بلھا
کیہ جاناں میں کون !: نشست نمبر ۶
متلاشی
کی سوچ کا دائرہ بدلنے لگا ـ
اس کے دِل میں سوالات جنم لینے لگے ـ
اک استاد کا کام " سوال کرنا سکھانا " ہوتا ہے اور جواب درون سے ملتا ہے
ـ
روح، روح سے ربط رکھتی ہے ـ
کیا روح بھی جمع ہے؟ درون میں کل کائنات جمع
ہو جائے تو سوالات ہونے چاہیے؟ کونسے سوالات
ہونے چاہیے؟
متلاشی: " بلھا کیہ جاناں میں کون؟ اس کے استعاراتی معانی سمجھا دیں ـ
کیا بابا بلھے شاہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کون ہیں؟
بلھا کی جاناں میں کون
نہ میں مومن وچ مسیت آں
نہ میں وچ کفر دی ریت آں
نہ میں پاکاں وچ پلیت آں
نہ میں موسٰی، نہ فرعون
بلھا کی جاناں میں کون
نہ میں اندر بید کتاباں
نہ وچ بھنگاں، نہ شراباں
نہ رہنا وچ خراباں
نہ وچ جاگن، نہ سون
بلھا کی جاناں میں کون
نہ وچ شادی نہ غمناکی
نہ میں وچ پلیتی پاکی
نہ میں آبی نہ میں خاکی
نہ میں آتش نہ میں پون
بلھا کی جاناں میں کون
نہ میں عربی، نہ لاہوری
نہ میں ہندی شہر رنگوری
نہ ہندو نہ ترک پشوری
نہ میں رہنا وچ ندون
بلھا کی جاناں میں کون
نہ میں بھیت مذہب دا پایاں
نہ میں آدم حوا جایا
نہ میں اپنا نام دھرایا
نہ وچ بھٹن، نہ وچ بھون
بلھا کی جاناں میں کون
اول آخر آپ نوں جاناں
نہ کوئی دوجا پچھاناں
میتھوں ہور نہ کوئی سیانا
بلھا! او کھڑا ہے کون؟
بلھا کی جاناں میں کون
بدھو
بابا: انسان کے باطن میں ہر لمحہ برپا
"خود آگہی " بارے کشمکش کا بیان ہے ۔
ہر
حساس روح اپنے " خلق " ہونے کی حقیقت کو جاننا چاہتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
متلاشی: ( وہ گومگو کیفیت میں لاچار تھی کہ آخر میرے آنے کا
مقصد کیا ہوگا ؟ میری حقیقت کیا ہے؟) کیا سادات ِ کرام یہی حقیقت جان سکتے ؟ ہم
کیوں جان نہیں سکتے ؟ بلھے شاہ تو سید تھے ، سارے ولی اللہ سادات ِ کرام ہیں ۔
بدھو بابا: ہمارے
نبی پاک ﷺ کا فرمان ہے : کسی گورے کو کسی کالے پر ، کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی
فضیلت حاصل نہیں ۔۔۔ آپ کن سوچوں میں اُلجھ کے راہ کھوٹی کر رہی ہیں ۔۔۔ سب انسان احساس کے خمیر سے گوندھے گئے اسکی جانب
رجوع کرتے ہیں ، اک وقت کے سید نے پہچان کی خاطر نچ کے یار منایا ، کوئی صاحب
سالہا سال کنواں میں الٹے لٹکے رہے تاکہ اس کو پہچان سکے ۔ جس دل میں یہ سوال آگیا
، وہ پا گیا ۔۔ بلھے شاہ نے اپنی پہچان پر سوال اٹھایا ہے ۔ انسان کو اللہ نے احسن
التقویم پر پیدا کیا مگر اس کے نفس نے اس کو اسفل سافلین تک جا پہنچایا ۔۔ نفس کے
مدارج ہیں ۔۔ معراج پانے والے مصطفی ﷺ
اور گرجانے والے شداد و فرعون ۔۔ ان کے مابین انسان سوچ وچار سے تعین کرتا ہے کہ
وہ کون ہے
من عرف نفسہ فقد
عرف ربہ ۔۔۔۔ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا
متلاشی : اللہ نے تو قران پاک میں کہا : الم نشرح لک صدرک ۔۔ یہ سینہ کیسے کھلتا ہے ؟ نبوت کے بھاری
بوجھ کی بات کی ، نبوت کا بوجھ بھاری کیونکر ہوتا ہے؟ اگرچہ میں نہیں جانتی مگر پھر اللہ نے کہا : ووضعنا عنک وزرک ۔ وہ
بوجھ اللہ نے آپ پر سے اتار دیا ۔۔۔ سینہ
سے متعلق تو روایات پڑھی ہیں کہ سینہ آپﷺ کا چاک کر دیا گیا تھا ، فرشتوں نے تمام
کثافتوں کو نکال کر نور ڈالا تھا ۔۔ میں تو کچھ نہیں جانتی ، بس جو پڑھا ہے ، میں
وہی لکھ رہی ہوں
تو سب سے بلند تریں انسان حضور پاکﷺ ہوئے جن کی
تیسری خصوصیت ورفعنا لک ذکرک ہے ۔۔۔
سبحان اللہ !
سوال یہ ہے جو نہ اسفل ہے اور اور نہ ارفع ۔۔۔
اس کے ساتھ فضل ہوگا یا عدل؟
کیا ۔۔عرفان ذات یہ ہے ۔۔۔ خود کو غائب تصور
کرتے ہوئے اس پاک رب کے پاس حضوری ۔۔۔ یا کچھ اور کیونکہ اول آخر اللہ تعالی ہیں
نہ کہ انسان ۔۔۔۔ ازل تا ابد وہی ذات
اور پھر بابا بلھے شاہ کا یہ شعر اس بات کا
عکاس کہ انکی ذات میں معشوق بس گیا اس کا رنگ اتنا چڑھ گیا کہ ان کا اپنا رنگ مٹ
گیا۔۔یہاں پر معشوق ۔۔مرشد ہیں یا ذات باری تعالی ۔۔۔؟؟ اور اگر ذات باری تعالی ہے
تو میں اس کو سمجھوں بابا بلھے شاہ کو ادھر عارف با للہ کا درجہ مل گیا ؟
رانجھا رانجھا کر دی نی میں ، آپے رانجھا ہوئی
سدّو نی مینوں دھیدو رانجھا ، ہیر نہ آکھو کوئی
رانجھا میں وچ ، میں رانجھے وچ ، ہور خیال نہ کوئی
میں نہیں اوہ آپ ہے اپنی آپ کرے دل جوئی
جو کوئی ساڈے اندر وسّے ، ذات اساڈی سو ای
رانجھا رانجھا کر دی نی میں ، آپے رانجھا ہوئی
ہتھ کھونڈی میرے اگے منگو ، موڈھے بھُورا لوئی
بلّھا ہیر سلیٹی ویکھو ، کتھّے جا کھلوئی
جس دے نال میں نیونہہ لگایا ، اوہو جیہی ہوئی
تخت ہزارے لے چل بلھیا ، سیالِیں ملے نہ ڈھوئی
رانجھا رانجھا کر دی نی میں ، آپے رانجھا ہوئی
ہم جیسے لوگ رہنمائی کے طلب گار ۔۔۔ نہ الف کا پتا نہ ب کا
اپنے علم سے مزید مستفید کریں
بدھو بابا:یہ جو آپ نے لکھا ہے ،یہ تو خود اک
جواب ہے ۔ سوال کیا ہے ؟ میں تو یہی سوچ رہا ہوں ۔۔۔ آپ کس سے رہنمائی کی طالب ہیں
؟ سب کچھ تو آپ کے اندر ہیں ، تو ایویں ای رولا پایا اے ، چل چھڈ سیاپا ! یہی سوچ ، فکر جب وجدان تک پہنچتی ہے تو جواب
لفظ کی صورت حرکت پذیر ہوتے روح رکھتا ہے، اسی طرح سوچنے سے عرفان کے در وا ہوتے
ہیں ۔۔۔
متلاشی :
آپ کا بہت شکریہ جو آپ نے میرے سوال کو اہمیت دی ، یہ بتائیے کہ علم نبیوں کی میراث ہے اور نبیوں کے بعد اللہ
کے بندوں کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اس نظم کے بارے میں یہ علم تو نہیں تھا کہ
اس میں کوئی استعارہ ہوگا مگر میں نے جاننا چاہا ، جو میں نہیں جانتی تھی ۔۔ میں عجمی ہوں ، جس کو قرانِ پاک کی سمجھ نہیں
ہے ، میں یہی سنتی آئی ہوں جس نے قران پاک پڑھا ، اس کو ہر حرف کے بدلے ثواب مل
گیا ۔۔ حرف بھی اسطرح کہ '' الم '' میں الف ، لام ، میم تین لفظ ہیں ۔ کیا ہم نے
اسکو بس ثواب کی خاطر پڑھنا ہے ؟ مجھے کیوں لگتا ہے قرانِ پاک کی ہر صورت جس میں
قسمیں کھائیں گئیں ہیں ، اس میں کوئی نہ کوئی معانی موجود ہیں ۔۔ میرے ذہن میں چند مزید سوالات ہیں جن کو میں لکھ
رہی ہوں ۔۔
11۔ میرا مقام کیا
ہے ، میری شفاعت ہوگی یا میں سزا وار ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری مراد اتنی ۔۔۔۔۔۔۔۔
میں الحمد اللہ اسفل نہیں مگر ارفع بھی نہیں ۔۔۔درمیاں کے لوگوں کے لیے کیا حکم ہے
۔۔۔۔۔۔۔ مجھ پر اللہ کا فضل ہوگا یا عدل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
۔ نبوت کا درجہ ایک اعلی درجہ ۔۔۔۔۔،نبوت کا
بوجھ ۔۔۔کیونکہ نبوت کی بدولت ارفع مقام کے حق دار ہوئے
بوجھ سے کیا مراد ہے ؟
بابا بلھے شاہ پیدائشی عارف ..عارف اپنی پہچان
کے لیے ایسا کیوں لکھے ..؟وہ تو معرفت حاصل کر چکے تھے
بدھو بابا: صوفی بزرگ ہمیشہ ملامتی روپ اختیار کیئے رکھتے
تھے تاکہ عام لوگ ان کے قریب آتے ان کی بات سنتے کوئی جھجھک محسوس نہ کیا کریں ۔
انہیں اپنی بات کہنے اپنے اشکال بیان کرتے کوئی جھجھک نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔ یہ بھی اک وعظ کی صورت تبلیغ ہی ہے ۔۔۔۔
اللہ واحد و لاشریک کی جانب بلانے کی ۔۔۔۔۔۔۔۔
بلھا کی جاناں میں
کون
بابا بلھے شاہ اپنی ذات کو مخاطب کرتے اپنی شناخت تلاش کر رہے ہیں
انسان کی سوچ اس کے باطن سے مخاطب ہے ۔۔۔
نہ میں مومن وچ مسیت آں
مومن کون ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ ؟
جو اللہ پر یقین رکھے اور اس کے احکامات پر بے چون و چرا
عمل کرے ۔۔
مسیت ۔۔ مسجد کیا ہوتی ہے ۔۔۔۔۔؟
جہاں نماز کی ادائیگی ہوتی ہے ۔ نماز پڑھتے نمازی کے
سامنے دو صورتیں ہوتی ہیں ۔
اک وہ اللہ کے حضور کھڑا اللہ کو دیکھ رہا ہے
دوسرے وہ اللہ کے حضور کھڑا ہے اور اللہ اسے دیکھ رہا ہے
۔
اب وہ " مومن " کیسے ہو سکتا ہے جو مسجد میں
کھڑا ہے رکوع و سجود کر رہا ہے ۔
اور ساتھ ہی ساتھ اس کا نفس اسے خواہش میں الجھائے ہوئے
ہے ۔ اور جھوٹ فریب دھوکہ کی راہیں سمجھا رہا ہے ۔۔۔۔
سو میں " مومن " نہیں جو کہ اللہ کی مانتا
نہیں اور اپنے نفس پر چلتا رہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر میں " مومن " نہیں تو کیا پھر میں "
کفر " کی راہ پر ہوں ۔۔۔؟
نہ میں وچ کفر دی ریت آں
کافر جس کا مادہ کفر ہے ۔ وہ حق کے جھٹلانے والا ہے ۔
جس نے " لا الہ الا اللہ " کی صدا سنی مگر
تسلیم نہ کی اور اعراض کر گیا ۔۔
لیکن میں تو کلمہ پڑھ چکا ۔۔ اللہ کے آخری رسول پہ آئے
پیغام کی تصدیق کر چکا ۔۔۔۔۔۔۔
سو میں " کفر " میں تو مبتلا نہیں ہوں ۔۔۔۔
تو کیا میں پاکیزگی کی بجائے ناپاکی میں مبتلا ہوں ۔۔۔۔؟
نہ میں پاکاں وچ پلیت آں
(اسے نہیں سمجھ پایا )
نہ میں موسٰی، نہ فرعون
نہ میں موسی کے درجے پہ ہوں جسے رسالت سے سرفراز کرتے " تبلیغ " کی
امانت کا بوجھ دیا گیا ۔۔۔۔۔
نہ ہی میں فرعون ہوں جسے زمانے کے خزانے دیئے گئے اور وہ
خود ساختہ رب بن بیٹھا ۔۔۔۔۔۔۔
بلھا کی جاناں میں کون
تو اب کیسے پتہ چلے کہ " میں " کون ہوں ۔۔ میرا فرض کیا ہے ۔ میری
تخلیق کا مقصد کیا ہے ۔
مجھے زمین پہ بھیجا کیوں گیا ہے ۔؟
اب یہاں سے مخاطب بدل گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے باطن سے خطاب ہو رہا تھا ۔۔۔۔ اب باطن جواب دے رہا
ہے ۔۔۔۔۔
نہ میں اندر بید کتاباں
زمانے کی کتابیں پڑھ لے مگر میرا بھید نہ مل سکے گا۔۔۔۔۔۔۔ کہ میری حقیقت کیا
ہے ۔۔؟
نہ وچ بھنگاں، نہ شراباں
بھنگ چرس شراب تمام نشے کر کے دیکھ لے مگر بھید نہ مل سکے گا ۔۔۔۔۔
نہ رہنا وچ خراباں
خرابات دنیا میں مگن رہتے تجربہ کر لے میرا بھید نہ ملے گا
نہ وچ جاگن، نہ سون
جاگتے بھی سوچتا رہ اور سوتے بھی خواب دیکھ مگر میرا بھید نہ مل سکے گا ۔۔۔۔۔
بلھا کی جاناں میں کون
بلھے شاہ کیا تو جانا کہ میں کون ہوں ۔؟
نہ وچ شادی نہ غمناکی
خوشی کے عالم میں بھی اور دکھ کی کیفیت میں بھی میرا بھید نہیں ملے گا
نہ میں وچ پلیتی پاکی
ناپاکی اور پاکی میں ڈوبے رہتے بھی میرا سراغ نہ پاسکے گا ۔۔۔۔۔
نہ میں آبی نہ میں خاکی
نہ میں سراپا پانی ہوں نہ ہی سراپا خاک ہوں ۔۔۔
نہ میں آتش نہ میں پون
نہ میں سراپا آگ ہوں نہ ہی سراپا ہوا ہوں ۔۔۔۔۔
بلھا کی جاناں میں کون
تو میں کیا ہوں ۔۔۔۔؟
نہ میں عربی، نہ لاہوری
نہ میں عرب سے ہوں نہ میں لاہور سے
نہ میں ہندی شہر رنگوری
نہ میں ہندی شہر رنگوری ہوں ۔۔۔۔۔
نہ ہندو نہ ترک پشوری
نہ میں ہندو ہوں نہ میں پشاور چھوڑ دینے والا پٹھان
نہ میں رہنا وچ ندون
نہ ہی میں کسی ندون ؟ میں رہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلھا کی جاناں میں کون
تو بلھے شاہ تو کیا جانے میں کون ہوں ۔۔۔؟
نہ میں بھیت مذہب دا پایاں
نہ میں نے کسی مذہب کو اختیار کیا ۔۔
نہ میں آدم حوا جایا
نہ ہی میں آدم و حوا کی اولاد ہوں ۔۔۔۔۔
نہ میں اپنا نام دھرایا
میرا نام اک ہی ہے چاہے کتنے روپ بدلے
نہ وچ بھٹن، نہ وچ بھون
نہ بھٹن کی خانقاہ میں نہ ہی بھون کے مدرسے میں
بلھا کی جاناں میں کون
تو بلھے شاہ کیا تو جانا کہ میں کون ہوں ۔۔۔؟
اول آخر آپ نوں جاناں
ابتدا سے انتہا تک صرف میں ہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
نہ کوئی دوجا پچھاناں
میرا کوئی دوسرا شریک نہیں
میتھوں ہور نہ کوئی سیانا
مجھ سے زیادہ کوئی علم والا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔
بلھا! او کھڑا ہے کون؟
بلھے شاہ ذرا دیکھ تیرے دل میں کون قائم ہے ۔۔۔۔؟
بلھا کی جاناں میں کون
بلھے شاہ کیا جانا مجھ بارے میں ہوں کون ۔۔۔؟
لاتطمئن القلوب الا بذکر اللہ
اللہ بہترین ذکر یہی ہے کہ اس کے ذکر میں محو رہتے اس کی مخلوق
کے لیئے آسانیاں پیدا کی جائیں ۔۔۔
لیس للانسان الا ما یسعی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان کے لیئے کچھ بھی نہیں سوائے اس کے جس کے لیئے وہ کوشش کرے
۔۔
تو کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم ارفع ہونے کی کوشش کریں ۔ مخلوق خدا
کے ساتھ بھلائی کریں
رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی سے پیش آئیں ۔
یہ کہاں کی حکمت کہ جب ہمارے پاس ترقی کی راہ موجود ہو تو ہم
قناعت کر جائیں ۔۔۔؟
کون اسفل ہے کون اعلی ہے کون ارذل کون ارفع ہے ۔۔۔۔۔۔۔
یہ حساب کے دن کا مالک خوب جانتا ہے ۔۔۔۔
اس کے حساب میں رائی برابر زیادتی اور کمی نہیں ہو سکتی ۔۔
عدل کریں تے تھر تھر کنبن اچیاں شاناں والے ہو
فضل کریں تے بخشے جاون میں جئے منہ کالے ہو
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔۔۔۔۔۔۔
نیک نیت ہوتے نیک مراد ملنے پر یقین کامل رکھنا اک بہتر عمل ۔۔۔
اور حساب کے دن کی مالک سچی ذات تو اپنی مخلوق پر ماں سے بھی
ستر گناہ زیادہ مہربان ہے ۔
اس کی صفت رحیمی اس کے غضب پر حاوی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اپنی عاقبت کے بارے فکر کرنا بلاشبہ روشن ضمیروں کی عادت ہوتی
ہے ۔
مالی دا کم پانی دینا بھر بھر مشکاں پاوے
مالک دا کم پھل پھل لانا لاوے بھانوے نہ لاوے ۔۔
اس شعر کے مصداق اللہ سے ڈرنے والے اس کے ذکر میں محو رہتے
مخلوق خدا کے ساتھ بھلائی کیئے جاتے ہیں ۔
اور اجر و ثواب اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں ۔۔۔
عرفان ذات ۔۔۔۔۔ وہ حقیقت بھرا احساس ہے جو کہ بیان میں نہیں آ سکتا
۔
جس کو عرفان ذات نصیب ہوجائے ۔۔ وہ شریعت پر عمل پیرا رہتے
طریقت اختیار کرتے معرفت کی منزل پہ پہنچ حقیقت سے آشنا ہو جاتا ہے ۔
لیکن وہ اس راز کو بیان کرنے سے قاصر ہوتا ہے ۔۔۔ کیونکہ سرمد و
منصور کی طرح راز افشاء کرنے پر اک تو سولی مقدر دوسرے عام انسان کے لیئے گمراہی
کا سبب بنتا ہے ۔
عمومی طور پر جسے عرفان ذات ہوجائے وہ خلق خدا سے محبت میں اپنی
ہستی مٹاتا دکھ جاتا ہے ۔۔۔۔
وہ انسانوں سے بے نیاز اور اللہ پر یقین رکھنے والا دکھائی دیتا
ہے ۔۔۔۔
عرفان ذات باری تعالی کی حقیقت کھول دیتی ہے ۔ اور صاحب عرفان
وجود باری تعالی کے مقام کی الجھن سے بے نیاز ہوجاتا ہے ۔
نبوت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اک امانت ہے ۔ اور زمانے کے بوجھوں سے بڑھ کر اک
بوجھ
نبی کو حکم ہوتا ہے ۔ تبلیغ کا ۔ بنا کسی جھجھک کسی مصلحت کے ۔
اور یہ فرض بحسن خوبی ادا کرنا آسان نہیں ہوتا ۔۔۔۔
آپ سورت اقراء ،سورت المزمل، سورت المدثر کو رجمہ و تفسیر کے
ساتھ پڑھیں
ان شاء اللہ نافع ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔
متلاشی : درِ نایاب ترے در سے ملے ، ترے سنگ ہم جیسے جیسے
چلے ، کسی نے پوچھا کبھی ہم سے کچھ ، ترےنام کی مالا جپتے رہے ۔ تجھے چاہا ، تری بندگی میں ہم
انتہا تک چلے ۔ قفس میں رہے مگر نہ رہے ،یہ عجب اڑان کے ہر لمحہ ترے ساتھ رہے ۔
تری بات لگی دل کو ، ہم پھر دل کی لگی میں رہے ۔ ترا شکریہ ادا کریں کیسے ؟ ہم تو
شکریے میں تا عمر رہے
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں