جمعہ، 17 مارچ، 2023

نشست:۲۸ قسط: توحید

0 تبصرے

14 Episode 

Tahweed


ایک ایسی نشست میں، میں نے شاہ بابا سے سوال پوچھا کہ شرک کیا ہے؟ مشرک کون ہوتے. سورہ التوبہ میں مشرکینِ مکہ کو حج سے متعلق فرائض ادا کرنے سے روک دیا گیا تھا 


تو مجھ سے کہنے لگے پُتر تو نے سورہ الاخلاص پڑھی 


میں نے کہا:  جی بابا 


تو کہنے لگے کہ کیا ملا، کیا پایا؟ کچھ فہم و درک ملا؟ 


میں نے کہا اس میں اللہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اقرار کرنا ہے وہ اللہ ایک ہے. اس کے سوا کوئی معبود نہیں 


کہنے لگے پتر یہیں رک جا 


میں نے کہا بابا، ابھی تو رہتی ہے


فرمانے لگے 

قل ھو اللہ احد.....  

کیا کہا جارہا ہے


میں نے کہا یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہا جارہا ہے ....


قرآن پاک تو نازل ہوچکا اور ترتیل بھی .... آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر 


اس کی ترتیل و نزولِ حرف عین اطلاق ہر اس روح پر ہوتا ہے جو اس کی محبوب ہوتی ہے .......


آپ قرآن پاک اس طرح سے پڑھیں جس طرز ایک محب و محبوب کے درمیان کا مکالمہ ہوتا ہے ..... 


اب بتائیے خدا آپ کو کیا کہہ رہا ہے؟  آپ خدا کی محبوب روح ہیں ... ہر روح اس کی محبوب ہے. یہ محب و محبوب کے درمیان مکالمہ ہے

میں نے کہا خدا کہہ رہا ہے ............

کس کو کہہ رہا ہے؟ وہ گویا ہوئے 

میں نے کہا مجھے ...


کہنے لگے آپ کون ہیں 


میں خاموش  ہوگئی


کہنے لگے مجھے 


آپ نفس ہیں 

جوہر ذات آپ کے نفس سے مخاطب ہے 

ذات آپ کو کہہ رہی ہے کہ نفس اقرار کرے 


اللہ ایک ہے


نفس کیسے اقرار کرے گا؟  نفس تو قلب میں مقید حسیات کا پابند ہے؟ یہ اپنی پانچ حسیات کو استعمال کرتے اپنے ہر عمل کو ذات کے بعین میں ڈھالتا جائے ..قرآن پاک کے احکامات جس میں ذات نفس سے مخاطب ہے اور وہ فرماتا ہے


سورہ الفجر میں ....

اے روح اطمینان والی.

تو لوٹ اپنے رب کی طرف راضی ہونے والی پسندیدہ.

پس تو داخل ہو میرے بندوں میں.

اور داخل ہو میری جنت میں.

سورۃ الفجر (89)

آیت 27-30


نفس کا وہ درجہ وہ ویسا ہوجاتا ہے جیسے خدا کی منشاء ہوتی ہے 


میں نے پوچھا خدا کی منشاء کیا ہے؟ 


فرمانے لگے کبھی پالتو جانور پالے؟ نہیں پالے بھی تو عام مشاہدہ ہے کتے کو اس طرح ٹرین کیا جاتا ہے وہ مالک کے کہنے پر دوڑتا ہے،بھاگتا ہے اطراف میں، اس کے اشارے پر بھونکتا، اس کے کہنے پر کھانا تک کھاتا ہے. اک جانور مالک کا کتنا وفادار ہوتا ہے وہ مالک کا ریموٹ کنٹرول بن جاتا ہے


میں نے کہا آپ کی مراد ہے اللہ فرما رہا ہے 

کہ میں اس کی ایسے مطیع ہوجاؤں جیسا کہ وہ فرماتا ہے؟  میں تو ایسے ہی کرتی ہوں


آپ ابھی علم و مطالعہ نہیں رکھتیں مگر بہت جلد آپ کے پاس ایسے جاری رہنے والے علم کی ترسیل ہوگی کہ کسی سوال کا جواب تشنہ نہ رہے گا .... 

آپ کی فرمانبرداری جنت و دوذخ تک محدود ہے 

آپ کی اطاعت محض اس کے لیے نہیں ہے وہ آپ کو اشارہ کرے ... آپ کو اشارہ سمجھنے کے لیے دل سے باتیں کرنا پڑیں گی. دل والے کو.سچا یار بنانا پڑے گا. جیسا وہ کہے ویسا کرنا پڑے گا


دل .... 

دل؟  دل سے باتیں کیسے ہوتی ہیں؟  


یہ کتنا مشکل کام ہے کہ میں ایسے بات کروں تو سب کہیں گے یہ تو پاگل ہے


یہ دنیا ہے دِل والوں کی .....  

دل جو دھڑکتا ہے دو چھٹانک کا لوتھڑا .... رکھتا ہے خود میں پوری کائنات .... یہیں پر خدا موجود ہے ...دل سے بات کرنا خدا سے بات کرنا ہے


اس سے بات کریِں ...

رنگیلی چوکی پر بٹھا کر برتن دھلوا لیا کریں 

سارے درد دکھ اسکو دیا کریں 

اسکی سنتی جایا کریں 

وہ تھامتا ہے بڑھ کے 

دلوں میں مکین ....

مکان کو گھر بناتا ہے

جب آپ دل والے کے اشاروں پر ناچنا شروع کردیں گی تب توحید مکمل ہوجائے گی 

تب کوئی غم، غم نہیں رہے گا .... 

قرآن سارا عمل کے لیے ہے. نفس جب تک روح (ذات) کا مطیع نہیں ہوجاتا تب تک اطاعت نہیں ہوتی. نفس جب تک ذات کے بعینہ آئنہ ہوتا جاتا ہے بعد اطاعت کے دوئی نہیں رہتی. تب نفس اور روح یکجا مثل آئنہ ہوتے سچ حق دیکھتی ہیں .... یہ وہ تلاش ہے جو باہر نہیں بلکہ درون کے نہاں خانوں میں مکمل ہوتی ہے 


یاد رکھیے 

اللہ آسمان پر 

رسول زمین پر 


وہ فرماتا ہے اللہ آسمانوں زمین کا نور ہے ... 

نفس جب سراپا نور ہوجاتا ہے تب فرق نہیں رہتا 

تب جنت و دوزخ کا فرق نہیں رہتا 

تب فراق و وصال کی گردش نہیں رہتی 

تب صبح و شام کا فرق نہیں رہتا 

تب تنگی و فراخی کا پیمانہ اس کی مرضی سے طے ہوتا ہے 

پھر وہ آزماتا ہے ... 

یہی ایک آیت توحید کی طاری ہو جائے تو زندگی بھر کے لیے کافی ہے 

جب رب خود فرمائے گا 

کہو اللہ ایک ہے 

نفس یہ کہتے خود ضم ہوچکا ہوگا 

پروانہ شمع پر فدا ہوتے شمع میں گرچکا ہوتا ہے 

جب دونوں ایک ہوجاتے ہیں تو توحید مکمل ہوجاتی ہے 

جو ایک نہ ہو پائے وہ مشرک ہے ..اس نے شرک کیا ..


خدا کے کتنے بت بنا لیے 

صورت اولاد 

صورت مآل 

صورت دنیا 

صورت صنم


کسی بھی انسان کو کس موڑ پر اللہ کہے گا 

کہو ... اللہ ایک ہے 

میں نے سوال کیا

یہ بہت اہم سوال ہے بٹیا جی 


جب آپ کے اندر بُت ختم ہوجائیں گے. آپ کے اندر خدا کی وہ صورت باقی رہے گی جس پر جناب آدم علیہ سلام خلق کیے گئے تھے 


میرے اندر بت؟ 

وہ کیسے؟ 


ہر انسان اپنے*ہونے* کے معیارات بناتا ہے. اس کے ہونے کے*معیارات* بتان تشکیل دیتے ہیں ..جیسے پارسائی کا زعم... جس کی وجہ ہم خود کو یا غیر کو معاف نہیں کرتے جبکہ اللہ کرچکا ہوتا ہے،  مال و دولت وجاہ کا بت،حسن و جمال کا بت، عالم ہونے کا بت، اچھے ہونے کا بت،  برے ہونے کا بت، پاک و ناپاک ہونے کا بت....


ایسے بے تحاشا بت اندر جھٹکے در جھٹکے سو ٹوٹ جاتے ہیں اور وہ براجمان ہوتے کہتا ہے 

کہو *میں* ایک ہوں 

تب آپ ایک ہوچکے ہوتے​

0 تبصرے: