یہ بات 1997 کے آواخر کی ہے ۔ مجھے اک بلڈنگ کی وائرنگ کا کنٹریکٹ ملا ۔ میں نے وہاں کام شروع کر دیا ۔ وہاں پلستر کرنے والی جو پارٹی تھی اس میں یہ محترم نارائن صاحب شامل تھے ۔ جب پلستر کا کام کسی سبب سے رک جاتا تو یہ میرے پاس آجاتے ۔ اور بنا کسی مزدوری کے مانگے میری مدد کرواتے ۔ مجھے سامان وغیرہ دیتے ۔ میں انہیں چائے اور کھانا وغیرہ کھلا دیتا ۔ اور جب کبھی مجھے پیمنٹ ملتی انہیں سو پچاس دے دیتا ۔ اک دن مجھے کہنے لےگے کہ " شاہ جی " مجھے بجلی کا کام سیکھنا ہے ۔ مجھے اپنے ساتھ رکھ لو ۔ عمر ان کی قریب 35 سال کی تھی ۔ میں نے کہا مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ تم سوچ لو کہ یہ تم یہ کام سیکھ سکو گے ۔ اور کر سکو گے ۔ ؟ کہنے لگے کہ مجھے سیکھنا ہے بس ۔ قصہ مختصر میرے ساتھ کام شروع کر دیا ۔ اور جلد ہی میرے اک اچھے ہیلپر کی صورت اختیار کر لی ۔ میں جس رہائیش پر رہتا تھا ۔ وہاں پر میرے ساتھ اک محترم بھائی خالد علوی اور ان کے ساتھ ان کے اک دوست رہتے تھے حافظ صاحب ۔ میں نے نارائن کو بھی اپنے ساتھ ہی کمرے میں رکھ لیا ۔ اب کمرے میں ہم چارافراد تھے ۔ یہ نارائن صاحب مجھے استاد کا رتبہ دیتے میری بہت خدمت کرتے تھے ۔ اور میری اس خدمت سے کمرے میں رہنے والے بھی مکمل مستفید ہوتے تھے ۔ کمرے کی صفائی کرنا ۔ برتن دھونے ۔ سالن سبزی کاٹنا بنا نا ۔ روٹی لانی چائے بنانا یہ سب نارائن نے اپنے سر لیا ہوا تھا ۔ سب نارائن سے بہت خوش تھے اور وقت کافی اچھا گزر رہا تھا ۔ رمضان شریف کی آمد آمد تھی ۔ اک دن جب میں اور نارائن کام سے واپس آئے تو حافظ صاحب نے فرمایا کہ شاہ جی آج ذرا علوی صاحب کا انتظار کرنا اور ان سے بات کر کے سونا ۔ مجھے ان کے لہجے سے کچھ عجب طرح کی خوشبو آئی ۔ بہر حال رات کو علوی صاحب بھی آ گئے ، نارائن نے کھانا وغیرہ لگایا اور سب نے کھایا ۔ کھانا کھا کر نارائن برتن دھونے لگا ۔ اور علوی صاحب نے مجھے کہا کہ
روزے شروع ہونے والے ہیں اور یہ نارائن ہندو ہے ۔ اس کا یہاں رہنا مناسب نہیں ہے ۔ اسے کہو کہ روزوں میں یہ کہیں اور جا کر رہے اور روزوں کے بعد واپس آ جائے ۔ میرا تو جیسے فیوز ہی اڑ گیا ۔ علوی صاحب میرے بڑے بھائی کے دوست اور بھائیوں کی طرح ہی پیارے ہیں ۔ میں نے ان سے کہا کہ علوی صاحب آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں ۔ حافظ صاحب بولے کہ شاہ جی اس کی وجہ سے ناپاکی ہوتی ہے ۔ میں نے کہا حضور حافظ صاحب چھ ماہ سے یہ شخص اپنے ہاتھوں سے سبزی کاٹ اپنے ہاتھوں سے دھو اپنے ہاتھوں سے پکا آپ کو کھلاتا ہے ۔ اور جہاں آپ نماز پرھتے ہیں اس کونے کو بھی یہ شخص صاف کرتا ہے ۔ آپ کے کپڑے استری کر دیتا ہے ۔ آج آپ کو ناپاکی یاد آگئی ۔ اگر آپ اسے یہاں سے ہندو کی بنیاد پر نکالیں گے تو میں بھی روم چھوڑ دوں گا ۔ وہ دونوں بیک وقت بولے کہ ٹھیک ہے اگر تمہیں یہ ہندو اتنا پیارا ہے تو اپنا بندوبست کر لو ۔ میں نے نارائن کو بلایا اور اسے کہا کہ چلو اپنا سامان اٹھاؤ ہم کہیں اور چلتے ہیں ۔ نارائن نے بہت ضد کی کہ شاہ جی کوئی بات نہیں جب روزے شروع ہوں گے تو میں کہیں اور چلا جاؤں گا ۔ لیکن میرا دماغ پھر چکا تھا اس کی ایک نہ سنی اور سامان اٹھا کر اپنے اک دوست محترم غلام بھائی کے پاس پہنچے اور ان سے کچھ دن ان کے کمرے میں رہنے کی اجازت مانگی ۔ ویسے تو یہ غلام بھائی بہت سڑیل مشہور تھے صفائی ستھرائی بارے ۔ لیکن جب انہوں نے سارا واقعہ سنا تو کہنے لگے کہ آپ میرے ساتھ اس روم میں چھ ماہ رہ سکتے ہو ۔ جب کرایہ ختم ہوگا تو آدھا ادھا بھر دیں گے ۔ ان کو آگاہ کیا کہ یہ ہندو ہے ۔ کہنے لگے کہ میں نے کونسا اس کے منہ سے نکال کر کھانا ہے ۔ انسان بن کر رہے تو کوئی فکر نہیں ۔ قدرت خدا کی میرا کفیل سے معاملہ بگڑ گیا ۔ میں اک قیدی کی صورت کفیل کی رہائیش میں سونے کا پابند کر دیا گیا ۔ یہ نارائن صاحب کبھی پلستر والوں کے ساتھ جاتے کبھی بجلی والوں کے ساتھ اور جو کماتے اس میں سے میرا خرچہ بھی چلاتے ۔ رمضان کا آخری روزہ تھا میرے پاس آئےاور کہنے لگے کہ شاہ جی میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں مجھے مسلمان کر لیں ۔ میں نے انہیں بہت سمجھایا کہ تمہاری اک فیملی ہے خاندان ے تم کیسے مسلمان ہو کر ان سب سے گزارہ کر سکو گے ۔ ؟
غلام بھائی کہنے لگے کہ شاہ جی پورے رمضان اس شخص نے صرف سحری افطاری کی ہے ۔ خدمتگار ہے ۔ با اخلاق ہے ۔ صفائی ستھرائی کا پابند ہے ۔ صرف نام کا ہندو ہے ۔ بہت سمجھایا لیکن ان کی اک ہی ضد تھی ۔ آخر انہیں قریبی مسجد کے امام تک پہنچایا اور انہوں نے برضاو رغبت اسلام قبول کیا اور عبدالرحمان کا نام اختیار کرتے امام صاحب کے پسندیدہ مسجد کے خدمتگار کا لقب پاتے عمرہ و حج سے مشرف ہوئے ۔ آج بھی ریاض میں موجود ہیں اور اپنا بجلی کا کام کرتے ہیں ۔
بلا شک اللہ بہت بے نیاز ہے ۔ اور سب توفیق اس کی ہی جانب سے ہے
خود نوشت
سید نایاب حسین شاہ نقوی
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں