جمعہ، 17 مارچ، 2023

ذات کی معنویت:پچیسویں نشست

0 تبصرے

​انیسویں قسط ***** ذات کی معنویت****


بابا جی ... آپ کی کیا مصروفیات ہیں آج کل؟


کرم ہے سچی ذات پاک کا ۔ مزدور بندے کی کیا مصروفیات ۔ مزدوری ہی چلتی رہتی ہے ۔ آج کل چونکہ سپانسر شپ تبدیل کرائی ہے ۔ تو نئی جگہ نئے بندوں سے میل جول میں وقت گزر جاتا ہے۔ وقت نے کروٹ لی مجھے کفیل بدلنا بدلتے اک نئی جگہ آنا پڑا جہاں نیٹ کی پابندی نہیں ۔ اور اب آپ کے سوالوں کے جواب میں داستان لکھنے میں مصروف ہوں ۔ شاید کہ اسی طور میں بھی اس نایاب کو جان جاؤں پہچان جاؤں ۔ جس کے بارے آپ نے اس قدر سسپنس سے بھرپور باتیں لکھ ڈالیں ... آپ کا ایک سوال ...


پاکستان میں دورانِ سیاحت کن کن مقامات نے آپ کو تحیر میں لیتے یہ سبق دیا کہ زندگی تو کتنی بڑی معلم ہے؟

کسی نے کہا تھا کہ ہمیں در در نچایا اور پھرایا یار نے ۔۔۔۔۔

میرے پاس یار نہیں تھا نشہ تھا ۔ اور پاکستان کے طول وعرض میں جہاں بھی گیا ۔ بس یہی سوچ آئی کیا فرق ہے تجھ میں کسی بادشاہ میں


کل جہاں بادشاہ کروفر سے دربار لگائے ہوئے تھا تو آج وہاں بیٹھ نشہ کر رہا ہے ۔ کسی بھی مقام کی اپنی کوئی اہمیت نہیں اس کی اہمیئت ہمیشہ اس کے مقیم سے وجود میں آتی ہے ۔۔۔۔ یہ جسم خاکی جس کو بنا سنوار کر شان و فخر سے نمایاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ نمایاں ہونا لمحاتی ہے ۔ اگر اس جسم خاکی میں موجود روح کو بنا سنوار لیا جائے ۔ تو بنا نمایاں ہونے کی خواہش سے ایسے نمایاں ہو جاتا ہے انسان کہ جہاں اس کے قدم پڑیں وہ مقام بھی نمایاں ہوجاتا ہے ۔ اس سے منسوب ہو جاتا ہے ۔


میرے نزدیک تو یہ گزرتا وقت جسے زندگی کہتے ہیں ہر پل اک معلم کی صورت ہمیں اپنے اسرار و رموز سکھا رہا ہوتا ہے ۔


گھڑیال دیتا ہے ہر پل یہ منادی گردوں نے اک گھڑی اور گھٹا دی

میاں محمد بخش رح کیا خوب تنبیہ فرما گئے ہیں

لوئے لوئے بھر لے کُڑیے جے تدھ بھانڈا بھرنا

شام پئی، بن شام محمد گھر جاندی نے ڈرنا


یہ پیغام سب کے لیئے ہے ان کے لیئے بھی جو قدرت پر یقین رکھتے ہیں اور ان کے لیئے بھی جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔


آپ نے رسمی تعلیم کیوں حاصل نَہیں کی جبکہ آپ کا علم اتنا وسیع ہے کہ مجھے احساس ہوتا ہے اصل تعلیم یہی ہے ....جو کچھ آپ کے پاس ہے .... اگر آپ تعلیم حاصل کرپاتے تو کیا بنتے؟ 


کوئی بہت مشہور و معروف انجینئر کہلاتا ۔۔۔۔۔ مگر یہ میری حماقت و نادانی کہ میں نے سکول کی تعلیم کو کبھی کسی قابل نہ سمجھا ۔ اور اس کی سزا مزدور کی صورت انجیئروں کے تحت مزدوری کرتے پائی ۔

اس پر بٹیا نے سوال کر دینا ہے کہ کیا یہ اللہ کی حکمت تھی کہ سکول سے بھاگے اور سزا پائے۔۔ ؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ نے اپنی حکمت کے تحت مجھے اچھا تیز ذہن دیا جو سوچ و خیال و وجدان کے درمیان بہترین ربط قائم کرنے پر قادر رہا ۔ اور میں اس پر غرور کرتے حماقت میں مبتلا ہوگیا ۔ میں نے یقین کر لیا میں سب جانتا ہوں ۔ مجھے سکول و مدرسے کی ضرورت نہیں ۔ بلا شک میں نے زندگی کو اپنی مرضی سے بتاتے ٹھوکریں کھاتے اپنے علم میں مہارت تو حاصل کر لی مگر میرے پاس وہ کاغذ کا ٹکرا نہیں جسے سند کہتے ہیں ۔ اور دنیا کے نظام میں ان پڑھوں میں قرار پاتا ہوں ۔

بلا شک ماں سچ کہتی تھی اس حقیقت کا جب علم ہوا تو بہت دیر ہوچکی تھی وقت گزر چکا تھا ۔ ۔

0 تبصرے: