ہفتہ، 31 اکتوبر، 2020

اے ہمزاد سن !

0 تبصرے

 اے ہمزاد سن !

یہ رفتگی کا حاصل ہے جو ترا چہرہ روشن ہے 
تو پھول ہے ایسے آنگن کا جو عہد ساز ہستیاں لیے ہوئے ہے 
اے ہمزاد سن !
ترے چہرے پر درد کی لکیروں میں اضافہ در اضافہ ہے 
ترا گرمجوش مصافحہ عالی ہمتی ہے
ترا خمیر نسبی نسبی سید 
تو آلِ حسنی حسینی سید 
جانے کتنے جاں بلب حادثے 
جانے کتنی کربلائیں ترا مقدر 
اے مرے ہمزاد سن ! 
چارہ گر کو چارہ ساز نہیں ملتا 
نصیب والوں کو خوشی کا سامان نہیں ملتا 
تو حاصل ہے جانے کتنی ماں کی قربانیوں کا 
تو آلِ نبی ﷺ ، تو اولادِ علی رضی تعالی عنہ ہے 
تری بلندی پر ترے نانا رشک کرتے ہیں 
تو لب مسکرانے کے لیے کھول ،
جانے کتنی صبحیں تری منتظر 
اے ہمزاد ! سن تو سہی فسانہِ درد ! 
تو حریم ریشم میں فولاد 
تو نازِ حسین رضی تعالی عنہ ،تو اولادِ علی رض
ترا دکھ مرے دکھ سے بڑھ کے ہے 
ترا دکھ مرے دکھ سے بڑا ہے 
مسکرا تو سہی 
تو چشم فلک ، تو راحتِ قلب 
یقینا تو ان صبر آزما لمحوں کا پھل ہے 
جو دار عدم سے دار فنا تک تجھ کو کھینچ لائے ہیں 
یہ وقت تجھے زمانہ حال میں روشن ستارہ کہے 
جو راہ چل کے لوگوں کو راہ دکھائے 
مت پریشان ہو 
وقت ترے ساتھ ہے 

جمعرات، 29 اکتوبر، 2020

انٹرویو ود سید نایاب حسین شاہ نقوی 10

0 تبصرے

 انٹرویو ود سید نایاب حسین شاہ نقوی 10

حمد عدنان اکبری نقیبی نے کہا: 


میرے محترم بھائی
میں کون ہوں کیا ہوں ؟ مجھے کس نے اس جہان رنگ و بو میں بھیجا ہے ؟ میں کہاں سے آیا ہوں ؟ مجھے یہاں سے آگے کہاں جانا ہے ؟ میرے یہاں آنے اور وہاں جانے کے درمیان سفر کا مقصد کیا ہے ؟
میرے ناقص علم کے مطابق یہی پانچ سوال اور ان کے جوابات کی تلاش میں قدرت کی جانب سے سامنے آنے والے مظاہر سے مدد لیتے ان کا جوابات کا پانا اور یقین حاصل کرنا ہے کہ ہم نے درست جواب پا لیئے ۔ جو علم ہم نے پایا ہے اسے اپنا عمل بناتے اپنے سفر کو آسان و کامیاب کرنا ہے ۔ یہی علم ہے روحانیت کا ۔ اور یہ براہ راست روح کی کھوج سے ربط رکھتا ہے ۔ تکمیل ایمان جب ہی ہوگی جب ہماری سوچ و فکر عقل اس یقین کو پا لے گی کہ جو ہم نے جانا ہے وہی سچ ہے ۔ اور ہمیں اس سچ پر ہی چلتے فلاح پانی ہے ۔
میرا علمی مشاہدہ ؟ میرے پاس علم ہی کہاں میرے بھائی ۔ میں نے تو بس یہ جانا ہے کہ راہ چلتے رستے میں پڑا کوئی پتھر اٹھا رستے کی اک جانب رکھ دینا اپنے لیئے ہی آسانی پیدا کرنا ہے مستقبل میں کسی بھی حادثے سے بچنا ہے ۔
بحیثیت مسلمان ہمارے پاس اک سچی کتاب موجود ہے جو ہمیں بنا کسی زیادہ مشقت کے ان تمام سوالات کے کافی و شافی جواب فراہم کرتی ہے ۔ اگر ہم قران پاک کے ساتھ ساتھ اسوہ حسنہ بارے اپنا مطالعہ بڑھا لیں اور پانے والے علم کو اپنے عمل میں بدل لیں تو تکمیل ایمان کا درجہ مل جاتا ہے ۔
روحانیت کا علم اس کے سوا اور ہے کیا کہ انساں اور انسانیت سے پیار کیا جائے نفرتوں کو مٹایا جائے سچے خالق کی مخلوق کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں ۔
ایمان کی تکمیل اس کے سوا کیا ہے کہ " اپنے کیئے کی سزا و جزا پانے کا مکمل یقین حاصل کیا جائے "


یہاں یہ نعرہ لگانا کیسا رہے گا ۔۔۔؟
پدرم سلطان بود
نسب ہی کچھ ایسا ہے کہ کسی بھی روحانی سلسلے کے کسی بھی بزرگ نے مجھے اپنی بیعت میں لینے سے معذوری ظاہر کی اور مجھ ٹھگ کو عزت و احترام سے نوازا ۔ ویسے میں اپنے گمان پر مبنی یقین کے بل پر خود کو اویسیت میں پاتا ہوں ۔
پی شراب کھا کباب تے بال ہڈاں دی اگ
بھن سٹھ گھر رب دا اوس ٹھگاں دے ٹھگ نوں ٹھگ
محترم جناب بابا بلھے شاہ سرکار سے غیر اختیاری لگاؤ ہے ۔ جب پنجابی زبان سے اتنا واقف بھی نہیں تھا اس وقت بھی آپ کے کلام میں انجانی کشش محسوس کرتا تھا ۔
ملامتی اور غیر ملامتی ہر دو روحانی بزرگوں میں سے ان سے زیادہ لگاؤ ہے جو انسان اور انسانیت کو مقدم رکھتے ہیں ۔

میرے ناقص علم کے مطابق ۔۔۔۔۔۔
میرے بھائی آپ یہاں اس حقیقت کو شاید بھول گئے جو کہ آپ کی اس تکون کی بنیاد ہے ۔ وہ ہے " وہم " جو کہ سوال پیدا کرتا ہے ۔ کب کیوں کیسےبارے یاد دلاتا ہے ۔ مجبور کرتا ہے کھوج پر ۔۔ پھر سوچ حرکت کرتی ہے شعور لاشعور کو چھاننے لگتا ہے ۔ لا شعور تحت الشعور سے ربط قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو تحت الشعور اور لاشعور کے اس رابطے سے ملنے والی بے ترتیب معلومات غوروفکر کی بھٹی سے گزر اک ترتیب سے نتائج کی صورت وجدان پر اترتی ہیں ۔ شعور تک پہنچ نطق میں ڈھلتی ہیں
میرے ناقص علم میں یہ سب متضاد نہیں بلکہ یہ تمام آپس میں اک دوسرے کی لازم مددگار ہیں ۔ اگر اک بھی اپنا کام درست نہ کرے تو نتائج ہمیشہ مجہول ہوں گے ۔


میرے ناقص علم کے مطابق ۔۔۔۔۔
تصوف نام ہے اپنی حقیقت کو جان لینے کا ۔ اپنے ہونے کے مقصد کو پا لینے کا ۔ جب کوئی حقیقت جان لیتاہے ۔ اپنے ہونے کے مقصد کو پا لیتا ہے تو قدرت اس پر وہ تمام راز کھول دیتی ہے جو کہ انسان اور انسانیت کی بقا کے لیئے لازم ہیں ۔ تصوف خانقاہوں میں قیل و قال کی محفلیں سجانے کا ہی علم نہیں ہے ۔ یہ علم ہے انسانیت کی خدمت کا ۔ زندگی کی جنگ میں مصروف انسان کے لیئے آسانی پیدا کرنے کا ۔ خدا کے بندوں سے پیار کرنے کا ۔ جسے خدا کے بندوں سے ہی پیار نہ ہو وہ خدا سے پیار کرنے کی آگہی کیسے پا سکتا ہے ۔؟

میرا ناقص علم تو یہی یقین کرتا ہے کہ انسانی سوچ لا محدود کی صفت رکھتی ہے ۔ سوچ چونکہ روح سے براہ راست ربط رکھتی ہے ۔ سو نفخ کی نسبت سے اسے لا محدود ہونا ہی چاہیئے ۔

تمام اچھے نام اسی کے ہیں ۔ جس سے چاہو اس کا ذکر کرو اس کا شکر ادا کرو وہ اپنی نعمت بڑھاتے تمھیں اپنے دوستوں میں شامل کر لے گا ۔ اور اس کا شکر ادا کرنے کی بہترین صورت اس کی مخلوق سے پیار کرنا ہے ۔ اس کے حبیب کے اسوہ حسنہ کو اپنا نا ہے ۔ دکھ درد اذیت برداشت کرتے دوسروں کے لیئے آسانیوں کا سبب بننا ہے ۔
باقی قران پاک کی تمام آیات سراسر ہدایت اور قرب حق کا وسیلہ ہیں ۔
روح کا ذکر قلبی ہے دل سے ہے ۔ اور جسم کا ذکر عملی ہے ۔ عمل سے ہے

ایسا انسان جس کی موجودگی میں دوسرے انسان سکون محسوس کریں ۔ جس کا وجود ہمیشہ دوسروں کے لیئے آسانی کا سبب ہو ۔ جس کے وجود سے ہمیشہ دوسرے انسانوں اور انسانیت کے لیئے بھلائی کا صدور ہو ۔ گویا جس کا وجود کلمہ طیبہ کی چلتی پھرتی تفسیر ہو ۔ بقول شاعر " قاری خود نظر آئے قران "

اللہ سوہنا مغفرت فرمائے میرے والد محترم کی
میں ان سے بہت مانوس تھا ۔ اپنے سب اشکال بلا جھجھک ان سے کہہ دیتا تھا ۔وہ میرے اک بہت اچھے دوست رہے ہیں ۔

جہاں تک میرا ناقص مطالعہ ہے نماز پڑھنا الگ حالت ہے اور نماز قائم کرنا الگ ۔ سورت الماعون واضح کر دیتی ہے کہ نماز پڑھنا کیا ہے اور قائم کرنا کیا ۔
نادان گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا ۔۔۔۔ والی نماز لپیٹ کر منہ پر مار دینے کی وعید ہے
اللہ سوہنا ہم سب کو نماز پڑھنے اور قائم کرنے کی توفیق سے نوازے آمین
بلاشک شاعری سچ بولتی ہے بھید اندر کا کھولتی ہے ۔ احساس کو لفظوں میں پروتی ہے ۔ جذبات کو موتی سا دمکا دیتی ہے ۔
میرے محترم نقیبی بھائی علم و عمل ناقص ہے میرا کچھ غلط برا لگے تو رہنمائی کی التجا ہے ۔
بہت دعائیں
میری محترم جاسمن بٹیا
پنجابی کی اک مثال ہے کہ " جیہڑا کپو اوہی لال "
نطق کے حامل انس و انا کے جذبات میں گندھے ہم سب خود میں ایسی ایسی حقیقتوں کو چھپائے ہوئے ہیں کہ جب بھی کوئی بیان کرنے کی ہمت کرے تو فسانہ بھی اپنا فسوں بھلا دے ۔ کہتے ہیں نا کہ حقیقت افسانے سے زیادہ دل چسپ ہوتی ہے ۔
محترم نور سعدیہ بٹیا سے بہت گفتگو رہی ہے اور یہ میری معصوم سادہ دل صاف روح کی حامل بٹیا ( اللہ اس کی سب راہوں کو آسان فرمائے آمین ) میری داستان سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہوئی ہے ۔ اور مجھے یقین بھرا یہ ڈر ہے کہ میرے سفر کر جانے کے بعد اس نے مجھ پر اک کتاب لکھ ڈالنی ہے ۔ وہ سب کچھ بھی لکھ دے گی جو میں خود بھی لکھتے گھبراتا ہوں ۔۔۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ سوہنا میری محترم بٹیا کے گمان کو میرے بارے سچ فرمائے آمین

بہت دعائیں

حاضری ؟ یہ لفظ دو طرح کا مفہوم رکھتا ہے ۔ اک کسی انسان کو ستانے والے جنات یا بھوت پریت یا کالے پیلے نیلے جادو ئی موکلات کو حاضر کرتے ان سے گفت و شنید کرتے انہیں مقبوضہ مقام چھوڑنے پر مجبور کرنا ۔
دوسرے کسی انسان پر اچانک ایسی کیفیت طاری ہوجانا کے وہ ماضی یا مستقبل کے حالات و واقعات غیر ارادی طور پر بیان کرنے لگے ۔ اور اس سے اس کیفیت میں جو پوچھا جائے وہ اس کے بارے درست بات بتائے ۔ اور کیفیت سے باہر آنے کے بعد اسے اس بارے کچھ یاد نہ رہے ۔
مجھے تو جتنی بھی حاضریوں کا تجربہ مشاہدہ ہوا ان میں صنف نازک پر قابض جنات کے نام اکثر اک سے ہی پائے ۔ جیسے " نارسائی کا دکھ " ادھورے پن کا احساس " توجہ سے محرومی " کسی اپنے کی جانب سے جنسی ہراس کا سامنا " خواہشات کا کچلا جانا " معصومیت میں مبتلا چاند پانے کی ضد " نا آسودگی کی اذیت " بے انتہا حسین ہونے کا غرور" شریک حیات سے توجہ الفت کے اظہار کی محرومی " یہاں وہاں سے سنے بے ترتیب وظائف کا ذکر " جمال کی متلاشی جلال کی ذاکر " جلال کی متلاشی جمال کی ذاکر "
اور ان تمام جنات کو اکثر عامل اپنے " لمس اور توجہ " سے بھگا دیتا ہے ۔ لمس اور توجہ بارے تفصیل اک پبلک مقام پر بیان کرنا غیر مناسب امر ہوگا ۔ بس اتنا کافی کہ معصوم کی معصومیت کو اپنے لمس و توجہ سے دھوکہ دیتے اسے نارسائی کے دکھ سے باہر نکالا جاتا ہے ۔ کچھ عامل حضرات اس علاج کی آڑ میں تعویذ دھاگہ جھاڑ پھونک کا ڈرامہ رچاتے اپنے نفسانی مقاصد کی تکمیل بھی کر لیتے ہیں ۔ اور کچھ عرصہ میں جن بھاگ جاتا ہے ۔
جو اللہ سوہنے کا خوف رکھتے ہیں وہ اللہ کے ذکر کو سہارا بناتے امید یقین کی شمع جلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اک اچھے دوست کی صورت اس کی ہر اک بات کو سنتے ہیں توجہ دیتے ہیں ، مریض کا کھویا ہوا اعتماد واپس لاتے ہیں ۔
اس جن کی شناخت یہ ہوتی ہے کہ مریض پر تشنج اور مرگی کے سے دورے پڑتے ہیں ۔ جسم اینٹھ جاتا ہے ۔ دبلی پتلی نازک سی بچی دو تین بندوں کے قابو نہیں آتی ۔ اکثر یہ صرف خود کو ہی نقصان پہنچاتی ہے ۔ اپنا غصہ بے جان اشیاء پر اتارتی ہے ۔ چپ چاپ خاموش رہا کرتی ہے ۔
میرے مشاہدے میں بچیوں پر قابض جو غیر مرئی مخلوق آئی وہ سب ہی نفسیات سے مربط پائی ۔کچھ ایسے کیس ضرور دیکھے ہیں جن میں غیر مرئی مخلوق کی حقیقی پایا ہے ۔ اور اس کی بنیاد میں گیلے بالوں کے ساتھ تیز خوشبولگا مغرب کے وقت کے آس پاس کسی کھلی جگہ میں جانا جہاں اونچے درخت ہوں اور ویرانی پائی جاتی ہو ۔ ایسے کیس 3۔ہ فی صد ہوتے ہیں ۔
صنف کرخت پر قابض یہ غیر مرئی مخلوق اکثر ہی اس صنف کی اپنی غلطیوں اور والدین کی بے جا تنقید کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ یا پھر الٹے وظائف کا شاخسانہ ۔ غیر مکمل چلوں کا اثر ۔بے جا بہادری کے مظاہرے
صنف کرخت پر قابض غیرمرئی مخلوق 40 فی صد میں حقیقی اور 60 فی صد نفسیاتی پائی ہے ۔
ان قابض مخلوقات کو حاضر کرنا کوئی سہل نہیں ہوتا ۔ اگر تو قابض مخلوق ہندو ہے تو آسان ہے اگر قابض مخلوق مسلمان ہے تو لوہے کے چنے حقیقت میں چبوا دیتی ہے عامل کو ۔
یہ دونوں درخت ہندو مذہب میں بہت متبرک مقدس کہلاتے ہیں ۔ اور ان کے عقیدے سے ان درختوں پر غیر مرئی مخلوقات کا بسیرا ہوتا ہے ۔ مردہ جلاتے وقت جب کھوپڑی پھٹتی ہے تو روح نکل کر کسی قریب ترین رشتہ دار میں گھسنے کی کوشش کرتی ہے ۔ اور اگر رشتہ دار چوکنے ہوتے کھوپڑی پھٹنے سے پہلے ہی اس مقام سے دور ہو جائیں جہاں تک روح رسائی رکھتی ہے ۔ تو پھر وہ روح اپنا بسیرا کسی قریبی پیپل یا برگد کے درخت پر بنا لیتی ہے ۔ طلسم و عملیات کی دنیا میں یہ مانا جاتا ہے کہ ان درختوں کے نیچے کئے جانے والے عمل طاقتور اور با اثر ہوتے ہیں ۔اور یہاں بسیرا کر رہی روحوں کو اپنا موکل بنایا جا سکتا ہے ۔

تاریک کالی رات میں اچانک اک جھماکہ ہو اور سامنے اک سٹیج سجا دکھے جس پر کوئی ظالمانہ متشددانہ ایکٹ چل رہا ہو ۔ کوئی ہمیں دیکھتے ہنستے ہنستے اپنا گلہ کاٹ اپنا سر اپنے ہاتھوں میں لیکر ہماری جانب آنے لگے ۔ کسی کا قد اچانک بڑھنے اور جسم کی ہیئیت پھیلنے لگے ۔ اس کے ہاتھ لمبے ہوتے ہماری جانب آنے لگیں ۔ اک بھیانک سی آواز ہمارے رونگٹوں کو کھڑے ہونے پر مجبور کرنے لگے ۔ کوئی حسین و جمیل صورت آہستہ آہستہ روپ اپنا بدلنے لگے ۔ دانت باہر کو آئیں ہاتھ کے پنجے مڑنے لگیں ۔
یہ جتنی بھی ہارر موویز ہوتی ہیں ان میں جو ساونڈ ایفکٹس ہوتے ہیں۔ جیسی جیسی صورتیں شکلیں سائے دکھائے جاتے ہیں ۔ یہ سب ہی فلم کی کہانی لکھنے والے نے ان کے تاثرات سے اخذ کیا ہوا ہوتا ہے جو ان مراحل سے گزرے ہوتے ہیں
ڈر اور خوف سے کوئی آزاد نہیں ۔ ڈر و خوف ہمیشہ ہی جاندار کو اپنی گرفت میں رکھتے ہیں کہ یہ ان کی بقاء کے لئے لازم ۔
مجھے بھی ڈر لگا خوف نے مجھے بھی اسیر کیا اور جب جان پر بنی تو جان بچانے کے لیئے جیسے ہی دفاع کو چھوڑ حملے کی سوچی ۔ ڈر و خوف ختم ہوگیا ۔ ڈر ہو یا خوف جب اپنی حد سے بڑھتا ہے تو یہ سوچ پیدا کر دیتا ہے کہ جو ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا کچھ تو کوشش کر تو بچنے کی ۔ اور یہ کوشش کا جاگنا ڈر و خوف بھلا دیتا ہے ۔ بلی کو شیر سے لڑا دیتا ہے ۔۔۔۔۔
فرق صرف اور صرف احساس کا ہے باقی دونوں ہی غیر مرئی ہوتے ہیں ۔
جنات بلا شک اللہ سوہنے کی ہی مخلوق ہیں اور میرے ذاتی خیال میں اکثر جنات ہم انسانوں سے زیادہ سنجیدہ، رحم دل، ہمدرد، ایثار پیشہ اور غم خوار ہوتے ہیں۔ جنات کے بارے میں انسانوں پر قابض ہوتے ان کو ستانے کی جتنی کہانیاں مشہور ہیں ان میں کچھ سچائی نہیں ۔ انسانی دماغ جب ان کہانیوں کے زیر اثر آ جاتا ہے تو وہم کا شکار ہوجاتا ہے ۔ جس قدر وہم زیادہ اور شک پختہ ہوتا ہے اتنا ہی دماغی اعصابی تحریکات میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اور جن کا احساس وجدان پر مجسم ہوتے انسان کو دیوانہ بنا دیتا ہے ۔ اور یہ حقیقت اپنی جگہ کہ انسان ہو حیوان ہو یا کہ جن جیسے ہی اپنے آپ کو خطرے میں پاتا ہے اپنے دفاع کے لیئے حملے میں پہل کر دیتا ہے ۔ کچھ انسان جنات کی جانب سے اس دفاع حملے کے بھی شکار ہوجاتے ہیں ۔ یا پھر دوسری صورت میں قصدا ستائے جانے پر بطور انتقام کسی انسان پر قابض ہوجاتے ہیں ۔
ضد اور حق کو اک ساتھ خلط ملط کرنے پر یہی ہوا بس کہ " نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم "
گم کردہ راہ مسافر کی صورت گزر گئی زندگی مجھے گزارتے ہوئے ۔ اور یہ بلاشک کرم اللہ کا کہ پاگل دیوانہ نہ ہوا میں ۔
چھلاوہ اک ایسی مخلوق جو اک جگہ ٹک کر نہ رہ سکے ابھی سامنے ابھی پیچھے ابھی دائیں ابھی بائیں ابھی یہاں ابھی وہاں پارہ صفت ۔
اک حسین خوبصورت شکل و صورت عورت جس کے پاؤں کے پنجے پچھلی جانب ہوں ہاتھوں کی انگلیاں لمبی اور ناخن مڑے ہوئے ہوں ۔
شتونگڑے ؟ شاید چھلیڈے چھوٹے چھوٹے بونے جو بہت شرارتی اور انسانوں کو تنگ کرتے ہیں ویرانوں میں ۔ممکن ہے کہ جنات کا ہی کوئی قبیلہ ہو ۔
میری محترم بٹیا جس تن بیتی وہ تن جانے ۔۔۔۔۔۔۔ انسان جو کچھ محسوس کرتا ہے اسے بعینہ اسی صورت بیان کرنا اک نا ممکن امر ہے ۔ یہ کہانیاں بیان نہیں کی جا سکتیں ۔ کچھ حد تک ہی اجازت ہے ۔جیسے اک پاؤں تو آسانی سے اٹھا لیتے ہیں دوسرا اٹھانے کی کوشش کریں تو گر کر چوٹ لگوا لیتے ہیں ۔ کچھ کہانیاں ان کہی ہی رہیں تو فساد کی راہ بند رہتی ہے ۔
یقین ہمیشہ اک ہی صورت دکھاتا ہے ۔ وہم پل پل روپ بدلتا ہے ۔ یہی فرق کر سکتے ہیں ہم ۔
آپ کے سوالوں کے جواب کی بورڈ پر رواں انگلیوں کو بہت محتاط رہنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کوئی جواب " دار " تک ہی نہ پہنچا دے ۔ مجرم ہی نہ بنا دے ۔۔
بہت دعائیں

 



انٹریو ود سید نایاب حسین شاہ نقوی -- 9

0 تبصرے


انٹریو ود سید نایاب حسین شاہ نقوی -- 9 

 ” بولو بولو بولو جئے شاہ”

سخی سید بلاول شاہ نورانی المعروف جئے شاہ
شاہ جی آپ نے ان کا ذکر خیر کرہی دیا تو میں بھی بتاتا چلوں کچھ ، گوکہ اب میں مادیت پر زیادہ رکھتا ہوں حتیٰ کہ یقین بھی مادی شکل میں ہی آئے تو مانتا ہوں پر جوانی کے چند تجربات شیئر کرتا ہوں آپ سے ۔۔
میری پیدائش تو پنجاب کی ہے پر پلا بڑھا میں کراچی میں ، میرے کچھ سیانا ہونے پر ( 22،23) سال کی عمر تھی میری جب والد صاحب نے نوکری کے ساتھ ساتھ کاروبار کرنے کا ارادہ کیا اور اندرون سندھ چند ایکڑ پر بنا پان کے پتے کا فارم ٹھیکے پر لیا ۔
اہلیان کراچی جانتے ہوں گے کہ پان کی منڈی کراچی میں لیمارکیٹ اور مراد میمن گوٹھ میں ہے ، تو میں اپنے فارم کا مال مہینے میں ایک بار لیمارکیٹ دیتا تھا ورنہ میمن گوٹھ دیتا تھا کیوں کہ وہ مجھے قریب پڑتا تھا ۔
ہوا یوں کہ ایک دن میں کچھ پیسوں کی ریکوری کرکے گھر واپس جانے کیلئے بس کے انتظار میں تھا تو وہاں ایک بندہ لمبی سی بس کے پاس کھڑا شاہ نورانی شاہ نورانی کی آوازیں لگا رہا تھا ، میں جیب تھپ تھپائی تو پیسوں کی گرمی نے کہا کہ چل پر سیر ہوجائے ۔ موبائل اس زمانے میں امراء پاس ہوتا تھا سو قریبی پی سی او سے گھر فون کرکے چھوٹے بھائی کو اطلاع دی کہ امی کو تب بتانا جب وہ پوچھیں اور بس میں بیٹھ گیا اوائل نومبر تھا تو ایک گرم چادر خریدلی تین چار پیکٹ سگریٹ کے لیئے پانی کی بوتل لی اور سوار ہوگیا بس میں ۔
بس یہ ایکسائٹمنٹ تھی کہ نئی جگہ دیکھی جائے اور ہمارے ننھیال میں اکثر چکر لگانے والے ایک درویش بابا اللہ رکھا سے ملا جائے ۔ خیر جی بس چلی اور منگھوپیر دربار کے پاس سے ہوتی ہوئی پکی سڑک پر آگے جاکر اچانک ہی کچے راستے پر مڑگئی ۔ یوں ایک دم راستہ نیا ہوگیا ۔
خیر بس میں سیٹوں پر اناج اور سبزی کی بوریاں تھی اور ان بوریوں پہ ہم بیٹھے تھے ۔ چرس دھڑادھڑ پی جارہی تھی اور ہر تھوڑی دیر کوئی نہ کوئی نعرہ مار دیتا تھا کہ بولو بولو بولو جئے شاہ ، اور سب مرد و زن ہم آواز جواب دیتے تھےکہ جبل بہ شاہ ۔
کراچی سے اس وقت تقریباً چھہ گھنٹے لگتے تھے شاہ نورانی پہنچنے پر راستے میں ناگن چڑھائی نامی بدنام زمانہ سڑک کا حصہ بھی دیکھا جہاں اکثر و بیشتر جان لیوا حادثات ہوتے رہتے ہیں ۔۔ خیر اللہ اللہ کرکے شاہ نورانی پہنچے جہاں بس سے اتارے وہاں سامنے کسی محبت فقیر نامی ہستی کا مرقد تھا ۔ معلوم پڑا کہ پہلے یہاں حاضری اور پھر کیکڑے (پرانے زمانے کی ٹرک نما سواری جو ریگستان و پہاڑی علاقوں یکساں کارآمد ہے) میں سوار ہوکر شاہ نورانی کے مرقد پر جانا ہوگا ۔ مرتے کیا نہ کرتے حاضری دی کیکڑے میں سوار ہوئے اور چند لمحوں میں وہاں پہنچ گئے ۔
شاہ نورانی کا علاقہ بنجر بیاباں خشک سیاہ پہاڑی سلسلے پر مشتمل ہے جہاں دن کو سورج آگ برساتا ہے اور رات کو پہاڑ گرمی خارج کرتے ہیں پر میں چونکہ نومبر میں گیا تھا تو کافی زیادہ ٹھنڈ ہوگئی تھی ۔
خیر جی وہاں رونق ہی الگ تھی بجلی وہاں ہے نہیں تو ڈیزل جنریٹرز کی ڈھگ ڈھگ نے شور مچایا ہوا تھا ۔ ساتھ میں ہوٹلوں پر لکڑی کی آگ پر بنتے کھانوں کی مہک اور گیلی لکڑی کے دھوئیں نے آنکھوں کو خوب سزا دی پر شہر سے دور یہ ماحول بہت اچھا لگا ۔ اتنے میں ایک بندے نے آکر اعلیٰ کوالٹی کی چرس کی آفر کی تو میں نے کہا کہ بھائی میں مکہ سے تو آیا نہیں پر اتنا بھی بے عقل و شعور نہیں کہ جگہ جن سے منسوب ہے ان کا احترام نہ کروں تو وہ مجھے پاگل سمجھنے والی نظر سے دیکھتا ہوا چلا گیا ۔ خیر سب سے پہلے پیٹ پوجا کی پھر لکڑی کی آگ پہ بنی چائے کے دو تین کپ پیئے پھر صاحب کے مرقد پہ حاضری دی فاتحہ پڑھی اور ملحقہ مسجد کے صحن میں آکر چاروں طرف دیکھنے لگا ۔
مجھے دراصل قدرت کی آواز سننے کا اسے محسوس کرنے کا شوق تھا اور مجھے لگتا بھی تھا میں ایسا کرسکتا ہوں ۔
اور وہاں قدرت وافر میسر تھی اونچے اونچے کالے ہیبت ناک پہاڑ ان سے اوپر انتہائی صاف شفاف تاروں بھرا آسمان ایسا لگتا تھا جیسے یہ تارے آپ کے اوپر چھارہے ہوں نزدیک آتے جارہے ہوں ۔ خیر اتنے میں ٹھنڈ چادر کی برداشت سے بھی باہر ہوگئی اور نیند نے بھی کہا میں آگئی ہوں مجھ سے ملو ۔
سوچا کسی سے مدد لی جائے کیوں کہ وہاں بہت لوگ تھے فیملیز تھیں ان سے کوئی بستر چادر مانگنے کا ارادہ کیا تھا کہ ایک بندے نے کہا بھائی سردی اور بڑھ جائے گی جاؤ ہوٹل سے بستر کرائے پر لو اور کہیں بچھاکر سوجاؤ یہ سنتے ہی ہوٹل کی جانب بھاگا پہلے بستر کرائے پر لیا جو مختلف اقسام کی بدبوؤں اور خوشبوؤں کے امتزاج کامرکز تھا اسے قبضہ میں کرکے پھر چائے پی اور پھر جگہ کی تلاش میں نکلا کوشش تھی کہ کسی ہوٹل کے چھپر تلے جگہ مل جائے تاکہ سردی سے بچ سکوں پر وہاں پہلے ہی نشئی حضرات کا قبضہ ہوچکا تھا ۔
پھر مسجد کی طرف نکلا تو وہاں اندر کیا باہر صحن میں بھی جگہ نہ تھی اتنے میں مسجد کے صحن سے ملحق چھوٹے سے قبرستان پر نظر پڑی تو دیکھا وہاں قبروں کے درمیان جگہوں پر بھی لوگ بستر بچھا سوئے ہوئے تھے لہذا ڈرتے ڈرتے میں نے بھی دو قبور کے درمیان جگہ ڈھونڈی اور جو منہ میں آیا پڑھتے ہوئے سونے کیلئے لیٹ گیا اور یقین کیجیئے بہت سکون کی نیند آئے مردے بالکل تنگ نہیں کرتے نا خراٹے لیتے ہیں نا کروٹ لیتے ہیں بالکل خاموشی اور سکون سے سونے دیتے ہیں ۔
اب آتا ہوں اس بات کی طرف جو مجھے آج بھی Fantasies کرتی ہے ۔وہ یہ کہ صبح صادق کا وقت تھا اندھیرا اجالا آپس میں باہم پیوست تھے اور ایک دوسرے سے الوداعی معانقہ کررہے تھے ۔ بڑا افسانوی سا ماحول تھا اچانک ہی میری آنکھ کھل گئی جیسے انتہائی خاموشی نے مجھے سرگوشی کرکے جگادیا ایک بار تو مجھے لگا جیسے خواب سا ہے کیونکہ میں کبھی کھلے آسمان تلے نہیں سویا اور یہاں تو کھلے آسمان تلے دو قبور کے درمیان تیسرا مردہ میں تھا جو کہ قبر سے باہر تھا ۔
خیر میں چت لیٹا آسمان کو گھور رہا تھا کہ اچانک ہی قریب کہیں کوئی جنگلی مور بولنا شروع ہوا اور اس قدر گہری خاموشی میں اس آواز نے سب کچھ ڈھانپ لیا اور صرف قدرت کی آواز پہاڑوں میں گونجتی رہی کچھ دیر تک بولنے کے بعد وہ پھڑپھڑاتا ہوا کہیں پہاڑوں میں غائب ہوگیا اور پھر سکوت طاری ہوگیا ۔
اتنے میں مسجد کے اسپیکر میں پہلے کھڑکھڑاہٹ ہوئی اور چند لمحوں بعد پہلے مؤذن نے درود سلام پڑھا پھر اذان دی ، سچی بات یہ ہے کہ اس اذان کا فسوں بھی نہیں بھولنے والا خیر میں لیٹا رہا قدرت کو محسوس کرتا رہا ۔ وہ صوفی حضرات کیا کہتے ہیں کہ ایک نماز مسجد میں ہورہی تھی وہیں ایک اور نماز کہیں اندر باطن میں ہورہی تھی
اور پھر جب کسی نعت خواں نے سندھی میں بہت خوبصورت طرز پہ نعت پڑھی تو میں بے اختیار اٹھ کر بیٹھ گیا اور جیسے نشئی حالت نشے میں ڈوبتا ابھرتا ہے ویسی حالت ہوگئی ۔
کچھ دیر بعد تیز چبھنے والی دھوپ نکلی تو اٹھنا پڑا ۔
بستر سمیٹا ہوٹل والے کو واپس کیا پھر مسجد جاکر وضوخانے سے منہ ہاتھ دھویا یخ ٹھنڈے پانی سے اور ہوٹل آکر انڈہ پراٹھا اور چائے کا ناشتہ کیا پھر سگریٹ سلگاکر سوچا کہ واپسی کی جائے اتنے میں یاد آیا کہ بابا اللہ رکھا سے ملنا ہے جو لاہوت لامکاں نامی مقام پر جاتے ہوئے کہیں مل جائیں گے جن کے ذمے وہاں سیمنٹ کی سیڑھیاں بنوانا تھا کیونکہ لاہوت لامکاں جاتے ہوئے سات پہاڑ کراس کرنے ہوتے ہیں اور راستہ بلاشبہ کافی خطرناک تھا خیر جی اٹھا اور ہولیا لاہوتیوں کے راستے پر اور دن کی روشنی میں وہاں کا قدرتی حسن دیکھا ۔
اونچے کالے پہاڑوں کے بیچ ایک چھوٹی بستی ، کسی ہستی کا مزار ، مسجد ، چھوٹے بڑے چھپر ہوٹل ، مزار کے پیچھے کی طرف ایک احاطہ جہاں بڑا سا الاؤ روشن ہوتا ہے وہیں پر جو عجیب بات مجھے لگی وہ یہ سیڑھیاں اوپر کی طرف جارہی تھیں اور ایسی سیڑھیاں بنانا کوئی انسانی کام نہیں لگ رہا تھا اور اگر انسانی تھا بھی تو کام نہیں کارنامہ ہی تھا خیر وہاں سے کچھ اوپر ایک غار تھا جہاں بقول بیان کردہ قصے کے مطابق کسی گوکل نامی دیو کو صاحب مزار نے پریوں کو تنگ کرنے کی پاداش میں بند کیا ہوا تھا میں وہاں گیا اور غار کے سامنے موجود پتھر پہ کان رکھا تو رونگھٹے کھڑے ہوگئے اور تمام حسیات ایک جگہ سمٹ آئیں ( یہ دراصل اس بارے سنے ہوئے قصے کی وجہ سے ہوا تھا )
واپس آتا ہوں بابا اللہ رکھا سے ملاقات پہ تو لاہوتیوں کے رستے پہ ہولیا پہلے پہاڑ پر موجود راستے پہ قدم رکھا اور کچھ دیر چلنے کے بعد پتہ چلا کہ بھائی یہ لاہوتی راستہ تو ہرگز نہیں کوئی چھوٹا موٹا پل صراط قسم کا ہے اور وہاں بلوچی کھیڑی پہننے کا فائدہ بھی پتہ چلا کہ ٹائر سول کی بھاری چپل کتنی کارآمد ہے پہاڑوں پہ ۔ تو میں چلتا رہا پسینہ نکلتا رہا حتیٰ کہ کندھوں پہ موجود چادر ، تن کے کپڑے اور خود اپنا آپ بوجھ محسوس ہونے لگا تھکن سے اور راستہ تھا کہ ختم نہیں ہورہا تھا اور بابا اللہ رکھا مل نہیں رہا تھا کہ خیال آیا کسی درویش یا مست سے ہی پوچھ لوں شاید پتہ مل جائے تو کافی دیر بعد ایک ملنگ ملا اس سے ڈرتے ڈرتے پوچھا تو فوراً کہنے کہ وہ لمبا سا پنجابی ہرے کپڑے پہنتا ہے ننگے پاؤں پھرتا ہے ، یہ سن جو خوشی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے کہ چلو بابا اللہ رکھا کے پاس بیٹھ کر چائے پیوں گا کھانا کھاؤں گا اور پھر واپس ۔
میں نے فوراً اقرار میں سر ہلا دیا تو اس نے کہا کہ بس تھوڑا آگے ہی بیٹھا ہوا ہوگا (وہ تھوڑا آگے آدھے سے کچھ ہی کم تھا) خیر جی میں پہنچ بابا اللہ رکھا کے پاس پہلے تو وہ مجھے دیکھ کر ایک دم حیران ہوا بہت زیادہ (اس کے آگے بیان کرنا معیوب لگ رہا ہے کہ اس نے احترام میں کیا حرکات کیں کیونکہ وہ میرے نانا ابو کا معتقد تھا)
خیر میں نے کہا کہ بابا بھوکا مررہاہوں استقبال ہوگیا ہو تو کچھ کھلاؤ جلدی سے اسنے فوراً کسی مزدور کو آواز دی اور کھانے کاکہا اور بے حد لذیذ سبزی اور روٹیاں پانچ منٹ میں آگئیں اتنے میں اسنے جھونپڑی کے کونے میں موجود چولہے پر چائے بنائی پھر یہاں وہاں کی باتیں کرتے کافی وقت ہوگیا تو میں نے کہا بابا اب میں واپس جاتا ہوں تو اس نے کہا کہ یہاں تک آگئے ہو تو لاہوت بھی دیکھ لیتے بلکہ وہاں رات گزارتے ہیں اور نایاب شاہ جی آپ کو پتہ ہوگا کہ وہاں شام کو پانچ بجے کے بعد کسی کو رکنے نہیں دیتے ۔۔
وہاں کیا ہوا کیسی رات گزری کیا تجربہ رہا اسے رہنے دیتے ہیں کیوں کہ میں لکھ لکھ کر تھک گیا ہوں یہ اتنی لمبی کہانی بھی نایاب شاہ جی نے جب شاہ نورانی کا ذکر کیا تو دل کیا کہ بیان کروں ۔۔

میرے محترم بھائی
جب بھی کوئی عامل کسی خاص مقصد کے لئے یا پھر کسی بھٹکتی روح موکل اور ہندوانہ کالی طاقتوں کو بس میں کرنے کے لیئے اپنے بہترین علم کے مطابق کسی رہنما سےملنے والی معلومات کےبل پر اپنے ارد گرد کوئی مخصوص حصار بناتےکچھ خاص الفاظ کے جاپ یا ذکر میں میں مصروف ہوتے ناری چلہ کر رہا ہوتا ہے تو اس کی تمام حسیات اک نارمل انسان سے کہیں زیادہ بیدار ہوتی ہیں ۔ چونکہ وہ اپنا عمل اپنے پورے یقین سے انجام دے رہا ہوتا ہے تو اس عمل کے دوران پیش آنے والے حالات و واقعات بھی چونکہ اس کے علم میں ہوتے ہیں اس لیئے اس کا وہم گمان خیال ممکنہ پیش آنے والے واقعات بارے اپنے جال بن رہا ہوتا ہے ۔ مجھے بھی ایسے اعمال کا شوق رہا ہے ۔ میں نے بھی کچھ راتیں قبرستانوں شمشان گھاٹوں میں گزاری ہیں ۔ میں نے انتہائی خوبصورت مسحور کر دینے والے حسن کی مالک عورت بھی دیکھی ہے جس کے پاؤں کی ایڑی سامنے اور پنجہ پچھلی جانب ہوتا ہے ۔ میں نے بھیانک آوازیں سنی ہیں ۔ میں نے ہوا میں آگ کو جلتے اڑتے دیکھا ہے ۔ میں نے بونوں کو زمین سے نکلتے انسان کا کچا گوشت کھاتے دیکھا ہے ۔ میں نے عجیب الخلقت جثے کی حامل ہیولے دیکھے ہیں ۔ میں نے لوگوں کو اپنے کٹے سر اپنے ہاتھوں میں اٹھائے دیکھا ہے ۔ میں نےجنات کے ہاں دعوت کھائی ہے ۔ بن موسم کے پھل بھی عام رہے ۔ یہ صرف اور صرف میرا مشاہدہ ہے ۔ میری حد تک یہ سچ ہے ۔ لیکن کسی دوسرے کو سنانا صرف اک مذاق ہے ۔میں انہیں کبھی بھی ثابت نہیں کر سکتا ۔ کیونکہ سننے والا اسے صرف میری حسیات کا دھوکہ مانے گا ۔ میں ان اعمال میں کامیاب کیوں نہ ہوا ؟ میں کوئی پراسرار طاقت کیوں نہ حاصل کر سکا ؟ اس کی صرف اک ہی وجہ ہے کہ آیت الکرسی کا ذکر ہر پل میرے ساتھ رہا زبان پر کوئی بھی لفظ رہا مگر دل اسی میں مصروف رہا ۔سو اللہ سوہنے نے مہربانی فرمائی اور مجھے اس گندگی سے نکالتا رہا ۔ اور بلاشک یہ میرے رب کی مہربانی کہ مجھ سے بڑی میری بہن نے مجھ میں اس کی قوت و طاقت بارے بچپن میں جو بتاتے مجھ میں یقین بھرا وہ گویا پتھر کی لکیر جیسا یقین جو کبھی بھی نہ مٹ پایا ۔
اب چونکہ مافوق فطرت یا فوق الفطرت یا فوق طبعی مشاہدہ وہ ہوتا ہے جو کہ علت اور معلول کے قانون سے آزاد ہوتا ہے ۔ اور عامل کی حسیات ہوا کے باعث کسی پتے کی ہلنے کی آواز کو بھی اسے ممکنہ پیش آنے والے واقعے سے جوڑ دیتی ہیں ۔اب جتنا گندا اور پیچیدہ عمل اور جاپ ہو گا جیسے کہ ہنومان ۔کھیترپال ۔بھیرو۔ ناگ دیوتا ۔ لوناچماڑی ۔ لکشمی دیوی ۔ کالا کلوا ، پاروتی دیوی ۔ ہر بھنگ آکھپا جیسی ہندو مذہب سے منسوب بلاؤں کو قابو کرنا ۔یاد رہے ہندو مذہب میں بھوت پریت اور ان جیسی 80ہزار سے زائد مخلوق کا ذکر پایا جاتا ہے ۔ اتنے ہی اس عمل کے دوران پیش آنے والے ممکنہ واقعات اور مشاہدات ہو سکتے ہیں ۔ اور عامل کو اس کی رہنما کی جانب سے یہ تاکید ہوتی ہے کہ جو بھی جیسا بھی دکھائی سنائی دے اسے فراموش کرتے اپنی توجہ صرف جاپ پر رکھنا ہے ۔ اگر جاپ سے توجہ ہٹی یا ڈر کر بھاگے تو جان یا عقل یا حواس گنوا بیٹھو گے ۔ صبح کاذب سے پہلے حصار سے نکلے تو نقصان ہوگا ۔
اب ذرا سوچیں چاند کے بنا کالی تاریک رات ہو کوئی پرانا قبرستان ہو جس میں مردوں کی ہڈیاں اپنی چمک سے جھلملا رہی ہوں ۔ یا پھر کوئی شمشان گھاٹ ہو جہاں کی فضاء مردوں کے جلائے جانے کی ناگوار بو سے بھیانک تاثر پیدا کر رہی ہو ۔ وہاں کوئی عامل اپنی حسیات کے انتہائی بیدار ہونے پر کیا کچھ نہ دیکھے گا ۔ اس کی فریب حس کیا کیا مناظر اسے نہ دکھائے گی ۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ چاہے یہ تمام مخلوق ماننے والوں کے یقین پر مبنی اپنی جگہ اک سچ ہے ۔ اور اس کے عامل ہونے کے دعویدار بھی مل جاتے ہیں ۔ لیکن میرے نزدیک یہ صرف عامل کی انتہائی بیدار حسیات کے باعث صرف اک دھوکہ ہوتا ہے جو اس کے وہم گمان پر مبنی ہوتا ہے ۔ قدرت بہت عجیب طرح کام کرتی ہے ۔ جسے جو چاہت ہوتی ہے اسے ویسا ہی بنا دکھاتی ہے ۔ جس کا جس پر جتنا پختہ یقین اتنا اسے مل ہیجاتا ہے ۔ کوئی ہوا میں اڑ لیتا ہے ۔ کوئی اپنی جوتیاں ہوا میں اڑا دیتا ہے ۔
مافوق الفطرت تجربات اور مشاہدات کے دو ذرائع پائے جاتے ہیں اک کو نوری وظیفہ کہتے ہیں اک کو ناری چلہ ۔
نوری وظیفے کی پہلی شرط پاک صاف خوشبودار مقام کا انتخاب ہے ۔ جہاں کا ماحول سفیدی کا حامل ہو ۔ اور ناری چلے کے لیئے پہلی شرط ایسا مقام ہے جو گندا تاریک ویران بدبودار ہو ۔ اب جو بھی عامل نوری وظیفہ کرے گا اس کو جو مشاہدات تجربات ہوں گے وہ انتہائی سکون بخش اور طبیعت کو شاداں و فرحاں کرنے والے ہوں گے ۔ جبکہ ناری چلہ کرنے والے کے مشاہدات و تجربات ان کے بالکل بر عکس ہوں گے ۔ دونوں کے مشاہدات و تجربات میں اک شئے مشترک ہو گی ۔ دوران عمل پیش آنے والے ممکنہ حالات و واقعات جو کہ رہنما جہاں سے عمل کا طریقہ ملا ہوتا ہے ۔ نوری وظائف میں ایسے اعمال جو کہ قضاء و قدر میں دخل دینے کی خواہش سے کیئے جاتے ہیں ان کی شرائط اور مشاہدات و تجربات ناری چلے جیسے ہی ہوتے ہیں ۔ اور کیا شک کہ نور کے متلاشی کو نور ہی ملتا ہے ۔
انسان کی فطرت میں اک تجسس اک کھوج کا مادہ شامل ہےاسی تجسس اور جستجو کا نتیجہ ہے کہ وہ ایک جگہ نہیں بیٹھنا چاہتا ہے۔ قدرت کے ہر راز کو خود پر افشا کرنا خود کو ہر بھیدکی تہہ تک پہنچانا خواہ جنت میں کھائے جانے والے پھل کا ذائقہ محسوس کرنا یا پھر پوٹاشیم سائنایڈ کا مزہ چکھنا ۔ اب اس عمل کے دوران اسے کیا مشاہدہ ہوا ؟ کس تجربے سے کیسے گزرا ؟ اس کے لیئے بس نطق کے سہارے یہ کوشش کی جا سکتی ہے کہ کسی دوسرے کو اپنے احساس میں شریک کیا جائے ۔ مگر یہ ناممکن ہے کہ اس کو اپنی کیفیت یا مشاہدے کی سچائی پر ویسا ہی یقین دلا یا جاسکے جیسا کہ خود کا ہوتا ہے ۔
کیسی عجب بات کہ یہ سب مخلوق اک ہی خالق کی خلق کردہ ہے لیکن اس سب مخلوق کے درمیان کی قدرتی دوری نے ان کو اک دوسرے سے خوفزدگی میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ جن انسان سے عاجز رہتے ہیں اور انساں جنوں سے ڈرتے ۔
محترم قارئین میں کوئی عامل نہیں ہوں ۔ میں نے کوئی بھی عمل پورا نہیں کیا ۔ ہمزاد کے چکر میں قریب چھ رات گزاری ہوں گی ۔باقی کبھی اک دن کبھی تین دن اور پھر دل اچاٹ اور رخ کسی اور جانب ۔ آپ مجھے ان بھٹکے ہوئے غیر مستقل مزاج مسافروں کی صف میں رکھ سکتے ہیں ۔ جو کسی سراب کو منزل جان دوچار قدم اس کی جانب چلتا ہے اور پھر کسی دوسرے سراب کو منزل بنااپنا رخ بدل لیتا ہے اور اس طرح کبھی منزل پر پہنچ ہی نہیں پاتا بچپن سے لیکر پختہ ہوتی جوانی تک میں ایسے ہی بھٹکا کبھی نوری کبھی ناری ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کچھ بھی نہ پایا سوا اس سچ کے ۔۔۔۔۔۔
اللہ نور السماوات والارض
دعاؤں کی التجا کے ہمراہ بہت دعائیں

انٹرویو ود نایاب حسین سید --- حصہ 8

0 تبصرے


انٹرویو ود نایاب حسین سید --- حصہ 8

 نور سعدیہ شیخ نے کہا: 



وہ عشق جو مجھ سے روٹھ گیا ۔ لڑکپن کا جوش میں اپنی آوارگی میں مست دو چار ڈھکوسلے سیکھ اپنی ہی فضاؤں میں اڑ رہا تھا ۔
صنف نازک کی کشش سے کیوں کر بچ پاتا ۔ سو اک ہستی پھول کی صورت میرے بھی دل میں کھل گئی ۔ بس دل میں ٹھان لیا کہ اس سے ہی شادی کرنا ہے ۔ میرے اپنے ہی خاندان میں تھی اور میری آوارگی کے چرچےبھی میرے خاندان کے سب افراد تک پہنچ چکے تھے ۔میں اپنی ہی محبت میں محو تھا یہ جانے بنا کہ جس سے محبت کرتا ہوں وہ تو میری آوارگی کے باعث مجھے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی ہے ۔ 15 سال کی عمر سے شروع یہ محبت 32 سال کی عمر میں شادی کی منزل پر پہنچی ۔ شادی کے لیے اپنے خاندان والوں کی ناک میں دم کیئے رکھا ۔ اپنے سیکھے ہر عمل کو کام میں لایا آخر اک دن میری محبت میرے گھر آن پہنچی ۔۔ اور سب خوابوں کے تاج محل ٹوٹ کر کچھ یوں مجھ پر برسے کہ بیان کی تاب ہی نہیں ۔
میں جو کہ خود کو تیس مار خان سمجھ کسی کو دیکھتا بھی نہ تھا اپنی ہی نگاہ میں گر گیا ۔ میرے سب ارادے راکھ ہو گئے ۔ اور یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے اللہ سوہنے کی ذات پاک نے اس آگہی سے نوازا کہ میں اپنی طاقت کوشش سے جسم تو پا سکتا ہوں مگر روح نہیں ۔ اور روح کا پیار نہ ملے تو زندگی عذاب ہے ۔ دنیا سے اپنی آوارگی سے دل اچاٹ ہو گیا ۔ سب کچھ چھوڑ چھاڑ نشے کی دنیا میں سرتاپا غرق کر لیا خود کو ۔۔۔۔ اللہ سوہنے نے کرم فرمایا ۔ بڑا بھائی مجھے سعودیہ لے آیا ۔ یہاں کچھ دن نشے سے دور رہنے پر اپنی گزری زندگی بارے سوچا ۔ کیسے کیسے بزرگ ملے کیسا کیسا سبق دیا انہوں نے مجھے مگر میں سمجھ نہ پایا ۔ کیسے کیسے جھوٹے سچے عملیات کر کر دنیا کو دھوکہ دیتے جھوٹی عزت پاتا رہا ۔ خود سے نفرت ہی محسوس ہوئی ۔ اپنی خود ساختہ محبت پر شرم آئی کیسے میں نے اک معصوم کو زبردستی اپنی شریک حیات بنا کیسا اس پہ ظلم کر دیا ۔ زندگی کے اس موڑ پر اس سبق کو پا کر میں بدل گیا ۔ خود سے عہد کر لیا اب جو رب چاہے اسی پر صابر و شاکر ۔۔۔۔ نہ نشہ نہ کوئی عملیات نہ ملنگی کا ڈھکوسلہ نہ درویشی کا نقاب ۔۔۔۔۔۔۔ سیدھے سبھاؤ زندگی گزارنی ہے ۔ دو سال سعودیہ گزار واپس پاکستان گیا ۔ اسے دو چار بار مل کر منت و سماجت کر کے پوچھا اگر میری نادانیوں کو معاف کر دے تو اس کا احسان مند رہتے سیدھی سادھی زندگی بسر کروں گا ۔ مگر اس نے جو پہلے دن کہا تھا وہ اپنی اسی بات پر قائم رہی سو اسے اس کی مرضی سے آزاد کر واپس سعودیہ آ گیا ۔ میرے لیئے یہی میری ناکام محبت کا سب سے بڑا سبق ہے ۔ آج 24 سال بعد بھی میں اس سبق سے ملے نتیجے پر چل رہا ہوں ۔
پاکستان جاتا ہوں دنیا میرے پیچھے آتی ہے اور میں وہی چار کلمے تھما انہیں اللہ کی حکمت پر یقین کا سبق پڑھا دیتا ہوں۔ نجانے اللہ سوہنے کو میراکونسا عمل پسند آیا کہ اس نے مجھے ایسی شریک حیات سے نواز دیا جو مجھ سے بڑھ کر اس کی حکمت پر راضی رہتی ہے ۔ اور میرے سیاہ ماضی کے بارے سب جانتے بوجھتے بنا کوئی شکوہ شکایت کیئے میری زندگی کو بلاشک جنت بنائے رکھتی ہے ۔
کوئی اک شاعر تو نہیں ۔ سب شعراء کی وہ شاعری پسند ہے جس میں حسن جاناں کی تعریف ہو ۔ پیار کا پیغام ہو۔ محبت کی کسک ہو ۔ اور عشق کا سوز ہو ۔ مجھے شاعری یاد نہیں ہوتی ۔ بس کچھ ایسے شعر ہوتے جو براہ راست دل پر ضرب لگا حافظے میں محفوظ ہوجاتے ہیں ۔ اور دوران گفتگو میرے کام آ جاتے ہیں ۔
شاعری سچ بولتی ہے بھید دلوں کے کھولتی ہے ۔
میری معصوم بٹیا خود کو بہت شاطر سمجھتا رہا ہوں ۔ بس اسی شاطری کو کام میں لایا نہ کبھی اپنے ہاتھ کی لکیروں کو دیکھا نہ کبھی اپنے پیاروں کے ہاتھ پر دھیان دیا ۔ جب بھی کسی نے ہاتھ آگے کیا اس کو مستقبل بارے دو چار خوشی کی خبر دے ٹال دیا ۔ اور اب تو کوئی میرا پیارا مجھے اپنا ہاتھ دکھانے کی خواہش کرے تو میں اس کا ہاتھ پکڑ آنکھ بند کر سبحانک لا علمنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا ورد کرتا ہوں اور جو سوچ آتی ہے اسے لفظوں میں بدل اسے بتا دیتا ہوں ۔ یہ آگہی تو گویا گھٹی میں پڑی ہے کہ غصہ کرتے چڑچڑا ہوتے کچھ فائدہ نہیں ہوتا ۔ انسان جتنا غصہ کرے گا اتنا چڑچڑا ہوگا ۔ اور اک تنگ دائرے میں قید میں جائے جہاں صرف اپنے ہی بال کھینچنے کی سہولت ہو گی ۔۔ یقین کریں یہ سب بالیقین درود شریف کے بابرکت ذکر کے سبب سے ہے ۔ یہ آپ ہی نہیں سب کہتے ہیں کہ مجھے غصہ نہیں آتا ۔ اک راز کی بات جب میں اپنے پیاروں سے بات کرتا ہوں تو میری آواز بلند اور لہجہ ایسا ہوتا ہے جیسے میں لیکچر دے رہا ہوں ۔
بلا تفریق جنس کچھ ایسے رکن مجھے اردو محفل پر ملے ہیں جنہیں میں اللہ کے دوستوں کی صف میں رکھتا ہوں ۔
اس میں بھی کوئی جھوٹ نہیں کہ محفل اردو پر ہر وہ رکن میرا پسندیدہ ہے جس کے تحریر کردہ لفظوں سے انسان دوستی کی خوشبو بکھرتی ہے ۔
خود سے شرم تو بہت آتی ہے اپنی ہی آنکھوں میں نہیں دیکھ پاتا ۔
میں گلیاں دا کوڑا محل چڑھایا سائیاں
نہ کوئی خوبی نہ کوئی خامی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس چرب زبانی
جے دیکھاں اپنے عملاں ولے تے کج نئیں میرے پلے
ایسی ہی صدائیں سنتا ہوں اور اپنے لیئے ہدایت کی دعا کرتا ہوں ۔
اللہ سوہنا ہم سب پر مہربان رہتے ہمیں اپنے کرم سے نوازے آمین
بہت دعائیں
میری محترم بٹیا ہم سب ہی حقیقت پر مبنی وہ سب داستانیں اپنے ساتھ اٹھائے پھر رہے ہیں ۔ زندگی نے جن حقیقتوں کو ہم پر کھولا ہے ۔ ہم سب اپنی زندگی کو لکھیں تو اسے پڑھ کر کوئی دلچسپ افسانہ کہے گا کوئی مزےدار کہانی کوئی مسحورکن داستان ۔ یہ جو نطق کی نعمت ہے نا یہ ہے ہی اپنی کہانی کہنے کے لیئے ۔ خود پر بیتی حقیقت سنانے کے لیئے ۔ بلا شک زندگی نام ہے کسی نہ کسی کہانی کے کردار بنے رہنے کا ۔ زندگی جو خوشی بھی دیتی ہے دکھ بھی ۔
سیاحت کم آوارگی زیادہ کی ہے میں نے ۔ اور کیا سناؤں جو کچھ بیتا مجھ پر ۔۔۔۔۔۔۔
اے ہنجو اسی آپ خریدے ۔۔۔۔
” بولو بولو بولو جئے شاہ”
” جبل میں شاہ”
” نورانی نور ہے ہر بلا دور ہے”
بلوچستان کے ضلع خضدار میں پہاڑیوں سے گھرا اک پانچ سو سالہ مزار ہے ۔ جہاں ہو وقت یہی صدائیں گونجتی ہیں ۔ یہ مزار حضرت بلاول شاہ نورانی کا ہے ۔ جو مجذوب و مست ہوتے ہوئے بھی اللہ کے ولی کہلائے ۔ اک زمانہ ان کا عقیدت مند ہے ۔ بہت سی کہاوتیں بھی منسوب ہیں ان کی ہستی سے ۔ وقت کا عجب کھیل کہ وہ جو اپنے وقت میں اللہ کے ولی کہلائے ۔ دور دور سے جن کے پاس آکر ان کی تعلیمات پر عمل کرتے دکھی انسانیت سکون پاتی رہی ۔ ۔ ان کے بعد آنے والوں نے اس سکون کو نشے سے منسلک کر دیا ۔ شیر کا کیا شکار اکثر گیڈروں کی ملکیت بن جاتا ہے ۔ چرس گانجا اور بھنگ سچ یہی ہے کہ انسان سکون کے لئے استعمال کرتا ہے لیکن بد قسمتی سے اس کا رہا سہا سکون بھی غارت ہو جاتا ہے۔
میں جب اس مزار پر گیا دو ہی سبب ہوتے تھے ۔ اک تو نشہ اور منشیات فروشوں سے تعلقات ۔۔۔ اور دوسرے فجر سے کچھ پہلے کچھ مخصوص ذکر کرتے صاحب مزار سے فیض پانے کی کوشش کرنا ۔ اب نشہ میری پہلی ترجیع ہوتی تھی ۔ سو فیض کہاں سے ملتا ؟
اک بات ضرور ہے اس مزار پر بیٹھے اک سوچ بار بار ذہن میں آتی تھی ۔ کہ اگر انسان پیغمبروں کی بتائی راہ پر اوکھے سوکھے چلتا رہے تو منزل پر پہنچ سکون ملتا ہے ۔ اگر شیطان کی سجھائی راہ چلے تو منزل پر پہنچ بے سکونی ہی ملتی ہے ۔ یہ اک مجذوب ہستی اپنے جنوں میں مجنون ہوتے بھی آخر کیسے اتنی عقیدت کا مرکز بنی ۔ ؟
میرے ذاتی احساس سے صاحب مزار واقعی اک انسان دوست سچے انسان تھے۔
گلاب کہاں کھلنا ہے کس موسم میں کھلنا ہے ۔ کیسا ماحول درکار ہے اسے ۔ اس کی خوشبو نے کس کس کی روح کو مہکانا ہے۔ کس کی قبر کو اس سے سجانا ہے ۔ یہ سب صرف رب سچا ہی جانے ۔ گلاب گلاب ہوتا اپنی خوشبو فضاؤں میں بکھیر فنا کی راہ لیتا ہے ۔ باقی رہ جاتی ہے خوشبو ۔ سو اس مزار پر بھی مہکتی ہے انسان دوستی کی خوشبو ۔
۔ لاہوت و لامکاں کے مقام پر رات جب پہاڑوں پر پھیل جاتی ہے تویہاں جن اور انسان دونوں ہی وہم و گمان کے اندھیروں میں بھٹکتے ہیں ۔کہنے والے کہتے ہیں کہ انسان اُور جنات سبھی کو اک ہی خالق نے بنایا ہے۔ جیسے انسان اللہ تعالی کی مخلوق ہیں ویسے ہی جِنات بھی تُو اُسی پروردیگار کے بنائے ہُوئے ہیں۔ اِن دونوں کے درمیاں دُوری کی خلیج نے اِن دونوں کو ایک دوسرے سے خُوفزدہ کردیا ہے۔ انسان جنات سے ڈرتے ہیں۔ اُور جنات انسانوں سے عاجِز رِہتے ہیں۔
کوشش کی کہ کچھ جنات سے گفتگو کا شرف حاصل ہو مگر نہ تھی ہماری قسمت ۔۔ کہ ہم تو مست تھے ۔۔۔۔۔۔۔ پیو چرساں بھنگاں تے سووو باگی ۔ پچھلے جیون اپنے بھاگی ۔۔۔ ہم ایسے خود غرضوں کو کون گھاس ڈالتا بھلا ۔۔۔۔؟
محترم پیر بابا " سید علی ترمذی جن کا مزار بونیر ضلع سوات میں ہے ۔ آپ اک عالم با عمل ہستی گزرے ہیں ۔ آپ کے مزار پر حاضری دو اک عجب سکون ملتا ہے ۔ یہاں بھی نشے کی دنیا ہے مگر زیادہ آزادی سے نہیں ۔ آپ کی صدا بہت مشہور ہے کہ
”میرے دوست اور مرید وہ ہیں جو مجھ سے روحانی فائدہ حاصل کرتے اور میرے احوال پر نظر رکھتے ہیں“۔
یہ میرا اپنا یقین ہے کہ میں نے ان دونوں مزاروں پر ہی نہیں بلکہ جس بھی مزار پر حاضری ۔ وہاں کے صاحب مزار نے مجھے اپنی کہانی خود ہی سنائی ۔ اب میں کیسے کسی اور کو سناؤں جب کہ یہ صرف میری سوچ و وجدان کے درمیان کی بات ہے ۔ اک بات جس پر پوری شدت سے یقین ہے کہ " جنہاں کیتیاں نیک کمائیاں دیوے اونہاں دے سدا ای بلدے "
میں ابھی اس سوچ میں تھا کہ
اگر مجھے یہ شرف حاصل ہوتا کہ میں جناب شمس تبریزی کی محفل پاتا تو کیا خواہش کرتا ۔ ہزار سوچنے پر بھی جب کوئی خواہش یاد نہ آئی ۔
تواسی سوچ میں مصروف اچانک ہی جیسے کچھ لفظ مجھ پر اترنے لگے ۔ صدا دینے لگے ۔۔
""جو علم تجھے تجھ سے نا لے لے اس علم سے جہل بہتر ہے ""


سچ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ سوہنا مجھے سدا ہی اپنی توفیق سے نوازے ۔آمین
اپنے علامہ اقبال صاحب فرما گئے اور کیا ہی خوب سچ کہہ گئے ۔۔
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی نا خوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہ نہ سکا قندد
بس جب سے یہ شعر سنا ہے اب پروا نہیں ہوتی کہ میرا سچ میری راہ کو کتنا مشکل کرے گا ۔۔۔
اب تو بس یہی خواہش ہے کہ زندگی کی رات اپنے ملک میں گزارنے کو ملے ۔ سیر سے دل بھر چکا اب ۔
محترم نور سعدیہ بٹیا آپ کا اور سب پڑھنے والوں کا دلی دعاؤں بھرا شکریہ ۔
بہت دعائیں