جمعہ، 17 مارچ، 2023

اکیسویں نشست :عشق کا کوئی امام نہیں ہوتا

0 تبصرے

​نشست: اکیسویں 

            عشق کا کوئی اِمام نَہیں ہوتا


لکھنے کا سَفر بڑا کٹھن ہوتا ہے . وہ سَفر جو سچ سے شُروع ہو اس میں ملامت سَفرِ زندگی میں ہاتھ آتی ہے ... میں عشق سے نَڈھال تھی کہ عشق نے مقدر میں وصلت کے بَجائے ہجرت کا طوق گلے میں ڈال دیا. میں نے جس آگ کو عشق کا نام دِیا تھا. وہ نرگیسیت اور ناہلزم nihilism تھی ... مجھے اَنا سے آگے کوئی عزیز نَہ تھا  چونکہ مجھ سا باغی و دکھی اس خدا کی سلطنت میں کوئی نَہ تھا. اس لیے لکھنے کی ٹھانی ... لکھنا تن بیتی تھا  . جس پر تنقید گنوارا نہ ہوتی کیونکہ کسی افسانے کی صورت میں نے خون جگر ڈالا ہوتا تھا .. غزل میں ہنجو پروئے ہوتے تھے. اردو زبان سے مکمل نابلد ... انگریزی میں لکھنا شُروع کیا تھا مگر ساتھی دوست نے کہا اگر معنویت و شہرت چاہیے تو اپنی زُبان اپناؤ.... میں نے اس تئیں افسانہ فورمز جوائن کیے اور شاعری سیکھنے کے لیے اردو محفل فورم .....


 خانقاہی نظام اب بَدل چُکا ہے. اب رابطے کی سائیٹ پر خانقاہی نظام مرتب ہوتا ہے ...کون کس روپ میں چھپا ہے ...کس نے بہروپ بھرا ہوا ہے .... وہ بھی نَہیں ظاہر ہونے نَہیں دیتا جبکہ خدا بھی ظاہر ہونے نہیں دیتا.... میں نے افسانے لکھنا شروع کیے اور فورمز پر پیش کیے. ان پر ہونے والی تنقید سے زیادہ وہاں پر جاری سیاست نے شدید متاثر کیا ....یہی افسانہ فورم جہاں پر میرے دلائل سے اور انداز گفتگو سے مجھے اک مرد کے طور پر پروموٹ کیا جا رہا تھا .... مجھ سے ویڈیو کالز کی شرائط رکھی گئیں ...تصاویر مانگی گئیں ... یہ ہوا کس کی اڑائی گئی تھی مگر میں نے ان شرائط کو پورا نَہیں کیا .... مشاعروں و ادبی نشستوں کے پروگرامز مرتب کرنیوالے نے مجھے مدعو کیا تھا ... مگر اس شناخت کے مسئلے نے لکھنے میں اور ادباء کے لیے دل میں رنجش پیدا کردی .... اسی جگہ شاہ صاحب بھی موجود اکثر تبصرے کیا کرتے تھے ....  ان کا انباکس میں مجھے میسج آیا ...


بٹیا جی!  زندگی کی جنگ لڑتے لڑتے ان کو مردانہ وار لڑتے آپ کا انداز گفتگو بھی ایسا ہوگیا ...جیسا کہ آپ نے لکھنا ہوتا ہے *میں گئی تھی* آپ نے لکھا *میں گیا تھا* پڑھنے والے قارئین اس صیغے کے فرق  سے آپ کو ایسے لیبل کررہے ہیں ... آپ مایوس نہ ہو.....


بابا جی:  میں اتنی بکھر کیوں گئی ہوں؟  

.بٹیا جی، کائنات کو دیکھیں کہ کیسا مالک نے اسکا پھیلاؤ کیا ہے. یہ کتنے ٹکروں میں بنٹی ہوئی ہے


             میں اب افسانے نَہیں لکھوں گی ....

             میں سچ نَہیں لکھوں گی .... 


بٹیا جی!  آپ اگر اسلیے لکھ رہی ہیں کہ آپ کی واہ واہ ہو تو بلاشبہ آپ کو لکھنا چھوڑ دینا چاہیے. اگر آپ اپنی ذات کے اظہار کے لیے لکھ رہی ہیں تو پھر تنقید و ستائش سے بے نیاز ہوجائیں................  سچا سمیع العلیم قلم کو جیسے چاہے حرکت دے ......


میں نے تاہم لکھنا وقتی طور پر بند کردیا تھا .... شاید وقت کا تقاضہ بھی یہی تھا سوچ کے پرندوں کو آزاد نَہ ہونے دو .... سوچ کے پرندے جو آزاد ہوئے تو نفس نے روح کیساتھ انا کی تلوار سنبھال کے سب کچھ زخمی زخمی کردیا ....  


 شاہ صاحب نے کَہا : آپ لکھیں ... آپ کے قلم میں بزرگی ہے ...  قلم آپ کو ننھیال سے عطا کردہ ہے .. آپ کے نانا جان لکھا کرتے تھے یا ان کے والد .............  آپ کا ننھیال خواجہ معین الدین چشتی رح سے فیض یافتہ ہے ........    آپ کے ننھیال کے ددھیال میں سادات سے رشتہِ زوجیت میں کسی کا انسلاک ہے .... .... ............... وہ بُہت کچھ بتاتے رہے ....  جس کو سُن کے یک ٹک سو اور دھڑکنیں. بے ترتیب........... ...انکشافات نے ششدر کردیا ...  سب وہ جو بتاتے رہے وہ میں گھر سے تصدیق کراتی رہی .... ان کی کَہی باتیں سچ تھیں   ....ان کی عظمت کی گواہی دل میں مزید معتبر ہوگئی ......... آپ لکھیں .......


           میں نے کَہا:  میں نَہیں لکھوں گی 

                  میں آپ کی بات کیوں مانوں؟ 

                   میرا دل کہے گا تو لکھوں گی .......    

                 آپ مجھ سے نَہیں لکھوا سکتے ......


میں نے دو تین مرتبہ کے اصرار کے بعد انکار کردیا .. ... میری عادت تھی نعت لگا کے سوجایا کرتی تھی .... اللہ جانے کیا ہونے لگا ....مدہوشی چھانے لگی اور قلم کیا لکھتا؟ کیسے لکھتا؟  میں صبح اٹھا کرتی تھی تو دیکھتی کہ میں نے کوئی تحریر لکھ رکھی ہے جو میں نے لکھی بھی ہے کہ نَہیں ... میں نے ان کو کہا ..


آپ کے پاس موکلات ہیں ... آپ کے پاس شکتیاں ہیں ..آپ خود چل کے آتے ہیں ...مجھے لکھوا دیتے ہیں...مجھے تو اردو آتی ہی نَہیں ... اگر یہ سب میں نے لکھا ہوتا تو میں اپنے لکھے الفاظ کی لغت کیوں تلاش کرتی؟ مجھے اپنے لکھے لفظ  لگ رہے ہیں .... یہ آپ کا لکھا ہے ....آپ کا ہے ...جو چیز آپ کی ہے وہ میری کیسے ہوسکتی ہے ... آپ کا کمایا میرا نَہیں ... آپ اپنا علم اپنے پاس رکھیں ...میں تب لکھوں گی جب خدا مجھ سے لکھوائے گا .....


میں نے چند الفاظ ایسے لکھے ..

                 درد کے میں سوت کاٹوں!

                 یا غم  کی رات کاٹوں!

                   خون بہتا کیسے دیکھوں؟ 

                  پےسہوں مخمور ہو کے ؟

                  رقص بسمل کا کرنے لگی 

                   مور کی مانند ناچنے لگی 

                     ''تم'' سنو فریاد میری!

                    نالہ غم کس سے کہوں؟

                   ''تجھ'' بنا کیسے رہوں میں ؟

                    لوگ قصہ عام کرنا چاہتے ہیں!

                     اور مجھے بدنام کرنا چاہتے ہیں!

                    خود تو محوِ عشق ہیں ''وہ'' !


میں چونکہ وارداتِ قلبی کسی کو بَتا نَہیں سکتی تھی. میں نے گرچہ بتانے کی کوشش کی تھی ...میں نے اپنے دو تین احباب کو بَتایا کہ یہ ایسے شخص ہیں جو بُہت پراسرار ہیں. یہ میرے گھر میں بھی آجاتے ہیں ...یہ مجھے لکھوا جاتے ہیں ...مجھے سب احباب نے کَہا کہ وہم ہے سر پر سوار کرلیا ہے. تمھارا ماضی تمھیں تنگ کر رہا ہے. کسی دکھ کا تم پر اثر ہوگیا ہے ... مجھے جب مایوسی ہوئی تب میں نے ایک نیٹ ورک کے روحانی بابا سے پوچھا کہ بتائیں یہ سب کیا ہے .... 


         روحانی بابا بولے اسکائپ پر آؤ .......

           میں نے کہا میں نہیں آسکتی.......

         کہنے لگے:  یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نَہیں جاتا 

    میں نے کہا:  شاہ صاحب بھی یہی کہتے 

        محبت کے لیے کچھ خاص دِل مخصوص ہوتے ہیں 

           یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاتا 

            کیا آپ شاہ صاحب کو جانتے ہیں؟ 

           کیا انہوں نے میرے بارے میں آپ کو بتایا ہے اس لیے آپ ایسے لفظ دہرا رہے ؟ 

     جس کے آگے وہ اپنے جلال میں آگئے اور میں وہاں سے بھاگ لی 


میں نے لکھا تو مجھے سے بیشتر لوگ پُوچھا کرتے آپکا اِمام کون ہے؟ مجھے تصوف کی الف، ب کا علم نَہیں تھا ...  لوگ پوچھتے آپ کس سلسلے سے؟  وہ پوچھتے کس کی اِجازت سے لکھ رہی ہیں؟  


بٹیا جی:  آپ کی نسبتِ اویسی ہے ... نسبتِ اویسی کیا ہے؟ آپ جانتی تو ہیں ...جنابِ اویسِ قَرنی کو .... فاصلوں پر رہتے کیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف رہے. آپ کی روح براہ راست جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت میں ہے ... آپ سے جو پوچھے ...آپ اسکو بَتا دیا کریں .... میرے مرشد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ........

 

مجھ سے بیشتر لوگ سوال کرتے تو میں جوابا یہی جواب رٹا رٹایا دے دیا کرتی. جس پر انگلی اٹھا دی جاتی کہ یہ نری گمراہی ہے. بِنا سلسلے کے، بنا تسبیح کے، بنا ذکر کے، بنا پیر کے ان کی بات کرنا ....


             میں نے یہی سوال کیا

   بابا جان:  لوگ مجھے گمراہ کہتے ہیں، کیا میں گُمراہ ہوں؟ 


بابا جان بولے: بٹیا جی!  اویسیت کیا ہے؟ اویسیت نام ہے کھوج و جستجو کا. وہ کھوج و جستجو جس کو بنیاد بَنا کے جناب ابراہیم علیہ سَلام نے خُدا کی تَلاش کی ....  وہ کھوج و جستجو جس کی نسبت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غار حرا میں تفکر و گیان میں رہے. اویسیت نام ہے کھوج و جستجو کا .....  

یہ جو قلم سے لفظ بکھرتے ہیں آپ کے....... یہ ایسے نَہیں بکھرتے ..... کوئی غالب تو کوئی اقبال ہوا .... کسی کو روم میں شمس مِلا ... کوئی رانجھا ہیر کے لیے دلگیر ہوا ...... یہ آپ کا بَراہ راست انسلاک ہے ..... جو بیعت کا پوچھے ان سے کہیے 


            عشق کا کوئی امام نہیں ہوتا 

               عشق کا کوئی سلسلہ نہیں ہوتا  

                عشق  کا رہبر خدا خود ہوتا ہے


ان سے پوچھیں: جناب مریم علیہ سَلام کا تعلق براہ راست اللہ سے تھا جبکہ جناب زکریا علیہ سَلام وقت کے نبی ان کے ساتھ تھے ... ان کو خدا نے وَحی کی .... جناب ابو بکر صدیق کو اس وقت رہبر کون تھا جس وقت معراج کی تصدیق آپ نے کی ...  جناب رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے مربی جناب بو طالب تھے مگر وہ یقین کہاں سے آیا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر ان کے ہاتھ پر سورج دوسرے پر چاند رکھدیا جائے تو تبلیغ نہ چھوڑیں گے .... یہ جو ذکر و اذکار یا سلاسل ہیں ...یہ سب ایک ہی بات کرتے ہیں ...

                      اپنی چھوڑ دو....

                ایک کے ہو جاؤ .....

            اس کے لیے اسوہِ حسنہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرنا ہر طریقہ سکھاتا ہے ......   

                  یہ ذکر و اشغالات .....

            میں تو ان کے حق میں ہی نَہیں 

           نکل کر خانقاہ سے ادا کر رسمِ شبیری ...........

         عمل سے غافل ہوا اور کیا تسبیح کا بَہانہ.........

0 تبصرے: