جمعرات، 25 فروری، 2021

دل ‏جواب ‏دیتا ‏ہے ‏

0 تبصرے

شہ ‏رگ ‏

0 تبصرے

اتوار، 21 فروری، 2021

بدھ، 17 فروری، 2021

شاہ ‏صاحب

0 تبصرے
اردو محفل سے بہت سے لوگ سید نایاب حسین شاہ کو جانتے ہیں. یہ بات سوال ہے ان میں ایسا کیا تھا؟  میری جب ان کے وصال بعد ان کے گھر بات ہُوئی تو وہ بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ کون ہیں ...  یہ تو لکھا ہے کہ انہوں نے تلاش و کھوج بچپن سے شُروع کی. یہ کھوج نیلے پیلے جادو / چلے / وظائف والے لوگوں سے مجاذیب کے پاس لے گئی ـ یہ بھی وہ لکھ گئے کہ دس سال سے چودہ سال کی عمر میں اکیلے قبرستانوں میں گزارا کرتے تھے ...  قبرستانوں میں غلط/ صیحح چلے ..  پھر کمسنی میں ان کو رستہ مل گیا اور مجاذیب کی محافل میں بیٹھنے لگے 

اک انٹرویو میں لکھا انہوں نے 
کسی مجذوب نے کہا 
اٹھ نشئیا!  کیوں بزرگاں نوں بدنام کرنا ایں 
مجھ پر یہ عقدہ چند ہفتے قبل کھلا کہ نشے سے مراد کیا تھی. بزرگ تو کہتے کہ نشہ اسطرح کرو کہ ہوش سلامت رہیں ... جیسے جگر مراد آبادی کہتے 

یہ ہے میکدہ  یہ ہے میکدہ 
یہاں سب کا ساقی امام ہے

ان کی زندگی نو / دس سال کی عمر سے پچپن سال کی عمر تک انتہائی پرپیچ گزری.  میں نے جب پہلی مرتبہ ان سے بات کی تو میں نے اپنے گھر میں ان کو موجود پایا    میں بہت ڈر گئی تھی کہ یہ کیا ہُوا --- پھر یہ عقدہ بعد میں کھلا  کہ ماجرا کیا تھا .... میں نے ان چار سالوں میں ان کی تصویر دیکھی نہیں تھی کیونکہ محبت میں تقدس کی قائل رہی  جب بات روح کی ہو تو روح سے بات بنے. اک تصویر مجھے کسی نے وصال کے بعد دی ... 

میں پہلی دفعہ اس لیے ان سے الجھی تھی کہ آپ میرے گھر کیسے آگئے ... مجھے ان رمزیہ باتوں / تصوف کی بات کی خبر نہیں تھی. اسی طرح باتوں پر اکثر میں غصہ کرجاتی کیونکہ بتانے والے نے اپنا آپ راز رکھا تھا اور میں نے اسکو بہت عام جانا تھا ..   میری کسی بات پر غصہ نہیں کیا. اکثر مجذوب صفت اویسیت کے حامل بزرگ گالی دے دیتے ہیں کہ مجذوب پر شرعی احکامات کی بات الگ سے لاگو ہوتی ہے بس وہ اللہ کا محبوب ہوتا ہے ... کبھی سخت لفظ تک نہیں سنا ان سے.... جلال کے بجائے جمال کے زیر سایہ رہنے والے نے مجھ کو  رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے قریب کردیا. ان کے باطن کی حقیقت مجھ پر عیاں ہوئی ... دنیا پر عیاں نہیں ہوئی ... اس کی وجہ مجھے علم نہیں ہے کہ قدرت نے ان کو مجھ تک بھیجا ہے ... 

پاکستان میں جگہ جگہ خانقاہوں میں جاتے رہے مگر جہاں بیعت کے لیے جاتے وہاں ان کو بیعت نہیں کیا جاتا ..  بلکہ کہا جاتا تھا جس کا ربط پہلے سے ہو ہم اسکو کیا بیعت کریں ... 

ان کی قدرت نے باطنی نظام میں اک ڈیوٹی لگارکھی تھی:  جہاں دکھی بیٹی دکھتی وہ اس کی مدد کرتے تھے مال کے ذریعے / شادی کراکے یا اس کا خود انحصاری کی جانب لاتے. ان کی یہ ڈیوٹی بھی دس سال کی عمر سے شروع ہوئ ... باطن کا یہ سفر جو دس سال کی عمر میں شروع ہوا،  اس کی حقیقت والد کی خدمت سے پائی ...  

زندگی ان کی بہت آزاد گزری ... قلندر کی مانند آزادانہ اک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنا ان کے لیے بہت آسان تھا مگر پھر بھی کہا کرتے آزادی کے نام پر بہلائے گئے ہیں ...جو تصوف کا کتابی عمل تھا میں نے ان سے پایا ہے جو پایا ہے کہ تصوف تو اصل میں انسانیت ہے ... 

کسی کی تحریر سے باطن تلک پہنچ جاتے تھے. میں بہت حیران ہوتی تھی. یہ راز بعد میں کھلا کہ لفظ بھی سینے سے نکلتے ہیں. منبع تک پہنچنا کہاں مشکل ہوتا ہے ... 

یہ بھی سچ ہے کہ میں نے اک خواب دیکھا تھا سالوں پہلے. وہ اسکی تعبیر بن کے آئے. خوابوں کے حوالے سے میں اس قدر حقیقت پر مبنی باتیں کہاں مان سکتی تھی مگر اللہ جو چاہتا ہے وہ ہوجاتا ہے.

سچ تو یہ ہے کہ میں نے زندگی میں اس رخ کے آنے بارے سوچا ہی نہیں تھا مگر خدا کا منصوبہ تو اور تھا. وہ اکثر باتوں کو پڑھ لیا کرتے کہ سینے میں فرمایا کرتے سب کچھ ہے یہیں سے سب امر پڑھے جا سکتے ہیں ... 
اس لیے اکثر لوگوں کو  جو بتا دیے کرتے وہ سچ ثابت ہوجاتا تھا...میں نے یہ بھی کبھی نہیں سوچا تھا کہ میرا قلم ان کا ذکر کرے گا مگر وہ یہ کہہ گئے تھے  اس لیے انسان بدل جاتا ہے  میں نے ان کا ذکر کیا اپنی فطرت سے ہٹ کے. اصل میں چہرے چہرے میں روپ ہوتا ہے. بس روح پر روپ نقش ہوجاتا ہے. جب نقش یار دکھتا ہے روح ذاکر ہو جاتی ہے. یہ بات انسان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ کچھ کرے بلکہ یہ تو اللہ ہے وہ کہتا ہے کن اور ہو جاتا ہے...

قلب میں روح منتقل ہوجاتی ہے پھر انسان اپنا آپ کیسے ڈھونڈے؟ بس وہ گم ہوجاتا ہے او ذات بیٹھ جاتی ہے شمع کے گرد پروانہ گھومتا رہتا ہے جب تک فنا نہ ہو جائے 

ہاں .....
کچھ ایسی کشش ہے 
فنا ہوجا 
دل میں شمع جل اٹھے 
تو پروانہ تحریک میں آجاتا ہے 
اور بس کیا بچ جاتا ہے؟  
اب کوئ آئنہ ہو جس میں آنکھ والے کا نقش جا بجا دیکھا جائے  دوئی رہے نا بلکہ کثرت میں وحدت رہے ....