جمعرات، 17 دسمبر، 2020

ویلے ‏تایا ‏جی

0 تبصرے
ویلے تایا جی!  اک اور اسرار بھری داستان 
یہ "کجی" کا کیا مطلب ہے؟؟؟

انسانی شخصیت میں موجود ایسی خامی جو اس کی شخصیت میں موجود تمام خوبیوں کو دھندلا دے ۔
"کجی یا ٹیڑھ " کہلاتی ہے

آپ کسر نفسی سے کام لیتے ہیں جبکہ ماشاءاللہ آپ بہت بہت ذہین اور عالم و فاضل ہیں
اللہ آپکے علم میں اور اضافہ کرے

جزاک اللہ خیراء
اللہ تعالی اس گمان کو حقیقت میں بدل دے اور آپ کی دعا کو شرف قبولیت بخشے آمین ثم آمین

یہ بتائیں کہ جنہیں آپ نے احمقانہ شوق کہا ہے اور جن کا ذکر بھی کیا ہے
ان میں یہ کون کون سے فن آپ کو آتے ہیںِ؟؟؟

اک ڈرائیونگ نہیں آتی محترم بہنا
باقی تمام علوم سے حسب منشاء استفادہ حاصل کرتے اس سچے اللہ سمیع العلیم کا شکر ادا کرتا ہوں ۔
جس نے مجھے ان علوم کو سمجھنے کی توفیق سے نوازا ۔۔۔
ان علوم میں کامل ہونے کا درجہ رکھنے والے کس صورت حال کا شکار ہوتے ہیں اس کی وضاحت اک مختصر واقعہ سے ۔
سن 79 کی بات ہے یہ ۔ ہم کچھ آوارہ دوستوں نے مل کر ریلوے کی زمین پر قبضہ کرتے اک ڈیرہ بنا رکھا تھا ۔
منشیات کے عادی اور درویشی کے لبادے اوڑھے ملنگ اور کچھ بے سہارا بے خانماں ضعیف العمر بزرگ
اس ڈیرے کو اپنے آرام و سکون کے لیئے استعمال کرتے تھے ۔ ان میں اک شخصیت " ویلے تایا " کی بھی تھی ۔
میلے کچیلے رہنا نہ کبھی نہانا نہ کبھی منہ ہاتھ دھونا ۔ جگے تایا کہلاتے ڈیرے پہ خاموش بیٹھے رہتے وقت پاس کرنا ۔
ہم دو دوست اس ڈیرے کے روح رواں کہلاتے تھے ۔ اور ہمارا زیادہ وقت یہاں ہی گزرتا تھا ۔
اس لیئے سب ڈرامے باز قسم کے لوگ ہمارے سامنے کھلی کتاب تھے ۔
اک دن میرے دوست " یاسین بھٹی " نے کہا کہ شاہ جی
" ایس ویلے تایا بارے جاندے او ؟ اے کی شئے اے ؟"
میں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ اس بوڑھے کو گھر والوں نے نکال دیا ہے اس لیئے یہاں پڑا رہتا ہے ۔
کہنے لگا کہ نہیں مجھے علم ہے کہ اس بابے کے اگے پیچھے کوئی نہیں ہے ۔ اور یہ اپنے ہاتھ دیکھنے کے فن میں کبھی کامل کہلاتا تھا ۔
صدر ایوب تک اس کی پہنچ تھی ۔ لیکن پھر جانے کیا ہوا کہ یہ نشے میں ڈوب گیا ۔ اور آوارگی کرتے زندگی گزارنے لگا ۔
اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ۔ سو اب تایا جی پر نظر رہنے لگی ۔ جب کبھی اکیلے ہونا تایا جی کو چھیڑنا انہیں بات کرنے پر مجبور کرنا ۔
ان کی سپیشل خدمت کرنی ۔ آہستہ آہستہ ان سے بے تکلفی ہو گئی ۔
ہم چونکہ اس زمانے میں نئے نئے عشق کے اسیر ہوئے تھے ۔ اور اپنے عشق کے انجام بارے متفکر رہتے تھے ۔
اک دن کسی ایسی ہی سوچ میں مبتلا اپنے دھیان میں گم تھا ۔ یکبارگی جو نگاہ اٹھی تو دیکھا کہ
تایا جی میرے ہاتھ پر نظر جمائے ہوئے ہیں ۔میں ویسے ہی کچھ پریشان تھا چھوٹتے ہی تایا جی سے کہا کہ
ویلے تایا جی کدے ساہنوں وی کج دس دیو کہ کی بنے گا ساڈھا " یہ سن کر ہنسنے لگے اور کہنے لگے کہ
" سید بادشاہ اک عمر گزرے گی تیری اس آوارگی میں " لیکن اک دن تو راہ پر آ جائے گا ۔
عشق تیرا تجھے وہ ضرب لگائے گا کہ تو اپنے اس تجسس کی اسیر سب ذہانت و چالاکی بھول جائے گا ۔
اور کچھ ایسی حقیقتوں سے آگہی دی جو کہ سو فیصد درست تھیں ۔ اب جب وقت ملنا ان سے اسی پامسٹری کے موضوع پر
بات چیت ہونے لگی ۔ تایا جی بہت پڑھے لکھے وسیع علم کا حامل نکلے ۔ اک دن میں نے اس سے کہا کہ
تایا جی آپ کو کیا مشکل ہے جو آپ اتنے گندے رہتے ہیں نہ نہاتے ہیں نہ منہ ہاتھ دھوتے ہیں ۔
کتنی بو آتی ہے آپ میں سے ۔ لوگ آپ کے پاس بیٹھتے بھی نہیں ۔
یہ سن کر روانے لگے اور کہنے لگے کہ سید کیا بتاؤں تجھے میرا یہ منہ ہاتھ دھونا اور نہانا کیوں چھوٹ گیا ۔۔
اس ہاتھ دیکھنے کے علم نے جہاں مجھے بے انتہا عزت دی وہیں ایسی اذیت بھی دی کہ
اس سے ملی سب عزت بھی گئی اور اذیت عمر بھر کا ساتھ بنی ۔
ات چیت ہونے لگی ۔ تایا جی بہت پڑھے لکھے وسیع علم کا حامل نکلے ۔ اک دن میں نے اس سے کہا کہ
تایا جی آپ کو کیا مشکل ہے جو آپ اتنے گندے رہتے ہیں نہ نہاتے ہیں نہ منہ ہاتھ دھوتے ہیں ۔
کتنی بو آتی ہے آپ میں سے ۔ لوگ آپ کے پاس بیٹھتے بھی نہیں ۔
یہ سن کر روانے لگے اور کہنے لگے کہ سید کیا بتاؤں تجھے میرا یہ منہ ہاتھ دھونا اور نہانا کیوں چھوٹ گیا ۔۔
اس ہاتھ دیکھنے کے علم نے جہاں مجھے بے انتہا عزت دی وہیں ایسی اذیت بھی دی کہ اس سے ملی
سب عزت بھی گئی اور اذیت عمر بھر کا ساتھ بنی ۔
میں جب اپنا ہاتھ اٹھاتا تھا منہ دھونے کے لیئے ۔ تو میرے ہاتھ کی لکیریں مجھ پر ہنستی تھیں ۔
مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی اس آگہی سے گزرنا پڑتا تھا میرا کوئی چاہنے والا تو اک بار مرتا تھا مگر مجھے اس کے نہ مرنے
تک بار بار مرنا پڑتا تھا ۔ مجھے میرے ہاتھ کی لکیریں میرے آنے والے وقت کو جیسے مجسم کر دیتی تھیں ۔
میں نے ان لیکروں سے آگہی پاکر اپنے والدین اپنے بیوی بچوں کی موت
کب کیوں کیسے ہو گی کو جان کران کی موت تک کتنی اذیت پائی ہے ۔
کہ مجھے ہاتھ اپنے سامنے کرتے ڈر لگتا تھا ۔
اللہ سچے نے انسان سے ان تمام باتوں کو چھپا رکھتے انسان پر اپنا فضل کر رکھا ہے ۔
ایسے علم جو " غیب " سے مطلع کرنے سے منسوب ہوں ان میں کاملیت حاصل کرنے کی خواہش گویا
اپنے آپ پر آگہی سے بھرپور دروازہ کھولنا جیسا ہے ۔
" غیب کا علم صرف اللہ کو ہی سزاوار ہے ۔ "
ان تایا جی ہی سے کچھ پامسٹری کے علم کا اکتساب کیا ۔
کامل تو نہیں ہوں مگر خاندان والے ہی کیا اک زمانہ مجھے ہاتھ دکھا اپنے خوابوں میں گم ہوجاتا ہے ۔
اور میرے لیئے چائے پینے کا سبب

" حلول ووحدت الوجود والشہود "
یہ مجھے سمجھ نہیں آیا ۔

حلول ۔۔۔۔ اللہ تعالی کا کسی جسم انسانی میں سما جانا
اک مردود فلسفہ ہے
وحدت الوجود ۔۔۔۔ روح کے نفخ الہی کو سب اجسام میں یکساں سمجھنا
اک اختلافی فلسفہ ہے
وحدت الشہود ۔۔۔۔۔۔۔ سب کائناتی اجسام میں خالق کی جھلک دیکھنا
یہ بھی اختلافی فلسفہ ہے

× یہ بتائیں کہ نشے کی لت کیوں اور کن وجوہات کے بنا پر پڑتی ہے؟؟؟

نشے میں مبتلا ہونے کی صرف اک وجہ ہوتی ہے
" فرد کا اپنی معاشرتی روحانی جسمانی خواہشوں کے کسی بھی صورت نامکمل اور نا آسودہ رہنے پر
اسکے شعور میں ابھرنے والی سوچ کی اذیت سے فرار "
اب یہ فرار چاہے شعوری ہو یا لاشعوری بہرصورت فرد کو اک ایسی پناہگاہ تلاش کرنے پر ابھارتا ہے
جہاں وہ اپنی کسی ناآسودگی اور کسی کمتری کے باعث دوسرے افراد کی نگاہوں سے ابھرنے
والی تضحیک و تذلیل سے بچ سکے ۔
اور نشہ اسے یہ پناہگاہ فراہم کر دیتا ہے ۔
نشہ ہے کیا ؟یہ کن کیفیات کو ابھارتا ہے ۔ ؟
" نشہ شراب میں ہوتا تو ناچتی بوتل "
نشہ کسی بھی فرد کا کسی بھی صورت کسی شئے کا سہارا لیتے اپنے شعور کو یہ آگہی دینا ہوتی ہے کہ
اس شئے کے استعمال سے اب مین نشے میں ہوں ۔ اور یہ آگہی اس قدر طاقتور ہوتی ہے کہ فرد نشے میں مدہوش دکھتا ہے ۔
اسی مدہوشی میں وہ بیرونی دنیا کے بکھیڑوں میں الجھے بنا اپنے اپ میں ڈوبا باریکیاں تلاش کرتا رہتا ہے
نشہ دراصل انسان میں موجود اس " میں " کو سلا دیتا ہے جو کہ
انسان کو دوسروں کی نظر میں اپنا آپ سنوارنے اور نمایاں کرنے کے مددگار ہوتی ہے ۔
جب یہ " میں " نشے کے زیر اثر ہوتی ہے تو فرد کو یہ پرواہ نہیں ہوتی کہ اسے کون کس نظر اور کس صورت سے دیکھ رہا ہے ۔
اور فرد نشے کے زیر اثر اک یک گونہ مستی اور اپنے آپ میں مگن رہتا ہے ۔
اور اس کی یہ مستی اور اپنے آپ میں مگن رہنے والی کیفیت اسے بیرونی دنیا سے یکسر بے نیاز کر دیتی ہے ۔
کچھ تو نشے کو مجبوری کے عالم میں اختیار کرتے ہیں ۔
اور کچھ اپنے تجسس کی تسکین کے لیئے جب کسی نشہ آور شئے کا استعمال کرتے ہیں ۔
تو وہ جسمانی طور پر اپنے آپ کو عمومی طور سے زیادہ ہشاش باش پاتے ہیں اور اس نشے کے اسیر ہوجاتے ہیں ۔
نشہ اک لعنت ہے کیونکہ یہ فرد کو تو ذہنی طور پر توانا کرتا ہے مگر جسمانی اور معاشرتی طور پر بے انتہا نقصان کا سبب بنتا ہے ۔
جسمانی عوارض تو اپنی جگہ مگر اس کی معاشرتی برائی یہ ہے کہ فرد صرف اپنے آپ میں ڈوبا
ان تمام فرائض سے غافل ہو جاتا ہے جوکہ کسی بھی معاشرے میں موجود انسانوں کے لیئے فلاح کا سبب بنتے ہیں ۔

0 تبصرے: