جمعہ، 18 دسمبر، 2020

شاہ ‏جی ‏سے ‏سوالات ‏و ‏جوابات ‏

0 تبصرے
فرحت کیانی نے کہا ہے
ممتاز مفتی کی کتاب لبیک پڑھنے کا اتفاق ہوا؟ اگر ہاں تو آپ کا اس پر تبصرہ۔

کیا ہی زبردست مطالعہ و مشاہدہ ہے محترم جناب ممتاز مفتی صاحب کا
" لبیک " بلا شبہ اک استعارا ہے " انسان اور اس کے خالق اللہ " کے درمیان پیار و بے تکلفی کا ۔
میں اپنی ذاتی کیفیت بیان کروں تو جب بھی عمرہ کی سعادت حاصل ہوتی ہے تو
مدینہ منورہ پہنچتے ہی جسم و سوچ پر اک لرزہ سا طاری ہو جاتا ہے ۔ جسم و جان کی سب طاقتیں
سوچ و فکر و وجدان پر پہرےداری پر صرف ہونے لگتی ہیں ۔ کہیں کوئی گستاخی نہ ہو جائے ۔ کہیں کوئی بے ادبی نہ ہو جائے ۔
اک غیر مرئی " جلال " اپنا اسیر کیئے رکھتا ہے ۔
مگر جب مکہ المکرمہ پہنچتا ہوں تو سوچ فکر و وجدان سب آزادی سے مصروف عمل رہتے ہیں ۔
ایسے ہی لگتا ہے جیسے کوئی بچہ ماں کی گود میں بے فکری سے کھیل رہا ہو

فرحت کیانی نے کہا ہے
اور ایک آخری سوال یہ جو اشفاق احمد، ممتاز مفتی اور قدرت اللہ شہاب کے 'بابے' ہیں۔
کیا واقعی ایسے بابے ہوتے ہیں؟ ان کو پہچانا کیسے جائے؟

کسی بھی " بابے کے لبادے " میں چھپے حقیقی بابے کی شناخت ہمارا وجدان و ضمیر با آسانی کر سکتا ہے ۔
اگر ہم ذرا غور کرتے ان کے قول و عمل کو پرکھ لیں ۔
اخلاق ۔ انسان دوستی ۔ اپنی ذات کی نفی ۔قربانی ۔ اختیار کے وقت عجز
یہ علامت ہیں کسی بھی اللہ کے سچے بندے کی ۔
آپ کے دستخط میں موجود شعر بھی اک علامت ہے ایسے لوگوں کی
کہ " وہ اپنے حصے کی شمع جلانے میں مصروف " رہتے ہیں ۔ بنا کسی دوسرے کی شمع پر زبان دراز کیئے ۔

فرحت کیانی نے کہا ہے
اتنی دشت نوردی کے بعد ابھی بھی کوئی چیز ہے جو آپ کی توجہ اپنی طرف کھینچتی ہے؟ جیسے تاریخی عمارتیں ، صحرا، سمندر وغیرہ

تاریخی عمارتیں مجھے مسحور کر دیتی ہیں ۔ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجاتا ہوں ۔
میری سوچ و وجدان جب اس عمارت کی تعمیر کی جانب رواں ہوتے ہیں تو مجھے ایسے لگتا ہے کہ
یہاں اپنی زندگی بتانے والے میرے آس پاس ہیں اور مجھے اپنی کہانیاں سنا رہے ہیں ۔
صحرا ۔۔۔۔۔۔۔
چودھویں کی رات اور صحرا کی تنہائی
اس منظر اور کیفیت کو الفاظ میں بیان کیا ہی نہیں جا سکتا میری بہنا
سمندر ۔۔ جانے کیوں مجھے سمندر کبھی کشش نہیں کرتا ۔۔۔۔۔


فرحت کیانی نے کہا ہے
اب تک پاکستان میں کہاں کہاں اور پاکستان سے باہر کن ممالک میں جانا ہوا ہے

پاکستان میں 1990 تک رہا ہوں ۔
دولتالہ ۔ مری ۔ راولپنڈی ۔ لاہور ۔ ڈسکہ ان جگہوں پر بکھری ہوئی ہے داستان میری ۔
ان کے علاوہ " جئے شاہ نورانی " درگاہ سے لیکر " پیر بابا " درگاہ سوات تک
یعنی کراچی سے لیکر سوات تک شاید ہی کوئی درگاہ ایسی ہوگی جہاں میں نے کچھ راتیں نہ بتائی ہوں ۔
پاکستان میں آوارگی کی ملی سزا یہاں " سعودی عرب " میں مزدوری کرتے پوری کر رہا ہوں ۔



جمعرات، 17 دسمبر، 2020

ویلے ‏تایا ‏جی

0 تبصرے
ویلے تایا جی!  اک اور اسرار بھری داستان 
یہ "کجی" کا کیا مطلب ہے؟؟؟

انسانی شخصیت میں موجود ایسی خامی جو اس کی شخصیت میں موجود تمام خوبیوں کو دھندلا دے ۔
"کجی یا ٹیڑھ " کہلاتی ہے

آپ کسر نفسی سے کام لیتے ہیں جبکہ ماشاءاللہ آپ بہت بہت ذہین اور عالم و فاضل ہیں
اللہ آپکے علم میں اور اضافہ کرے

جزاک اللہ خیراء
اللہ تعالی اس گمان کو حقیقت میں بدل دے اور آپ کی دعا کو شرف قبولیت بخشے آمین ثم آمین

یہ بتائیں کہ جنہیں آپ نے احمقانہ شوق کہا ہے اور جن کا ذکر بھی کیا ہے
ان میں یہ کون کون سے فن آپ کو آتے ہیںِ؟؟؟

اک ڈرائیونگ نہیں آتی محترم بہنا
باقی تمام علوم سے حسب منشاء استفادہ حاصل کرتے اس سچے اللہ سمیع العلیم کا شکر ادا کرتا ہوں ۔
جس نے مجھے ان علوم کو سمجھنے کی توفیق سے نوازا ۔۔۔
ان علوم میں کامل ہونے کا درجہ رکھنے والے کس صورت حال کا شکار ہوتے ہیں اس کی وضاحت اک مختصر واقعہ سے ۔
سن 79 کی بات ہے یہ ۔ ہم کچھ آوارہ دوستوں نے مل کر ریلوے کی زمین پر قبضہ کرتے اک ڈیرہ بنا رکھا تھا ۔
منشیات کے عادی اور درویشی کے لبادے اوڑھے ملنگ اور کچھ بے سہارا بے خانماں ضعیف العمر بزرگ
اس ڈیرے کو اپنے آرام و سکون کے لیئے استعمال کرتے تھے ۔ ان میں اک شخصیت " ویلے تایا " کی بھی تھی ۔
میلے کچیلے رہنا نہ کبھی نہانا نہ کبھی منہ ہاتھ دھونا ۔ جگے تایا کہلاتے ڈیرے پہ خاموش بیٹھے رہتے وقت پاس کرنا ۔
ہم دو دوست اس ڈیرے کے روح رواں کہلاتے تھے ۔ اور ہمارا زیادہ وقت یہاں ہی گزرتا تھا ۔
اس لیئے سب ڈرامے باز قسم کے لوگ ہمارے سامنے کھلی کتاب تھے ۔
اک دن میرے دوست " یاسین بھٹی " نے کہا کہ شاہ جی
" ایس ویلے تایا بارے جاندے او ؟ اے کی شئے اے ؟"
میں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ اس بوڑھے کو گھر والوں نے نکال دیا ہے اس لیئے یہاں پڑا رہتا ہے ۔
کہنے لگا کہ نہیں مجھے علم ہے کہ اس بابے کے اگے پیچھے کوئی نہیں ہے ۔ اور یہ اپنے ہاتھ دیکھنے کے فن میں کبھی کامل کہلاتا تھا ۔
صدر ایوب تک اس کی پہنچ تھی ۔ لیکن پھر جانے کیا ہوا کہ یہ نشے میں ڈوب گیا ۔ اور آوارگی کرتے زندگی گزارنے لگا ۔
اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ۔ سو اب تایا جی پر نظر رہنے لگی ۔ جب کبھی اکیلے ہونا تایا جی کو چھیڑنا انہیں بات کرنے پر مجبور کرنا ۔
ان کی سپیشل خدمت کرنی ۔ آہستہ آہستہ ان سے بے تکلفی ہو گئی ۔
ہم چونکہ اس زمانے میں نئے نئے عشق کے اسیر ہوئے تھے ۔ اور اپنے عشق کے انجام بارے متفکر رہتے تھے ۔
اک دن کسی ایسی ہی سوچ میں مبتلا اپنے دھیان میں گم تھا ۔ یکبارگی جو نگاہ اٹھی تو دیکھا کہ
تایا جی میرے ہاتھ پر نظر جمائے ہوئے ہیں ۔میں ویسے ہی کچھ پریشان تھا چھوٹتے ہی تایا جی سے کہا کہ
ویلے تایا جی کدے ساہنوں وی کج دس دیو کہ کی بنے گا ساڈھا " یہ سن کر ہنسنے لگے اور کہنے لگے کہ
" سید بادشاہ اک عمر گزرے گی تیری اس آوارگی میں " لیکن اک دن تو راہ پر آ جائے گا ۔
عشق تیرا تجھے وہ ضرب لگائے گا کہ تو اپنے اس تجسس کی اسیر سب ذہانت و چالاکی بھول جائے گا ۔
اور کچھ ایسی حقیقتوں سے آگہی دی جو کہ سو فیصد درست تھیں ۔ اب جب وقت ملنا ان سے اسی پامسٹری کے موضوع پر
بات چیت ہونے لگی ۔ تایا جی بہت پڑھے لکھے وسیع علم کا حامل نکلے ۔ اک دن میں نے اس سے کہا کہ
تایا جی آپ کو کیا مشکل ہے جو آپ اتنے گندے رہتے ہیں نہ نہاتے ہیں نہ منہ ہاتھ دھوتے ہیں ۔
کتنی بو آتی ہے آپ میں سے ۔ لوگ آپ کے پاس بیٹھتے بھی نہیں ۔
یہ سن کر روانے لگے اور کہنے لگے کہ سید کیا بتاؤں تجھے میرا یہ منہ ہاتھ دھونا اور نہانا کیوں چھوٹ گیا ۔۔
اس ہاتھ دیکھنے کے علم نے جہاں مجھے بے انتہا عزت دی وہیں ایسی اذیت بھی دی کہ
اس سے ملی سب عزت بھی گئی اور اذیت عمر بھر کا ساتھ بنی ۔
ات چیت ہونے لگی ۔ تایا جی بہت پڑھے لکھے وسیع علم کا حامل نکلے ۔ اک دن میں نے اس سے کہا کہ
تایا جی آپ کو کیا مشکل ہے جو آپ اتنے گندے رہتے ہیں نہ نہاتے ہیں نہ منہ ہاتھ دھوتے ہیں ۔
کتنی بو آتی ہے آپ میں سے ۔ لوگ آپ کے پاس بیٹھتے بھی نہیں ۔
یہ سن کر روانے لگے اور کہنے لگے کہ سید کیا بتاؤں تجھے میرا یہ منہ ہاتھ دھونا اور نہانا کیوں چھوٹ گیا ۔۔
اس ہاتھ دیکھنے کے علم نے جہاں مجھے بے انتہا عزت دی وہیں ایسی اذیت بھی دی کہ اس سے ملی
سب عزت بھی گئی اور اذیت عمر بھر کا ساتھ بنی ۔
میں جب اپنا ہاتھ اٹھاتا تھا منہ دھونے کے لیئے ۔ تو میرے ہاتھ کی لکیریں مجھ پر ہنستی تھیں ۔
مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی اس آگہی سے گزرنا پڑتا تھا میرا کوئی چاہنے والا تو اک بار مرتا تھا مگر مجھے اس کے نہ مرنے
تک بار بار مرنا پڑتا تھا ۔ مجھے میرے ہاتھ کی لکیریں میرے آنے والے وقت کو جیسے مجسم کر دیتی تھیں ۔
میں نے ان لیکروں سے آگہی پاکر اپنے والدین اپنے بیوی بچوں کی موت
کب کیوں کیسے ہو گی کو جان کران کی موت تک کتنی اذیت پائی ہے ۔
کہ مجھے ہاتھ اپنے سامنے کرتے ڈر لگتا تھا ۔
اللہ سچے نے انسان سے ان تمام باتوں کو چھپا رکھتے انسان پر اپنا فضل کر رکھا ہے ۔
ایسے علم جو " غیب " سے مطلع کرنے سے منسوب ہوں ان میں کاملیت حاصل کرنے کی خواہش گویا
اپنے آپ پر آگہی سے بھرپور دروازہ کھولنا جیسا ہے ۔
" غیب کا علم صرف اللہ کو ہی سزاوار ہے ۔ "
ان تایا جی ہی سے کچھ پامسٹری کے علم کا اکتساب کیا ۔
کامل تو نہیں ہوں مگر خاندان والے ہی کیا اک زمانہ مجھے ہاتھ دکھا اپنے خوابوں میں گم ہوجاتا ہے ۔
اور میرے لیئے چائے پینے کا سبب

" حلول ووحدت الوجود والشہود "
یہ مجھے سمجھ نہیں آیا ۔

حلول ۔۔۔۔ اللہ تعالی کا کسی جسم انسانی میں سما جانا
اک مردود فلسفہ ہے
وحدت الوجود ۔۔۔۔ روح کے نفخ الہی کو سب اجسام میں یکساں سمجھنا
اک اختلافی فلسفہ ہے
وحدت الشہود ۔۔۔۔۔۔۔ سب کائناتی اجسام میں خالق کی جھلک دیکھنا
یہ بھی اختلافی فلسفہ ہے

× یہ بتائیں کہ نشے کی لت کیوں اور کن وجوہات کے بنا پر پڑتی ہے؟؟؟

نشے میں مبتلا ہونے کی صرف اک وجہ ہوتی ہے
" فرد کا اپنی معاشرتی روحانی جسمانی خواہشوں کے کسی بھی صورت نامکمل اور نا آسودہ رہنے پر
اسکے شعور میں ابھرنے والی سوچ کی اذیت سے فرار "
اب یہ فرار چاہے شعوری ہو یا لاشعوری بہرصورت فرد کو اک ایسی پناہگاہ تلاش کرنے پر ابھارتا ہے
جہاں وہ اپنی کسی ناآسودگی اور کسی کمتری کے باعث دوسرے افراد کی نگاہوں سے ابھرنے
والی تضحیک و تذلیل سے بچ سکے ۔
اور نشہ اسے یہ پناہگاہ فراہم کر دیتا ہے ۔
نشہ ہے کیا ؟یہ کن کیفیات کو ابھارتا ہے ۔ ؟
" نشہ شراب میں ہوتا تو ناچتی بوتل "
نشہ کسی بھی فرد کا کسی بھی صورت کسی شئے کا سہارا لیتے اپنے شعور کو یہ آگہی دینا ہوتی ہے کہ
اس شئے کے استعمال سے اب مین نشے میں ہوں ۔ اور یہ آگہی اس قدر طاقتور ہوتی ہے کہ فرد نشے میں مدہوش دکھتا ہے ۔
اسی مدہوشی میں وہ بیرونی دنیا کے بکھیڑوں میں الجھے بنا اپنے اپ میں ڈوبا باریکیاں تلاش کرتا رہتا ہے
نشہ دراصل انسان میں موجود اس " میں " کو سلا دیتا ہے جو کہ
انسان کو دوسروں کی نظر میں اپنا آپ سنوارنے اور نمایاں کرنے کے مددگار ہوتی ہے ۔
جب یہ " میں " نشے کے زیر اثر ہوتی ہے تو فرد کو یہ پرواہ نہیں ہوتی کہ اسے کون کس نظر اور کس صورت سے دیکھ رہا ہے ۔
اور فرد نشے کے زیر اثر اک یک گونہ مستی اور اپنے آپ میں مگن رہتا ہے ۔
اور اس کی یہ مستی اور اپنے آپ میں مگن رہنے والی کیفیت اسے بیرونی دنیا سے یکسر بے نیاز کر دیتی ہے ۔
کچھ تو نشے کو مجبوری کے عالم میں اختیار کرتے ہیں ۔
اور کچھ اپنے تجسس کی تسکین کے لیئے جب کسی نشہ آور شئے کا استعمال کرتے ہیں ۔
تو وہ جسمانی طور پر اپنے آپ کو عمومی طور سے زیادہ ہشاش باش پاتے ہیں اور اس نشے کے اسیر ہوجاتے ہیں ۔
نشہ اک لعنت ہے کیونکہ یہ فرد کو تو ذہنی طور پر توانا کرتا ہے مگر جسمانی اور معاشرتی طور پر بے انتہا نقصان کا سبب بنتا ہے ۔
جسمانی عوارض تو اپنی جگہ مگر اس کی معاشرتی برائی یہ ہے کہ فرد صرف اپنے آپ میں ڈوبا
ان تمام فرائض سے غافل ہو جاتا ہے جوکہ کسی بھی معاشرے میں موجود انسانوں کے لیئے فلاح کا سبب بنتے ہیں ۔

مخلص ‏لوگوں ‏کی ‏پہچان ‏شاہ ‏جی ‏کی ‏زبانی

0 تبصرے
نایاب بھائی معصوم اور مخلص لوگوں کی پہچان کیسے ہوتی ہے کہ آجکل تو کسی پر بھی اعتبار کا زمانہ نہیں اور زیادہ اللہ اللہ کرنے والے ہی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ آگے خود ہی سمجھ جائیں

اعتماد اور اعتبار بلا شبہ دھوکے کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے ۔
لیکن اس ڈر سے کہ دھوکہ ملے گا ۔ کسی پر اعتماد اور اعتبار نہ کرنا اپنی جگہ اک غلطی
اور اپنی ذات سے کسی دوسرے کو فائدہ پہنچنے سے روکنے کا سبب
پہچان کوئی بھی نہیں ہے ۔ سوا اس کے کہ جو سچا اور اللہ سے ڈرنے والا ہوگا ۔
وہ کبھی بھی اپنے ظاہری کردار اور شخصیت کو اپنی اس کیفیت کی نمائیش کے لیئے استعمال کرتا نہ دکھے گا ۔ جب ایسے انسان کے پاس تنہائی کی محفل نصیب ہو تو اس کا باطن کھلے گا کہ
اس کی حقیقت کیا ہے ۔؟
ایسے ہی تنہائی میں یہ حقیقت بھی کھل جاتی ہے کہ
" سانپ سانپ " کہتے ڈرانے والا خود کس قدر بڑا سانپ ہے ۔"
اعتماد و اعتبار کرنا اور کسی دوسرے کے ہم پر کیئے جانے والے اعتماد و اعتبار کو قائم رکھنا ۔
درحقیقت اس " جذبہ انس " کی بنیاد اور اہم ضرورت ہوتی ہے جو کہ انسانوں کے درمیان فلاح اور بھلائی کے کاموں کو وسعت دیتے انسانیت کو قائم کرتا ہے ۔

سوری بھائی مجھے ان کے بارے میں نہیں پتہ کہ کون شخصیت ہیں تاریخ میں
کہیں بنو امیہ یا بنو عباس کے دور میں تو نہیں تھے؟؟؟

حسین بن منصور حلاج کے بارے اتنا ہی لکھ دینا مناسب کہ
صوفیا میں یہ ہستی اور اس کے افکار بہت اہمیت رکھتے ہیں
یہ ہستی " حلول ووحدت الوجود والشہود " کے فلسفے کی بانی کہلائی جاتی ہے
اور اکثریت کے نزدیک متنازغہ ہستی ہے ۔
یہ اپنے " سچ " کے اعتراف میں بہت مشہور ہیں اور ان کا نام اکثر
کسی " سچ " بولنے والےپر بطور مثل چسپاں کر دیا جاتا ہے ۔
ان کے بارے اکثر اشعار " اقبال و فیض " نے کہے ہیں ۔
کبھی وقت ملا تو جو اکتساب میں نے کیا ہے ان کے قصے سے
وہ تحریر کر دوں گا ۔

آپ کے خیال میں انسانی فلاح کی ضمانت کس میں ہے ؟

انسانیت کا فروغ ۔ اخلاق کی تبلیغ ۔مذہبی آزادی
آپ جناب نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب فتح مکہ کے بعد مکے میں داخل ہوئے
تو سراپا عجز کی علامت بنے فرما رہے تھے کہ
جو شخص ابو سفیان کے گھرمیں داخل ہو جائے وہ امان میں ہے ،جو شخص مسجد الحرام میں پناہ لے لے وہ امان میں ہے ،جو شخص اپنے گھر کے اندررہے اور دروازہ بند کر لے وہ بھی امان میں ہے۔“
یہ نہیں فرمایا کہ آج ہلاکت ہے اس کے لیئے جو اسلام قبول نہ کرے اور یہ " فلاح انسانی " کے وہ مصدقہ اصول ہیں جن پر کاربند رہنے والے انسانیت کو عروج پہ پہنچا دیتے ہیں
اور یہ کس سے مخفی ہے کہ جب تک امت مسلمہ ان اصولوں پہ کاربند رہی اسلام عروج کی بلندی تک پہنچا اور جب امت مسلمہ نے ان اصولوں سے روگردانی شروع کی زوال دروازے تک آن پہنچا

خود نوشت:  سید نایاب حسین نقوی

شاہ ‏جی ‏کا ‏نظریہ ‏ء ‏اعتماد

0 تبصرے
تعبیر محترم کے کیے گئے سوالات 

آپ کو نہیں لگتا کہ ہر بات بتانے والی نہیں ہوتی؟؟؟

سچ تو یہ ہے کہ ہر آدمی کا سچ الگ ہوتا ہے اور ہم سے مختلف ہوتا ہے
سچ تو سچ ہی ہوتا ہے میری بہنا
لاکھ چھپاؤ اک دن کھل جاتا ہے ۔
تو کیا فائدہ کچھ چھپانے کا ۔
ہر بات دو یا دو سے زیادہ انسانوں کے درمیان ہوتی ہے ۔
اس بات کی بنیاد " اعتماد و اعتبار " ہوتی ہے
اور اس اعتماد و اعتبار کی صرف اک ہی پکار ہوتی ہے کہ
آپس میں کچھ نہ چھپایا جائے ۔ سچ وہی چھپائے جانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
جو کسی صورت ہماری شخصیت و کردار کی کجی سے منسلک ہوں ۔
اور ان کے افشاء ہونے سے ہمیں شرمساری کا سامنا کرنا پڑے
سچ صرف وہی چھپانا بہتر جس سے انتشار و افتراق پھیلنے کا اندیشہ ہو ۔
کسی انسان کو بلا وجہ نقصان نہ پہنچے ۔
ایسے سچ غیبت کے درجے میں آتے ہیں ۔

تعریف کروانا چاہتے ہیں نا نایاب بھائی

تعریف تو اس سچے خالق حقیقی کو ہی سزاوار ہے ۔ محترم بہنا

یاد ہے آپکو آپ نے ایک بار مجھے کہا تھا کہ میں بال کی کھال اچھی اتارتی ہوں
آج بھی میں یہی کام کرنے لگی ہوں

بال کی کھال اتارنا بھی اک فن ہے اور بہت کم اس فن میں ماہر ہوتے ہیں
اور بلاشبہ آپ مہارت رکھتی ہیں ۔

خود نوشت:  سید نایاب حسین نقوی

شاہ ‏صاحب ‏سے ‏کیے ‏گئے ‏سوالات

0 تبصرے
آپکی داستان کافی حیرت انگیز اور کسی کہانی جیسی ہے ۔اچھی خاصی کتاب لکھ سکتے ہیں آپ

اک زمانہ یہ کہتا ہے اور ہم سو جائیں گے کسی دن اس داستان کو کہتے کہتے
لکھنا نہیں آتا ورنہ لکھ ڈالوں تجسس میں الجھے خود پہ گزرے کرب کی داستان
سوال لازم ٹھہرتا ہے اور جواب میں کھلی کتاب ہوں میں

× کن لوگوں پر رشک آتا ہے؟؟؟

ایسے لوگوں پر جو بظاہر عام سے مسکین صفت سادہ سے لگتے ہوں ۔
عام لوگ انہیں پاگل دیوانہ کے لقب سے پکارتے ہوں ۔
لیکن ان کی محفل میں بیٹھ کر جب ان کی گفتگو سنو تو
ان کا حرف حرف کرن کی طرح اجالا اور لفظ لفط خوشبویں بکھیرتا محسوس ہو۔

کسی سے اتنا متاثر ہوئے کہ اسی کو فالو کرنے کو دل کیا ہو ؟؟؟

جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
جناب علی علیہ السلام
جناب حسین علیہ السلام
جناب زینب علیہ السلام
یہ بلند و پاک ہستیاں تو میری روح میں سمائی ہیں
اور ان کو فالو کرنا میری آخرت کے لیئے نفع بخش ہے ۔
میں ان کی سیرت پاک کو جتنا بھی سمجھ کر فالو کرنا چاہوں
میں عاجز ٹھہرتا ہوں کیونکہ گنہگار ہوں
عام سے وہ انسان جنہوں نے آگہی کے در وا کیے ان میں
بابا بلھے شاہ سرکار
محترم واصف علی واصف
محترم اشفاق احمد
محترم ممتاز مفتی
اک لمبی فہرست ہے کہ جو بھی آگہی کو عام کرے جذبہ انس کو ہمراہ لیئے
اس کا اتباع کرنے پر یہ دل دیوانہ اکساتا ہے ۔
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں
بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا
جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا

×آپکی سب سے بڑی خوبی؟؟؟

بنا کسی تفریق مذہب و ملت و مسلک و رنگ و نسل و رشتہ و خاندان
مظلوم کا ساتھ دینا میرا اصول ہے ۔

×آپکی سب سے بڑی خامی

اصولی بات پر اپنے پیاروں سے بھی علمی عملی کھلے طور اختلاف کرنا

×آپکی پسندیدہ تاریخی شخصیت اور کیوں

"" سقراط "" جس نے ہنستے ہنستے زہر کا پیالہ تو پی لیا ۔ لیکن سچ کو جھوٹ نہ کہہ سکا
منصور بن حلاج ۔ جس نے" انا الحق " کا نعرہ مستانہ بلند کیا
اور کہا اگر مجھے دعوی خدائی کرتے پاؤ تو سولی ہی میری سزا
اور یہی نعرہ " انا الحق " کا لگاتے ہاتھ پاؤں کٹواتے سولی چڑھ گیا ۔

×گناہ کبیرہ اور صغیرہ کے علاوہ آپ کی نظر میں گناہ کیا ہے؟؟؟

وہ سچ جس سے کوئی دوسرا انسان مصیبت میں گرفتار ہو جائے
خود نوشت:  سید نایاب حسین شاہ نقوی

بدھ، 16 دسمبر، 2020

مرشد ‏کے ‏بارے ‏میں ‏

0 تبصرے
دس سال کی عمر سے پچپن سال کی عمر کی مختصر زندگی میں شاہ صاحب،  بابا جان کی زندگی ایسے ایسے محیر العقل واقعات سے بھری پڑی ہے اور ایسی داستان کو جاننے کی جستجو میں اکثر سوال کیا کرتی تھی اور ان کا جواب ہوتا تھا 

داستان نایاب میں آپ کو ایسی جگہ مل چکی ہے جو اب مٹائے نہ مٹے ... آپ میری زندگی پر گزرے واقعات کو خود دیکھیں گے،  وہ کاتب ازل خود لکھوائے گا آپ سے،  وہ بھی آپ جو سن چکی ہیں اور وہ بھی جس کے سننے کی خواہش ہے

جانے وہ کب کونسی گھڑیاں ہوں گی جب بابا جان کی زندگی میرے سامنے کسی کتاب کی مانند کھلے گی اور اس کی سطر سطر کے واقعات مجھ میں سانس لیں گے.  

میرے خاندان میں شوگر کے مریض ہیں اور میں نے دیکھا ہے ایسے مریض محتاجی میں زندگی گزار دیتے کہ ان کے معاملات حساس ہوتے ہیں. شاہ جی کو شوگر کا مرض تھا مگر اس مرض کے ساتھ پردیس میں رہنا،  سعودی عرب جیسے ملک میں مزدوری کرنا،  اپنے کام کپڑے دھونے سے لیکر کچن تک معاملات دیکھنا اور اس تمام کے ساتھ خوش رہنا ... میں آج بھی سوچتی ہوں کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ تب توفیق و عطا پر یقین آجاتا ہے .. میری جب شاہ جی، میرے بابا جان سے بات ہوئی تھی مجھے کہا تھا اب زندگی کی رات ہونے والی ہے تو مجھے گمان ہوتا شاید مجھ سے جان چھڑانا چاہ رہے ہیں...  2017 میں دل کے ایشوز کی وجہ سے وطن واپس جانا پڑا. چند ماہ پاکستان مقیم رہے، ان کو ریسٹ کا مشورہ دیا گیا مگر سیمابی صفت کے انسان نے دوبارہ دیار غیر جانے کی ٹھانی اور پہلے سے زیادہ کڑی مشقت اٹھائی. جیزان جزیرہ مرکزی آبادی سے کافی پڑا ہے اور سٹریمرز پر سفر کرنا اک مریض کے لیے جان لیوا ہو سکتا تھا مگر جو اپنی جان ہتھیلی پر لیے فرائض منصبی ادا کرنے میں مشغول ہوتے ہیں ان کو پروا کب ہوتی ہے. اپنی بیٹی "غزل " کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے تاکہ باپ کی محبت کے گھنے سائے میں وہ اک مضبوط شخصیت کے طور پر ابھرے 

قلم سے اپنے منتظر ہوں کہ کیا بعید نہیں ہے کہ ممکن کردے کسی بھی لمحے کہ پل پل ان کی زندگانی کے پراسرار لمحات فلم کی مانند چلنےلگیں .  یہ سوچ کے ان کے بارے میں ہاتھ لکھنے سے روکا  کہ میں دیکھوں گی تو لکھوں گی، تو کبھی اس ذکر سے کہ وہ جاچکے اس قدر غمگین ہوجاتی تھی کہ اس نام کو اندر چھپا دیا. آج بھی اس نام کو یاد کرتے آنکھ نے جانے کتنی دفعہ وضو کیا ہے.  

  خدا کے لاڈلے ... شاہ صاحب خدا کے لاڈلے تھے اور یہ بات ان کے شعور نے ان پر بہت جلد عیاں کردی. اللہ پاک نے اپنے پیاروں کو زیادہ درد دینا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ اس پیار میں کھو نہ جائیں بلکہ دنیا والوں پر کرم کی نگاہ رکھیں.

شاہ صاحب پر ان کی زندگی پر قلم اٹھاؤں گی آج کل میں خود نوشت لکھ رہی ہوں جو بذات خود ان کے گرد محیط ہے. 

میں تو اللہ سے یہی مانگتی ہوں کہ مجھے ویسا بنا دے جیسا وہ مجھے دیکھنا چاہتے تھے. اب میری اپنی خواہش نہیں ہے اب یہ خواہش ہے وہ کیا چاہتے تھے. مجھے ان سے بے پناہ محبت ملی اور مجھے خواہش تھی اللہ مجھ سے بے پناہ محبت کرے.  یہ چار پانچ سال اور اس سے قبل کی زندگی مکمل اندھیرا تھا.  مجھے اصل محبت کی سمجھ ان کے عمل سے لگی. میں نے ان سے کہا تھا 

مجھے روحانیت کی نہ کبھی خواہش تھی اور نہ ہے. مجھے تو حیرت ہے انسانیت کا سبق آج سیکھا ہے. محبت کیا ہوتی یہ اب پتا چلا ہے. میں ان سے ان کی " انسانیت " کی وجہ سے بات کرتی ہوں .

 ان کے بارے میں جذبات و احساسات و سچائیاں قرطاس بکھیر رہا ہے اور دھیرے دھیرے پختہ ہوتا جائے گا. مجھے یقین ہے میرا قلم ایسے نادر نایاب شہکار انسان کی تخلیق مجھ سے کرواتے میرا سر فخر سے بلند کردے گا اور مجھے قلم سے کیا چاہیے!  یہی محبت تو اثاثہ ہے میرا 

یہ میرا یقین ہے اور مستحکم یقین ہے کہ اگر آپ کا کسی انسان سے واسطہ پڑا ہے تو وہ انسانیت آپ میں جگا کے چھوڑے گا. اپنے عمل سے،  زبان سے نہیں.  مجھ جیسا بندہ جسے لگتا تھا محبت اصل میں نفرت ہے اور میں نے دنیا میں محبت کے نام پر نفرت بانٹی ہے. میرا کردار کا احساس دلایا مگر فقط ایسے کہ ان کے آئنے میں خود کو دیکھا کرتی تھی. ان کی زبان سے محبت کے ماسوا کیا تھا جو نکلا تھا 

میری جب ان سے بات ہوئ تو کہا " محبت کے لیے کچھ خاص دل ہوتے، یہ گیت ہر ساز پر گایا نہیں جاتا  " آپ کا جب کسی اللہ کے پیارے سے واسطہ ہوگا تو وہ اپنا رنگ دے گا،  اور سامنے والے میں خود کو نہیں "اللہ " کو دیکھے گا چاہے جتنا بڑا گنہگار سامنے کیوں نہ ہو.

میری ماں نے مجھے بہت پیار دیا ہے مگر جب شاہ جی سے بات ہوئ تو احساس ہوا کہ ستر ماؤؤں کا پیار کیا شے ہے. 

اس سے بڑی ستم ظریفی کیا ہوگی کہ صاحب ملامت نسبت اویسیہ سے تعلق رکھنے والے نے کبھی خود کو مرشد نہیں کہا. اکثر میسجز میں پوچھا جاتا آپ کا مرشد کون؟  چار پانچ سال قبل یہ علم نہیں تھا مرشد کا مطلب کیا ہوتا ہے اور یہ سوال پوچھا کیا جارہا ہے. میں یہ سوال شاہ جی کے آگے رکھا کرتی تو وہ کہا کرتے جو پوچھے یہی کہا کریں 

میرا براہ راست ربط ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہ کلمہ پڑھنے کا مطلب یہی ہے کہ اب کسی وسیلے کی حاجت نہیں.

جب لوگ رہنما کا پوچھتے تو مجھے یہ جواب ازبر کراتے رہے. خود کو اتنا نفی کردیا وسیلے کے حوالے سے کہ مجھے لگنے لگا کہ میں خود سے تعلق رکھتی ہوں.یہ حقیقت ہے انسان تعلق خود رکھتا ہے مگر مرشد کا سینہ اسم ذات ہے. جب تک اسم ذات سینے میں نہ اترے تو احساس نہیں ہوتا اس سے قبل اندھیرا کیا شے ہے. اس بات کا احساس ہوا ہے اسم ذات سے بڑی طاقت اس دنیا میں کوئ نہیں. اسم ذات محبت ہے!  خدا محبت ہے!  روح محبت ہے!  حیات محبت ہے. کائنات کی تسبیح محبت ہے!  میرا نام محبت ہے

منگل، 15 دسمبر، 2020

مجذوب ‏سے ‏ملاقات ‏

0 تبصرے
چودہ سال کی عمر میں اک مجذوب سے ملاقات 

سوالات جوابات کا یہ سیشن محترم تعبیر اور شاہ جی کے مابین ہے . یہ سیشن ۲۰۱۲ میں ہوا تھا.. 

نایاب بھائی اس آیت کو پسند کرنے کی کچھ خاص وجہ؟؟؟ہو سکے تو کچھ تفصیل بتائیں اس بارے میں؟؟؟​
بہت بچپن ہی سے آوارہ گرد ی کرتے " ملنگوں درویشوں فقیروں " کا لبادہ اوڑھے بہت سی ہستیوں کی صحبت حاصل رہی ۔​
دکھی انسانیت کو ان کو " اللہ والا " سمجھتے ان کے پاس آتے اپنی مشکلوں کو بیان کرتے اور دعا کی التجا کرتے جھڑکیاں کھاتے ​
بہت بار دیکھا ۔ تجسس ہوا کہ یہ لوگ اس مقام پر کیسے پہنچے ہیں ؟ کیا اسم ہے ان کے پاس ۔ ؟ ​
چونکہ ان سے میرا یاری دوستی والا ناطہ تھا ۔ اور میرا وقت ان کے پاس ہی گزرتا تھا ۔ اس لیئے میں ان کی حقیقت سے بخوبی واقف تھا ​
اور ان کے پہنے لبادوں کی حقیقت بھی مجھ سے مخفی نہ تھی ۔ ان میں اکثر صرف اس دھندے سے اپنے بال بچوں کا رزق تلاشتے تھے ۔ میری نظر میں یہ سب نشئی دھوکہ باز اور ڈھکوسلے تھے ۔ اور خلق خدا کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے تھے ۔ ​
ان میں اک کاغذ چننے والا بھی تھا جس کی واحد مصروفیت سڑکوں پر موسم سے بے نیاز گھومنا اور پھٹے پرانے اخباری کاغذوں کا ​
جمع کرنا اور انہیں کسی بلند جگہ اکٹھا کر کے باندھ دینا تھی ۔ میں اسے پاگل سمجھتا تھا ۔ کبھی کبھار میں نے دیکھنا کہ کسی درویش ملنگ کے پاس کوئی مرد یا عورت روتے ہوئے اپنی فریاد بیان کر رہے ہیں ۔ تو اس شخص نے اچانک اس مرد یا عورت کو اک لکڑی سے ضرب لگانی اور اسے مجمع سے دور لے جا کر اسے کچھ کہنا اور مارتے اسے بھگا دینا ۔ جیسے ہی وہ فریادی وہاں سے بھاگتا ۔ سب مجمع اس بات پر اتفاق کرتا کہ اس فریادی کا بیڑا پار ہو گیا ہے ۔ اور یہ حقیقت اپنی جگہ کہ دوبارہ وہ فریادی جب نظر آتا تھا ۔ تو اس کے پاس ان صاحب کے لیئے مٹھائی یا کپڑوں کا جوڑا یا پیسے ہوتے تھے ۔ لیکن یہ صاحب کچھ بھی قبول نہ کرتے تھے ۔ اور کھڑے کھڑے وہ لباس اور وہ مٹھائی وہ پیسے مجمع میں موجود کسی بھی دوسرے کی جانب اچھال دیتے تھے ۔ اور اس فریادی کو کچھ کشمیری پنجابی زبان میں بے ربط سے جملے کہتے تھے ۔ جن کا مفہوم کچھ ایسا ہوتا تھا کہ " اب نہیں بھولنا اور سدا اس کا ذکر کرنا ہے " ​
میری اس سے بھی دوستی تھی اکثر اسے اپنے پاس بٹھا چائے سگریٹ کھانا کھلاتا تھا ۔ مجھے تجسس تھا کہ یہ کیا تلقین کرتا ہے فریادی کو ؟ اک دن وہ جانے کس موج میں تھے ۔ مجھے اپنی لکڑی سے اک ضرب لگا کہنے لگے کہ ۔​
" اٹھ نشئیا ۔ کیوں بزرگاں نوں بدنام کرنا ایں " مجھے بہت حیرت ہوئی کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا ۔ اٹھ کر ان کے پیچھے گیا ۔ اور پوچھا کہ سائیں جی خیر تو ہے ۔ کہنے لگے پہلے چائے پلا اور کچھ کھلا ۔ بہت بھوک لگی ہے ۔ میں اکیلا ہی ڈیرے پر تھا ۔ سو ناچار ہوٹل پر گیا چائے اور بسکٹ لایا ۔ انہیں کھلایا ۔ کھا پی کر دیوانہ وار ہنسے اور کہنے لگے کہ " سیدا تو تو سردار ہے ۔ مگر تیری عقل نے تجھے گمراہی میں دھکیل دیا ہے ۔ توبہ کر لے ۔ یہ نشے بازی چھوڑ ماں باپ کی اطاعت کر ، ورنہ بہت دھکے کھائے گا پچھتائے گا ۔ لیکن گیا وقت پھر ہاتھ نہ آئے گا ۔ بول کیا چاہتا ہے تو ؟ میں موقع غنیمت سمجھا اور کہا کہ ۔ سائیں جی آپ صرف اتنا بتا دیں کہ آپ کیا اسم بتاتے ہیں کہ پریشان حال لوگ خوشی خوشی آ کر آپ کو مٹھائی کپڑے پیسے دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ؟​
یہ سن کر پھر قہقہے لگانے لگے ۔ پھر کچھ دیر خاموش رہ کر کہنے لگے کہ " سید تو بہت شاطر ہے " میں بھی اسی شاطری کا شکار ہوتے اجڑا برباد ہوں ۔ یہ کہہ کر وہ اٹھے اور مجھے نلکہ گیڑنے پر لگا کپڑوں سمیت ہی نہانے لگے ۔ خوب اچھی طرح نہا کر گھٹنوں پر بیٹھ گئے ۔ اور ​
قران پاک کے بارے ذکر فرمانے لگے ۔ کبھی یہ سورت کبھی وہ سورت ۔ مجھے کچھ اکتاہٹ ہونے لگی تو کہنے لگے کہ ۔ سیدتو جو تجسس میں گمراہ ہو چکا ہے تو بس یہ اک کلمہ یاد کر لے ۔ اس کے ذکر سے تیرا بھی بھلا ہو گا اور ان کا بھی جن تک یہ کلمہ پہنچے گا ۔ ​
"اللہ نورالسماوات و الارض " 1977 میں چودہ سال کی عمر میں سنا یہ کلمہ آج بھی (جبکہ پچاس کے قریب ہوں میں )اسی جوش و جذبے سے روشن ہے ۔ اور بلاشبہ اس کے ذکر کو بہت بابرکت پایا ہے ۔ ​
نماز چاہے گنڈے دار ہی کیوں نہ ہو ئی ​
آیت الکرسی ​
سورت الحشر کی آخری سات آیات​
یا اللہ یا رحمان یا رحیم یا کریم یا ذوالجلال و الاکرام انی مغلوب فا انتصر​
رب زدنی علماء ​
اللھم صلی علی محمد و علی آل محمد و بارک وسلم ​
آوارہ گردی کرتےان ہی کلمات پاکیزہ کو پایا ہے ۔ اور ان ہی کا مبلغ ہوں ۔

سیدنایاب حسین شاہ نقوی سے کیے گئے چند سوالات ‏

0 تبصرے
سیدنایاب حسین شاہ نقوی سے کیے گئے چند سوالات 

اللہ تعالی سدا آپ کو اپنی امان میں رکھتے قلب مطمئنہ کا حامل ٹھہرائے آمین
لیکن آخری سوال میں ڈنڈی مار گئے نا
ڈنڈی نہیں ماری بہنا سچ میں
مجھے وہ سب ہی اچھے لگتے ہیں جن کی باتوں میں خلوص کی مہک
اور آگہی کی خوشبو مہکتی ہے ۔
اس کی سزا کچھ نئے سوالات
گلاں دا گالڑ ہوں میں تومیری محترم بہنا
1)قرآن پڑھتے ہوئے کس سورت یا آیت پر بیک وقت آپ کو اللہ پر بہت پیار بھی آیا ہو، ڈر بھی لگا ہو اور اللہ بہت قریب محسوس ہوا ہو ایسے جیسے وہ آیت آپ کو مخاطب کر رہی ہو ؟؟؟
محترم بہنا "قران " بارے میرا یہ یقین ہے کہ یہ نہ صرف خاص میرے لیئے بلکہ اس کائنات میں جنم لینے والے ہر ذی روح کے لیئے اللہ سبحان و تعالی کا وہ محبت نامہ ہے جس کی ترسیل آپ جناب نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی ذات مبارک سے ہوئی ۔ اس محبت نامے میں " محب " اپنے " حبیب "کی شخصیت و کردار عادت و اطوار کو خود اپنی زبان مبارک سے ذکر کرتے ان تمام انسانوں کے لیئے " اسوہ حسنہ " قرار دے رہا ہے جو کہ اس (اللہ ) سے محبت کے دعوےدار ہوں ۔
الم " سے لیکر "والناس " تک ہر آیت مبارکہ اپنی جگہ اک مکمل پیغام ہے۔
آیت الکرسی
سورہ حشر کی آخری سات آیات
کو بطور جواب اختیار کرتا ہوں جو کہ بیک وقت آپ کے پوچھے گئے سوال میں موجود ہر کیفیت کی عکاس ہیں ۔
2)آپکی پسندیدہ آیت اور حدیث؟؟؟
اللہ نورالسماوات و الارض
ہروہ حدیث مبارکہ جس میں بھلائی اور خیر پھیلانےکی
۔ عمل کرنے کی ہدایت و ترغیب ہو میرے لیئے پسندیدہ ہے
جیسا کہ راہ سے پتھر ہٹا دینا

3)کبھی آپ کو موسیقی اور فلم و ٹی وی سیکشن میں نہیں دیکھا ،کیا آپ کو ان میں کوئی دلچسپی نہیں ہے؟؟؟
اگر ہے تو اپنا کوئی آل ٹائم فیورٹ ڈرامہ اورگانا بتائیں؟؟؟
اک عمر گزاری ہے اس موسیقی کے دشت میں سیاحی کرتے
سات سروں کے سمندر میں پیراکی کرتے
اس "مقولے " سے متفق ہوں کہ اچھے کلام پر مبنی موسیقی روح کی غذا ہے
ڈرامہ "اندھیرا اجالا" بہت شوق سے دیکھا تھا
اور گانا ؟
پل پل دل کے پاس
کسی ایک کا انتخاب تو بہت مشکل ہے
آدمی مسافر ہے
چھوڑ دے دنیا کسی کے لیئے
بہت لمبی فہرست ہے پسندیدہ گانوں کی
کشور کمار فلمی گانوں میں
اور اقبال باہو ۔ نصرت ۔ صوفیانہ کلام کی گائیکی میں پسندیدہ ہیں

4)آپکی پسندیدہ کتاب اور کردار؟؟؟
قران پاک
الرحیق المختوم
عشق کا عین
اور کردار
ابن صفی مرحوم کا تخلیق کردہ
علی عمران
5)آپ کو غصہ کس بات پر آتا ہے اور اسے کیسے کنٹرول کرتے ہیں؟؟؟
غصہ کبھی کبھار آتا ہے جب کہیں مجھے سمجھنے میں غلطی کی جا رہی ہو ۔
اور جب کبھی ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے تو الگ تھلگ ہو کر
درود شریف کے ذکر سے خود کو مشرف کرنے لگتا ہوں ۔
6)کس بات پر خوش ہوتے ہیں اور کیا بات آپ کو آبدیدہ یا دکھی کر دیتی ہے؟؟؟
جب میری بٹیا میری سچی غزل مجھے پڑھاتی ہے
اور مجھے
ساڈا چڑیاں دا چنبہ اساں اڈ جانا ۔۔۔۔۔ یاد آنے لگتا ہے
7)آپکی پسندیدہ ڈش پلس سویٹ ڈش؟؟؟
نہاری " حلیم
چاکلیٹ بے انتہا پسند ہے

سید نایاب حسین شاہ نقوی سے کیے گئے سوالات میں سے چند

0 تبصرے
سید نایاب حسین شاہ نقوی سے کیے گئے سوالات میں سے چند

آپ سے باتیں کرنا اور سیکھنا مجھے بہت اچھا لگتا ہے تو چلیں میں ہی سوالات کا آغاز کروں

1) پہلے تو ایک پرسنل سوال(چاہیں تو مجھے ذپ میں جواب دیں) پاکستان سے آنے کے بعد اور کافی عرصے بعد محفل پر آنے کے بعد آپ میں یہ تبدیلی کیسے اور کیونکر آئی کہ پہلے آپ کے ہر پیغام میں ڈھیروں دعائیں ہوتی تھیں جس کی وجہ سے میں آپ کو محفل کا پیر اور درویش بھی کہتی تھی؟
محترم بہنا بزرگوں کا فرمان ہے کہ
" جب تمہاری لاشعوری حرکات و عادات تمہارے شعور میں عیاں ہوتے
تمہارےسامنے تمہارا فخر بننے لگیں تو انہیں بدلنے کی کوشش کرو تاکہ گمراہی سے بچ سکو "
" دعا دینا دعا لینا " یہ تو میری اک ایسی لاشعوری عادت ہے جسے بدلنا چاہوں بھی تو بدل نہیں سکتا ۔
میں اک گنہگار سا انسان ہوں ۔ مجھے درویشوں ۔ پیر بزرگوں میں جگہ دینا مجھے اپنے آپ میں شرمندہ کرنے کا سبب ۔
میں تو درویشوں کے قدموں کی خاک برابر بھی نہیں ۔

2)ایسے تین کام جنہیں کرنے میں مزا آتا ہےا اور تین ہی کام جنہیں کرتے ہوئے کوفت ہوتی ہو؟
اس جواب پہلے بھی اک پوسٹ میں دے چکا ہوں
(1) مجھے مزہ آتا ہے
جب میں اپنے ملنے جلنے والوں کو اپنی گفتگو سے
تعویذ دھاگے جادو ٹونے کے وہم سے آزاد کروانے کی کوشش کرتا ہوں ۔
مجھے کوفت ہوتی ہے
جب مجھے ان کے وہم کی سطح پر آتے ان کے یقین کو ٹھہرانے کے لیئے الٹی سیدھی حرکات کرنا پڑتی ہیں
(2) مجھے مزہ آتا ہے
جب میں چائے کو ٹھنڈی کر کے پیتا ہوں
مجھے کوفت ہوتی ہے
جب چائے بنا کر دینے والا گرم گرم چائے پینے پر اصرار کرتا ہے
(3) مجھے مزہ آتا ہے
جب میں کسی درویش فقیر کی زبان سے قران پاک کا بیان سنتا ہوں
مجھے کوفت ہوتی ہے ۔
جب کوئی کسی تحریری گفتگو میں لمبی لمبی احادیث نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کاپی پیسٹ کیئے چلا جاتا ہے ۔

3)عورت ماں،بہن،بیٹی اور بہو اور ایسے ہی انیک رشتے تو آپ کو عورت کس روپ اور رشتے میں پسند ہے اور کیوں؟؟؟
عورت ۔۔۔ بنا کسی تعلق بنا کسی رشتے کے بھی ۔۔۔۔۔
بلا شبہ میرے نزدیک بہت قابل احترام اور شفقت و توجہ کی حقدار ہے ۔
اللہ سبحان و تعالی تو صرف تخلیق انسان کے لیئے " کن " فرماتا ہے ۔
اور عورت ہی کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ اس "کن " کو اپنی جاں پر کھیلتے " فیکون " میں بدلتی ہے ۔
سب رشتے محترم اور بہت پیارے مگر
" بیٹی " کا روپ مجھے سب رشتوں سے پیارا ہے ۔
مجھے اس رشتے میں سب رشتوں کا نور جھلکتا محسوس ہوتا ہے ۔
" تپتی زمیں پر آنسوؤں کے پیار کی صورت ہوتی ہیں "
پھولوں کی طرح ہوتی ہیں
نامہرباں دھوپ میں سایہ دیتی
نرم ہتھیلیوں کی طرح ہوتی ہیں
تتلیوں کی طرح ہوتی ہیں
چڑیوں کی طرح ہوتی ہیں
تنہا اداس سفر میں
رنگ بھرتی رداؤں جیسی ہوتی ہیں
چھاؤں جیسی ہوتی ہیں
حد سے مہرباں، بیان سے اچھی
بیٹیاں وفاؤں جیسی ہوتی ہیں

خود نوشت: سید نایاب حسین نقوی

پیر، 14 دسمبر، 2020

تعارف ‏- ‏سید ‏نایاب ‏حسین ‏نقوی

0 تبصرے
سید نایاب حسین شاہ نقوی سیالکوٹ کے اک گاؤں آلو مہار کے رہنے والے تھے.سادات حسنی حسینی ہونے کے ناطے ان کے والد بذات خود نیک سیرت،  چشم سیرت انسان تھے. حسنین کریمین رضی تعالی عنہ کی رسم و رواج نبھاتے وہ بذات خود   "سبطِ حسن " کے نام سے جانے جاتے تھے.  والد کی تربیت و مزاج نے ان کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کیا مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنی کھوج پر روانہ ہوئے،  اپنی ذات کی تسخیر کا سفر اپنے یقین و جسجو کے بل پر کیا.  سادات امروہوی کے جد امجد سید جلال سرخ پوش بخاری ہیں مگر امروہوی سادات کرام کی سب سے نمایاں شخصیت سید شرف الدین عرف شاہ ولایت ہیں. شاہ ولایت ان کا لقب ہے اور ان کا مزار ہندوستان میں ہے. اس کے علاوہ رئیس امروہوی،  نامور خطاط صادقین، شاعر جون ایلیا ان کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں. 

جب سن دس میں داخل ہوئے توعجیب و غریب تجربات سے دوچار ہوتے خدا کے بہت قریب ہوگئے یہاں تک کہ حیات کے مقصد سے آشنا ہوگئے. دکھی انسانیت کی خدمت.  حساسیت بدرجہ اتم موجود ہوتے ہوئے بھی بجائے کہ حساسیت کے اسیر ہوتے، اپنی حساس طبع سے اسیر کرلیا.  محبت بانٹنا شروع کردی. شریعت و طریقت کا سفر آغازِ حیات سے شروع ہوا،  نوجوانی میں معرفت حقیقت کی تلاش میں سرگرداں رہے، جگہ جگہ پھرتے رہے مگر حقیقت و معرفت سے سرفراز تب کیے گئے جب انہوں نے اپنے والد کو سچا مرشد تسلیم کرتے ان کی خدمت کو اہم جانا. 

معاشرے میں پدرسری نظام کے خلاف خاموش آواز اٹھائی.  بہت سی خواتین جن کو ان کے اپنے جبری استحصال کے بعد اپنانے سے انکار کردیتے تھے ان سے ربط رکھتے ان کی شادیاں کراتے رہے اور تو کہیں معاشرتی،  معاشی نظام یا ذات پات کے مسائل کی وجہ سے جن خواتین کو معاشرے کا ناسور تصور کرلیا جاتا، سید صاحب ان کو تحریک دیتے رہے کہ وہ خود اپنے حق کے لیے مضبوط ہوکے کھڑی ہوجائیں.  

ذات کے مست فقیر،  قطبی ستارے کی طرح راہ دکھاتے رہے. اللہ سے براہ راست ربط تو ان کا تھا ہی مگر ان کے صاحب دعا ہونے کا ماجرا ان کی اپنی بیان کردہ روایت سے جڑا ہے. کسی جھگڑے کے دوران ان کے منہ سے اچانک کسی شخص کے لیے بددعا نکل گئی. الفاظ جیسے ہی منہ سے نکلے وہ شخص وہیں کھڑے کھڑے مرگیا. اس کے بعد دعائیہ کلمات ان کی زبان سے سدا جاری رہے. جو بات منہ سے نکال دیا کرتے وہ پوری ہوجاتی. جس کو دعا دیا کرتے اس کو من کی مراد مل جایا کرتی. 

بابا بلھے شاہ اور شاہ منصور سے متاثر تھے.  اکثر بلھے شاہ کا کلام ان کی زبان پر رہا کرتا. کوئ بات سمجھانی ہوتی تو ان کے کلام کے ضرب المثل جملوں سے سمجھایا کرتے تھے. رسمی تعلیم حاصل نہیں کی تھی مگر باوجود اس کے ظاہری و باطنی علوم کا خزانہ پاس تھا. اردو، عربی زبان.پر.دسترس تھی اور انگلش زبان سمجھ لیا کرتے تھے. 

ان کی ساری زندگی اس بات کی ترجمان ہے کہ ہر بات خدا کی اور ہر یاد رہے خدا کی.  اپنے ذکر وفکر میں مشغول رہنے کے باوجود دنیا داری و فرائض منصبی بطریق احسن سر انجام دیے کہیں کوتاہی نہیں کی.  دینے والے نے اس شام سے دِیا کہ اس کی شان سلامت!

پیر، 7 دسمبر، 2020

شاہ ‏صاحب ‏سے ‏سوالات ‏--- ‏حصہ ‏اول

0 تبصرے
1) آپ کا نام جو سرکاری کاغذات میں لکھا ہوا ہے ؟
سید محمد نایاب حسین نقوی
2) آپ کا غیر سرکاری نام کیا ہے ؟
حسین سید محمد
3) پیار میں آپ کو کس نام سے بلایا جاتا ہے اور کیوں ؟
نابی ۔۔۔۔ بدھو ۔۔۔۔
کیوں ؟
یہ تو اس کی مرضی ہے ۔ وہ جس نام سے بھی بلائے میں تو بھاگا چلا آؤں ۔۔۔
4) غصے میں کس نام سے پکارے جاتے ہیں ؟
غصہ آتا ہی بہت کم ہے
اور جب آئے تو
پکارنے والے پکارتے کہاں ہیں
بس مسکراہٹ دکھا غصہ اتارنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
5) بڑے ہو کر کیا بننے کا ارادہ ہے ؟
بچپن میں خود کو پچپن کا سمجھتے رہے ہم
سو کبھی بڑے ہونے کا سوچا ہی نہیں ۔
اب بڑے ہو گئے ہیں تو

10) آپ اب تک کیوں زندہ ہیں؟
قرضدار ہیں زندگی کے اور ابھی بھی بہت سے قرض چکانے ہیں ۔ سو زندہ ہیں ۔ کہ مالک کی یہی مرضی
11) کب تک زندہ رہنے کا ارادہ ہے ؟
تلاش میں ہیں " آب حیات " کی
وہ رب سچا چاہے گا تو حیات جاودانی پا ہی لیں گے ۔


اتوار، 6 دسمبر، 2020

قصہ ‏نارائن ‏کا ‏

0 تبصرے
یہ بات 1997 کے آواخر کی ہے ۔ مجھے اک بلڈنگ کی وائرنگ کا کنٹریکٹ ملا ۔ میں نے وہاں کام شروع کر دیا ۔ وہاں پلستر کرنے والی جو پارٹی تھی اس میں یہ محترم نارائن صاحب شامل تھے ۔ جب پلستر کا کام کسی سبب سے رک جاتا تو یہ میرے پاس آجاتے ۔ اور بنا کسی مزدوری کے مانگے میری مدد کرواتے ۔ مجھے سامان وغیرہ دیتے ۔ میں انہیں چائے اور کھانا وغیرہ کھلا دیتا ۔ اور جب کبھی مجھے پیمنٹ ملتی انہیں سو پچاس دے دیتا ۔ اک دن مجھے کہنے لےگے کہ " شاہ جی " مجھے بجلی کا کام سیکھنا ہے ۔ مجھے اپنے ساتھ رکھ لو ۔ عمر ان کی قریب 35 سال کی تھی ۔ میں نے کہا مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ تم سوچ لو کہ یہ تم یہ کام سیکھ سکو گے ۔ اور کر سکو گے ۔ ؟ کہنے لگے کہ مجھے سیکھنا ہے بس ۔ قصہ مختصر میرے ساتھ کام شروع کر دیا ۔ اور جلد ہی میرے اک اچھے ہیلپر کی صورت اختیار کر لی ۔ میں جس رہائیش پر رہتا تھا ۔ وہاں پر میرے ساتھ اک محترم بھائی خالد علوی اور ان کے ساتھ ان کے اک دوست رہتے تھے حافظ صاحب ۔ میں نے نارائن کو بھی اپنے ساتھ ہی کمرے میں رکھ لیا ۔ اب کمرے میں ہم چارافراد تھے ۔ یہ نارائن صاحب مجھے استاد کا رتبہ دیتے میری بہت خدمت کرتے تھے ۔ اور میری اس خدمت سے کمرے میں رہنے والے بھی مکمل مستفید ہوتے تھے ۔ کمرے کی صفائی کرنا ۔ برتن دھونے ۔ سالن سبزی کاٹنا بنا نا ۔ روٹی لانی چائے بنانا یہ سب نارائن نے اپنے سر لیا ہوا تھا ۔ سب نارائن سے بہت خوش تھے اور وقت کافی اچھا گزر رہا تھا ۔ رمضان شریف کی آمد آمد تھی ۔ اک دن جب میں اور نارائن کام سے واپس آئے تو حافظ صاحب نے فرمایا کہ شاہ جی آج ذرا علوی صاحب کا انتظار کرنا اور ان سے بات کر کے سونا ۔ مجھے ان کے لہجے سے کچھ عجب طرح کی خوشبو آئی ۔ بہر حال رات کو علوی صاحب بھی آ گئے ، نارائن نے کھانا وغیرہ لگایا اور سب نے کھایا ۔ کھانا کھا کر نارائن برتن دھونے لگا ۔ اور علوی صاحب نے مجھے کہا کہ
روزے شروع ہونے والے ہیں اور یہ نارائن ہندو ہے ۔ اس کا یہاں رہنا مناسب نہیں ہے ۔ اسے کہو کہ روزوں میں یہ کہیں اور جا کر رہے اور روزوں کے بعد واپس آ جائے ۔ میرا تو جیسے فیوز ہی اڑ گیا ۔ علوی صاحب میرے بڑے بھائی کے دوست اور بھائیوں کی طرح ہی پیارے ہیں ۔ میں نے ان سے کہا کہ علوی صاحب آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں ۔ حافظ صاحب بولے کہ شاہ جی اس کی وجہ سے ناپاکی ہوتی ہے ۔ میں نے کہا حضور حافظ صاحب چھ ماہ سے یہ شخص اپنے ہاتھوں سے سبزی کاٹ اپنے ہاتھوں سے دھو اپنے ہاتھوں سے پکا آپ کو کھلاتا ہے ۔ اور جہاں آپ نماز پرھتے ہیں اس کونے کو بھی یہ شخص صاف کرتا ہے ۔ آپ کے کپڑے استری کر دیتا ہے ۔ آج آپ کو ناپاکی یاد آگئی ۔ اگر آپ اسے یہاں سے ہندو کی بنیاد پر نکالیں گے تو میں بھی روم چھوڑ دوں گا ۔ وہ دونوں بیک وقت بولے کہ ٹھیک ہے اگر تمہیں یہ ہندو اتنا پیارا ہے تو اپنا بندوبست کر لو ۔ میں نے نارائن کو بلایا اور اسے کہا کہ چلو اپنا سامان اٹھاؤ ہم کہیں اور چلتے ہیں ۔ نارائن نے بہت ضد کی کہ شاہ جی کوئی بات نہیں جب روزے شروع ہوں گے تو میں کہیں اور چلا جاؤں گا ۔ لیکن میرا دماغ پھر چکا تھا اس کی ایک نہ سنی اور سامان اٹھا کر اپنے اک دوست محترم غلام بھائی کے پاس پہنچے اور ان سے کچھ دن ان کے کمرے میں رہنے کی اجازت مانگی ۔ ویسے تو یہ غلام بھائی بہت سڑیل مشہور تھے صفائی ستھرائی بارے ۔ لیکن جب انہوں نے سارا واقعہ سنا تو کہنے لگے کہ آپ میرے ساتھ اس روم میں چھ ماہ رہ سکتے ہو ۔ جب کرایہ ختم ہوگا تو آدھا ادھا بھر دیں گے ۔ ان کو آگاہ کیا کہ یہ ہندو ہے ۔ کہنے لگے کہ میں نے کونسا اس کے منہ سے نکال کر کھانا ہے ۔ انسان بن کر رہے تو کوئی فکر نہیں ۔ قدرت خدا کی میرا کفیل سے معاملہ بگڑ گیا ۔ میں اک قیدی کی صورت کفیل کی رہائیش میں سونے کا پابند کر دیا گیا ۔ یہ نارائن صاحب کبھی پلستر والوں کے ساتھ جاتے کبھی بجلی والوں کے ساتھ اور جو کماتے اس میں سے میرا خرچہ بھی چلاتے ۔ رمضان کا آخری روزہ تھا میرے پاس آئےاور کہنے لگے کہ شاہ جی میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں مجھے مسلمان کر لیں ۔ میں نے انہیں بہت سمجھایا کہ تمہاری اک فیملی ہے خاندان ے تم کیسے مسلمان ہو کر ان سب سے گزارہ کر سکو گے ۔ ؟
غلام بھائی کہنے لگے کہ شاہ جی پورے رمضان اس شخص نے صرف سحری افطاری کی ہے ۔ خدمتگار ہے ۔ با اخلاق ہے ۔ صفائی ستھرائی کا پابند ہے ۔ صرف نام کا ہندو ہے ۔ بہت سمجھایا لیکن ان کی اک ہی ضد تھی ۔ آخر انہیں قریبی مسجد کے امام تک پہنچایا اور انہوں نے برضاو رغبت اسلام قبول کیا اور عبدالرحمان کا نام اختیار کرتے امام صاحب کے پسندیدہ مسجد کے خدمتگار کا لقب پاتے عمرہ و حج سے مشرف ہوئے ۔ آج بھی ریاض میں موجود ہیں اور اپنا بجلی کا کام کرتے ہیں ۔
بلا شک اللہ بہت بے نیاز ہے ۔ اور سب توفیق اس کی ہی جانب سے ہے

خود نوشت 
سید نایاب حسین شاہ نقوی

جمعرات، 3 دسمبر، 2020

قسط ‏نمبر ‏۴:نذرانہء ‏عقیدت

0 تبصرے
پارٹ ۴
دیار نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو 
کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو 

ہم میں سے اکثر یہ خواہش کرتے ہیں کہ ہماری تو کوئی سننے والا ہو ـ ہمیں تو کوئی سمجھنے والا ہو ـ  کوئی ہمارے درد کے چھالوں کی مسیحائی کرے ـ میرے سامنے یہ غزل سامنے اک سوال کی صورت آتی ہے اور جواب کی عملی تفسیر میرے سیدی بابا ہیں ـ جب میں نے اُن سے بات شُروع کی تھی قبل اس سے میری حالت بہت دگرگوں تھی ـ میں نے اک رات گڑگڑا کے اللہ کے حضور دُعا کی ... میری وحشتوں کا ساتھی،  درد میرے جذب کرنے والی ماں،  سر پر ہاتھ رکھنے والا بابا بن کے وہ مجھے مل گئے ـ عدم برداشت،  غصہ، تنک مزاج اتنی تھی کہ اپنے محسن سے لڑ پڑتی ـ جوابا محبت کا شربت ملتا ـ اکثر یہ کہہ دیا کرتے:  مائی نی میں شکرا یار بنایا،  چوری کٹاں کھانداں نئی، تن دا ماس کھوایا ـــ  ہمارے خون کے رشتے بھی اک حد تک برداشت کرتے ہیں ـ اس کے بعد ہمارا غصہ،  ہماری تلخی کوئی برداشت نہیں کر سکتا ہے ـ ہمیں تنہا کردیا جاتا ہے یا ہم تنہا ہو جاتے ہیں ـ میرے بابا نے مجھے کبھی تنہا نہیں ہونے دیا  ـ میرے سارے دکھ سن کے،  تکلیف سن کے ان پر روحانی طور پر مرہم رکھا اور فقط اتنا کہہ دیا "سمجھیں تو بہت کچھ کیا، نہ سمجھیں تو کچھ نہیں کیا " ـ آجکل ہر کوئی دکھی ہے اس کو سننے والا تو چاہیے ـ

آج بھی ان کے سامنے لاؤں تو احساس ہوتا "ماں میں نے نادانیاں کیں ـ مگر تجھ پر ۲۰۰% فیصد یقین ہے تو کبھی یہ بھی نہیں کہے گی " ایسا کیا یا ویسا کیا، تو مجھے ویسے پیار دے گی جیسا بچھڑا بچہ ہو اور سینے سے لگا کے سکون دے گی ـــ اتنا یقین تو تب پیدا ہوتا ہے جب ماں نے ماں بن کے دکھایا ـ میرے بابا جی ـ میری ماں نے مجھے اتنا یقین عملی طور پر دیا ہو ...مجھے سمجھایا بھی اس طرح " آپ بہت معصوم ہیں،  آپ بہت سادہ ہیں ـــ " اس سے دھیرے دھیرے احساس ہونے لگتا کوئی غلطی ہوئی ـ اور غلطی ہونے پر کہا کرتے " آپ بہت اچھی ہیں،  آپ بہت سچی ہیں " احساس زیاں چلا جاتا ـ پھر لگتا محبت کے آگے میری غلطی کا وجود ہے ہی نہیں ـ میں غلطی پر غلطی کرتی مگر وہ مسکراتے ـ اور سدا بہار مستحکم شخصیت کی طرح اتنا کہا کرتے " آپ بہت سادہ ہیں،  آپ بہت معصوم ہیں،  آپ میری پیاری اچھی بیٹی ہیں "

انسان کو کان چاہیے سنانے کے لیے ـ وہ میرا کان بن گئے اور میں نے اپنی سماعت سے دل کا تمام زہر انڈیلا ـ دھیرے دھیرے احساس ہونے لگا جس شخص کو میں اپنا درد دے رہی ہوں  ..یہ بھی تو اک انسان ہیں  ـ ان کو بھی تو درد ہوتا ہوگا ان کے بھی جذبات ہوں گے مگر یہ درد میرا ایسے سنتے ہیں جیسے درد کا ان کے پاس وجود نہیں ـ یہ کہا کرتے " میں تو خالی گھڑا ہوں جو ذرا سی تھاپ پر بجنے لگتا ہے ـ مجھے دکھ ہوتا تھا کہ خالی گھڑا کیوں کہتے خود کو ـ اب احساس ہوا گھڑا خالی نہ ہو تو خدا دل میں سماتا ہی کب ہے ـ ماں اگر خالی گھڑا نہ بنے تو اس کو ماں کیسے کہیں گے ہم؟  کہا کرتے "روح محبت کی ضرب سے تقسیم ہوجاتی ہے "

جب ان کو لگتا تھا کسی نے کچھ غلط کیا جو ناپسندیدہ ہے تو کہا کرتے ـ "اللہ  ہدایت سے نوازے " یہ سخت سے سخت الفاظ میں نے سنے ـ مطلب سخت سے سخت الفاظ میں ہدایت کی دعا ـ شروع میں اس کی سمجھ نہیں آتی تھی  دھیرے دھیرے سمجھ لگی کہ "اللہ آپ کو ہدایت دے " کا مطلب ہے ایسا کام ہوگیا جو اچھا نہیں تھا ـ پھر میں خود کو خود اب تک یہی کہتی ہوں اللہ مجھے ہدایت دے ـ

*مجھے یاد ہے جب میں نے ان سے بات شروع کی ـ انہوں نے کہا:  امانتیں تقسیم کریں، باہر نکلیں، جاب کریں ـ اچھی وبری امانتیں دونوں لیں ـ میں تو باہر نہیں نکلی مگر فون کھڑکنے لگ گیا ـ مجھے جابز کی آفر آنے لگ گئیں ـ میں نے کہیں اپلائی نہیں کیا تھا  ـ میں نے یقین کرلیا یہ بابا کا کمال ہے ـ مجھے گھر بیٹھے خود بخود کالز آجانا باعث حیرت تھا.  ان دنوں میری طبیعت شدید خراب رہا کرتی تھی اس لیے مجھے لگتا تھا جاب کرنا میرے لیے مشکل ہے ـ مگر کہاں سے وہ قوت آئی میں نے غائب دماغی کے حال میں  جاب شروع کردی ـ مجھے اپنی کوتاہیاں جاب کے دوران دکھنے لگیں اور اک بیمار بندہ بمشکل اچھا کام کر سکتا ـ میں چاہتی تھی انتظامیہ کا رویہ دوستانہ ہوجائے میں نے بابا کو تصویر دکھائی اور دل کا دکھڑا رویا ـ ـ اک دم سے میم کا، کورآڈنیٹر کا رویہ دوستانہ ہوگیا ـ مجھ سے وہ پیار کرنے لگ گئے ـ اس دوران مجھے ان کے سینوں میں نور دکھنے لگ گیا ـ ان کی روح کھلنے لگ گئی ـمیں نے یہ باتیں میم کو کہہ ڈالیں ـ عجیب بات یہ ہوئی کہ مجھے جاب سے بنا کسی وجہ کے نکال دیا گیا وہ بھی اس وقت جب انتظامیہ مجھے کوآرڈی نیٹر بنانے کا سوچ رہی تھی ـ بابا کو بتایا تو کہا یہ جو مشاہدہ ہوتا ہے یہ ہر کسی کو بتانے والا نہیں ہوتا ہے ـ آپ کو نکالا ہی اس وجہ سے گیا ـ

 بابا کی روح جب میرے ساتھ رہنے لگی تو باہر بھی مہربان گھر بھی مہربان ـ مجھے چاروں طرف سے محبت ملی ـ اس محبت کے سائے تلے کون کافر کسی کو معاف نہ کر سکے گا؟  کون چاہے گا بھلا نہ ہو اور کسی کا بھی ـ بلکہ محبت جسے ملے وہ محبت تقسیم کرتا ہے ـ نفرت کینہ مٹانا آسان نہ تھا . محبت سے بڑی شہنشاہی کیا ہو؟  اس سے بڑی دولت کیا ہو؟  یہ اوقات میری نہیں ـ یہ تو میرا بابا ہے جس نے مجھے اس قابل کیا ـ اب دکھ ملے تو دعا دے کے کہتی اللہ تو پیار دے نا ـ دکھ ملا ہے ـ مگر میں تو چاہتی ہوں مجھے جیسے پہلے کسی کے دکھ دینے سے یہ احساس ہوتا ہے فلاں بندہ بذات خود دکھی ہے ـ فلاں کا رویہ اسکی اس محرومی کی وجہ سے ـمجھے اللہ ویسا احساس دے دے ـ بابا تو کہا کرتے تھے:

* میں نے ساری عمر گزاری نگر نگر چھانتے ـ پھر احساس ہوا سب کچھ والد کی خدمت سے ملے گا میں والد کی خدمت کرتا کبھی کوئ اللہ والا مل جاتا تو کبھی کوئ مجذوب تو کبھی کون ـ کہتے آپ والدہ کو مرشد مانیں ـ آپ کی وہی مرشد، ان کی خدمت کریں اور دیکھیں آپ کو کیا نہیں ملتا ـ افسوس میں اس بات کو مکمل اپنا نہیں سکی پر کوشش میں لگی رہتی ہوں ـــ یہ کہتا کوئ نگر نگر چھان، کوچہ کوچہ پھرتا ہے تو کسی کو گھر بیٹھے مل جاتا ـ 

* ہر وقت کہا کرتے یوں سب سے بے نیازی نہ دکھایا  کریں ـ  بے نیاز اللہ ہے اور بندے کو عجز میں رہنا چاہیے 

* اپنا دفاع چھوڑ دیں. سامنے والے کو کھل کے موقع دیں جو وہ کہنا چاہے ـ دوست ہو یا دشمن اس کو اونچی مسند پر بٹھائیں ـ یہ نہیں جس نے جو کہا اس کے پیچھے چل دین. سنیں سب کی، تحمل سے سنیں اور کریں اپنی ـ 

* میں نے انتہا کا بردباد، متحمل مزاج،  خوش گفتار،  اپنی برداشت سے دلوں کو گھائل کرنے والا، بات بے بات پر دعا دینے والا شخص نہیں دیکھا ـ دعا والا معاملہ انہوں نے کیسے شروع کیا ـ جب یہ نوجوان تھے، کسی لڑکے سے لڑائی کے دوران ان کی بددعا نکلی. وہ لڑکا وہیں کھڑے کھڑے مرگیا ـ کہتےہیں اس دن میں بہت شرمندہ ہوا خود سے ـ وہ دن اور آج کا دن کبھی کسی کے لیے بددعا نہیں کی ـ میں نے ان کی ہر بات کے جواب میں ان کی دعا سنی ـ " بہت دعا،  آپ پر سلامتی ہو سدا " یہ ان کا تکیہ کلام تھا ـ یہ دو کلمات ان کی شخصیت کے عکاس ہیں ـ ان کے جاننے والوں میں سے کسی کو یہ دوکلمات بتا دیں تو وہ خود کہے گا یہ تو شاہ صاحب کی عادت ہے ـ شاہ صاحب ایسے کہتے ـ شاہ صاحب کی عادت ہے دعا دینے والی

* کبھی زبردستی اپنی بات مسلط نہیں کی ـ آزاد رہنا پسند کرتے اور آزادی دینا بھی ـ مجھے کہا قلم امانت یے ـ آپ کے پاس امانت ہے ـ اس امانت کو بیچنا مت ـ کتاب مت بنوانا ـ عند اللہ بات مقبول ہوئی تو خود کتاب وہ بنائے گا ـ علم بیچنے کے لیے نہیں بانٹنے کے لیے ہوتا ہے ـ یہ بھی کہا ہے جو آپ لکھتی ہیں اس میں آپ کا کمال کیا ہے؟  جب آپ کا کمال نہیں تو ستائش پاکے خوشی کیسی اور تنقید پر دکھ کیسا ـ آپ کی تحریر ہر کسی کو سمجھ نہیں آئے گی. یہ تو ان کی خوراک ہے جو اس راہ کے متلاشی ہیں ـ اس لیے کسی اک کو بھی سمجھ لگے، تو سمجھ لیجیے گا تحریر کا حق ادا ہوگیا گویا امانت،  اس تک پہنچی جو حقدار ہے 

 

* مجھ میں کمی ہے بہت ـ کوجی آں ـ مندی آں ـ پر تیری آں ـ یہی فخر حاصل ہے کہ ماں نے مجھے اپنایا ہوا ہے ـ ماں تیری محبت پر بہت یقین ہے مگر افسوس ترے جیسی نہ ہو سکی ـ تو نے پھر بھی ساتھ نہ چھوڑا ـ ایسی باوفا ماں ہے تو کہ اپنا آپ مجھے بے وفا لگتا ہے مگر یہی نسبت اچھی ہے کہ ہوں تو تیری ـ تو سب دیکھ رہی تھی ماں جو غلطیاں میں کر رہی تھی ـ تو کب مجھے امتحان میں ڈال سکتی تو بس نادانی کے جواب میں بھی محبت کیے جاتی ـ میرے پاس ذات کا فخر نہیں بس یہی ناز ہے کہ ماں نے میرے عیوب کے ساتھ محبت کی مگر میں نے ایسی محبت نہ کی ـ تو چاہے ماں تو ایسی محبت بھی قائم کردے کہ ماں تری جناب سے کیا ممکن نہیں ـ تو چاہے تو محبت سے اجال دے ـ ماں تری محبت کی طلب ختم نہیں ہوتی ـ تجھ سے لینے کی حرص (محبت)  ختم نہیں ہوتا ـ تو محبت کی انتہا بھی کرے تو یہی تری ابتدا ہے کہ تری محبت کی نہ انتہا ہے نہ ابتدا ہے ـ میری ماں تجھے سلام ـ تجھے سلام ـ تجھے سلام

قسط ‏نمبر ‏۳: ‏نذرانہ ‏عقیدت

0 تبصرے
*پارٹ ۳
*خود کو سید کہنے سے منع کر دیا کرتے تھے ـ بابا بلھے شاہ کا کلام سنا دیتے "جیہڑا سانوں سید آکھے،  دوذخ ملے سزائیاں .. کہا کرتے کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں. اسی طرح اگر نسبی سید اپنے عمل سے ثابت نہ کردے وہ سید ہے تو فائدہ؟  اسطرح دوہرا نقصان ہوتا ہے. سورہ الاحزاب کی آیت تطہیر کا حوالہ دیتے کہتے 

* روح نہ مرد ہے نہ عورت ہے. روح خالق کا امر ہے. یہ اور بات اس نے قالب مختلف اختیار کرلیے ہیں. سب میں اس کی اک ہی روح ہے. وہ خود دوئی سے مبراء ہے ...یہ آگے کی بات تھی جسے میرا فہم سمجھ نہیں سکتا تھا ... 

* وہ مذہب،  ذات پات رنگ نسل کی تفریق سے آزاد ملا کرتے تھے بس. اس وجہ سے بہت سے لوگ ان سے متاثر ہوگئے اور اخلاق سے متاثر ہو کے اسلام قبول کرلیا ... یہ تھی وہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت جس نے توہین رسالت کا مقابلہ کیا اور اک ہندو بضد ہوگیا اس نے مسلمان ہونا ہے ....

* تجسس،  کھوج بھی ودیعت کردہ ہوتی ہے اور کچھ کو روحانیت ودیعت کردہ ہوتی ہے. ایسے لوگ وہبی ہوتے ہیں. ان کو چاہیے کہ خود کو خدمت میں لگا کے اللہ کی دی ہوئی نعمت کا شکر ادا کریں ... 

* ذکر کے حوالے سے کہا کرتے جس کلمے کی دل میں صدا ابھرے وہ کیا کرو. اک ذکر زبان کا ہوتا ہے. اک ذکر جو دل سے کیا جاتا ہے. دل والا ذکر کیا کرو. کسی کو پتا کیوں چلے کہ ذکر کیا ہے ... دل والا ذکر شروع میں بڑا مشکل لگا کرتا ہے پھر پتا نہیں چلا ذکر خود دل سے ہونے لگا اور تسبیح تو ہاتھ سے چھوٹ گئی. .. بلکہ تسبیح اٹھانے سے بیزاری ہوگئی کہ یہ تو نری نمود و نمائش ہے 

*کسی کو درد میں مبتلا دیکھ کے تڑپ اٹھتے جیسے ان کو درد بعینہ ویسے ہی محسوس ہوا. ہر ممکن کوشش کیا کرتے کہ استطاعت کے مطابق دے دیں جو ہو سکے 

* کبھی ظاہر نہیں کیا انہوں نے کوئ عبادت کی ہے مگر جب بات ہوتی تو قران پاک سے چاروں آئمہ کے حوالے،  احادیث اور دیگر تمام حوالہ جات یاد ہوتے مگر بحث سے کترا جائے کرتے کہ دین میں بحث نہیں. دین تسلیم کا نام ہے.  جس نے دلیل نکالی اس نے شک کو راہ دی ... اس نے اپنا ایمان خراب کرلیا ... 

*قران پاک جواب دیتا ہے آپ سوال لیے پڑھا کرو آپ کو جواب ملا کریں گے کیونکہ یہ زندہ کلام ہے. جب مشکل آئے قران پاک کھول کے اللہ سے کا کلام پڑھو جواب ملے گا 

* سورہ الحشر کی آخری سات آیات اور آیت الکرسی ایسی حکمت بھری نشانیاں لیے ہوئے جس نے انہیں جان لیا اس کو اس کی بھی سمجھ آگئی اللہ نور السماوات والارض ...

 سورہ الحشر کی آخری سات سے محبت ہوگئی یوں لگتا ہے وہ آیات بھی مجھ سے محبت رکھتی ہیں 

* کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہوتا. جب کوئ اختلاف ہو تو دوسرے کو جس حد تک ممکن کو Space دیں .... تاکہ آپ کا تعلق برقرار رہے ..

* یہ عامل حضرات جو بیٹھے ہیں پیسے لے کے فلاں کام کرادیں گے، محبوب سے ملوادیں گے یا کاروبار سیٹ کرادیں گے. یہ دراصل اللہ کے کام میں رکاوٹ ڈالے بیٹھے ہیں. جسے اللہ نے لکھا ہے وہ ہو کے رہنا ہے 

*بیٹیاں رحمت اور بیٹے نعمت. رحمت مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت . وہ شخص جس نے بیٹی پر شفقت والا ہاتھ رکھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہے.اس لیے بیٹیوں پر زیادہ شفقت فرماتے بہ نسبت بیٹوں کے 

*نماز قائم کرنا اور ہے نماز پڑھنا اور ہے. ویل المصلین. اللہ نے نمازیوں کی نماز منہ پر مار دینے کی بات کی ہے. قائم تو یوں بھی ہوجاتی ہے آپ نے رات کو نیت کی تہجد پڑھنی اورصبح آنکھ نہ کھلی مگر نماز قائم ہوگی. آپ نے رات کو نیت نہ کی تہجد کی مگر آنکھ کھل گئی اور نماز پڑھ لی ... نماز قائم نہ ہوئ.

گویا نیت سے نماز قائم ہوتی ہے 

ان کےمزاج میں مجذوبیت تھی اور وہ اس مجذوبیت میں ہوش قائم رکھتے تھے.  ان کی زندگی بہت سے مشاہدات کا مرقع تھی مگر مجھے کبھی نہ بتایا مگر قبل از وصال چند مشاہدات یا چند حقیقتیں بتائیں ..تب مجھے دکھ نے آ گھیرا کہ چھپایا بھی ایسا کہ خود سے چھپاتے سب سے چھپا ڈالا .. 

* کبھی انہوں نے ڈانٹا نہیں تھا ان کا نام تھا محبت " کوئ لاکھ ستائے جواب میں پیار .. پیار ...پیار .. اس انداز نے دل موہ لیا کہ اتنا اچھا انداز کہ کوئ خود چاہے اس کا براکردار بدل جائے کہ آئنہ اتنا.اچھا ہے

قسط ‏نمبر ‏۲: ‏نذرانہ ‏عقیدت

0 تبصرے
پارٹ ۲
دل پر رقت لگانے والے فرشتے سے سوال و جواب کیا کرنا ـ فقط اتنا احساس ہوتا ہے "ماں " تو روپ ہوتی خدا کا مگر ہم جان نہیں سکتے  ـ وہ ہماری خوشیوں کے لیے وہ ممکن کوشش کرتی ہے ـ کسی سمے ہم اپنی خوشی سے انجان ہوتے ہیں ـ وہ ہمیں جھولی میں وہ خوشی ڈال دیتی ہے اور ہم اسکو نیاز مندی سے نہیں لیتے ـ خیر مرشد بھی اک ماں ہوتی ہے بلکہ بابا مرشد سے زیادہ مہربان ہوتا ہے ـ بابا تو وہ کرتا ہے جو اس کو لگتا مناسب ہے ـ جن کو کبھی بابا ملے وہ زیادہ نفع میں رہتے ہیں کیونکہ بابا روایتی پیر نہیں ہوتا ہے اس کے دل میں خدا کی یاد ذکر سے فکر (خدمت)  میں ڈھل جاتی ہے ـ مجھے جو استاد ملے وہ بابا تھے ایسے بابا جو بدھو بن کے دیالو بن جاتا ہے ـ جو دیتا ہے اسطرح ہے کہ جیسے وہ جو دے رہا ہے اسے معلوم نہیں وہ کیا دے رہا ـ جیسا بچہ اپنا پسندیدہ کھلونا اٹھا کے دے دیتا اپنے محبوب کو بالکل اسی طرح بابا بھی بچے کی طرح ایسے ایسے تحفے دیتا ہے اور انجان بچے کی طرح ہوجاتا ہے جیسا کہ اس نے کچھ دیا نہیں ـ مرشد تو پھر آگاہ کرتا ہے اس بے کچھ دیا ہے مگر بابا چھپا لیتا ہے اور ظاہر کرتا ہے اس بے کچھ نہیں دیا. بابا ملامتی ہوتا ہے   ـــ میرے بابا بھی ملامتی تھے ـ خود کو ایسے ظاہر کیا جیسے ان کے پاس کچھ نہیں اور دیا اسطرح جیسے سب کچھ ان کا دیا میرے پاس موجود تھا ـ اتنا بڑا ظرف کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟

مجھے جو جو نقصان دیتا تھا کھٹ سے بددعا نکل جاتی تھی اور آگ بجھا نہیں کرتی تھی ـ پھر بابا جی نے روح سے بد ددعا دینے کی عادت  نکالی ـ مجھے احساس نہیں ہوا کہ میں تو منتقم المزاج تھی کیسے میں اب جس سے دکھ بھی پہنچے تو یہ کہہ دیتی اللہ ان کو اچھا دے یا بھلا کرے ـ درحقیقت میں ایسا کر نہیں سکتی تھی ـ یہ ان کا وصف تھا مگر یہ بات زبانی کلامی ہوئ نہیں یہ تو منتقل ہوئ 

نیت کے بارے میں بہت بڑے بڑے ادراک ہوئے   احساسات منتقل ہوتے ـ نیت تو اک کیسٹ کی ریل کی جیسی ہے یا اک لمبا دھاگہ یا اک لمبا خط     پہلے خط نقطہ بنتا ہے پھر نقطہ جتنا بڑھتا اتنا خط حتی کہ وسعت لا متناہی ہو جاتی ـ بری نیت نقطے سے خط بنتی جاتی اور ہم نقطہ تو کوشش سے مٹا سکتے  اک لمبا خط جس کا سرا فاصلے پر ہو اور ہمارا ہاتھ اس تک نہ پہنچ سکے مٹانا مشکل   .. نیت کا اتنا بڑا کردار ان سے پتا چلا ـ پھر عجیب حادثہ ہوا ـ جب میں نے اپنی نیت بدلی تو کائنات بدل گئی ـ حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے. پھر احساس ہوا گمان کائنات بدل دیتا ہے ــــ لوگ آئنہ اور ہماری نیت ان کا رویہ ـــ   یہ احساس پیدا کرنا کہ ہم میں کمی ہے اور پیار اتنا دینا کہ جیسے ہم سے اچھا کوئ نہیں ـ یہ ماں کا کام ہوتا ہے ـــ میرے ساتھ یہ معاملہ اسطرح چلتا رہا اور مجھے علم نہ ہوا وہ تو احساس کا انتقال ان جانب سے تھا ــ اتنا چھپا کے کبھی کوئ دیتا ہے؟  

یقین کے حوالے سے کہتے تھے اگر آپ کو پتا بھی ہو کوئی جھوٹ بول رہا ہے آپ نے اس کی اس بات پر یقین کرنا ہے جو بظاہر اس نے کی ہے ـ یقین سب کچھ ہے ـ جب انسان کامل یقین کرتا ہے تو خدا خود بندے کو نواز دیتا ہے ـ کوئ چاہے پتھر کو خدا مان کے یقین کرے یا بن دیکھے اللہ کو ـ قدرت اس کو یقین پر نوازتی ہے ـ
* میں نے اپنی زندگی میں بیشمار انسان دیکھے ـ گالی کسی کا تکیہ کلام تو کوئی جذبات میں گالی دیا کرتا ہے ـ یہ پہلے شخص تھے جن کو میں نے گالی کا اک لفظ استعمال کرتے نہیں دیکھا. بار بار بھی سوچوں تو احساس ہوتا ہے وہ دعا دینے والے ـــ دعا دینے والے اگر گالی نکال دیں تو دعا کا اثر زائل ہوجاتا ہے 

* خدا سے راضی رہنے کا طریقہ بتایا ـ چشم تصور میں صاحب امر ہستیاں ایسی تھیں گویا ان کے پاس مشکل آسان ہوجاتی. خدا خود ان پر مشکل آسان کرتا اس لیے تکلیف کا احساس ان تک نہیں ہوتا. میں بہت شکوہ کرتی تھی اللہ سے ــــ یہی سکھایا کہ جب انسان اپنی تکلیف سے گزرتا ہے تو اسے دوسروں کا درد دکھائی دیتا ہے. نکلیں اپنے درد سے تاکہ دوسروں کا درد محسوس ہو سکے  ...وہ انسان ہی کیا جسے درد نہ ہو مگر انسان تو وہ ہے جو خود ترسی کے بجائے خدا ترس ہو .... وہ تو خدا ترس انسان تھے ــ

* اک بیمار انسان تو بیماری سوار کرکے بستر کا ہوجاتا مگر میں نے ایسا بیمار انسان پہلی دفعہ دیکھا جو عام صحت مند انسانوں کو مات دے ـ وہ محنت کرکے روزی کماتا رہے اور پردیس کاٹتا رہے اور اس کو نہ جسم کی درد ستائے،  وہ ہر دم خوش و خرم رہے جیسا کہ اس سے بڑا خوش انسان اس دنیا میں کوئی نہیں ہے ـ تکلیف میں انسان خوش رہ سکتا ہے ـ یہ میرے لیے حیرت کی بات ہے کہ کیسے اس پر سکون حاوی ہوتا ہے ـ جب وہ مقام لاتحزن لا خوف کے حال پر ہوتا ہے

قسط ‏: ۱نذرانہ ‏عقیدت

0 تبصرے
قسط نمبر ۱
آج سے ٹھیک سات دن بعد میرے مرشد پاک کا وصال ہوا تھا ـ ان کی یاد دل کے بام و در میں زندہ ہے ـ محبت عشق اللہ جانے کیا شے ہے، مگر میں اتنا جانتی ہوں ان کے خیال کی اگربتی دل میں جب نہیں جلتی تو میں نہ زندوں میں خود کو شمار کر سکتی ہوں نہ مردوں میں ـ جب یہ خیال سوچ میں رواں رہتا ہے تو احساس ہوتا ہے وہ کیا تھے ـ وہ ایسے انسان تھے جو اس دنیا میں دینے آئے تھے،  ان کو بچپن سے "ماں " جیسے اوصاف سے متصوف کرنے والی ہستی نے ان کو درد تو مگر یہ درد اہل دل جانتے ـ یہ وہ درد تھا جس میں،  میں نہیں بس رب تو کی بات ہوتی ـ انہوں نے اپنی زندگی میں لینے کی سعی نہیں کی بلکہ دینے والے دیا اسطرح کہ رحمن کی رحمانیت کے سائے تلے رہتے دیا ـ انہوں نے زمانے کو وہ دیا،  جس کی ان کے پاس محرومی تھی ـ 

* ہم دعا دینے والوں سے ہیں ـ ہمیں بس یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمانے کے لیے دعا کی ـ جب اللہ نے آپ کو بددعا کے لیے کہا تب بھی دعا دی ـ ہمیں اچھا ملے یا برا ملے ـ ہم نے فقط دعا ہی دینا ہے ـ خیر خواہی کرنی ہے 

* بادشاہ بننے کے بجائے بادشاہ گر بن جاؤ ـ دوسروں کو موقع دو تاکہ تم میں ہوس نہ رہے ـ 
* اپنے عمل سے یہ دیکھو کہ تم دوسروں کو فائدہ دے رہے یا نقصان ـ وہ عمل جو شرعی لحاظ سے درست ہو مگر اس سے دوسرے کا نقصان ہو تو بہتر ہے وہ کرو جس سے فائدہ ملے ـ دوسرے کو فائدہ دینا بھی عین شریعت ہی ہے 

* ایسا سچ جس سے نفاق پیدا ہو،  اس سے بہتر وہ جھوٹ ہے جس سے امن قائم ریے 

* خالی شریعت کا کوئی ثواب ملتا نہیں بلکہ عبادات منہ پر مار دی جاتی ہیں  جو بندہ طریقت نبھاتا ہے مگر شریعت نہیں تو طریقت کا ثواب مل جاتا ہے ـ مگر جو شریعت و طریقت دونوں نبھا لے اس کو معارفت نصیب ہو جاتی ہے 

* سید وہ نہیں ہوتا جس نسبی نسبی سید ہو ـ سید وہ ہے جس کا کردار سرداروں والا ہو.  

* اپنے قلم سے ہمیشہ سچ تحریر کرنا کبھی کسی کو دھوکا مت دینا 

* جب انسان "میں " مٹا دیتا ہے تو رب سچا اسے وہ سب دیتا ہے جس کی اسے خواہش ہوتی ہے 

* قران پاک اسطرح پڑھیں جس طرح خالق آپ سے کلام کر رہا ہے ـ قران پاک پڑھنے میں دشواری ہوتی کہتی کہ مشکل ہے ـ تو فرمایا کرتے:  اک آیت اک رکوع روز کا پڑھنا کونسا مشکل کام ہے. آپ نے اسے یاد نہیں کرنا یاد کرانا سمجھانا خالق کا کام ہے. آپ اسے کہانی کی طرح پڑھ ڈالیں پھر یہ آپ کے دل میں اترے گا 

* نیت کے بغیر کچھ نہیں ملتا ـ اگر نیت خراب ہے تو جتنی عبادات کرلو جتنا نیک بن کے دکھا لو کچھ نہیں بنتا مگر جس نے نیت صاف کی ـ رب اسے وہیں مل گیا 

* انسان ساری زندگی جن جنات جادو کے پیچھے پڑا رہتا ہے ـجادو کچھ نہیں بگاڑ سکتا انسان کا ماسوا کچھ ایسے اشکالات دکھ جائیں. جس نے رب سچے کو یاد رکھا ـ اسے کبھی کوئ ڈرا ہی نہیں سکتا 

* میں نہ سنی ہوں نہ شیعہ ہوں ـ اگر مجھے دیار غیر میں دفنایا جائے تو وہابی کہلاؤں گا اگر وطن مین تو شیعہ ـ  کسی بھی فرقے میں فساد ڈالنے والی بات سے دور رہو 

* ایسی کوئی بات منہ سے نہ نکالو جس سے فساد پھیلے چاہے وہ قران پاک کی کسی آیت کی بات کیوں نہ ہو 
.* جتنا ہو بحث سے دور ہو ـ کیونکہ رب ثابت ہے اسکو اثبات ہے ـ اسکو ثابت کرنا ازخود شرک ہے 

* لطائف وغیرہ یا اشغالات محض راغب کرنے کا بہانہ ہیں میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ: اللہ لطیف بالعباد ـ اللہ چاہے تو کرم کی انتہا کردے ــــ 

* گن کے ذکر کبھی نہ کرو ـ اس کا ذکر گن کے کرو گے تو وہ بھی گن کے دےگا ـ اسکا ذکر بے حساب کرو گے تو وہ جو اپنی جناب سے چاہے نواز دے 

* دل یار ول، ہتھ کار ول ـ ہمیشہ ہر کام میں یاد اللہ کو رکھو اور اس کے ساتھ کام کرتے دنیا نبھا دو

* ذکر یہ نہیں ہوتا کہ رٹو طوطے کی طرح اللہ اللہ کرتے رہو ـ جب احکامات کو عملی طور پر بجالاؤ کہ دوست نے کہا تو یہ ذکر افضل ترین ہے ـ آپ کو چاہیے زبان کے ذکر سے زیادہ،  اس کے احکامات کو اس نیت سے بجالائیں کہ یہ اللہ نے کہا ـ دنیا بھی اس لیے نبھائیں کہ اللہ نے کہا ـ دین بھی اس لیے ـ کسی کو دیں،  کسی کو پیار کریں یہ سوچ کے اللہ نے کہا ہے ـ زبان سے ذکر کرنا اچھا یے مگر افضل ذکر یہی ہے 

*کھا کباب،  پی شراب تے بال ہڈاں دا بالن ... مرشد پاک فرماتے تھے کہ نفس کو خوراک ضرور دینی چاہیے کیونکہ ایسی زندگی نبھانی چاہیے جو حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گزاری مگر نفس کی خدمت کرکے دھیان و ریاضت اللہ کی جانب کر دینے چاہیے ـ اسطرح نفس کبھی تنگ نہیں کرتا 

*  غصہ نہ کیا کرو بلکہ چڑاچڑاہٹ سے دور رہنے کا طریقہ پوچھا ـ یا پوچھا غصہ کیوں نہیں آتا تو فرمایا:  میں انسان ہوں غصہ آتا ہے مجھے ـ جب غصہ آتا ہے میں درود شریف پڑھ لیتا ہے ـ وہیں پر غصہ ختم ہوجاتا ہے ـ 

* جب میں مکہ جاتا ہوں تو لگتا ہے اللہ کا پیار پیار ہے ـ وہ بہت رحیم ہے ـ جب  مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اک عجب جلال گھیرے رکھتا ہے کہ کہیں گستاخی نہ ہوجائے کوئی 
 
*جب ان سے کہا گیا:  آپ میں مجھے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملتا تو کہا اللہ سے معافی مانگیں قلم نے گستاخی کردی. کوئ بھی بندہ لاکھ ریاضت کرلے ان کے جیسا نہیں ہو سکتا ہے ـ ہاں کسی اک صفت کی جھلک مل سکتی یے 

* اللہ کی راہ میں چلنے  کے لیے یا عام زندگی گزارنے کے لیے اسوہ ء حسنہ اہم ہے ـ آپ کو چاہیے اسوہ حسنہ پڑھیں تاکہ آپ کو علم ہو سکے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فلاں مقام پر کیا ردعمل ظاہر کیا اور اس میں ڈھلنے کی کوشش کریں. اگر آپ نے آٹھ دس صفات ہی اپنا لیں تو آپ کو دیدار رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو جائے گا

منگل، 17 نومبر، 2020

بلھا کیہ جاناں میں کون ! قسط نمبر 5

0 تبصرے

بلھا کیہ جاناں  میں کون !: نشست نمبر ۶

 

متلاشی کی سوچ کا دائرہ بدلنے لگا ـ اس کے دِل میں سوالات جنم لینے لگے ـ اک استاد کا کام " سوال کرنا سکھانا " ہوتا ہے اور جواب درون سے ملتا ہے ـ روح،  روح سے ربط رکھتی ہے ـ کیا روح بھی جمع ہے؟  درون میں کل کائنات جمع ہو جائے تو سوالات ہونے چاہیے؟  کونسے سوالات ہونے چاہیے؟

 

متلاشی:  " بلھا کیہ جاناں میں کون؟  اس کے استعاراتی معانی سمجھا دیں ـ کیا بابا بلھے شاہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کون ہیں؟

بلھا کی جاناں میں کون
نہ میں مومن وچ مسیت آں
نہ میں وچ کفر دی ریت آں
نہ میں پاکاں وچ پلیت آں
نہ میں موسٰی، نہ فرعون
بلھا کی جاناں میں کون
نہ میں اندر بید کتاباں
نہ وچ بھنگاں، نہ شراباں
نہ رہنا وچ خراباں
نہ وچ جاگن، نہ سون
بلھا کی جاناں میں کون
نہ وچ شادی نہ غمناکی
نہ میں وچ پلیتی پاکی
نہ میں آبی نہ میں خاکی
نہ میں آتش نہ میں پون
بلھا کی جاناں میں کون
نہ میں عربی، نہ لاہوری
نہ میں ہندی شہر رنگوری
نہ ہندو نہ ترک پشوری
نہ میں رہنا وچ ندون
بلھا کی جاناں میں کون
نہ میں بھیت مذہب دا پایاں
نہ میں آدم حوا جایا
نہ میں اپنا نام دھرایا
نہ وچ بھٹن، نہ وچ بھون
بلھا کی جاناں میں کون
اول آخر آپ نوں جاناں
نہ کوئی دوجا پچھاناں
میتھوں ہور نہ کوئی سیانا
بلھا! او کھڑا ہے کون؟
بلھا کی جاناں میں کون

 

بدھو بابا:  انسان کے باطن میں ہر لمحہ برپا "خود آگہی " بارے کشمکش کا بیان ہے ۔

ہر حساس روح اپنے " خلق " ہونے کی حقیقت کو جاننا چاہتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔

متلاشی: ( وہ گومگو کیفیت میں لاچار تھی کہ آخر میرے آنے کا مقصد کیا ہوگا ؟ میری حقیقت کیا ہے؟) کیا سادات ِ کرام یہی حقیقت جان سکتے ؟ ہم کیوں جان نہیں سکتے ؟ بلھے شاہ تو سید تھے ، سارے ولی اللہ سادات ِ کرام ہیں ۔

بدھو بابا:  ہمارے نبی پاک ﷺ کا فرمان ہے : کسی گورے کو کسی کالے پر ، کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ۔۔۔ آپ کن سوچوں میں اُلجھ کے راہ کھوٹی کر رہی ہیں ۔۔۔ سب  انسان احساس کے خمیر سے گوندھے گئے اسکی جانب رجوع کرتے ہیں ، اک وقت کے سید نے پہچان کی خاطر نچ کے یار منایا ، کوئی صاحب سالہا سال کنواں میں الٹے لٹکے رہے تاکہ اس کو پہچان سکے ۔ جس دل میں یہ سوال آگیا ، وہ پا گیا ۔۔ بلھے شاہ نے اپنی پہچان پر سوال اٹھایا ہے ۔ انسان کو اللہ نے احسن التقویم پر پیدا کیا مگر اس کے نفس نے اس کو اسفل سافلین تک جا پہنچایا ۔۔ نفس کے مدارج ہیں   ۔۔ معراج پانے والے مصطفی ﷺ اور گرجانے والے شداد و فرعون ۔۔ ان کے مابین انسان سوچ وچار سے تعین کرتا ہے کہ وہ کون ہے

من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ۔۔۔۔ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا

متلاشی : اللہ نے تو قران پاک میں کہا : الم نشرح لک  صدرک ۔۔ یہ سینہ کیسے کھلتا ہے ؟ نبوت کے بھاری بوجھ کی بات کی ، نبوت کا بوجھ بھاری کیونکر ہوتا ہے؟ اگرچہ میں نہیں جانتی  مگر پھر اللہ نے کہا : ووضعنا عنک وزرک ۔ وہ بوجھ اللہ نے آپ پر سے اتار دیا ۔۔۔  سینہ سے متعلق تو روایات پڑھی ہیں کہ سینہ آپﷺ کا چاک کر دیا گیا تھا ، فرشتوں نے تمام کثافتوں کو نکال کر نور ڈالا تھا ۔۔ میں تو کچھ نہیں جانتی ، بس جو پڑھا ہے ، میں وہی لکھ رہی ہوں

تو سب سے بلند تریں انسان حضور پاکﷺ ہوئے جن کی تیسری خصوصیت ورفعنا لک ذکرک ہے ۔۔۔

سبحان اللہ !

سوال یہ ہے جو نہ اسفل ہے اور اور نہ ارفع ۔۔۔ اس کے ساتھ فضل ہوگا یا عدل؟

کیا ۔۔عرفان ذات یہ ہے ۔۔۔ خود کو غائب تصور کرتے ہوئے اس پاک رب کے پاس حضوری ۔۔۔ یا کچھ اور کیونکہ اول آخر اللہ تعالی ہیں نہ کہ انسان ۔۔۔۔ ازل تا ابد وہی ذات

اور پھر بابا بلھے شاہ کا یہ شعر اس بات کا عکاس کہ انکی ذات میں معشوق بس گیا اس کا رنگ اتنا چڑھ گیا کہ ان کا اپنا رنگ مٹ گیا۔۔یہاں پر معشوق ۔۔مرشد ہیں یا ذات باری تعالی ۔۔۔؟؟ اور اگر ذات باری تعالی ہے تو میں اس کو سمجھوں بابا بلھے شاہ کو ادھر عارف با للہ کا درجہ مل گیا ؟

رانجھا رانجھا کر دی نی میں ، آپے رانجھا ہوئی
سدّو نی مینوں دھیدو رانجھا ، ہیر نہ آکھو کوئی
رانجھا میں وچ ، میں رانجھے وچ ، ہور خیال نہ کوئی
میں نہیں اوہ آپ ہے اپنی آپ کرے دل جوئی
جو کوئی ساڈے اندر وسّے ، ذات اساڈی سو ای
رانجھا رانجھا کر دی نی میں ، آپے رانجھا ہوئی
ہتھ کھونڈی میرے اگے منگو ، موڈھے بھُورا لوئی
بلّھا ہیر سلیٹی ویکھو ، کتھّے جا کھلوئی
جس دے نال میں نیونہہ لگایا ، اوہو جیہی ہوئی
تخت ہزارے لے چل بلھیا ، سیالِیں ملے نہ ڈھوئی
رانجھا رانجھا کر دی نی میں ، آپے رانجھا ہوئی

ہم جیسے لوگ رہنمائی کے طلب گار ۔۔۔ نہ الف کا پتا نہ ب کا

اپنے علم سے مزید مستفید کریں

بدھو بابا:یہ جو آپ نے لکھا ہے ،یہ تو خود اک جواب ہے ۔ سوال کیا ہے ؟ میں تو یہی سوچ رہا ہوں ۔۔۔ آپ کس سے رہنمائی کی طالب ہیں ؟ سب کچھ تو آپ کے اندر ہیں ، تو ایویں ای رولا پایا اے ، چل چھڈ سیاپا !   یہی سوچ ، فکر جب وجدان تک پہنچتی ہے تو جواب لفظ کی صورت حرکت پذیر ہوتے روح رکھتا ہے، اسی طرح سوچنے سے عرفان کے در وا ہوتے ہیں ۔۔۔

متلاشی :   آپ کا بہت شکریہ جو آپ نے میرے سوال کو اہمیت دی ، یہ بتائیے کہ  علم نبیوں کی میراث ہے اور نبیوں کے بعد اللہ کے بندوں کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اس نظم کے بارے میں یہ علم تو نہیں تھا کہ اس میں کوئی استعارہ ہوگا مگر میں نے جاننا چاہا ، جو میں نہیں جانتی تھی ۔۔  میں عجمی ہوں ، جس کو قرانِ پاک کی سمجھ نہیں ہے ، میں یہی سنتی آئی ہوں جس نے قران پاک پڑھا ، اس کو ہر حرف کے بدلے ثواب مل گیا ۔۔ حرف بھی اسطرح کہ '' الم '' میں الف ، لام ، میم تین لفظ ہیں ۔ کیا ہم نے اسکو بس ثواب کی خاطر پڑھنا ہے ؟ مجھے کیوں لگتا ہے قرانِ پاک کی ہر صورت جس میں قسمیں کھائیں گئیں ہیں ، اس میں کوئی نہ کوئی معانی موجود ہیں ۔۔  میرے ذہن میں چند مزید سوالات ہیں جن کو میں لکھ رہی ہوں ۔۔  

  11۔ میرا مقام کیا ہے ، میری شفاعت ہوگی یا میں سزا وار ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری مراد اتنی ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں الحمد اللہ اسفل نہیں مگر ارفع بھی نہیں ۔۔۔درمیاں کے لوگوں کے لیے کیا حکم ہے ۔۔۔۔۔۔۔ مجھ پر اللہ کا فضل ہوگا یا عدل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

۔ نبوت کا درجہ ایک اعلی درجہ ۔۔۔۔۔،نبوت کا بوجھ ۔۔۔کیونکہ نبوت کی بدولت ارفع مقام کے حق دار ہوئے
بوجھ سے کیا مراد ہے ؟

بابا بلھے شاہ پیدائشی عارف ..عارف اپنی پہچان کے لیے ایسا کیوں لکھے ..؟وہ تو معرفت حاصل کر چکے تھے

 

بدھو بابا: صوفی بزرگ ہمیشہ ملامتی روپ اختیار کیئے رکھتے تھے تاکہ عام لوگ ان کے قریب آتے ان کی بات سنتے کوئی جھجھک محسوس نہ کیا کریں ۔ انہیں اپنی بات کہنے اپنے اشکال بیان کرتے کوئی جھجھک نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔ یہ بھی اک وعظ کی صورت تبلیغ ہی ہے ۔۔۔۔ اللہ واحد و لاشریک کی جانب بلانے کی ۔۔۔۔۔۔۔۔
بلھا کی جاناں میں کون
بابا بلھے شاہ اپنی ذات کو مخاطب کرتے اپنی شناخت تلاش کر رہے ہیں
انسان کی سوچ اس کے باطن سے مخاطب ہے ۔۔۔

نہ میں مومن وچ مسیت آں
مومن کون ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ ؟
جو اللہ پر یقین رکھے اور اس کے احکامات پر بے چون و چرا عمل کرے ۔۔
مسیت ۔۔ مسجد کیا ہوتی ہے ۔۔۔۔۔؟
جہاں نماز کی ادائیگی ہوتی ہے ۔ نماز پڑھتے نمازی کے سامنے دو صورتیں ہوتی ہیں ۔
اک وہ اللہ کے حضور کھڑا اللہ کو دیکھ رہا ہے
دوسرے وہ اللہ کے حضور کھڑا ہے اور اللہ اسے دیکھ رہا ہے ۔
اب وہ " مومن " کیسے ہو سکتا ہے جو مسجد میں کھڑا ہے رکوع و سجود کر رہا ہے ۔
اور ساتھ ہی ساتھ اس کا نفس اسے خواہش میں الجھائے ہوئے ہے ۔ اور جھوٹ فریب دھوکہ کی راہیں سمجھا رہا ہے ۔۔۔۔
سو میں " مومن " نہیں جو کہ اللہ کی مانتا نہیں اور اپنے نفس پر چلتا رہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر میں " مومن " نہیں تو کیا پھر میں " کفر " کی راہ پر ہوں ۔۔۔؟

نہ میں وچ کفر دی ریت آں
کافر جس کا مادہ کفر ہے ۔ وہ حق کے جھٹلانے والا ہے ۔
جس نے " لا الہ الا اللہ " کی صدا سنی مگر تسلیم نہ کی اور اعراض کر گیا ۔۔
لیکن میں تو کلمہ پڑھ چکا ۔۔ اللہ کے آخری رسول پہ آئے پیغام کی تصدیق کر چکا ۔۔۔۔۔۔۔
سو میں " کفر " میں تو مبتلا نہیں ہوں ۔۔۔۔
تو کیا میں پاکیزگی کی بجائے ناپاکی میں مبتلا ہوں ۔۔۔۔؟

نہ میں پاکاں وچ پلیت آں
(اسے نہیں سمجھ پایا )
نہ میں موسٰی، نہ فرعون
نہ میں موسی کے درجے پہ ہوں جسے رسالت سے سرفراز کرتے " تبلیغ " کی امانت کا بوجھ دیا گیا ۔۔۔۔۔
نہ ہی میں فرعون ہوں جسے زمانے کے خزانے دیئے گئے اور وہ خود ساختہ رب بن بیٹھا ۔۔۔۔۔۔۔

بلھا کی جاناں میں کون
تو اب کیسے پتہ چلے کہ " میں " کون ہوں ۔۔ میرا فرض کیا ہے ۔ میری تخلیق کا مقصد کیا ہے ۔
مجھے زمین پہ بھیجا کیوں گیا ہے ۔؟

اب یہاں سے مخاطب بدل گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے باطن سے خطاب ہو رہا تھا ۔۔۔۔ اب باطن جواب دے رہا ہے ۔۔۔۔۔

نہ میں اندر بید کتاباں
زمانے کی کتابیں پڑھ لے مگر میرا بھید نہ مل سکے گا۔۔۔۔۔۔۔ کہ میری حقیقت کیا ہے ۔۔؟
نہ وچ بھنگاں، نہ شراباں
بھنگ چرس شراب تمام نشے کر کے دیکھ لے مگر بھید نہ مل سکے گا ۔۔۔۔۔
نہ رہنا وچ خراباں
خرابات دنیا میں مگن رہتے تجربہ کر لے میرا بھید نہ ملے گا
نہ وچ جاگن، نہ سون
جاگتے بھی سوچتا رہ اور سوتے بھی خواب دیکھ مگر میرا بھید نہ مل سکے گا ۔۔۔۔۔
بلھا کی جاناں میں کون
بلھے شاہ کیا تو جانا کہ میں کون ہوں ۔؟
نہ وچ شادی نہ غمناکی
خوشی کے عالم میں بھی اور دکھ کی کیفیت میں بھی میرا بھید نہیں ملے گا
نہ میں وچ پلیتی پاکی
ناپاکی اور پاکی میں ڈوبے رہتے بھی میرا سراغ نہ پاسکے گا ۔۔۔۔۔
نہ میں آبی نہ میں خاکی
نہ میں سراپا پانی ہوں نہ ہی سراپا خاک ہوں ۔۔۔
نہ میں آتش نہ میں پون
نہ میں سراپا آگ ہوں نہ ہی سراپا ہوا ہوں ۔۔۔۔۔
بلھا کی جاناں میں کون
تو میں کیا ہوں ۔۔۔۔؟
نہ میں عربی، نہ لاہوری
نہ میں عرب سے ہوں نہ میں لاہور سے
نہ میں ہندی شہر رنگوری
نہ میں ہندی شہر رنگوری ہوں ۔۔۔۔۔
نہ ہندو نہ ترک پشوری
نہ میں ہندو ہوں نہ میں پشاور چھوڑ دینے والا پٹھان
نہ میں رہنا وچ ندون
نہ ہی میں کسی ندون ؟ میں رہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلھا کی جاناں میں کون
تو بلھے شاہ تو کیا جانے میں کون ہوں ۔۔۔؟
نہ میں بھیت مذہب دا پایاں
نہ میں نے کسی مذہب کو اختیار کیا ۔۔
نہ میں آدم حوا جایا
نہ ہی میں آدم و حوا کی اولاد ہوں ۔۔۔۔۔
نہ میں اپنا نام دھرایا
میرا نام اک ہی ہے چاہے کتنے روپ بدلے

نہ وچ بھٹن، نہ وچ بھون
نہ بھٹن کی خانقاہ میں نہ ہی بھون کے مدرسے میں
بلھا کی جاناں میں کون
تو بلھے شاہ کیا تو جانا کہ میں کون ہوں ۔۔۔؟
اول آخر آپ نوں جاناں
ابتدا سے انتہا تک صرف میں ہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
نہ کوئی دوجا پچھاناں
میرا کوئی دوسرا شریک نہیں
میتھوں ہور نہ کوئی سیانا
مجھ سے زیادہ کوئی علم والا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔
بلھا! او کھڑا ہے کون؟
بلھے شاہ ذرا دیکھ تیرے دل میں کون قائم ہے ۔۔۔۔؟
بلھا کی جاناں میں کون
بلھے شاہ کیا جانا مجھ بارے میں ہوں کون ۔۔۔؟

لاتطمئن القلوب الا بذکر اللہ
اللہ بہترین ذکر یہی ہے کہ اس کے ذکر میں محو رہتے اس کی مخلوق کے لیئے آسانیاں پیدا کی جائیں ۔۔۔


لیس للانسان الا ما یسعی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان کے لیئے کچھ بھی نہیں سوائے اس کے جس کے لیئے وہ کوشش کرے ۔۔
تو کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم ارفع ہونے کی کوشش کریں ۔ مخلوق خدا کے ساتھ بھلائی کریں
رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی سے پیش آئیں ۔
یہ کہاں کی حکمت کہ جب ہمارے پاس ترقی کی راہ موجود ہو تو ہم قناعت کر جائیں ۔۔۔؟
کون اسفل ہے کون اعلی ہے کون ارذل کون ارفع ہے ۔۔۔۔۔۔۔
یہ حساب کے دن کا مالک خوب جانتا ہے ۔۔۔۔
اس کے حساب میں رائی برابر زیادتی اور کمی نہیں ہو سکتی ۔۔

عدل کریں تے تھر تھر کنبن اچیاں شاناں والے ہو
فضل کریں تے بخشے جاون میں جئے منہ کالے ہو

اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔۔۔۔۔۔۔
نیک نیت ہوتے نیک مراد ملنے پر یقین کامل رکھنا اک بہتر عمل ۔۔۔
اور حساب کے دن کی مالک سچی ذات تو اپنی مخلوق پر ماں سے بھی ستر گناہ زیادہ مہربان ہے ۔
اس کی صفت رحیمی اس کے غضب پر حاوی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اپنی عاقبت کے بارے فکر کرنا بلاشبہ روشن ضمیروں کی عادت ہوتی ہے ۔
مالی دا کم پانی دینا بھر بھر مشکاں پاوے
مالک دا کم پھل پھل لانا لاوے بھانوے نہ لاوے ۔۔
اس شعر کے مصداق اللہ سے ڈرنے والے اس کے ذکر میں محو رہتے مخلوق خدا کے ساتھ بھلائی کیئے جاتے ہیں ۔
اور اجر و ثواب اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں ۔۔۔
عرفان ذات ۔۔۔۔۔ وہ حقیقت بھرا احساس ہے جو کہ بیان میں نہیں آ سکتا ۔
جس کو عرفان ذات نصیب ہوجائے ۔۔ وہ شریعت پر عمل پیرا رہتے طریقت اختیار کرتے معرفت کی منزل پہ پہنچ حقیقت سے آشنا ہو جاتا ہے ۔
لیکن وہ اس راز کو بیان کرنے سے قاصر ہوتا ہے ۔۔۔ کیونکہ سرمد و منصور کی طرح راز افشاء کرنے پر اک تو سولی مقدر دوسرے عام انسان کے لیئے گمراہی کا سبب بنتا ہے ۔
عمومی طور پر جسے عرفان ذات ہوجائے وہ خلق خدا سے محبت میں اپنی ہستی مٹاتا دکھ جاتا ہے ۔۔۔۔
وہ انسانوں سے بے نیاز اور اللہ پر یقین رکھنے والا دکھائی دیتا ہے ۔۔۔۔
عرفان ذات باری تعالی کی حقیقت کھول دیتی ہے ۔ اور صاحب عرفان وجود باری تعالی کے مقام کی الجھن سے بے نیاز ہوجاتا ہے ۔
نبوت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اک امانت ہے ۔ اور زمانے کے بوجھوں سے بڑھ کر اک بوجھ
نبی کو حکم ہوتا ہے ۔ تبلیغ کا ۔ بنا کسی جھجھک کسی مصلحت کے ۔
اور یہ فرض بحسن خوبی ادا کرنا آسان نہیں ہوتا ۔۔۔۔
آپ سورت اقراء ،سورت المزمل، سورت المدثر کو رجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھیں
ان شاء اللہ نافع ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔

متلاشی : درِ نایاب ترے در سے ملے ، ترے سنگ ہم جیسے جیسے چلے ، کسی نے پوچھا کبھی ہم سے کچھ ، ترےنام  کی مالا جپتے رہے ۔ تجھے چاہا ، تری بندگی میں ہم انتہا تک چلے ۔ قفس میں رہے مگر نہ رہے ،یہ عجب اڑان کے ہر لمحہ ترے ساتھ رہے ۔ تری بات لگی دل کو ، ہم پھر دل کی لگی میں رہے ۔ ترا شکریہ ادا کریں کیسے ؟ ہم تو شکریے میں تا عمر رہے

بدھ، 11 نومبر، 2020

خورشید مثال شخص کل شام

0 تبصرے

 خورشید مثال شخص کل شام

مٹّی کے سپرد کر دیا ہے

اندر بھی زمیں کے روشنی ہو
مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے​