جمعرات، 29 اکتوبر، 2020

انٹریو ود سید نایاب حسین شاہ نقوی -- 9

0 تبصرے


انٹریو ود سید نایاب حسین شاہ نقوی -- 9 

 ” بولو بولو بولو جئے شاہ”

سخی سید بلاول شاہ نورانی المعروف جئے شاہ
شاہ جی آپ نے ان کا ذکر خیر کرہی دیا تو میں بھی بتاتا چلوں کچھ ، گوکہ اب میں مادیت پر زیادہ رکھتا ہوں حتیٰ کہ یقین بھی مادی شکل میں ہی آئے تو مانتا ہوں پر جوانی کے چند تجربات شیئر کرتا ہوں آپ سے ۔۔
میری پیدائش تو پنجاب کی ہے پر پلا بڑھا میں کراچی میں ، میرے کچھ سیانا ہونے پر ( 22،23) سال کی عمر تھی میری جب والد صاحب نے نوکری کے ساتھ ساتھ کاروبار کرنے کا ارادہ کیا اور اندرون سندھ چند ایکڑ پر بنا پان کے پتے کا فارم ٹھیکے پر لیا ۔
اہلیان کراچی جانتے ہوں گے کہ پان کی منڈی کراچی میں لیمارکیٹ اور مراد میمن گوٹھ میں ہے ، تو میں اپنے فارم کا مال مہینے میں ایک بار لیمارکیٹ دیتا تھا ورنہ میمن گوٹھ دیتا تھا کیوں کہ وہ مجھے قریب پڑتا تھا ۔
ہوا یوں کہ ایک دن میں کچھ پیسوں کی ریکوری کرکے گھر واپس جانے کیلئے بس کے انتظار میں تھا تو وہاں ایک بندہ لمبی سی بس کے پاس کھڑا شاہ نورانی شاہ نورانی کی آوازیں لگا رہا تھا ، میں جیب تھپ تھپائی تو پیسوں کی گرمی نے کہا کہ چل پر سیر ہوجائے ۔ موبائل اس زمانے میں امراء پاس ہوتا تھا سو قریبی پی سی او سے گھر فون کرکے چھوٹے بھائی کو اطلاع دی کہ امی کو تب بتانا جب وہ پوچھیں اور بس میں بیٹھ گیا اوائل نومبر تھا تو ایک گرم چادر خریدلی تین چار پیکٹ سگریٹ کے لیئے پانی کی بوتل لی اور سوار ہوگیا بس میں ۔
بس یہ ایکسائٹمنٹ تھی کہ نئی جگہ دیکھی جائے اور ہمارے ننھیال میں اکثر چکر لگانے والے ایک درویش بابا اللہ رکھا سے ملا جائے ۔ خیر جی بس چلی اور منگھوپیر دربار کے پاس سے ہوتی ہوئی پکی سڑک پر آگے جاکر اچانک ہی کچے راستے پر مڑگئی ۔ یوں ایک دم راستہ نیا ہوگیا ۔
خیر بس میں سیٹوں پر اناج اور سبزی کی بوریاں تھی اور ان بوریوں پہ ہم بیٹھے تھے ۔ چرس دھڑادھڑ پی جارہی تھی اور ہر تھوڑی دیر کوئی نہ کوئی نعرہ مار دیتا تھا کہ بولو بولو بولو جئے شاہ ، اور سب مرد و زن ہم آواز جواب دیتے تھےکہ جبل بہ شاہ ۔
کراچی سے اس وقت تقریباً چھہ گھنٹے لگتے تھے شاہ نورانی پہنچنے پر راستے میں ناگن چڑھائی نامی بدنام زمانہ سڑک کا حصہ بھی دیکھا جہاں اکثر و بیشتر جان لیوا حادثات ہوتے رہتے ہیں ۔۔ خیر اللہ اللہ کرکے شاہ نورانی پہنچے جہاں بس سے اتارے وہاں سامنے کسی محبت فقیر نامی ہستی کا مرقد تھا ۔ معلوم پڑا کہ پہلے یہاں حاضری اور پھر کیکڑے (پرانے زمانے کی ٹرک نما سواری جو ریگستان و پہاڑی علاقوں یکساں کارآمد ہے) میں سوار ہوکر شاہ نورانی کے مرقد پر جانا ہوگا ۔ مرتے کیا نہ کرتے حاضری دی کیکڑے میں سوار ہوئے اور چند لمحوں میں وہاں پہنچ گئے ۔
شاہ نورانی کا علاقہ بنجر بیاباں خشک سیاہ پہاڑی سلسلے پر مشتمل ہے جہاں دن کو سورج آگ برساتا ہے اور رات کو پہاڑ گرمی خارج کرتے ہیں پر میں چونکہ نومبر میں گیا تھا تو کافی زیادہ ٹھنڈ ہوگئی تھی ۔
خیر جی وہاں رونق ہی الگ تھی بجلی وہاں ہے نہیں تو ڈیزل جنریٹرز کی ڈھگ ڈھگ نے شور مچایا ہوا تھا ۔ ساتھ میں ہوٹلوں پر لکڑی کی آگ پر بنتے کھانوں کی مہک اور گیلی لکڑی کے دھوئیں نے آنکھوں کو خوب سزا دی پر شہر سے دور یہ ماحول بہت اچھا لگا ۔ اتنے میں ایک بندے نے آکر اعلیٰ کوالٹی کی چرس کی آفر کی تو میں نے کہا کہ بھائی میں مکہ سے تو آیا نہیں پر اتنا بھی بے عقل و شعور نہیں کہ جگہ جن سے منسوب ہے ان کا احترام نہ کروں تو وہ مجھے پاگل سمجھنے والی نظر سے دیکھتا ہوا چلا گیا ۔ خیر سب سے پہلے پیٹ پوجا کی پھر لکڑی کی آگ پہ بنی چائے کے دو تین کپ پیئے پھر صاحب کے مرقد پہ حاضری دی فاتحہ پڑھی اور ملحقہ مسجد کے صحن میں آکر چاروں طرف دیکھنے لگا ۔
مجھے دراصل قدرت کی آواز سننے کا اسے محسوس کرنے کا شوق تھا اور مجھے لگتا بھی تھا میں ایسا کرسکتا ہوں ۔
اور وہاں قدرت وافر میسر تھی اونچے اونچے کالے ہیبت ناک پہاڑ ان سے اوپر انتہائی صاف شفاف تاروں بھرا آسمان ایسا لگتا تھا جیسے یہ تارے آپ کے اوپر چھارہے ہوں نزدیک آتے جارہے ہوں ۔ خیر اتنے میں ٹھنڈ چادر کی برداشت سے بھی باہر ہوگئی اور نیند نے بھی کہا میں آگئی ہوں مجھ سے ملو ۔
سوچا کسی سے مدد لی جائے کیوں کہ وہاں بہت لوگ تھے فیملیز تھیں ان سے کوئی بستر چادر مانگنے کا ارادہ کیا تھا کہ ایک بندے نے کہا بھائی سردی اور بڑھ جائے گی جاؤ ہوٹل سے بستر کرائے پر لو اور کہیں بچھاکر سوجاؤ یہ سنتے ہی ہوٹل کی جانب بھاگا پہلے بستر کرائے پر لیا جو مختلف اقسام کی بدبوؤں اور خوشبوؤں کے امتزاج کامرکز تھا اسے قبضہ میں کرکے پھر چائے پی اور پھر جگہ کی تلاش میں نکلا کوشش تھی کہ کسی ہوٹل کے چھپر تلے جگہ مل جائے تاکہ سردی سے بچ سکوں پر وہاں پہلے ہی نشئی حضرات کا قبضہ ہوچکا تھا ۔
پھر مسجد کی طرف نکلا تو وہاں اندر کیا باہر صحن میں بھی جگہ نہ تھی اتنے میں مسجد کے صحن سے ملحق چھوٹے سے قبرستان پر نظر پڑی تو دیکھا وہاں قبروں کے درمیان جگہوں پر بھی لوگ بستر بچھا سوئے ہوئے تھے لہذا ڈرتے ڈرتے میں نے بھی دو قبور کے درمیان جگہ ڈھونڈی اور جو منہ میں آیا پڑھتے ہوئے سونے کیلئے لیٹ گیا اور یقین کیجیئے بہت سکون کی نیند آئے مردے بالکل تنگ نہیں کرتے نا خراٹے لیتے ہیں نا کروٹ لیتے ہیں بالکل خاموشی اور سکون سے سونے دیتے ہیں ۔
اب آتا ہوں اس بات کی طرف جو مجھے آج بھی Fantasies کرتی ہے ۔وہ یہ کہ صبح صادق کا وقت تھا اندھیرا اجالا آپس میں باہم پیوست تھے اور ایک دوسرے سے الوداعی معانقہ کررہے تھے ۔ بڑا افسانوی سا ماحول تھا اچانک ہی میری آنکھ کھل گئی جیسے انتہائی خاموشی نے مجھے سرگوشی کرکے جگادیا ایک بار تو مجھے لگا جیسے خواب سا ہے کیونکہ میں کبھی کھلے آسمان تلے نہیں سویا اور یہاں تو کھلے آسمان تلے دو قبور کے درمیان تیسرا مردہ میں تھا جو کہ قبر سے باہر تھا ۔
خیر میں چت لیٹا آسمان کو گھور رہا تھا کہ اچانک ہی قریب کہیں کوئی جنگلی مور بولنا شروع ہوا اور اس قدر گہری خاموشی میں اس آواز نے سب کچھ ڈھانپ لیا اور صرف قدرت کی آواز پہاڑوں میں گونجتی رہی کچھ دیر تک بولنے کے بعد وہ پھڑپھڑاتا ہوا کہیں پہاڑوں میں غائب ہوگیا اور پھر سکوت طاری ہوگیا ۔
اتنے میں مسجد کے اسپیکر میں پہلے کھڑکھڑاہٹ ہوئی اور چند لمحوں بعد پہلے مؤذن نے درود سلام پڑھا پھر اذان دی ، سچی بات یہ ہے کہ اس اذان کا فسوں بھی نہیں بھولنے والا خیر میں لیٹا رہا قدرت کو محسوس کرتا رہا ۔ وہ صوفی حضرات کیا کہتے ہیں کہ ایک نماز مسجد میں ہورہی تھی وہیں ایک اور نماز کہیں اندر باطن میں ہورہی تھی
اور پھر جب کسی نعت خواں نے سندھی میں بہت خوبصورت طرز پہ نعت پڑھی تو میں بے اختیار اٹھ کر بیٹھ گیا اور جیسے نشئی حالت نشے میں ڈوبتا ابھرتا ہے ویسی حالت ہوگئی ۔
کچھ دیر بعد تیز چبھنے والی دھوپ نکلی تو اٹھنا پڑا ۔
بستر سمیٹا ہوٹل والے کو واپس کیا پھر مسجد جاکر وضوخانے سے منہ ہاتھ دھویا یخ ٹھنڈے پانی سے اور ہوٹل آکر انڈہ پراٹھا اور چائے کا ناشتہ کیا پھر سگریٹ سلگاکر سوچا کہ واپسی کی جائے اتنے میں یاد آیا کہ بابا اللہ رکھا سے ملنا ہے جو لاہوت لامکاں نامی مقام پر جاتے ہوئے کہیں مل جائیں گے جن کے ذمے وہاں سیمنٹ کی سیڑھیاں بنوانا تھا کیونکہ لاہوت لامکاں جاتے ہوئے سات پہاڑ کراس کرنے ہوتے ہیں اور راستہ بلاشبہ کافی خطرناک تھا خیر جی اٹھا اور ہولیا لاہوتیوں کے راستے پر اور دن کی روشنی میں وہاں کا قدرتی حسن دیکھا ۔
اونچے کالے پہاڑوں کے بیچ ایک چھوٹی بستی ، کسی ہستی کا مزار ، مسجد ، چھوٹے بڑے چھپر ہوٹل ، مزار کے پیچھے کی طرف ایک احاطہ جہاں بڑا سا الاؤ روشن ہوتا ہے وہیں پر جو عجیب بات مجھے لگی وہ یہ سیڑھیاں اوپر کی طرف جارہی تھیں اور ایسی سیڑھیاں بنانا کوئی انسانی کام نہیں لگ رہا تھا اور اگر انسانی تھا بھی تو کام نہیں کارنامہ ہی تھا خیر وہاں سے کچھ اوپر ایک غار تھا جہاں بقول بیان کردہ قصے کے مطابق کسی گوکل نامی دیو کو صاحب مزار نے پریوں کو تنگ کرنے کی پاداش میں بند کیا ہوا تھا میں وہاں گیا اور غار کے سامنے موجود پتھر پہ کان رکھا تو رونگھٹے کھڑے ہوگئے اور تمام حسیات ایک جگہ سمٹ آئیں ( یہ دراصل اس بارے سنے ہوئے قصے کی وجہ سے ہوا تھا )
واپس آتا ہوں بابا اللہ رکھا سے ملاقات پہ تو لاہوتیوں کے رستے پہ ہولیا پہلے پہاڑ پر موجود راستے پہ قدم رکھا اور کچھ دیر چلنے کے بعد پتہ چلا کہ بھائی یہ لاہوتی راستہ تو ہرگز نہیں کوئی چھوٹا موٹا پل صراط قسم کا ہے اور وہاں بلوچی کھیڑی پہننے کا فائدہ بھی پتہ چلا کہ ٹائر سول کی بھاری چپل کتنی کارآمد ہے پہاڑوں پہ ۔ تو میں چلتا رہا پسینہ نکلتا رہا حتیٰ کہ کندھوں پہ موجود چادر ، تن کے کپڑے اور خود اپنا آپ بوجھ محسوس ہونے لگا تھکن سے اور راستہ تھا کہ ختم نہیں ہورہا تھا اور بابا اللہ رکھا مل نہیں رہا تھا کہ خیال آیا کسی درویش یا مست سے ہی پوچھ لوں شاید پتہ مل جائے تو کافی دیر بعد ایک ملنگ ملا اس سے ڈرتے ڈرتے پوچھا تو فوراً کہنے کہ وہ لمبا سا پنجابی ہرے کپڑے پہنتا ہے ننگے پاؤں پھرتا ہے ، یہ سن جو خوشی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے کہ چلو بابا اللہ رکھا کے پاس بیٹھ کر چائے پیوں گا کھانا کھاؤں گا اور پھر واپس ۔
میں نے فوراً اقرار میں سر ہلا دیا تو اس نے کہا کہ بس تھوڑا آگے ہی بیٹھا ہوا ہوگا (وہ تھوڑا آگے آدھے سے کچھ ہی کم تھا) خیر جی میں پہنچ بابا اللہ رکھا کے پاس پہلے تو وہ مجھے دیکھ کر ایک دم حیران ہوا بہت زیادہ (اس کے آگے بیان کرنا معیوب لگ رہا ہے کہ اس نے احترام میں کیا حرکات کیں کیونکہ وہ میرے نانا ابو کا معتقد تھا)
خیر میں نے کہا کہ بابا بھوکا مررہاہوں استقبال ہوگیا ہو تو کچھ کھلاؤ جلدی سے اسنے فوراً کسی مزدور کو آواز دی اور کھانے کاکہا اور بے حد لذیذ سبزی اور روٹیاں پانچ منٹ میں آگئیں اتنے میں اسنے جھونپڑی کے کونے میں موجود چولہے پر چائے بنائی پھر یہاں وہاں کی باتیں کرتے کافی وقت ہوگیا تو میں نے کہا بابا اب میں واپس جاتا ہوں تو اس نے کہا کہ یہاں تک آگئے ہو تو لاہوت بھی دیکھ لیتے بلکہ وہاں رات گزارتے ہیں اور نایاب شاہ جی آپ کو پتہ ہوگا کہ وہاں شام کو پانچ بجے کے بعد کسی کو رکنے نہیں دیتے ۔۔
وہاں کیا ہوا کیسی رات گزری کیا تجربہ رہا اسے رہنے دیتے ہیں کیوں کہ میں لکھ لکھ کر تھک گیا ہوں یہ اتنی لمبی کہانی بھی نایاب شاہ جی نے جب شاہ نورانی کا ذکر کیا تو دل کیا کہ بیان کروں ۔۔

میرے محترم بھائی
جب بھی کوئی عامل کسی خاص مقصد کے لئے یا پھر کسی بھٹکتی روح موکل اور ہندوانہ کالی طاقتوں کو بس میں کرنے کے لیئے اپنے بہترین علم کے مطابق کسی رہنما سےملنے والی معلومات کےبل پر اپنے ارد گرد کوئی مخصوص حصار بناتےکچھ خاص الفاظ کے جاپ یا ذکر میں میں مصروف ہوتے ناری چلہ کر رہا ہوتا ہے تو اس کی تمام حسیات اک نارمل انسان سے کہیں زیادہ بیدار ہوتی ہیں ۔ چونکہ وہ اپنا عمل اپنے پورے یقین سے انجام دے رہا ہوتا ہے تو اس عمل کے دوران پیش آنے والے حالات و واقعات بھی چونکہ اس کے علم میں ہوتے ہیں اس لیئے اس کا وہم گمان خیال ممکنہ پیش آنے والے واقعات بارے اپنے جال بن رہا ہوتا ہے ۔ مجھے بھی ایسے اعمال کا شوق رہا ہے ۔ میں نے بھی کچھ راتیں قبرستانوں شمشان گھاٹوں میں گزاری ہیں ۔ میں نے انتہائی خوبصورت مسحور کر دینے والے حسن کی مالک عورت بھی دیکھی ہے جس کے پاؤں کی ایڑی سامنے اور پنجہ پچھلی جانب ہوتا ہے ۔ میں نے بھیانک آوازیں سنی ہیں ۔ میں نے ہوا میں آگ کو جلتے اڑتے دیکھا ہے ۔ میں نے بونوں کو زمین سے نکلتے انسان کا کچا گوشت کھاتے دیکھا ہے ۔ میں نے عجیب الخلقت جثے کی حامل ہیولے دیکھے ہیں ۔ میں نے لوگوں کو اپنے کٹے سر اپنے ہاتھوں میں اٹھائے دیکھا ہے ۔ میں نےجنات کے ہاں دعوت کھائی ہے ۔ بن موسم کے پھل بھی عام رہے ۔ یہ صرف اور صرف میرا مشاہدہ ہے ۔ میری حد تک یہ سچ ہے ۔ لیکن کسی دوسرے کو سنانا صرف اک مذاق ہے ۔میں انہیں کبھی بھی ثابت نہیں کر سکتا ۔ کیونکہ سننے والا اسے صرف میری حسیات کا دھوکہ مانے گا ۔ میں ان اعمال میں کامیاب کیوں نہ ہوا ؟ میں کوئی پراسرار طاقت کیوں نہ حاصل کر سکا ؟ اس کی صرف اک ہی وجہ ہے کہ آیت الکرسی کا ذکر ہر پل میرے ساتھ رہا زبان پر کوئی بھی لفظ رہا مگر دل اسی میں مصروف رہا ۔سو اللہ سوہنے نے مہربانی فرمائی اور مجھے اس گندگی سے نکالتا رہا ۔ اور بلاشک یہ میرے رب کی مہربانی کہ مجھ سے بڑی میری بہن نے مجھ میں اس کی قوت و طاقت بارے بچپن میں جو بتاتے مجھ میں یقین بھرا وہ گویا پتھر کی لکیر جیسا یقین جو کبھی بھی نہ مٹ پایا ۔
اب چونکہ مافوق فطرت یا فوق الفطرت یا فوق طبعی مشاہدہ وہ ہوتا ہے جو کہ علت اور معلول کے قانون سے آزاد ہوتا ہے ۔ اور عامل کی حسیات ہوا کے باعث کسی پتے کی ہلنے کی آواز کو بھی اسے ممکنہ پیش آنے والے واقعے سے جوڑ دیتی ہیں ۔اب جتنا گندا اور پیچیدہ عمل اور جاپ ہو گا جیسے کہ ہنومان ۔کھیترپال ۔بھیرو۔ ناگ دیوتا ۔ لوناچماڑی ۔ لکشمی دیوی ۔ کالا کلوا ، پاروتی دیوی ۔ ہر بھنگ آکھپا جیسی ہندو مذہب سے منسوب بلاؤں کو قابو کرنا ۔یاد رہے ہندو مذہب میں بھوت پریت اور ان جیسی 80ہزار سے زائد مخلوق کا ذکر پایا جاتا ہے ۔ اتنے ہی اس عمل کے دوران پیش آنے والے ممکنہ واقعات اور مشاہدات ہو سکتے ہیں ۔ اور عامل کو اس کی رہنما کی جانب سے یہ تاکید ہوتی ہے کہ جو بھی جیسا بھی دکھائی سنائی دے اسے فراموش کرتے اپنی توجہ صرف جاپ پر رکھنا ہے ۔ اگر جاپ سے توجہ ہٹی یا ڈر کر بھاگے تو جان یا عقل یا حواس گنوا بیٹھو گے ۔ صبح کاذب سے پہلے حصار سے نکلے تو نقصان ہوگا ۔
اب ذرا سوچیں چاند کے بنا کالی تاریک رات ہو کوئی پرانا قبرستان ہو جس میں مردوں کی ہڈیاں اپنی چمک سے جھلملا رہی ہوں ۔ یا پھر کوئی شمشان گھاٹ ہو جہاں کی فضاء مردوں کے جلائے جانے کی ناگوار بو سے بھیانک تاثر پیدا کر رہی ہو ۔ وہاں کوئی عامل اپنی حسیات کے انتہائی بیدار ہونے پر کیا کچھ نہ دیکھے گا ۔ اس کی فریب حس کیا کیا مناظر اسے نہ دکھائے گی ۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ چاہے یہ تمام مخلوق ماننے والوں کے یقین پر مبنی اپنی جگہ اک سچ ہے ۔ اور اس کے عامل ہونے کے دعویدار بھی مل جاتے ہیں ۔ لیکن میرے نزدیک یہ صرف عامل کی انتہائی بیدار حسیات کے باعث صرف اک دھوکہ ہوتا ہے جو اس کے وہم گمان پر مبنی ہوتا ہے ۔ قدرت بہت عجیب طرح کام کرتی ہے ۔ جسے جو چاہت ہوتی ہے اسے ویسا ہی بنا دکھاتی ہے ۔ جس کا جس پر جتنا پختہ یقین اتنا اسے مل ہیجاتا ہے ۔ کوئی ہوا میں اڑ لیتا ہے ۔ کوئی اپنی جوتیاں ہوا میں اڑا دیتا ہے ۔
مافوق الفطرت تجربات اور مشاہدات کے دو ذرائع پائے جاتے ہیں اک کو نوری وظیفہ کہتے ہیں اک کو ناری چلہ ۔
نوری وظیفے کی پہلی شرط پاک صاف خوشبودار مقام کا انتخاب ہے ۔ جہاں کا ماحول سفیدی کا حامل ہو ۔ اور ناری چلے کے لیئے پہلی شرط ایسا مقام ہے جو گندا تاریک ویران بدبودار ہو ۔ اب جو بھی عامل نوری وظیفہ کرے گا اس کو جو مشاہدات تجربات ہوں گے وہ انتہائی سکون بخش اور طبیعت کو شاداں و فرحاں کرنے والے ہوں گے ۔ جبکہ ناری چلہ کرنے والے کے مشاہدات و تجربات ان کے بالکل بر عکس ہوں گے ۔ دونوں کے مشاہدات و تجربات میں اک شئے مشترک ہو گی ۔ دوران عمل پیش آنے والے ممکنہ حالات و واقعات جو کہ رہنما جہاں سے عمل کا طریقہ ملا ہوتا ہے ۔ نوری وظائف میں ایسے اعمال جو کہ قضاء و قدر میں دخل دینے کی خواہش سے کیئے جاتے ہیں ان کی شرائط اور مشاہدات و تجربات ناری چلے جیسے ہی ہوتے ہیں ۔ اور کیا شک کہ نور کے متلاشی کو نور ہی ملتا ہے ۔
انسان کی فطرت میں اک تجسس اک کھوج کا مادہ شامل ہےاسی تجسس اور جستجو کا نتیجہ ہے کہ وہ ایک جگہ نہیں بیٹھنا چاہتا ہے۔ قدرت کے ہر راز کو خود پر افشا کرنا خود کو ہر بھیدکی تہہ تک پہنچانا خواہ جنت میں کھائے جانے والے پھل کا ذائقہ محسوس کرنا یا پھر پوٹاشیم سائنایڈ کا مزہ چکھنا ۔ اب اس عمل کے دوران اسے کیا مشاہدہ ہوا ؟ کس تجربے سے کیسے گزرا ؟ اس کے لیئے بس نطق کے سہارے یہ کوشش کی جا سکتی ہے کہ کسی دوسرے کو اپنے احساس میں شریک کیا جائے ۔ مگر یہ ناممکن ہے کہ اس کو اپنی کیفیت یا مشاہدے کی سچائی پر ویسا ہی یقین دلا یا جاسکے جیسا کہ خود کا ہوتا ہے ۔
کیسی عجب بات کہ یہ سب مخلوق اک ہی خالق کی خلق کردہ ہے لیکن اس سب مخلوق کے درمیان کی قدرتی دوری نے ان کو اک دوسرے سے خوفزدگی میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ جن انسان سے عاجز رہتے ہیں اور انساں جنوں سے ڈرتے ۔
محترم قارئین میں کوئی عامل نہیں ہوں ۔ میں نے کوئی بھی عمل پورا نہیں کیا ۔ ہمزاد کے چکر میں قریب چھ رات گزاری ہوں گی ۔باقی کبھی اک دن کبھی تین دن اور پھر دل اچاٹ اور رخ کسی اور جانب ۔ آپ مجھے ان بھٹکے ہوئے غیر مستقل مزاج مسافروں کی صف میں رکھ سکتے ہیں ۔ جو کسی سراب کو منزل جان دوچار قدم اس کی جانب چلتا ہے اور پھر کسی دوسرے سراب کو منزل بنااپنا رخ بدل لیتا ہے اور اس طرح کبھی منزل پر پہنچ ہی نہیں پاتا بچپن سے لیکر پختہ ہوتی جوانی تک میں ایسے ہی بھٹکا کبھی نوری کبھی ناری ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کچھ بھی نہ پایا سوا اس سچ کے ۔۔۔۔۔۔
اللہ نور السماوات والارض
دعاؤں کی التجا کے ہمراہ بہت دعائیں

0 تبصرے: