جمعرات، 29 اکتوبر، 2020

انٹرویو ود سید نایاب حسین شاہ نقوی 10

0 تبصرے

 انٹرویو ود سید نایاب حسین شاہ نقوی 10

حمد عدنان اکبری نقیبی نے کہا: 


میرے محترم بھائی
میں کون ہوں کیا ہوں ؟ مجھے کس نے اس جہان رنگ و بو میں بھیجا ہے ؟ میں کہاں سے آیا ہوں ؟ مجھے یہاں سے آگے کہاں جانا ہے ؟ میرے یہاں آنے اور وہاں جانے کے درمیان سفر کا مقصد کیا ہے ؟
میرے ناقص علم کے مطابق یہی پانچ سوال اور ان کے جوابات کی تلاش میں قدرت کی جانب سے سامنے آنے والے مظاہر سے مدد لیتے ان کا جوابات کا پانا اور یقین حاصل کرنا ہے کہ ہم نے درست جواب پا لیئے ۔ جو علم ہم نے پایا ہے اسے اپنا عمل بناتے اپنے سفر کو آسان و کامیاب کرنا ہے ۔ یہی علم ہے روحانیت کا ۔ اور یہ براہ راست روح کی کھوج سے ربط رکھتا ہے ۔ تکمیل ایمان جب ہی ہوگی جب ہماری سوچ و فکر عقل اس یقین کو پا لے گی کہ جو ہم نے جانا ہے وہی سچ ہے ۔ اور ہمیں اس سچ پر ہی چلتے فلاح پانی ہے ۔
میرا علمی مشاہدہ ؟ میرے پاس علم ہی کہاں میرے بھائی ۔ میں نے تو بس یہ جانا ہے کہ راہ چلتے رستے میں پڑا کوئی پتھر اٹھا رستے کی اک جانب رکھ دینا اپنے لیئے ہی آسانی پیدا کرنا ہے مستقبل میں کسی بھی حادثے سے بچنا ہے ۔
بحیثیت مسلمان ہمارے پاس اک سچی کتاب موجود ہے جو ہمیں بنا کسی زیادہ مشقت کے ان تمام سوالات کے کافی و شافی جواب فراہم کرتی ہے ۔ اگر ہم قران پاک کے ساتھ ساتھ اسوہ حسنہ بارے اپنا مطالعہ بڑھا لیں اور پانے والے علم کو اپنے عمل میں بدل لیں تو تکمیل ایمان کا درجہ مل جاتا ہے ۔
روحانیت کا علم اس کے سوا اور ہے کیا کہ انساں اور انسانیت سے پیار کیا جائے نفرتوں کو مٹایا جائے سچے خالق کی مخلوق کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں ۔
ایمان کی تکمیل اس کے سوا کیا ہے کہ " اپنے کیئے کی سزا و جزا پانے کا مکمل یقین حاصل کیا جائے "


یہاں یہ نعرہ لگانا کیسا رہے گا ۔۔۔؟
پدرم سلطان بود
نسب ہی کچھ ایسا ہے کہ کسی بھی روحانی سلسلے کے کسی بھی بزرگ نے مجھے اپنی بیعت میں لینے سے معذوری ظاہر کی اور مجھ ٹھگ کو عزت و احترام سے نوازا ۔ ویسے میں اپنے گمان پر مبنی یقین کے بل پر خود کو اویسیت میں پاتا ہوں ۔
پی شراب کھا کباب تے بال ہڈاں دی اگ
بھن سٹھ گھر رب دا اوس ٹھگاں دے ٹھگ نوں ٹھگ
محترم جناب بابا بلھے شاہ سرکار سے غیر اختیاری لگاؤ ہے ۔ جب پنجابی زبان سے اتنا واقف بھی نہیں تھا اس وقت بھی آپ کے کلام میں انجانی کشش محسوس کرتا تھا ۔
ملامتی اور غیر ملامتی ہر دو روحانی بزرگوں میں سے ان سے زیادہ لگاؤ ہے جو انسان اور انسانیت کو مقدم رکھتے ہیں ۔

میرے ناقص علم کے مطابق ۔۔۔۔۔۔
میرے بھائی آپ یہاں اس حقیقت کو شاید بھول گئے جو کہ آپ کی اس تکون کی بنیاد ہے ۔ وہ ہے " وہم " جو کہ سوال پیدا کرتا ہے ۔ کب کیوں کیسےبارے یاد دلاتا ہے ۔ مجبور کرتا ہے کھوج پر ۔۔ پھر سوچ حرکت کرتی ہے شعور لاشعور کو چھاننے لگتا ہے ۔ لا شعور تحت الشعور سے ربط قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو تحت الشعور اور لاشعور کے اس رابطے سے ملنے والی بے ترتیب معلومات غوروفکر کی بھٹی سے گزر اک ترتیب سے نتائج کی صورت وجدان پر اترتی ہیں ۔ شعور تک پہنچ نطق میں ڈھلتی ہیں
میرے ناقص علم میں یہ سب متضاد نہیں بلکہ یہ تمام آپس میں اک دوسرے کی لازم مددگار ہیں ۔ اگر اک بھی اپنا کام درست نہ کرے تو نتائج ہمیشہ مجہول ہوں گے ۔


میرے ناقص علم کے مطابق ۔۔۔۔۔
تصوف نام ہے اپنی حقیقت کو جان لینے کا ۔ اپنے ہونے کے مقصد کو پا لینے کا ۔ جب کوئی حقیقت جان لیتاہے ۔ اپنے ہونے کے مقصد کو پا لیتا ہے تو قدرت اس پر وہ تمام راز کھول دیتی ہے جو کہ انسان اور انسانیت کی بقا کے لیئے لازم ہیں ۔ تصوف خانقاہوں میں قیل و قال کی محفلیں سجانے کا ہی علم نہیں ہے ۔ یہ علم ہے انسانیت کی خدمت کا ۔ زندگی کی جنگ میں مصروف انسان کے لیئے آسانی پیدا کرنے کا ۔ خدا کے بندوں سے پیار کرنے کا ۔ جسے خدا کے بندوں سے ہی پیار نہ ہو وہ خدا سے پیار کرنے کی آگہی کیسے پا سکتا ہے ۔؟

میرا ناقص علم تو یہی یقین کرتا ہے کہ انسانی سوچ لا محدود کی صفت رکھتی ہے ۔ سوچ چونکہ روح سے براہ راست ربط رکھتی ہے ۔ سو نفخ کی نسبت سے اسے لا محدود ہونا ہی چاہیئے ۔

تمام اچھے نام اسی کے ہیں ۔ جس سے چاہو اس کا ذکر کرو اس کا شکر ادا کرو وہ اپنی نعمت بڑھاتے تمھیں اپنے دوستوں میں شامل کر لے گا ۔ اور اس کا شکر ادا کرنے کی بہترین صورت اس کی مخلوق سے پیار کرنا ہے ۔ اس کے حبیب کے اسوہ حسنہ کو اپنا نا ہے ۔ دکھ درد اذیت برداشت کرتے دوسروں کے لیئے آسانیوں کا سبب بننا ہے ۔
باقی قران پاک کی تمام آیات سراسر ہدایت اور قرب حق کا وسیلہ ہیں ۔
روح کا ذکر قلبی ہے دل سے ہے ۔ اور جسم کا ذکر عملی ہے ۔ عمل سے ہے

ایسا انسان جس کی موجودگی میں دوسرے انسان سکون محسوس کریں ۔ جس کا وجود ہمیشہ دوسروں کے لیئے آسانی کا سبب ہو ۔ جس کے وجود سے ہمیشہ دوسرے انسانوں اور انسانیت کے لیئے بھلائی کا صدور ہو ۔ گویا جس کا وجود کلمہ طیبہ کی چلتی پھرتی تفسیر ہو ۔ بقول شاعر " قاری خود نظر آئے قران "

اللہ سوہنا مغفرت فرمائے میرے والد محترم کی
میں ان سے بہت مانوس تھا ۔ اپنے سب اشکال بلا جھجھک ان سے کہہ دیتا تھا ۔وہ میرے اک بہت اچھے دوست رہے ہیں ۔

جہاں تک میرا ناقص مطالعہ ہے نماز پڑھنا الگ حالت ہے اور نماز قائم کرنا الگ ۔ سورت الماعون واضح کر دیتی ہے کہ نماز پڑھنا کیا ہے اور قائم کرنا کیا ۔
نادان گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا ۔۔۔۔ والی نماز لپیٹ کر منہ پر مار دینے کی وعید ہے
اللہ سوہنا ہم سب کو نماز پڑھنے اور قائم کرنے کی توفیق سے نوازے آمین
بلاشک شاعری سچ بولتی ہے بھید اندر کا کھولتی ہے ۔ احساس کو لفظوں میں پروتی ہے ۔ جذبات کو موتی سا دمکا دیتی ہے ۔
میرے محترم نقیبی بھائی علم و عمل ناقص ہے میرا کچھ غلط برا لگے تو رہنمائی کی التجا ہے ۔
بہت دعائیں
میری محترم جاسمن بٹیا
پنجابی کی اک مثال ہے کہ " جیہڑا کپو اوہی لال "
نطق کے حامل انس و انا کے جذبات میں گندھے ہم سب خود میں ایسی ایسی حقیقتوں کو چھپائے ہوئے ہیں کہ جب بھی کوئی بیان کرنے کی ہمت کرے تو فسانہ بھی اپنا فسوں بھلا دے ۔ کہتے ہیں نا کہ حقیقت افسانے سے زیادہ دل چسپ ہوتی ہے ۔
محترم نور سعدیہ بٹیا سے بہت گفتگو رہی ہے اور یہ میری معصوم سادہ دل صاف روح کی حامل بٹیا ( اللہ اس کی سب راہوں کو آسان فرمائے آمین ) میری داستان سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہوئی ہے ۔ اور مجھے یقین بھرا یہ ڈر ہے کہ میرے سفر کر جانے کے بعد اس نے مجھ پر اک کتاب لکھ ڈالنی ہے ۔ وہ سب کچھ بھی لکھ دے گی جو میں خود بھی لکھتے گھبراتا ہوں ۔۔۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ سوہنا میری محترم بٹیا کے گمان کو میرے بارے سچ فرمائے آمین

بہت دعائیں

حاضری ؟ یہ لفظ دو طرح کا مفہوم رکھتا ہے ۔ اک کسی انسان کو ستانے والے جنات یا بھوت پریت یا کالے پیلے نیلے جادو ئی موکلات کو حاضر کرتے ان سے گفت و شنید کرتے انہیں مقبوضہ مقام چھوڑنے پر مجبور کرنا ۔
دوسرے کسی انسان پر اچانک ایسی کیفیت طاری ہوجانا کے وہ ماضی یا مستقبل کے حالات و واقعات غیر ارادی طور پر بیان کرنے لگے ۔ اور اس سے اس کیفیت میں جو پوچھا جائے وہ اس کے بارے درست بات بتائے ۔ اور کیفیت سے باہر آنے کے بعد اسے اس بارے کچھ یاد نہ رہے ۔
مجھے تو جتنی بھی حاضریوں کا تجربہ مشاہدہ ہوا ان میں صنف نازک پر قابض جنات کے نام اکثر اک سے ہی پائے ۔ جیسے " نارسائی کا دکھ " ادھورے پن کا احساس " توجہ سے محرومی " کسی اپنے کی جانب سے جنسی ہراس کا سامنا " خواہشات کا کچلا جانا " معصومیت میں مبتلا چاند پانے کی ضد " نا آسودگی کی اذیت " بے انتہا حسین ہونے کا غرور" شریک حیات سے توجہ الفت کے اظہار کی محرومی " یہاں وہاں سے سنے بے ترتیب وظائف کا ذکر " جمال کی متلاشی جلال کی ذاکر " جلال کی متلاشی جمال کی ذاکر "
اور ان تمام جنات کو اکثر عامل اپنے " لمس اور توجہ " سے بھگا دیتا ہے ۔ لمس اور توجہ بارے تفصیل اک پبلک مقام پر بیان کرنا غیر مناسب امر ہوگا ۔ بس اتنا کافی کہ معصوم کی معصومیت کو اپنے لمس و توجہ سے دھوکہ دیتے اسے نارسائی کے دکھ سے باہر نکالا جاتا ہے ۔ کچھ عامل حضرات اس علاج کی آڑ میں تعویذ دھاگہ جھاڑ پھونک کا ڈرامہ رچاتے اپنے نفسانی مقاصد کی تکمیل بھی کر لیتے ہیں ۔ اور کچھ عرصہ میں جن بھاگ جاتا ہے ۔
جو اللہ سوہنے کا خوف رکھتے ہیں وہ اللہ کے ذکر کو سہارا بناتے امید یقین کی شمع جلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اک اچھے دوست کی صورت اس کی ہر اک بات کو سنتے ہیں توجہ دیتے ہیں ، مریض کا کھویا ہوا اعتماد واپس لاتے ہیں ۔
اس جن کی شناخت یہ ہوتی ہے کہ مریض پر تشنج اور مرگی کے سے دورے پڑتے ہیں ۔ جسم اینٹھ جاتا ہے ۔ دبلی پتلی نازک سی بچی دو تین بندوں کے قابو نہیں آتی ۔ اکثر یہ صرف خود کو ہی نقصان پہنچاتی ہے ۔ اپنا غصہ بے جان اشیاء پر اتارتی ہے ۔ چپ چاپ خاموش رہا کرتی ہے ۔
میرے مشاہدے میں بچیوں پر قابض جو غیر مرئی مخلوق آئی وہ سب ہی نفسیات سے مربط پائی ۔کچھ ایسے کیس ضرور دیکھے ہیں جن میں غیر مرئی مخلوق کی حقیقی پایا ہے ۔ اور اس کی بنیاد میں گیلے بالوں کے ساتھ تیز خوشبولگا مغرب کے وقت کے آس پاس کسی کھلی جگہ میں جانا جہاں اونچے درخت ہوں اور ویرانی پائی جاتی ہو ۔ ایسے کیس 3۔ہ فی صد ہوتے ہیں ۔
صنف کرخت پر قابض یہ غیر مرئی مخلوق اکثر ہی اس صنف کی اپنی غلطیوں اور والدین کی بے جا تنقید کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ یا پھر الٹے وظائف کا شاخسانہ ۔ غیر مکمل چلوں کا اثر ۔بے جا بہادری کے مظاہرے
صنف کرخت پر قابض غیرمرئی مخلوق 40 فی صد میں حقیقی اور 60 فی صد نفسیاتی پائی ہے ۔
ان قابض مخلوقات کو حاضر کرنا کوئی سہل نہیں ہوتا ۔ اگر تو قابض مخلوق ہندو ہے تو آسان ہے اگر قابض مخلوق مسلمان ہے تو لوہے کے چنے حقیقت میں چبوا دیتی ہے عامل کو ۔
یہ دونوں درخت ہندو مذہب میں بہت متبرک مقدس کہلاتے ہیں ۔ اور ان کے عقیدے سے ان درختوں پر غیر مرئی مخلوقات کا بسیرا ہوتا ہے ۔ مردہ جلاتے وقت جب کھوپڑی پھٹتی ہے تو روح نکل کر کسی قریب ترین رشتہ دار میں گھسنے کی کوشش کرتی ہے ۔ اور اگر رشتہ دار چوکنے ہوتے کھوپڑی پھٹنے سے پہلے ہی اس مقام سے دور ہو جائیں جہاں تک روح رسائی رکھتی ہے ۔ تو پھر وہ روح اپنا بسیرا کسی قریبی پیپل یا برگد کے درخت پر بنا لیتی ہے ۔ طلسم و عملیات کی دنیا میں یہ مانا جاتا ہے کہ ان درختوں کے نیچے کئے جانے والے عمل طاقتور اور با اثر ہوتے ہیں ۔اور یہاں بسیرا کر رہی روحوں کو اپنا موکل بنایا جا سکتا ہے ۔

تاریک کالی رات میں اچانک اک جھماکہ ہو اور سامنے اک سٹیج سجا دکھے جس پر کوئی ظالمانہ متشددانہ ایکٹ چل رہا ہو ۔ کوئی ہمیں دیکھتے ہنستے ہنستے اپنا گلہ کاٹ اپنا سر اپنے ہاتھوں میں لیکر ہماری جانب آنے لگے ۔ کسی کا قد اچانک بڑھنے اور جسم کی ہیئیت پھیلنے لگے ۔ اس کے ہاتھ لمبے ہوتے ہماری جانب آنے لگیں ۔ اک بھیانک سی آواز ہمارے رونگٹوں کو کھڑے ہونے پر مجبور کرنے لگے ۔ کوئی حسین و جمیل صورت آہستہ آہستہ روپ اپنا بدلنے لگے ۔ دانت باہر کو آئیں ہاتھ کے پنجے مڑنے لگیں ۔
یہ جتنی بھی ہارر موویز ہوتی ہیں ان میں جو ساونڈ ایفکٹس ہوتے ہیں۔ جیسی جیسی صورتیں شکلیں سائے دکھائے جاتے ہیں ۔ یہ سب ہی فلم کی کہانی لکھنے والے نے ان کے تاثرات سے اخذ کیا ہوا ہوتا ہے جو ان مراحل سے گزرے ہوتے ہیں
ڈر اور خوف سے کوئی آزاد نہیں ۔ ڈر و خوف ہمیشہ ہی جاندار کو اپنی گرفت میں رکھتے ہیں کہ یہ ان کی بقاء کے لئے لازم ۔
مجھے بھی ڈر لگا خوف نے مجھے بھی اسیر کیا اور جب جان پر بنی تو جان بچانے کے لیئے جیسے ہی دفاع کو چھوڑ حملے کی سوچی ۔ ڈر و خوف ختم ہوگیا ۔ ڈر ہو یا خوف جب اپنی حد سے بڑھتا ہے تو یہ سوچ پیدا کر دیتا ہے کہ جو ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا کچھ تو کوشش کر تو بچنے کی ۔ اور یہ کوشش کا جاگنا ڈر و خوف بھلا دیتا ہے ۔ بلی کو شیر سے لڑا دیتا ہے ۔۔۔۔۔
فرق صرف اور صرف احساس کا ہے باقی دونوں ہی غیر مرئی ہوتے ہیں ۔
جنات بلا شک اللہ سوہنے کی ہی مخلوق ہیں اور میرے ذاتی خیال میں اکثر جنات ہم انسانوں سے زیادہ سنجیدہ، رحم دل، ہمدرد، ایثار پیشہ اور غم خوار ہوتے ہیں۔ جنات کے بارے میں انسانوں پر قابض ہوتے ان کو ستانے کی جتنی کہانیاں مشہور ہیں ان میں کچھ سچائی نہیں ۔ انسانی دماغ جب ان کہانیوں کے زیر اثر آ جاتا ہے تو وہم کا شکار ہوجاتا ہے ۔ جس قدر وہم زیادہ اور شک پختہ ہوتا ہے اتنا ہی دماغی اعصابی تحریکات میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اور جن کا احساس وجدان پر مجسم ہوتے انسان کو دیوانہ بنا دیتا ہے ۔ اور یہ حقیقت اپنی جگہ کہ انسان ہو حیوان ہو یا کہ جن جیسے ہی اپنے آپ کو خطرے میں پاتا ہے اپنے دفاع کے لیئے حملے میں پہل کر دیتا ہے ۔ کچھ انسان جنات کی جانب سے اس دفاع حملے کے بھی شکار ہوجاتے ہیں ۔ یا پھر دوسری صورت میں قصدا ستائے جانے پر بطور انتقام کسی انسان پر قابض ہوجاتے ہیں ۔
ضد اور حق کو اک ساتھ خلط ملط کرنے پر یہی ہوا بس کہ " نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم "
گم کردہ راہ مسافر کی صورت گزر گئی زندگی مجھے گزارتے ہوئے ۔ اور یہ بلاشک کرم اللہ کا کہ پاگل دیوانہ نہ ہوا میں ۔
چھلاوہ اک ایسی مخلوق جو اک جگہ ٹک کر نہ رہ سکے ابھی سامنے ابھی پیچھے ابھی دائیں ابھی بائیں ابھی یہاں ابھی وہاں پارہ صفت ۔
اک حسین خوبصورت شکل و صورت عورت جس کے پاؤں کے پنجے پچھلی جانب ہوں ہاتھوں کی انگلیاں لمبی اور ناخن مڑے ہوئے ہوں ۔
شتونگڑے ؟ شاید چھلیڈے چھوٹے چھوٹے بونے جو بہت شرارتی اور انسانوں کو تنگ کرتے ہیں ویرانوں میں ۔ممکن ہے کہ جنات کا ہی کوئی قبیلہ ہو ۔
میری محترم بٹیا جس تن بیتی وہ تن جانے ۔۔۔۔۔۔۔ انسان جو کچھ محسوس کرتا ہے اسے بعینہ اسی صورت بیان کرنا اک نا ممکن امر ہے ۔ یہ کہانیاں بیان نہیں کی جا سکتیں ۔ کچھ حد تک ہی اجازت ہے ۔جیسے اک پاؤں تو آسانی سے اٹھا لیتے ہیں دوسرا اٹھانے کی کوشش کریں تو گر کر چوٹ لگوا لیتے ہیں ۔ کچھ کہانیاں ان کہی ہی رہیں تو فساد کی راہ بند رہتی ہے ۔
یقین ہمیشہ اک ہی صورت دکھاتا ہے ۔ وہم پل پل روپ بدلتا ہے ۔ یہی فرق کر سکتے ہیں ہم ۔
آپ کے سوالوں کے جواب کی بورڈ پر رواں انگلیوں کو بہت محتاط رہنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کوئی جواب " دار " تک ہی نہ پہنچا دے ۔ مجرم ہی نہ بنا دے ۔۔
بہت دعائیں

 



0 تبصرے: