جمعہ، 17 مارچ، 2023

بائسویں نشست :مجذوبیت

0 تبصرے

​نشست ۳: مجذوبیت 


تلاش اور کھوج کی سوئی مَقامِ دل کے گھڑیال پر منادی دے رَہی تھی، تو جِس کی تَلاش میں کھوئی کھوئی رَہی، جس کو پانے کی خاطر، جس کی دید کی لَگن مانند آتش رواں تن من کو جَلا رَہی تھی ... وِجدان کی ترتیب نئی فریکوئنسی پر مرتب ہورَہی تھی وہ ارتعاش مانندِ  دُھواں دُھواں وجود میں اک الوہی تار جَگا رَہی تھی. وہ اَلوہی تار تھا کہ میں کون ہوں؟  میرا شُمار کیا اسفل سافلین میں ہے یا اس سے بھی نچلے درجے میں.... جس کو میں پاتال کی گہرائی سے معتبر کرتی ہوں ..یہ سَفر تو شُروع روز اول سے ہوتا ہے جب آپ پیدا ہوتے ہیں ...گاہے گاہے آپ کو خبر مل جاتی ہے کہ آپ کیساتھ اللہ ہے مگر اللہ کو دیکھنے کی لگن نے اس کے خلاف جنگ شُروع کردی بالکل ایسے نمردو نے تیر فلک پر پھیکنے کہ خدا پر حملہ کرے ...  میں نے بھی گستاخانہ کلمے ادا کیے ....نماز میں اللہ نَہیں ملتا تھا..... مجھے نماز کی تلقین کی جاتی تو میں کہا کرتی 

*کہاں ہے اللہ؟  لاؤ اللہ کو دکھاؤ *.

پہلے میں اللہ کو دیکھوں گی..... 

پھر نَماز پڑھوں گی....


میری ساری زندگی گناہوں میں لتھڑی گزری ہے. اس لیے اس گنہگار کو رب بُہت پیار کرتا جو بڑے پیار سے مان سے اسکی جانب قدم رکھتا .... میں نے شاہ بابا کو بَتایا 


*میں نے جب اللہ کے وجود سے انکار کیا تھا، میں نماز نَہیں پڑھ سکتی تھی مگر تب تب جب ماہِ رمضان ہوتا .... میں خشوع و خضوع سے نَماز ادا کیا کرتی .... میں نے شہر ملتان میں کسی سید سے پوچھا کہ اسکی وجہ کیا ہے؟ 


وہ کہنے لگے: آپ کا معاملہ اور ہے .... خُدا آپ پر آپ کی گرہیں جلد کھول دیگا * 


شاہ بابا:  نور بابا سے اتنا نَہ ہوسکا کہ آپ کو آپ کے بارے میں آگاہ کرتے. یہ اللہ بنے بیٹھے ہیں. مخلوق کی راہ کھوٹی کرتے ہیں اللہ کی ضد سے لَگا کے ان کو دنیا تھما کے ..... یہ صریحا شرک ہے ... ایک کی خواہش کئی لوگوں کے معصوم خواہشوں کا گلا گھونٹ دیتی ہیں، کئی گھر اجاڑ دیتی ہیں ...بلاشک یہ گھاٹے کا سودا کر رہے ہیں ......


میں اس تَمام میں دم بَخود تھی کہ ان کو کیسے علم ہُوا کہ ان کا نام نور بابا ہے ..... میں نے اپنی chat ساری ٹٹولی کہ دیکھوں کہ کہیں میں نے تو نام نَہیں لکھ دِیا مگر میں نے ایسا نام نَہیں لکھا تھا .....


ان سید بابا جن کو لوگ نور بابا بھی کَہا کرتے میری حالت ٹھیک ہوئی مگر انہوں نے نذرانے کا نام پر ہزاروں روپے ادا مانگے. میرے لیے ممکن نَہ تھا ان کو دینا مگر مجھے ان سے بات کرکے بہت سَکون ملا تھا   ..... ہر ہفتے ہزاروں روپے سکون کی خاطر نہیں دے سکتی تھی اس لیے تعلق قائم نَہ ہوسکا .... 


مجھے تو خود علم نَہیں تھا مری روح کا سوال کیا ... میں نے الٹی سیدھی حرکات شروع کردیں ...کچھ ناولز کے کردار کا تاثر تھا کچھ اندر درد کی شدید لہریں پیدا ہوتا جن کو برداشت کرنا ناقابل فہم ہوتا گیا. اس درد کی لہر کو دبانے کے لیے اللہ سے لو لگائی .... درد کی سانجھ ایسی تھی کہ چوٹ کسی کو لگتی، تکلیف مجھے ہوتی تھی... درد کی دَوا کرنی نَہیں آتی تھی تو ایک کونے میں بیٹھ کے خدا سے گیان کیا کرتی تھی ....  مجھے جو شدت سے درد کی چوٹ پہنچتی ہے ویسی چوٹ میرے بہن بھائی بھی محسوس کرتے ہیں؟  وہ تو ہنستے کھیلتے ... جبکہ میں معاشرے سے کٹ کے اپنی تخلیق شُدہ میں گم .... 


شاہ بابا بولے!  بٹیا جی .... انسان کی اپنی تخلیق کیساتھ موکلات و فرشتے جنم لیتے ہیں .. یہی صدقہِ ناریہ و صدقہِ جاریہ بنتے ہیں ....  جس بات کو آپ شکوہ و گستاخی کہہ رہی ہیں    وہ آپکا کفر نَہیں تھا   ... وہ کچھ اور بات تھی ..   وقت گرہ کھول دیگا .... آپ مجذوبیت کی جانب جارہی ہیں    نور بابا آپ کو یہ خبر نہ دے سکے ... نَماز پڑھواتا اللہ ہے .. جو اللہ رمضان المبارک میں پڑھواتا ہے وہ اتنا نامہربان ہے آپ کو باقی ایام میں روکے گا ..  بٹیا جی!  خود سے نکلیں ..  درد سے نکلیں ..   جہان سارا درد سے پُر ہے ..  جذب میں رہنے کے بجائے خود کو بھی سَہارا دیں، زمانے کو بھی سَہارا دیں ....  آپ کیا سَمجھتی ہیں یہ جو بَڑے بَڑے بزرگ گزرے ہیں، ان کو تکلیف نَہیں پُہنچی کیا کبھی؟  انہی کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچی ہے اور انہوں نے اس تکلیف پر سرخم کیا ہے ...شکر ادا کیا ہے کہ مالک جس حال میں رہے، مالک کا بندہ اس سے راضی ہے .....

0 تبصرے: