نہیں دیتا کس نمائندے سے ہمیں کیا ملے گا 
یہ بندے جو ہمیں چلتے پھرتے کچھ دے جاتے ہیں، یہ اس کے نمائندے تو ہوتے ہیں 
کچھ پیامبر ہوتے ہیں 
کچھ رسول ہوتے ہیں 
نہ یہ ظاہر کرتے ہیں، نہ خدا ظاہر کرتا ہے ... پردہ رہتا ہے

بابا کا میسج چَمک رَہا تھا، محبت چَمک رہی تھی اور روشنی نے بابا کو سامنے مجسم کردیا. بظاہر میں میسج پڑھ رہی تھی مگر میں ان کو دیکھ رہی تھی گویا یہ روبرو ملاقات کے جیسی تھی.   یہ ان کا کوئی کمال تھا  جسے مجھ جیسے کم فہم لوگ سمجھ نہیں سکتے یا سمجھ بہت دیر سے آتی ہے. 

مجھے ان کی آواز سنائی دی اور وہ صدا یوں تحریر تھی.

"محبت کسی سے سرِ راہ یونہی نَہیں ہوجاتی ... اُس کاتبِ اول نے ساتھ لکھا ہوتا ہے .. آشنائی کے اس لمحے کو شناسائی میں کب بدلنا ہے، وہ بھی رقم ہے...!  میرے پاس آپ کی امانت ہے اور وہ لوٹانے آیا ہوں ...! "

میں حیرت زدہ ...!
ابھی تو میں سراپا اشک کناں تھی ..، 
اب سراپا حیرت!
دل نے سوال تب کیا تھا یہ کون ہیں؟

میں نے جراَت  نہ کی پوچھنے کی ...،  یہ تو مقام ادب تھا  ...، بے ادبی کیسے کرتی. .. !  ابھی  ہی تو میں نے ان کو دیکھا  تھا،  میرے اندر سکون و محبت کا احساس ہلکورے لینے لگا اور اشک تھم گئے ..میں حیرت میں گُم ہوگئی اک معصوم بچے کی طرح ...! یہ ملاقات کسی ایسے کمرے میں تھی جہاں سامانِ زیست نَہیں تھا.  فرشی نشستیں تھیں .. سامنے شاہ بابا تھے، وہاں ہر منظر دھواں دھواں اور خوشبو گلاب کی پھیلی ہوئی تھی .. . میں بابا کے سامنے سیاہ چادر اوڑھے بیٹھی تھی اور وہ سفید لباس میں روشنی کا مرکز بنے تھے،  میں نے سوال کیا ... 

" کیا واقعی محبت ایسے ہوجاتی ہے؟  آپ نے تو مجھے دیکھا بھی نَہیں،  مجھ سے بات تک نَہیں کی ...! 

 بابا نے مسکرا کے مجھے دیکھا اور سمجھاتے کہنے لگے 

" پتر،  روح کو جاننے کے لیے کِسی مادے واسطے کی ضرورت نَہیں ہوتی ہے .. محبت کا جذبہ ازل سے دِل کی کائنات بَنا ہے اور ایک جیسی کشش والی ارواح کو یہ  پہچان ہوجاتی ہے ... یہ کشش / محبت "پہچان " ہی ہے ... "

وہ صیحح کہتے تھے کہ ایک جیسی ارواح کشش سے  بچ نہیں سکتی تھی. میں نے اپنے دِل میں اس قدر کشش محسوس کی کہ دِل تھامنا پڑا. میں نے دل میں جاری جنگ صورتِ سوال اُنکے سامنے رکھدی

" بابا...!
یہ امانت کیا ہوتی ہے؟  
میں نے کبھی آپ کو کچھ نَہیں دیا ...!  
میں تو آپ کو جانتی تک نَہیں ...! 
پھر آپ نے کیا لوٹانا ہے؟  "

بابا اب  آنکھیں بند کیے بیٹھے تھے  اور ان کے قلب سے روشنی مجھے کچھ ایسی محسوس ہوئی کہ مجھے لگا یہ روشنی اک آنکھ کی سی صورت مجھ پر نِگاہ رَکھے ہوئے ہے ... 

"  امانت کے بارے میں اللہ نے قران پاک میں سورہ الحشر کی آخری آیات میں کیا خوب فرمایا ہے 

 
لَوْ أَنزَلْنَا هَٰذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ} سورة الحشر،

اگر یہ امانت (قران پاک)  کسی پہاڑ پر نازل فرماتا تو وہ اس کی ہیبت سے دب جاتا...  

اللہ کے ہاں "امانت " کا مطلب کچھ اور ہے . جس کو یہ امانت ملتی ہے اس پر لازم ہوتا ہے کہ اسکو سچے حقدار تک پُہنچائے ...  

میں مزید حیرت میں چلی گئی گویا ڈوب گئی اور کسی معصوم سے بچے کی مانند سوال کیا 

" آپ کو کیسے علم ہُوا،  میں حقدار ہوں؟  " 

شاہ بابا:  آپ کی تحریر سے ... ..! 
تحریر مجھ پر عیاں ہوتے "صورت " بَنا دیتی ہے 
یہ وہی صورت ہے،  جس کے بارے میں  یہ روایت مشہور ہے 

خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ

اسی صورت سے جہاں کو دیکھو تو ہر شے کی صورت   بہ رنگِ تجلیات و اسماء الہی منور ہو ہی جاتی ہے اور جاننے والا جان لیتا ہے جو اسے جاننا ہو ...

اس لیے خالق نے فرمایا ہے 
فثمہ وجہ اللہ 
جس جانب منہ پھیرو،  "میری" صورت/ میرا چہرہ ہے. یعنی کہ ہر جانب اس کی جلوہ گری ہے 

میں ہونق بنی یہ سب سن رہی تھی. مجھے اس کی سمجھ نہیں آئی تھی ... میں نے پوچھا 

"اچھا،  تو آپ کوئی روحانی بندے ہیں؟ "
شاہ بابا:  ہم سب روحانی ہیں، ہم سب روح لیے ہیں... 

" میری تحریر میں ایسی کیا بات ہے جس سے آپ کو اندازہ ہوا؟ مجھے تو خود اس کی خبر نہیں "
شاہ بابا:  اب تو میں بھول گیا وہ کونسی تحریر تھی. جب یاد آئے گا تو اس پر بات کروں گا 

میں ایسے بابا کی صدا کو آواز کی صورت میں سن رہی تھی جیسے بیٹھی تو میں ان کے قریب ہوں مگر آواز کسی دور کنواں سے آرہی ہوں .. وہ کنواں اس من مندر کی دنیا میں کہاں سے آگیا...!  دِل کی دنیا عجیب ہوتی ہے یہاں آواز کنواں تک لیجاتی ہے اور کنواں بے نام و نشان رہتا ہے. یہاں خوشبو آتی ہے،  کبھی گلاب تو کبھی موتیے تو کبھی کسی پھول کی. اس رنگ و بو کی دنیا کے نظارے میں اس کی کیا حکمت ہوتی ہے یہ رب جانے اور اس کا کام. میرے پاس تو کسی سوال کا جواب نہیں تھا. میں اتنی صراحت سے بیان کردہ گفتگو کو سن تو رہی تھی مگر ان الفاظ کی چاشنی کو ہی محسوس کر پائی تھی. مجھے اس وقت کچھ سَمجھ نَہیں آیا تھا ... شاید درون کی سمجھ اس نامعلوم دائرے کی جانب لیجاتی ہے جہاں پر اپنی ذات " نا معلوم " ہو جاتی ہے.  بقول شاعر: 

پتہ لگائے کوئی کیا میرے پتے کا پتہ
میرے پتے کا پتہ ہے کہ لاپتہ ہوں میں
(بیدم وارثی) 

میری پیاسی زمین کو محبت کے  " آب حیات" سے ایک قطرہ ملا تھا ،بارش کی وہ پہلی بوند تھی جو دل پر گری اور لگا  کہ دنیا جل تھل ہوگئی ۔۔۔

 بابا جانتے تھے وہ مجھ سے بات کیوں کر رہے ہیں ، انہیں کیوں مجھ تک بھیجا گیا ہے مگر میں نہیں جانتی تھی. مجھے الجھن محسوس ہوئی تھی بُہت زیادہ ..  میں رمضان المبارک کے روزے رکھتی تھی،  پورا سال قران پاک نہیں پڑھتی تھی مگر اس ماہ تو پڑھ لیا کرتی تھی بلکہ race لگاتی تھی .. اللہ سے race کہ دیکھو اس ماہ میں اتنے ختم کرلیے. دیکھ لو !  میں نے  کتنا  زیادہ پڑھ لیا ... نَماز تو ویسے قضا ہوجاتی تھی مگر ماہِ رمضان میں کبھی کوئی نماز قضا ہو جائے ... سب ملنے والوں کو فخر سے بتایا کرتی تھی کہ میں نے اتنے "ختم " کیے.  کبھی کبھی دل میں خلش سی جاگتی اور میں اس خلش کو سُلا دِیا کرتی تھی. مجھے دُنیا کی رنگینی بُہت پرلطف لگا کرتی تھی .... وہ مجھ سے امانت کی بات کر رہے تھے اور انسان کو خالق نے " ظلوما جھولا " کہا ہے. شاید میری یہی نادانی تھی جس کا مجھے علم نَہیں تھا جو پہلے سے جانتا ہو،  وہ بھاگ جاتا ہے. جو نادان ہو وہ اٹھالیتا ہے..

گزشتہ قسط کا ربط 

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2811409795853569&id=100009537288172'

0 تبصرے: