ہفتہ، 24 اکتوبر، 2020

انٹرویو ‏ود ‏سید ‏نایاب ‏حسین ‏نقوی ‏----- ‏حصہ ‏چہارم

0 تبصرے
نور سعدیہ شیخ نے کہا: ↑
5) زندگی تو تعمیر و تخریب کا نام ہے ، آپ کی زندگی کے کون کون سے ایسے ہی واقعات ہیں جن سے گزرتے آپ آج خود کو نایاب حسین کہتے ہیں
محترم بٹیا آپ کا یہ سوال مجھے ماضی میں پہنچاتے میری گزری فلم مجھے دکھا رہا ہے ۔ جو یاد آ رہا ہے لکھ رہا ہوں ۔
اللہ سوہنے کی قدرت بڑے بھائی کے بعد یک بعد دیگرے تین بہنیں اس دنیا میں تشریف لائیں ۔ جب میری آمد ہوئی تو میری دادی مرحومہ نے مجھے دیکھتے ہی کہا کہ یہ تو نایاب ہے ۔ یہ ایسا نام تھا جو اسم با مسمی ہوتے اپنوں کے لیئے نایاب رہا ۔ نہ کسی کی شادی نہ کسی کی وفات ۔ سب خاندان والے موجود ہوتے اور نایاب نایاب ہی ہوتا ۔
میں خود کو نایاب نہیں کہتا میری بٹیا یہ تو زمانہ کہتا ہے ۔
اب گزری کچھ یوں کہ 1969 میں والد مرحوم دولتالہ گاؤں سے تبدیل ہو کر لاہور لیڈی ایچی سن ہسپتال آگئے ۔ شاہدرہ اسٹیشن میں اک مکان کرائے پر لیا اور زندگی اپنی ڈگر چلنے لگی ۔ مجھے ایم سی مڈل سکول شاہدرہ میں کلاس دوئم میں داخلہ مل گیا ۔ جو کورس کی کتابیں تھیں وہ تو چار دن میں پڑھ لیں ۔ سب یاد ہو گئیں ۔ استاد کے کچھ بھی پوچھنے پر فٹ سے جواب دینا اور خود کو بڑا ذہین ماننا ۔ لیکن روز وقت پر سکول جانا اور وقت پر چھٹی کر گھر آنا ۔ یہ زندگی کا چلن مجھے بھاتا نہیں تھا ۔ اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ اک دن میرے اک کلاس فیلو نے کہا کہ چلو سیر کرنے چلیں ۔ بستے اٹھائے اور سکول کے پیچھے واقع ریلوے سٹیشن پہنچ گئے ۔ ناروال سے آنے والی ٹرین پر بیٹھے اور لاہور پہنچ گئے ۔ وہاں گھوم پھر اسی ٹرین پر بیٹھ واپس شاہدرہ آ گئے ۔ بس یہ سفر اک ایسے سفر کی شروعات تھی جو اب تک ختم نہ ہوا ۔ اب تو یہ سلسلہ بن گیا گھر سے سکول کے لیئے نکلنا بستے کہیں کسی کھیت میں چھپانے اور سارا دن آوارہ گردی کرنی ۔ یہ نہیں تھا کہ گھر والوں کو پرواہ نہیں تھی ۔ وہ اپنی اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہو کر جب بھی میری پڑھائی بارے پوچھتے سب فر فر سنا دیتا ۔
دادی مرحوم بتاتی تھیں کہ گھر میں یسرناالقران پڑھ کر جب قران پاک شروع کیا تھا تو روزنامہ امروز کی خبریں پڑھ کر انہیں سناتا تھا ۔ گھر میں والد والدہ سمیت سب ہی مطالعہ کے شوقین تھے ۔ بہشتی زیور ۔ طلسم ہوش ربا ۔ پھول ۔ تہذیب نسواں کی تحاریر پر اکثر جب سب گھر والے کھانے کے لیئے بیٹھتے تو گفتگو ہوا کرتی تھی ۔ بس سمجھ لیں کہ مطالعہ اور بحث گھٹی میں شامل ہے والدین نے کھلانے پلانے میں کبھی کمی کی ہو تو ہو ۔ مگر کتابیں گھر لا ہمیں پڑھانے میں کبھی کنجوسی نہ کی ۔
والد صاحب سید سبط محمد اور والدہ صاحبہ سلطانہ سید کا تعلق امروہہ ضلع مراد آباد کے اک فقیر منش صوفی خاندان سے تھا جس کا نسبی تعلق سید حسین شر ف الد ین شا ولا یت سے تھا ۔ ہندوستان میں سادات امروہہ میں پہلے شخص جو سرزمین امروہہ میں وارد ہو ئے وہ سید شاہ نصیر الد ین تھے جو عابد ی خاندان کے مو رث ہو ئے۔ ان کی حیات ہی میں چو دھویں صدی عیسوی اور ساتویں صدی ہجر ی کے آغا ز میں سید حسین شر ف الد ین شاہ ولا یت وارد ا امروہہ ہو ئے۔
والد صاحب تقسیم برصغیر کے وقت سروے آف انڈیا میں ملازم تھے ۔ پاکستان بننے کے بعد سروے آف پاکستان کے ملازم ہوئے ۔ وہاں سے محکمہ صحت بھیج دئے گئے ۔ والد صاحب کو زندگی نے کچھ اس طور برتا تھا کہ آپ مذہب و رنگ و نسل کی تفریق سے بالاتر رہتے صرف انسان دوستی پر عمل پیرا ہونے پر مجبور ہوگئے ۔ اس انسان دوستی کے باعث ان کی کبھی بھی اپنے افسروں سے نہ بنی ۔ اور نہ ہی ترقی ہوئی ۔ آپ اپنی قناعت و توکل میں مگن ڈیوٹی کے بعد انگلش کی ٹیوشن پڑھاتے اپنا اور بیوی بچوں کا رزق تلاشنے میں مصروف رہے ۔ ۔ اس ٹیوشن کے سلسلے میں والد محترم کی ملاقات میرے نانا جی سید عبد الحفیظ مرحوم سے ہوئی جو کہ باٹا شو کمپنی میں بوائلر انجیئر تھے ۔ نانا جی کو والد صاحب کی شخصیت اتنی بھائی کہ اپنی پڑھی لکھی بیٹی کو خوشی خوشی اک فقیر منش کی زوجیت میں دے دیا ۔ حق مغفرت فرمائے والدہ صاحبہ بھی اپنی سب امارت بھول دال روٹی قناعت کرتے اپنے صاحب کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزارتی رہیں وقت کے ساتھ ساتھ کنبہ بڑھتے بڑھتے 11 افراد پر مشتمل ہوگیا ۔ اک فرد کمانے والا اور گیارہ فرد کھانے والے ۔ سو والدہ صاحبہ نے بھی ورکنگ وومن بننے کا رادہ کرتے 1970 میں ملازمت کر لی ۔ میری عمر اس وقت سات سال تھی ۔ ماں باپ دونوں ہم بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر ملازمت کرنے لگے ۔ صبح جانا رات کو آنا ۔ چھٹی کے سب بچوں کا پاس بٹھا ان سے ان کی تعلیم بارے گفتگو کرنی ۔ سب بہن بھائی تو ماشاء اللہ سیدھے سبھاؤ سکول جاتے اپنی پڑھائی میں مصروف رہتے اور میں بھگوڑا جو اک بار ہی اپنے کورس کی کتب کو بھی ناول کی صورت پڑھ لیتا اور والدین کے کچھ پوچھنے پر ان کے پوچھے سبق سے بھی آگے کی سنا دیتا ۔ وہ مطمئن ہو جاتے ۔۔ والد صاحب چونکہ لیڈی ایچیسن ہسپتال میں تھے ۔اور شاہدرہ ہی کیا کہیں کا بھی کوئی رہائیشی جب اپنی بیگم کے ہمراہ زچگی کے سلسلے میں ہسپتال کا چکر لگتا تو گویا وہ والد صاحب کا مرید ہی ہوجاتا ۔ میرے سکول کے اساتذہ بھی ان میں شامل تھے ۔ اور میں نے اس عقیدت کا غلط فائدہ اٹھایا ۔ مسلسل سکول نہ جانے پر سکول سے نام کٹنا جولازم امر تھا ۔ اس سے بچتا رہا ۔ اپنی کلاس کے استاد کے گھر جا کر ان کی بیگم کو سودا سلف لا دیا کرنا ۔ اور امتحانوں سے پہلے باجی کی منت کرتے استاد محترم سے معافی پاتے امتحان دے آتا اور پاس ہو جاتا ۔ دوئم سوئم چہارم پنجم میں پہنچ وقت نے اک ایسا موقع دیا جو کہ مجھے سنوارنے کی بجائے مزید آوارگی میں دھکیل گیا ۔ پنجم میں وظیفے کے لیئے امتحان لیا جاتا تھا ۔ اور مختلف سکولوں سے ذہین بچے منتخب کیئے جاتے تھے ۔ اک دن حسب معمول سکول سے فرار ہوتے بازار کے گشت پر تھا ۔ اچانک پیچھے سے کسی نے کان پکڑ لیا اور کہا چل سکول ۔ آواز نے بتا دیا کہ استاد محترم ہیں ۔ ڈرتے دعائیں مانگتے سکول پہنچا ان کے ساتھ ۔ انہوں کہا کہ یہ سوال حل کر دو ۔ اللہ کی قدرت یا اس کی حکمت مجھ سے وہ سوال بہت جلد حل ہو گئے ۔ اور مجھے وظیفے کے امتحان کے لیئے منتخب کر لیا گیا ۔۔۔۔ وقت کا یہ کھیل " مرے کو مارے شاہ مدار " کی مثال ہو گیا ۔ وظیفہ پاتے ہی میں تو خود کو ایسا عالم سمجھنے لگا جسے کسی بھی استاد کی کوئی حاجت نہ ہو ۔۔
کلاس دوئم سے جب سکول سے بھاگنے کی شروعات ہوئیں تو ساتھ ہی " یقین " کی بھی شروعات ہو گئی ۔ وہ ایسے کہ ہم سکول سے بھاگنے والوں میں شامل اک بڑی کلاس کے بچے نے ہمیں بتایا کہ دو پتھر یہ اک اینٹ کے دو ٹکڑے اک ترتیب کے ساتھ اوپر نیچے رکھ کو جو خواہش کرو وہ پوری ہوتی ۔ کسی معاملے کو ٹالنا ہو جب بھی کارگر ہوتی ہے ۔ میں نے اسے اپنا لیا گھر سے نکلتے کسی کھیت درخت کے نیچے دو پتھر اوپر تلی رکھنا اور کہنا کہ میں سکول سے بھاگنے پر پکڑا نہ جاؤں ۔ مجھے کوئی اغوا نہ کرلے ۔ میں آج رستہ نہ بھول جاؤں ایسی ہی بچگانہ خواہشیں کرنا معمول بن گیا ۔ اگر کبھی کچھ ایسا ہوتا جس کے نہ ہونے کی دعا کی ہوتی تھی تو جب جاکر ان پتھروں کو دیکھنا تو وہ گرے ہوئے ملتے ۔ بس یقین مضبوط ہو جاتا ۔ والدین ہمارے لیئے رزق کی تلاش میں محو تھے اور ہم سب بہن بھائی ہر سال امتحان میں نہ صرف پاس ہو جاتے بلکہ والدین کو اساتذہ سے ہماری تعریف سن کر تسلی اور خوشی مل جاتی ۔ اب پرائمری پاس کر مڈل میں آ گیا تھا ۔ اور " انکا " اقابلا " ہمزاد " جیسے سلسلوں سے دوستی ہو چکی تھی ۔ خواہش اپنا قبضہ جما رہی تھی کہ میں جو کہ خود میں بہت ذہین ہوں میں بھی کچھ ایسے وظیفے عمل کروں کہ میرے پاس بھی ماورائی طاقتیں آ جائیں ۔ اور یہ جو میرے محلے کی ماں بہنیں مجھے " سید سردار ۔ سید باشاہ ۔ پیر و مرشد کی سیڑھی چڑھا موقع با موقع گھر بلا دودھ پلا حلوہ کھلا مجھ سے اپنے لیئے آسانی کی دعا کرواتی ہیں ۔ ان کے مسلوں کو حل کروں ۔
اپنے سب بہن بھائیوں میں میں بہت نحیف جسم کا حامل ہوں بہت دبلا پتلا وجود رہا ہے میرا اور کچھ نشے کی علت نے جسم کو بننے ہی نہ دیا ۔ جتنی کلائی دس سال کی عمر میں تھی ویسی ہی اب بھی ہے ۔جسمانی طور طاقتور نہ ہونے کا حل اپنی چرب زبانی میں پایا ۔ اور بادشاہ گر بن جن سے ڈر ہوتا ہوتا تھا انہیں دوسروں کے سر بٹھانے لگا ۔ اور خود ان کا چمچہ خاص ہوتے خود کو محفوظ رکھتے اپنی بادشاہی کرتا رہا ۔
کس قدر عجیب ہوتا ہے اپنی کہانی یاد کرنا ۔ وقت بیتے پل جیسے مجسم کر دیتا ہے ۔
نایاب کے نایاب ہونے کی کہانی جاری ہے
بہت دعائیں

0 تبصرے: