جمعہ، 17 مارچ، 2023

نشست۲۹ : خود کی معافی

0 تبصرے

​ساتویں نشست 

خود کی معافی : 

بددعا سے دُعا کا سَفر 


اثباتِ حق کی تسبیح ...


تغیراتِ زمانہ انسان کو کمینہ بنا دیتے ہیں. میرے اندر کا کمینہ انسان شاہ بابا کے سامنے نادم بیٹھا تھا. نَدامت اک بوجھ کے جیسے تھی جیسا وہ میرے "ہونے " کی منفیت کے اسیر گُمانوں سے واقف ہورَہے تھے . ان کے چہرے کی مسکراہٹ یہ راز مگر افشاء نَہیں کَرتی تھی....جیسے میں اک نومولود گھڑی میں بیٹھی اک کُن سے فیکون کی جنمی روح ہُوں. میں اک خواب کی سی کیفیت میں تھی اور خواب کے اثر میں تھی .... وہم و گُمان کا اثر حقیقت جیسا ہوتا ہے. 


"میں گُنہ گار ہُوں، اتنے گناہ کیے ہیں کہ خُدا معاف نَہیں کرے گا "


"خالق قہار زیادہ ستار ہے 

وہ رحیم سے زیادہ رحمن ہے 

وہ شہید ہے اور شہادت چاہتا ہے 

تم شاہد ہونا نَہیں چاہتی؟  "


ان کی بات مجھ کورے کاغذ کو سمجھ نَہ آسکی مگر دامنِ سیاہ و داغدار دل کو اجیاروں کی نوید ملنے لگی تھی ...میرا دل وہاں تھا اور دل، دل کے سامنے سجدہ ریز. دل کے اندر سے دل والے کی صدا یعنی خواب در خواب ... میں اس تھری لیئرڈ خواب میں خدائی راز سے تھی


تم کو زیب نہیں خود کو سفل  کہو. یہ مقام تو عین سے دور ہو جانے والوں کا ہے. یہ مقام شداد و نمرود کا کہا. فرعون نے ایسے نفس کو بقاء دی ہے ... تم چناؤ سے نہیں بلکہ عطائے ربی سے چلو 


راہ کی کنکریاں ہٹا کے چلا کرو. دل کا صدقہ بنا کے چلو


شاہ بابا:  آپ خود کو معاف کردیں 


خود کو معاف کیسے کیا جاتا ہے؟ میں نے یکسر معصومیت سے سوال کیا


خود کو معاف، خود کو معتبر کرکے کیا جاتا ہے. اب آپ یہ کہیں گی کہ خود کو معتبر کیسے کیا جاتا ہے 

تو سن میری بٹیا 


آپ ہی سچ ہیں بس ...باقی سب جھوٹ ہے ... آپ ہیں تو سب کچھ ہے ... یا میں ہی سب کچھ ہوں اور باقی سب جھوٹ ہے. اگر یہی سچ ہے تو میں ادھر ادھر وقت کیوں ضائع کروں ... میں خود کو خود معتبر نَہ کروں ... اب خود کو کیسے معتبر کرسکتا ہے کوئی؟ اسکا نصاب آپ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ میرے لیے کافی ہے ... وہ اسوہ حسنہ جو قرآن پاک نے میرے لیے بیان کیا ... ہم دنیا سے نہیں ... دنیا ہم سے ہے ... یا میں دنیا سے نہیں دنیا مجھ سے ہے. میں اپنی کائنات کا آپ مالک ہوں


نفرت، کینہ، غیبت، غصہ دل کی سلطنت سے نکال کے خالص اللہ کی جانب رجوع کرنا خود کو معاف کرنا کہلاتا ہے 


آپ کے لیے یہ سب کہنا آسان ہے مگر میں زخموں سے چور،  فگار دل لیے ہوں  مجھے جن سے زخم ملے میں ان کو معاف نہیں کر سکتی ...میں ان سے انتقام لوں گی .. اگر نہ لے سکی تو میری بددعا  اخیر تک ان کا پیچھا کرے گی، جس جس نے میرا دل دکھایا، جس جس نے میرا دامن دل تار تار کرکے میرے وجود میں نفرت کا رعشہ بھر دیا  .میں جو کچھ ہوں وہ انہی لوگوں کی مرہون منت ہے.


شاہ بابا:  آپ نے پہلے کئی مرتبہ انتقام لیا. کیا آپ کامیاب ہو پائیں؟


پہلے پہل تو میں حیران ہوئی کہ ان کو کیسے پتا چلا مگر اب میں جانتی ہوں  خدا کے بندے سب جاننے کی قدرت رکھتے ہیں ... 


ہاں، لیا تھا انتقام مگر وہ دشمنِ جاں کا بال بیکا نَہ کرسکا اور دل میں آگ سلگتی رہتی ہے مجھے بے چین و بے کل رکھتی ہے 


اس بےچینی سے نکلنے کی خواہش ہے آپ کو؟ اس اضطراب سے نکلنے کے لیے آپ کو تھوڑا بہادر بننا ہوگا. آپ ایسا کریں جس سے انتقام کی سوچ دل میں پنپتی ہے اس کے لیے دعا کو ہاتھ اٹھائیں 


میں ایکدم پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی جیسے سینہ خون سے لت پت ہوگیا ..جیسے زخموں سے ناچار وجود کسی سہارے کا متمنی ہو. جیسے معاف کرنے کی خواہش دل میں ابھرتی ہو تاکہ سکون کی جانب قدم رکھ سکوں مگر میں ایسا کر نہیں سک رہی تھی اور اس تھری لئیرڈ ڈریم میں خواب کی سی کیفیت میں مدہوش اک اور نور کو سراپا سسکتا دیکھ رہی تھی جس کو شاہ بابا کی محبت بدل رہی تھی. لہولہان وجود کو جیسے مرہم مل رہا تھا. رگ رگ میں دریائے محبت سے سیرابی پا رہی تھی ...سکون کی یہ کیفیت ابدی نشہ لیے تھی


خوابیدہ کیفیت کے حصار میں میں ان کو محرومی بتانے لگی.  اپنے "ہونے اور نہ ہونے کی سزا کی پاداش میں کیا کیا کرتی رہی وہ بتانے لگی ... اپنی منفیت میں انتہاؤں کا سفر کس قدر اذیت ناک رہا وہ بتاتے جب سہنے کی تاب نہ رہتی تو مجھے منع کر دیا جاتا کہ جتنا جسم اجازت دے، اس قدر توفیق سے دل کے زخم بتائیں جائیں خود سے زخموں کو کھڑونچے نہ دِیے جائیں ... 


میرے گمانوں کے واہمے بدلنے لگے یا بدل رہے تھے


میں بدلنے لگی ... آسان تو نہ تھا نہ مگر مسیحا نے آسان کردیا. اسرار سے واقفیت ملنے لگی. حقیقت کھلنے لگی ...  میں نے معاف کردیا خود کو ... خود سے 

انتقام کی آگ کا آلاؤ بجھنے لگا 

نفرت کی سرانڈ ختم ہونے لگی 

جنبشن ناز میں احرام دل میں موتی تھے اور میں نے عفو کا معانی سیکھا تھا. ذات سے عشق کا پہلا سفر تھا. ذات کی جانب لو لگے تو ذات ہمیں دعا دینا سکھاتی ہے. میں نے معافی سیکھی تھی ابھی دعا مشکل تھی

0 تبصرے: