جمعہ، 9 اپریل، 2021

تیسری ‏نشست: ‏اسفل ‏سافلین ‏

0 تبصرے
تیسری نشست:  اسفل سافلین 

یہ داستان میں نہیں لکھ رہی بلکہ شاہ صاحب نے یہ لوحِ دل پر ثبت کیا ہے اسکو. بظاہر میں سُنا رہی ہوں ہڈبیتی مگر صدا مجھ میں انہی کی ہے. زمان و مکان سے پرے یہ ساتھ، اس ساتھ کو قلم لکھ رہا ہے. 

بُلھے شاہ تو درون کی کشمکش سے بے نیاز ہوگئے اور فلاح پاگئے اور ان کا کلام دلوں میں سرائیت کیے لفظوں سے حرف میں ڈھلتے کبھی سوال، تو کبھی جواب بنتا رَہا ... پہلی نشست اور دوسری نشست کا حاصل "احساس زیاں " کی آگ تھی. اس آگ کو ایک تحریر نے بڑھا اور وہ تحریر "محمود غزنوی " صاحب کی عربی سے ترجمہ شدہ تحریر تھی اور ڈسکرپشن میں اس تحریر کا لنک موجود ہے!

احساس زیاں سے سلگتی، بلکتی روح نے حرفِ دل جانبِ قطبی مقناطیس رَکھ دِیا 

"میرا قطب نُما کھو گیا ہے ... 
کعبہ ء دل نے شرک سے زمین کو بنجر کردیا ہے 
ملحدانہ اطوار مرے 
پاتال میں گرا ہوا طائر ہوں میں 
میں "سفل "ہوں کیونکہ گہرائیاں مجھے پکار چکیں ہیں 
دوذخ کا ایندھن بَنا دل جانے کس اوور جانا چاہتا ہے
کس اوور...

دل سے صدا یہی سُنائی دیتی ہے 
تو سفل ہے 
تو سفل ہے 
تو سفل ہے 
ترا مقام تو پاتال کی گہرائی ہے کیونکہ تو نے ملٹن کے شیطان کی طرح، مارلو کے فاسٹس کی طرح خدا کو للکارا تھا اور فاسٹس کی طرح توبہ کا در بند دکھا. ہر جانب اندھیرا ہے 
چہار سو اندھیرا 
میرا وجود اور ہے احساسِ زیاں 

شاہ بابا:  ایسے کونسے گُناہ کر ڈالے جن کے سبب یہ گُمان ہُوا اور یہ کس وجہ سے گُمان کیا کہ خدا کی محبت پر اسکی قہاری و جباری غالب ہے

انسان چاہے جتنے گناہ کرڈالے،  اسکی محبت،  اسکی قہاری پر حاوی ہے. مایوسی تو کفر ہے بٹیا جی!  امید کے سائے یہ زندگی کی جنگ لڑتا ہے اور بامراد ٹھہرتا ہے

میں تو پڑھا لکھا نہیں ہوں بٹیا جی!
یہ بتائیے فاسٹس کون تھا اور کس وجہ سے راندہ درگاہ ٹھہرا

فاسٹس نے خدائی کو للکارا تھا گویا وہ خود خُدا سے زیادہ طاقتور ہے. شیطان سے آسائشاتِ زیست کے لیے معاہدہ کِیا .....

جب موت کا وقت قریب آیا تو اسے احساس ہوا کہ وہ تو اک حقیر ساذرہ ہے اور توبہ کرنا چاہتا تھا مگر بے یقینی نے اسے ایسا کرنے نہیں دیا

شاہ بابا:  آپ نے خدا کو للکارا مگر اس نے کبھی آپ پر نعمتوں کی بے بہا بارش کم کی؟ اس نے کبھی اپنا نام لینے سے روکا؟ مشکل میں کس کو پُکارا آپ نے؟
یقینا اللہ کو.
پتر!  یاد رکھ!  یہ ہم سوچتے رہتے ہیں کہ ہم اس سے بُرا کریں گے تو وہ بھی جوابا بُرا کرے گا!
سنیں!
دھیان سے ...
خُدا انسان نہیں، انسان کے اعمال سے بے نیاز ہے اور محبت دینے میں اتنا کریم ہے کہ رحمت للعالمین کو ہمارے پاس بھیجا اور ان کی محبت کی شمع دل میں جلائی

میں نے خدا سے شکوہ کیا 
کیوں پیدا کیا؟
پیدا ہونا بھی جُرم تھا کیا ...!
نواز دیتے ہو اچھوں کو 
بُروں کے دنیا میں گِرا دیتے ہو 
پاؤں کی ٹھوکر بَنایا مجھے 
تو سُنو 
اب تم کو نَہیں مانوں گی 
تم ہوتے تو، تو ایسا، ویسا ہوتا میرے ساتھ؟
یہ وقت جو بے رحم ہے، یہی تم ہو تو 
میں تمھارے ہونے سے انکار کرتی ہوں 
نَہیں ہو!
ہاں، نَہیں ہو 
تم.اگر ہو تو فقط تباہی لانے والے عظیم خُدا ہو
پھر تم کو کیونکر مانا جائے

اسکو یہ انکار اچھا کَہاں لَگا تھا اور دل سے یہ صدا کسی موذن کی تلاوت جیسے اُبھرتی رہی 
پاتال کی گہرائی ترا مقدر ہے

شاہ بابا:  آپ کو پَتا ہے کہ آپ کا مسئلہ کیا ہے؟
خدا جب کسی کو اپنے پاس بُلاتا ہے یا قرب عطا کرتا ہے تو اس سے آدم کی طرح گنہ کراتا ہے 
گریہ .... گریہ ... گریہ ..
ہاں!  یہ گریہ ہی تو ہے جو بندے کو عبدیت کا احساس دلاتا ہے 
یاد رکھیے!
انسانی روح کے سفر کا آغاز جناب آدم علیہ سلام سے شُروع ہوتا ہے! جب وہ ممنوعہ شجر کا ذائقہ چکھتا ہے اور آپ نے بھی چکھا اس لیے اب آپکو لگ رہا ہے آپ پاتال کی گہرائیوں میں ہیں!  درحقیقت ایسا نَہیں ہے!  آپ سے اللہ کس قدر پیار کرتا ہے،  آپکو اسکا اندازہ تلک نہیں ہے!

میں دم بَخود ممنوعہ شجر کی اس جَہت پر سوچ رَہی تھی اور احساس ہورہا تھا کہ انکار و اقرار سے پرے خَدا موجود ہے . انسان انکار کرے گا تو احساس ہوگا اقرار و تسلیم کتنی بَڑی نعمت ہے 

"بابا --- ممنوعہ شجر تو قران پاک میں کچھ اور بات بَتاتا ہے "

شاہ بابا: ہر انسان کا صحیفہِ دل الگ ہے اور یہ صحیفہ اسکے لیے اسکا قران ہے. اسے پڑھنا ضروری ہے

اپنا صحیفہ کیا ہوتا ہے؟
کیا دل کاغذ ہوتا ہے؟
کیا دل میں کاغذات کا انبار ہوتا ہے؟
اور اسکو پڑھا کیسے جاسکتا ہے؟

شاہ بابا:  سُن بٹیا میری! 
دل کے مصحف کو پڑھنے کے لیے اُس قران پاک کو پڑھیں، جو صدیوں قبل رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ مبارک پر نازل ہوا

"بابا!  دل کے مصحف کے پڑھنا کیوں ضروری ہے؟
دل کے مصحف کا قران پاک سے کیا رشتہ ہے 

شاہ بابا نے محبت بھری نگاہ ڈالی

بولے 
"بٹیا جی!  
کسی بند کمرے کو کِس سے کھولا جاتا ہے؟
آپ کہیں گی، چابی سے 
قران کریم ایسی چابی ہے جس سے سینہ ایسا کھلتا ہے کہ عرش تلک رسائی ہوجاتی ہے. اک مقام پھر ایسا آتا ہے کہ نہاں عیاں ہوجاتا ہے

یہ الفاظ تھے یا نور کا صندوق جو سینہ میں ایسے دکھنے لگا، 
مقفل صندوق 
مقفل ہے 
قفل کیسے کھلے گا