ہفتہ، 24 اکتوبر، 2020

انٹرویو ‏ود ‏سید ‏نایاب ‏حسین ‏نقوی----- ‏حصہ ‏پنجم ‏

0 تبصرے
نور سعدیہ شیخ نے کہا: ↑
5) زندگی تو تعمیر و تخریب کا نام ہے ، آپ کی زندگی کے کون کون سے ایسے ہی واقعات ہیں جن سے گزرتے آپ آج خود کو نایاب حسین کہتے ہیں


گذشتہ سے پیوستہ
اقابلا اور انکا کی داستانیں پڑھتے اس خواہش نے بے قرار کر دیا کہ میرے پاس بھی ایسی کوئی طاقت ہو ۔ اب چلوں وظیفوں کا لالچ اپنا اسیر کر رہا تھا ۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ چرب زبان بہت ہوں اور کچھ ہی دیر میں کسی کو بھی شیشے میں اتار اپنا مقصود حاصل کرنے میں ہمیشہ کامیاب ہی رہتا ہوں ۔
والد کی جیب والدہ کا پرس دادی کے تکیئے بہنوں کی گلگ میری دسترس سے کبھی دور نہ تھے جب موقع ملا پیسے اڑا لیئے ۔ اور دنیا کو کھلاتے پلاتے اپنی دوستی بناتے اپنا مقصود حاصل کر لیتا ۔ ویسے بھی فطرتی طور پر انسان دوست ہوں اور انسان کی خدمت کرتے کبھی جھجھک نہیں ہوتی چاہے کسی کو وقت پر جوتے ہی کیوں نہ صاف کر کے دے دوں ۔ اور یہ خدمت مجھے بہت جلد انسان کی نگاہ میں لے آتی ہے ۔ اور مجھے توجہ ملتی ہے ۔
پچھلے انٹرویو میں بتا چکا ہوں کہ ہماری گلی میں اک کالے جادو کے عامل رہتے تھے ۔ جن سے میرے اچھے تعلقات تھے ۔ اب میری مصروفیت یہی تھی کہ کہیں کسی بارے خبر ملے کہ وہ کسی شکل میں ہرے پیلے نیلے کالے جادو ٹونے تعویذ دھاگے کرتا ہے یا ان کی کاٹ پیٹ کرتا ہے ۔ تواپنی پوری چالاکی و عیاری کو سہارا بناتے اس سے ربط بنا لینا ۔
مجھ سے بڑی بہن نے مجھے بہت بچپن سے آیت الکرسی اور درود شریف یاد کروا دیا تھا ۔ کہ اگر کہیں کبھی کوئی ڈر لگے تو یہ پڑھ لیا کرنا ۔ ڈر بھاگ جائے گا ۔ بچپن سے گزر اب لڑکپن میں تھا بے وقوفی نادانی میں مبتلا ہوتے بزعم خود بہت چالاکی کے ساتھ دنیا کو دھوکہ دیتے اپنی خواہش پوری کرنے کی سوچ کا اسیر تھا ۔ بظاہر احمق سادہ معصوم اور باطن میں اس سے برعکس ۔ اپنی زندگی کے اس مرحلے پر میں اب دو دنیاؤں کا مسافر تھا ۔
اک وہ دنیا جہاں صرف یقین پر مبنی اللہ کی ذات پاک اور اس کا کلام جو کہ ہدایت و آسانی کا سبب ۔
اور اک دوسری دنیا جہاں یقین کچھ مخصوص الفاظ کی مخصوص طریقے سے پڑھائی اور کچھ ایسے اعمال پرقائم ہوتا ہے جو کہ بظاہر عجیب اور کچھ حد تک کریہہ بھی ہوتے ہیں ۔ اور جسم خاکی کو مشقتوں میں مبتلا رکھا جاتا ہے ۔ جو کہ ترک دنیا سے مماثل ہوتا ہے ۔ چلے ہوتے ہیں۔ وظائف کا انبار اٹھانا پڑتا ہے ۔ پستی کی آخری حد تک گرنا ہوتا ہے ۔
میں سمجھتا ہوں یہ میرے اللہ کا فضل ہی تھا جو میں بیک وقت دونوں دنیاؤں کا مسافر بننے کی خواہش میں مبتلا ہوتے دونوں کو ساتھ چلانا چاہتا تھا ۔ اگر کہیں صرف چلوں والی دنیا کا لالچ رکھتے اس راہ چلتا تو شیطان کا سیکریٹری بن جہنم کی آگ کا حقدار ٹھہرتا ۔۔
چلے بھی کرتا تھا حاضریاں بھی بلاتا تھا ۔ اور آیت الکرسی اور درود شریف بھی دل میں چلتا رہتا تھا ۔ چاند کی آخری راتوں میں کبھی پیپل و برگد کے نیچے بیٹھ ویران پرانے قبرستان میں کسی قبر کے سرہانے کبھی پائینتی بیٹھ کسی سے ملے کچھ الفاظ و جملے جو کہ کسی حد تک شرکیہ بھی ہوتے پڑھتے رہنا ۔ زبان پر ان کا ذکر اور دل میں آیت الکرسی کا ورد ۔ اس دوران بہت سے ایسے مناظر اپنے ارد گرد واقع ہوتے دیکھتا تھا جو کہ کبھی ڈراتے کبھی حیرانگی میں مبتلا کرتے تھے ۔ (یہ تو بہت بعد میں راز کھلا کہ میری سوچ ہی میرے خیال کو بنتے میرے تصور پر مجسم ہو جاتی تھی ۔اور میں وہم کو اصل جان حیرانگی میں مبتلا ہو جاتا تھا )
پچھل پیریاں دیکھیں شتونگڑوں سے ملاقات رہی چھلاوے نے بہ بھگا بھگا تھکا کر اپنی صحبت سے نوازا ۔ روحوں بد روحوں سے ملاقات ہوئی ۔ ان سب سے گزر خود کو عامل کامل جان لیا مان لیا ۔ مجھ بے وقوف کو اس حقیقت کا کہاں علم تھا کہ آیت الکرسی اور درود شریف کا ذکر مسلسل مجھے پناہ میں لیئے ہوئے ہے ۔اور اس ذکر پاک کی یہ رحمت ہے کہ جنات بھی ملاقات کو آ جاتے ہیں ۔
(اس عمر میں پہنچ یہ کہنے میں کوئی ڈر جھجھک نہیں کہ گمراہی میں ڈوب گیا تھا ۔ اپنے یقین کو چھوڑ واہموں میں الجھ گیا تھا ۔ کیسے یہ حقیقت کھلی ۔ اس کہانی کے کسی موڑ پر یہ بات بھی کھلے گی ۔ )
انٹرویو کے بہانے اس کہانی کے لکھنے کا مطلوب بس یہی ہے کہ شاید مجھ ایسا اگر کوئی واہموں کے پیچھے بھاگ چلوں وظیفوں میں الجھا نادانستگی میں شرکیہ اعمال میں مبتلا ہوتے کچھ کامیابی پاتے گمراہی کی راہ پر ہے۔ تو وہ پلٹ آئے )
کہانی جاری ہے ابھی ۔ وقت کا مہربان رہنا شرط
بہت دعائیں

0 تبصرے: