جمعہ، 17 مارچ، 2023

چوبیسویں نشست: مرشد کون مرا

0 تبصرے

​بیسویں نشست: میرا مرشد کون ہے؟ 


مرشد سچا شکل صورت دا ہوندا 

مرشد عشقہ دی مورت جیا ہوندا 


سید نایاب حُسین نقوی جب اور جس طرح مجھے مِلے .... وہ تو ایسے ملے ....


 وہ آئے، مجھے دیکھا اور ان کی ہوگئی 


جب شاہ صاحب سے بات کی ابتدا ہوئی تو بظاہر اسکی وَجہ معلوم نَہیں تھی کیونکہ میں تو اپنی بات اللہ سے کرتی تھی.... مجھے احساس نَہیں تھا طلب کا تعین اس کے بھیجے گئے نمائندے سے ہوتا ہے کہ دعا مقبول ہوئی یا نَہیں ....مجھے ان سے شدید قسم کی کشش پیدا ہوئی..... میں نے اُن سے کہا کہ ایسی کشش تو میں نے کبھی کسی سے بات کرتے محسوس نہیں کی. آپ کے پاس کچھ ایسا ہے جو آپ مجھ سے چھپا رہے.... میں نے ان کو بتایا کہ میں نے ان کو اپنے گھر دیکھا ہے چلتے پھرتے مگر وہ مجھے ہی دکھائی دِیے .... 


میرے درون میں تعظیم کیساتھ ایک شدید قسم کا ڈر پیدا ہوگیا کہ یہ پراسرر انسان ہیں. ان سے بَچ کے رہنا چاہیے ....میں ان سے دور بھاگتی ....وہ اتنی کشش........ مجھے ان کے قریب لاتی رہی ....میں نے ان کے سامنے ماجرائے دل رکھا .... ان سے کہا کہ میرا تو رنگ کالا ہے ....آپ کا رنگ بھی کالا ہے ...مگر آپ کا سیاہ رنگ مقناطیسی ہے ...آپ کے دل کا قطب نُما مجھے کھینچ رہا ہے ..


قطب نمائی ان کی اُجاگر ہوگئی .ان کے مقناطیس یا جوہر ذات سے جُڑ گئی بِنا کسی تسبیح کے، بِنا کسی وظیفے کے،بنا طریقے کے، فاصلے درمیان .... مگر ملتان اور سعودی عرب کے بین بین ایک اور دنیا بھی ہے جَہاں عالم امر کے حجاب نَہیں ہوتے .... شعوری دنیا میں رہتے اس تحت الشعور کی دنیا میں رہنا کسی جگر سے کم نَہیں مگر یہ حوصلہ، یہ قوت، یہ طاقت مرے شاہِ من مرے دلدارِ من نے مجھے عطا کی ....


میں نے پوچھا آپ کون ہیں؟  

فرمانے لگے: میں ملامتی ہوں ... آپ اویسی ہیں 

یا تو اویسی ملامتی ہوجائے یا ملامتی اویسی ہوجائے 


میں ان کی بات سَمجھ نَہیں سکی ....میرے سَر سے گزر گئی .... اویسی تو جناب اویسی قرنی تھے مگر نہ تو وہ دور موجود ہیں نہ وہ بارگہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں رہنے والے .......جوہر ذات سے جڑ جانے کے بعد نئی دنیا کے منکشف ہونے والے اسرار کو انعامات ربی سمجھنے کے بَجائے میں ان پر گُمان کرنے لگی کہ یہ کچھ کر رہے ہیں ....


میں بولی:  یہ سب آپ کر رہے ہیں .... میں نے زندگی میں فقط دو خواب دیکھے اس کے علاوہ مجھے حسرت رہی کوئی خواب کوئی نوید ہو ....


وہ فرمانے لگے: میں جب *لا* کہتا ہوں تو *الا* میں جو ہےاسی کی پھونک سے عدم سے وجود میں آتا ہوں .... کبھی مجھے *فاعل* کیا جاتا ہے کبھی *مفعول* کیا جاتا ہے .....*فعل* کیا ہے؟ 


اتنی مشکل و پیچیدہ باتیں سمجھ میں نَہیں آتی 

آپ آسان الفاظ میں سمجھایا کریں 


بٹیا جی!  وقت کھول دیگا آپ پر سب گرہیں ...سوچ کے سب در وا ہوتے جائیں گے .....


وقت اور تبدیلی .... وقت یعنی دو اور ماہ گزرے تو انقباض کی شدید کیفیت طاری ہونے لگ گئی چونکہ شاہ صاحب نے خود کو رہنما declare نَہیں کیا تھا ... یہی فرمایا تھا 


*آپ کو استاد مِلے گا،  اس کے کہنے کے مطابق آپ کو خوراک کھانی ہوگی  ، وہ جیسا کہے اسکی سننا ہوگی * 


اس لیے میں شدید کشمکش میں آگئی ....میں ان سے کہا* آپ مرے مرشد ہیں * 


مرشد کون ہوتا اسکی الف، ب کا علم نَہیں تھا .....مگر میں اتنے شدید کیفیات کے زلزلے میں تھی کہ مجھ پر بیت کیا رہا ہے. اگر شاہ صاحب خود کو استاد اس وقت declare کر بھی دیتے تب میں نے بھاگ جانا تھا ... کیونکہ میرا ارادہ کسی ایسی راہ پر.چلنے کا نَہیں تھا ..... میرا ارادہ تو تھا خدا مری گھتیاں سلجھانے والا بھیج دے کوئی ... خدا نے two in one تحفہ بھیج دیا ...جس کی قدر خدا خود کروائی  .....


میں نے ایک سوال اس انقباضی کیفیت میں سامنے رکھدیا ....


بہت دنوں سے ایک سوال نے پریشان کر رکھا ہے ، اس سوال نے دل میں عجیب سی تڑپ پیدا کردی کہ اب کسی جواب سے سوال کی تشفی نہیں ہورہی کہ ایسا ہے کہ لگتا ہے دل پگھل کر باہر نکل آئے گا۔۔۔یوں محسوس ہوتا ہے روح بدن کے پیرائے سے نکلنا چاہتی ہے اور نکل نہیں پاتی ۔۔ اس جستجو میں میری روح مجھے بڑا پریشان کرتی ہے ۔۔۔ میں یہ لکھ بھی تڑپ میں رہی ہوں کہ مجھے پرواہ نہیں آپ کیا کہتے اور کیا جواب دیتے ....... ، بس دل میں ایک آگ ہے ، میں چاہتی ہوں وہ آگ اتنی بڑھ جائے اور مجھے جلا دے اور کچھ نہیں رہے مجھ میں ۔۔  میرا مطمع نظر کیا ہے وہ میں جانتی ہوں اور مجھے منزل سے دوری محسوس ہوتی ہے۔۔رہنما کون ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔؟ یوں لگتا ہے میں منزل جس کا سوچتی ہوں مجھے مل جائے گی اور کبھی اتنی مایوسی ہوتی ہے کہ نہیں ملے گی ۔۔جب مایوس ہوتی ہیں دل بہت تڑپتا ہے ۔۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا جب سے میں نے لکھنا شروع کیا۔۔۔یہ حالت ہوگئی ۔۔ اس پر تحقیق کی میں نے ایسا  کیوں ہے ۔۔۔ جواب جو پایا کہ لکھنے سے انسان لاشعور کے قریب ہوجاتا اور اس کے بعد تحت الشعور تک رسائی ہوتی۔۔۔۔۔کیا اسکی دوسری صورت یہی ہے کہ میں *معمول* معمول رہی  کیونکہ لاشعور عمر کا وہ حصہ یاد دلاتا ہے جب آپ بالغ ہو رہے ہوں یا اس سے بھی چھوٹے  اور تحت الشعور پیدائش کے بعد کے حالات سے اور پیدائش کے بھی ۔۔۔۔


میری منزل کیا ہوگی ؟

میں جو حاصل کرنا چاہتی مجھے ملے گا؟

یقین کی حالت ڈگمگاتی کیوں ہے ؟

میں اتنی بے چین کیوں ؟


دکھ کی تشریح تو میں نے کردی مگر تعبیر کون دے گا اور یہ تعبیر کتنی درست ہوسکتی اور میں یقین کی منزل کیسے  طے کر سکتی ہوں ایک لمحے کو دل میں معصم ارادہ اور یقین کامل اور دوسرے پل یا اگلے دن کیفیت برعکس ۔۔۔ پھر اس سے اگلے دن کامل یقین۔۔۔ یہ تو وہ بات ہوئی ایک مسلمان کے دل میں دو قلب سما نہیں سکتے ۔۔یا تو یقین ہو یا بے یقینی ۔۔یہ یقینی اور بے یقینی کے بین بین کی کیفیت کیوں ؟ اس کو ختم کرکے آگے کیسے جاؤں ۔۔


اور اگر جھوٹ ہے کیفیت  تو میرے اندر کا سچ کیا ہے ؟


میری محترم بٹیا

یہ جو سوالوں کے جھنجھٹ نے آپ کو گھیر لیا ہے ۔ اور آپ پریشان ہو چکی ہیں ۔

ان سوالات کے جواب پانے کی جستجو میں آپ تنہا نہیں ہیں ۔ اک زمانہ ازل سے ان سوالات کا اسیر ہے ۔

ہر روشن روح جو اس کائنات کے بارے غورفکر کرتی ہے ۔

خالق کے منتخب کردہ بندوں کے ذریعے ابن آدم تک پہنچنے والے خالق کے پیغامات

" جسم خاکی " میں مقید " کثافت و تاریکی " کی اسیر اس روح روشن کے لیئے

اپنی اور کائنات کی حقیقت سمجھنے اور جاننے کے لیئے مفید و معاون ہوتے ہیں ۔

حقیقت تک پہنچنے کے اس عمل میں اک " عنصر " بہت اہمیت رکھتا ہے ۔

جسے " یقین کامل " کہا جاتا ہے ۔

یہ یقین کامل اپنے ہاتھ سے بنائے گئے بتوں سے مراد پا لیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قران پاک جو کہ خلاق العظیم کی جانب سے اپنے بندوں تک بھیجے جانے والے تمام پیغامات کا مجموعہ عظیم ہے ۔

اس میں دانائی کی حامل روحوں کی علامت " غوروفکر " میں مصروف بتائی گئی ہے ۔

غور و فکر صرف سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لیئے ہی کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


رہنما کون ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔؟


یہ آپکا سوال ہے.....


آپ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دونوں جہانوں کے لیئے رحمت بنا بھیجا گیا ہے ۔

آپ جناب علیہ السلام ہر اک کے رہنما ہیں جو بھی ان کی ذات پاک پر درود بھیجے

اور ان کے بارے قران پاک میں بیان کردہ اسوہ حسنہ کو اپنا عمل بنا لے ۔ وہ آپ کی رہنمائی میں ہے ۔

ان شاء اللہ


آپ کا سوال: میری منزل کیا ہوگی ؟

میں جو حاصل کرنا چاہتی مجھے ملے گا؟


سچے علیم الحکیم کا یہ فرمان مبارک ہے کہ

انسان کے لیئے وہی کچھ ہے جس کے لیئے اس نے کوشش کی

اور وہ اپنی حکمت سے خوب باخبر ہے


یقین کی حالت ڈگمگاتی کیوں ہے ؟

میں اتنی بے چین کیوں ؟


اس سے کسی بھی حساس روح کا مفر پانا ناممکن امر ہے ۔

یہ ہر حساس روح میں پایا جانے والا احساس ہے ۔

جو اسے تلاش حق میں مصروف رکھتا ہے ۔۔۔


یوں لگتا ہے میں منزل جس کا سوچتی ہوں مجھے مل جائے گی اور کبھی اتنی مایوسی ہوتی ہے کہ نہیں ملے گی ۔۔


جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

نیت خالص کوشش پیہم اور اللہ کی حکمت پر راضی رہنا ۔۔۔۔۔۔۔۔

مایوسی کو پاس نہیں آنے دیتا ۔

امید زندگی اور مایوسی کفر ہے ۔۔۔۔۔۔

اللہ سوہنا آپ پر رحم و کرم فرمائے آپ کو نیت کی سچی مراد سے نوازے آمین ۔

بہت دعائیں

0 تبصرے: