جمعہ، 1 جنوری، 2021

میں ‏اور ‏شاہ ‏بابا ‏

0 تبصرے
اسے کہانی کہا جائے۔ آپ بیتی، تن بیتی، عشق بیتی یا تلاشِ حق کا سفر۔ میں خود اسے کچھ نام دینے سے قاصر ہوں اور اس کا فیصلہ پڑھنے والے پر چھوڑتی ہوں کہ وہ اس میں سے کیا اخذ کرتا ہے۔ میں اپنے طور دیکھوں تو شاید ابھی تک ان راہوں کو پورے سے نہیں اپنا سکی جیسا میرے مُرشد نے حکم دیا۔ لیکن کوشش مستقل جاری ہے اور ان کے حکم کے مطابق جاری ہی رہنی چاہئیے۔

ہاں کچھ امانتیں ہیں جو انہوں نے میرے سپُرد کیں کہ میرا مادی سفر ختم ہونے پر آپ حقداروں کو لوٹانا ہوں گی۔ یہ کاوش ہے مرشد پاک کے اس حکم کی تعمیل میں جس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ جتنا جلد ہوسکے آپ لوگ اپنی اپنی امانتیں وصول کیجئیے۔ جس کے لیے جو ہے اسے وہی سمجھ آئے گی کچھ نہ سمجھ آئے تو سمجھ لیجئیے وہ آپ کے لیے تھا ہی نہیں۔ جو سمجھ آئے بس اسے ہی تھام لیجئیے۔
ہم میں سے اکثر راہِ حق کے متلاشی کہتے ہیں کہ کاش مجھے مرشدِ کامل مل جائے۔ اس کے لیے وہ در در جھانکتے ہیں، ہر جگہ کی خاک چھانتے ہیں۔ کبھی کسی کے روحانی چھابڑے میں ہاتھ مارتے ہیں کبھی کہیں کی ونڈو شاپنگ کررہے ہوتے ہیں۔ کبھی کسی در کا نمک چکھ کر تھُو کردیتے ہیں کہ یہ تو کڑوا ہے یہ میرے ذائقے کا نہیں۔ یہ ایسا نہیں یہ ویسا نہیں۔ درحقیقت ایسا یا ویسا باہر کچھ نہیں ہوتا سب اپنے اندر ہوتا ہے۔ آپ طالبِ صادق بنیں اس عشق کی نگری میں کنواں خود چل کر پیاسے کے پاس آتا ہے۔

یہاں کنواں خود اپنے پیاسے کا پیاسا ہوتا ہے۔ ہاں کنویں کی بھی پیاس ہوتی ہے کہ آؤ اور مجھ سے پانی بھر بھر پیو سیر ہوجاؤ تاکہ میرے سینے کو بھی قرار مِلے۔

جیسے رومی نے راز افشا ہونے پر شمس سے کہا کہ مُجھے آپ کی تلاش تھی تو شمس نے کہاں میں تو خود کب سے تیری تلاش میں سرگرداں تھا کس در کی خاک نہیں چھانی۔ مگر اب تم مجھے مل گئے ہو۔ اب امانتیں لوٹانے کا وقت ھے۔

یہ کہانی بھی کچھ ایسے ہی چھُپے آبِ حیات کے چشمے کی ہے جو چل کر میرے پاس آگیا۔ میں سمجھی میں نے اسے ڈھونڈا یا وہ مل گیا لیکن اس نے مجھے ڈھونڈ نکالا۔ میری روحانی تشنگیاں اور کمیاں کجیاں دُور کیں۔ اور سب سے پہلے مجھے بتلایا کہ اصل مُرشد الرشید ہے۔ مقصد اگرراہِ ہدایت پانا ہے تو سچے طالب بن کر اس کے در پہ آؤ 

اگرراہِ ہدایت کے "متلاشی" ہو تو سچے طالب بن کر اس کے در پہ آؤ وہ تمہیں کسی راز آشنا کے حوالے کردے گا۔ راز آشنا کے قرب میں رہنا بھی راز آشنا ہونا ہی ہے۔ راز، راز میں ہی بھلے لگتے ہیں کھُل جائیں تو عذابِ آگہی کے سِوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

کہتے ہیں اللہ کی تلاش کسی اللہ والے کے در پر ہی لے جاتی ہے۔ اللہ کے گاہک کو 'مرد' کہا جاتا ہے۔ یہی مردانگی ہے اصل حق "الحق" کی تمنا اور اس پرقائم ہوجانا۔ جسمانی صنف اس میں حقیقت نہیں رکھتی۔

دَر دَر دی دُر دُر نالوں دُر بن جا اک دَر دا
صاحب معاف کرے تقصیراں تے رہ جاوے کُج پردا
اس پردے دا اوہ دَر ضامن جس دَر دا توں بَردا
بلھے شاہ جے پھریئے دَردَر فیر صاحب معاف نہ کردا

کسی ایک در پر اپنا آپ تیاگ دو۔ آوارہ نفس/جانور کے حصے لوگوں کا چھوڑا یا پھینکا گند مند ہی آتا ہے۔ جبکہ ایک کھونٹے سے بندھے ہوئے کو بڑے مان سے رکھا جاتا ہے۔ اس کے ہر دُکھ درد کی دوا کی جاتی ہے الغرض ہر طرح سے اس کا خیال رکھا جاتا ہے۔ وہ ہر وقت اپنے 'مالک' کی نظر اور دھیان میں ہوتا ہے۔ لہٰذا جہاں سکون ملے وہیں بیٹھ جاؤ وہیں کہیں اللہ ہے یا اللہ کی رحمت اُتر رہی ہے۔ کیونکہ  بابا کہتے ہیں سکون صرف اللہ میں ہے۔ جہاں اللہ ہے وہاں سکون اور جہاں سکون ہے وہاں اللہ۔ اب اللہ جہاں سے مِلے اس جگہ پہ ٹھوکر نہیں مارنی چاہے وہ کسی کنجری کا کوٹھا ہی کیوں نہ ہو۔ سب اس کو وارا کھاتا ہے تو تم کون ہو اس کی مخلوق اور ان کے اعمال تولنے والے۔
کُن والے کی مرضی ہے جہاں سے بھی بولے۔ کہیں سے بھی جھانکے کسی بھی رنگ میں دِکھے۔ یہ اس کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے معاملات میں مالکِ کُل ہے مختارِ کُل ہے۔
انٹرنیٹ جسے رابطوں کی دنیا کہا جاتا ہے۔ اک جہانِ حیرت جہاں نیکی بدی اچھائی برائی وقتی تعلقات ہر لمحہ جنم لیتے اور اپنی موت مررہے ہوتے ہیں۔ جہاں بہت سوں کو راہ مل رہی ہوتی ہے وہیں بہت سے 'گُم راہ' بھی ہورہے ہوتے ہیں۔ راہیں تو راہیں ہیں۔ راہ غلط نہیں ہوتی ہم غلط ہوتے ہیں۔

میں بھی پیاسی در در بھٹکتی اس جہانِ حیرت میں ڈوبتی اُبھرتی رہتی۔ اندر پارے کی مانند چھلکورے لیتی اک بے قراری تھی جو وقتاََ فوقتاََ لکھنے پر مجبوری کرتی رہتی اور میں قلم کے ذریعے اس درد کو اس رابطوں کی دنیا میں اسکرینوں پر پھیلا دیتی۔ لوگ واہ واہ کرتے سر دھُنتے مگر۔۔ اپنی یہ حالت تھی
" کیا حال سناواں دل دا
 کوئی محرم راز نہ مِلدا​"

اک روز مل ہی گیا۔۔
یونہی چلتے چلتے
ہاں چلتے چلتے یونہی کوئی مل گیا تھا۔۔ یونہی کوئی۔۔
پھر ایسا مِلا کبھی نہ جُدا ہونے کے لیے
اس نے تھام لیا ہمیشہ کے لیے
چلتی راہیں تھم گئیں
گردشِ دوراں کے نئے باب کھُلنے لگے۔۔ وہ تھا ہی ایسا 'نایاب''

ظالم نے دل کی دُنیا ہی لُوٹ لی۔ اب کہیں خاک کی چادر اوڑھے لیٹا ہے مگر ہر دھڑکن کے ساتھ میرے اندر بھی دھڑکتا ہے۔ واقعی 'فقیر' کو ٹھہراؤ نہیں اس کی ڈیوٹی چلتی ہی رہتی ہے۔ اللہ نے کچھ نفوس صرف اپنے لیے بنائے ہیں شاید وہ انہیں میں سے ایک میرے لیے "آبِ حیات" بن کر آیا اور "رموزِ حیات" سکھا کر پڑھا کر میرے اندر انڈیل کر بے نیازی سے آگے چل دیا۔

وہ نام کا ہی نہیں کردار کا بھی نایاب تھا۔ 'رب' نے اسے واقعی نایاب ہی بنایا تھا۔
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
وہ میرے لیے بھی 'نایاب' ثابت ہوا۔ وہ ایسا پارس پتھر تھا جس نے چھُو کر مُجھے کندن کردیا اور خود کو وہی پتھر کا پتھر کہتا رہا۔ نہیں میں پتھر ہوں تم کُندن ہو۔ مگر یہ کُندن تو اسی کے لمس کا مرہونِ منت ہے۔
مگر فقیر کہاں مانتا ہے۔
کورا کاغذ تھا یہ من میرا
لکھ دیا نام اس پہ تیرا

: نایاب۔۔ 'سید نایاب حسین نقوی' نام تھا ان کا
نام اور کردار کے سید۔۔ سید یعنی سردار، بادشاہ، سائیں۔۔ میرا روحانی سِر کا سائیں۔۔
میرے ماں باپ نے مجھے جنما اور عرش سے فرش پر لے آئے،،
اس نے مجھے پھر سے جنما اور فرش سے عرش کی راہ دِکھلا دی۔
میں تھا کیا مجھے کیا بنا دیا
مُجھے عشقِ احمدﷺعطا کیا
ہو بھلا حضورﷺکی آل کا
مُجھے جینا مرنا سِکھا دیا
کیا 'فقیر' ایسے بھی ہوتے ہیں؟

کیا 'بابے' انٹرنیٹ بھی استعمال کرتے ہیں؟
لیکن میں بے خبر یہ نہ جانتی تھی کہ وہ علمِ لدُنی سے مالا مال اور نوازے گئے ہوتے ہیں۔ کائنات کا ہر علم ان پر اپنے در وَا کیے ہوتا ہے اور کھُلی کتاب کی مانند خود کو ان کی خدمت میں پیش کیے رکھتا ہے۔

درحقیقت ان کا اپنا 'نیٹ ورک' اتنا سٹرونگ ہوتا ہے کہ وہ کسی ظاہری ڈیوائس کے محتاج نہیں ہوتے۔ وہ جو اصل 'موبائل فون' اور سیٹلائٹ انسان کے اپنے اندر نصب ہے وہ اس سے کام لیتے ہیں۔ مگر ہم جیسوں کے لیے انہیں ہماری سطح پر مجبوراََ آنا پڑتا ہے۔ میرے جیسی بے کار ڈیوائس کو 'ٹیون اپ' کرنے کے لیے۔

نہ جانے وہ کون سا لمحہ تھا جب اس نے درِ دل پر دستک دینے کے بجائے براہِ راست دل میں پھسکڑا مار لیا۔

وہ آیا۔۔
اس نے دیکھا۔۔!
اور فتح کر لیا۔۔۔!!!

اور دے تار 'اللہ' کے ساتھ جا جوڑی۔ ایسی جوڑی کہ دل و دماغ روشن ہوگئے۔ ہاں میں ایسی ہی اندھیر نگری میں ٹامک ٹوئی مارتی جی رہی تھی۔ اس 'لائن مین' نے آکر 'پیار کی کنڈی' ڈالی اور کنکشن جوڑ دیا۔
اس روشنی میں پھر مجھے اپنے حقیقی در و دیوار روشن نظرآنے لگے۔ گندگیاں، غلاظتیں کجیاں سب نظر آئیں تو شرمندہ ہوئی۔ مگر اس نے مجھے شرمندہ نہیں ہونے دیا بلکہ خود مل مل کہ ہر غلاظت دور کر دی۔
تب سے اب تک وہ بتی روشن ہے اس کے نام کی۔ اس نے میرے دل کی مسجد آباد کی اور اس میں اذان پھونکی۔

ابھی بھی وہ اس مسجد کا موذن ہے۔ جاروب کش ہے، متولی ہے، 'الیکٹریشن' ہے۔ کہ جب کبھی لَو ہلکی پڑنے لگے کرنٹ ختم ہونے لگی یا اسپارکنگ ہونے لگے یا بالکل ہی بجھنے کے قریب ہو تو فوری آگے بڑھ کر کنکشن پھر سے مضبوط کرکے تازہ دم کردیتا ہے۔

0 تبصرے: