منگل، 14 مارچ، 2023

نشست ۱۵ : اپنی ذات سے عشق سچا باقی سب افسانے

0 تبصرے

​نشست نمبر ۱۵ 

اپنی ذات سے عشق سچا ،باقی سب افسانے 


میں نے بابا سے کَہا کہ مجھے آپ کی بیٹی والی رمز سَمجھ نَہیں آتی ہے .... مجھے اتنا پَتا کہ محبت پیاس کی مانند ہے. اگر آپ کو آپکی گوہر مراد نَہ ملے تو آپ کے پاس مرنے کے علاوہ کوئی چارہ نَہیں رہ جاتا ہے...........


پیاس کے لیے کیا دَر دَر مارے پھرنا .... 

ایک در کے ہوجاؤ.... 

وہیں در پہ بیٹھ جاؤ کہ مالک دروازہ کھولے ... 

پیاس و تشنگی سب کی سب اندر سے بجھتی ہے 

بٹیا جی!  کچھ نَہیں ہے

سب کچھ اندر ہے ....

اندر والا جب کنڈا کھولتا ہے تو ساری باہر والی محبتیاں پھُل جاندیاں نیں ... .


میں نے جواب دیا.... بات ایک محبت کی نَہیں ... جب انسان کو بار بار ریجیکشن کا سامنا کرنا پڑے، تب احساسِ ذلت نفس پر کوڑے کی طرح بَرستا رہتا ہے.... مجھ سے پہلی نظر کی محبت کی کوتاہی ہوئی سو ہوئی  ، کوئی آپ کے پاس آکے محبت کا دعوی کرے..... میرے ساتھ بھی ایسا ہوا...


دوسری بار... .


لوگ کہتے ہیں کہ اگر محبت نَہ ملے تو اسُکے ہوجاؤ جس نے آپ کے چرن چھوئے ہوں ... میرے چَرن چھونے والا مجھے دیوی بَنانے آیا.... جب اس نے دیکھا میں دیوی بَن گئی ہُوں تب مرے دیوی بننے کے پرمان کو بنا کسی دوش کے پاش پاش کردیا.... میری اَنا پر ایسی کاری وار لگی کہ اپنے ہونے کا احساس بھول گیا سید .. ...زندگی میں بے معنویت نے رَس تو بری طریق سے گھول دِیے تھے ....اس پر تنہائی کی مار نے قریب المرگ کردِیا.... خدا کا مہربان تصور چھن گیا ... غضب ناک دیوتا بَن گیا .... سَماج کا رویہ مرے خدا کو جنم دے گیا .... سَماج کے آئنے سے خدا کبھی تخلیق ہوا ہے کبھی؟


پھر سّید جی کیا ہوا....


ایک اور شخص آن وارد ہوا... پہلے کیطرح محبت کا دعویدار.... بچپن سے تو محبت کے دعویدار ایسے دیوار سے نکل آئے جیسا کہ چوہے بِل سے نکل آتے ہوں..... دعوی بھی کرکے بھاگ گئے.... 


بولا: بھاگوان ہے تو...

عمرہ کرنے کے دوران خانہِ کعبہ میں بیٹھ کے رب سے کَہا:  تحفہ عنایت کردو...

سید جی: وہ کہتا تھا کہ خانہ کعبہ کے مَکین نے ترا خیال جھٹک سے دِل میں ڈال دِیا.... پھر اس نے بُہت چاؤ مان سے خود سے منسوب کیا.... شادی کے قریب قریب دھتکار کے چَل بَسا.... مجھے توڑ کے،

بابا جی .... 

جیسا کسی کھلونے کو توڑتے 

میری نفسیات کے دھاگے خلط ملط کردیے

اس نے اتنی تحقیر کی 

میں نے اس کے قدم چوم لیے کہ محبت کا جنازہ نَہ نکلے

وہ جھٹک کے چَل دِیا.....

اس نے ایسا گُمان کیا کہ یہ عام سی بات ہے  وہ مغرب زدہ ثقافت کا متاثر جس کے لیے عیش و عشرت کی زندگی عورت کے بِنا ممکن نَہ تھی ...شراب و کباب کے ساتھ زندگی گُزارنے والے کے لیے کسی کو چھوڑنا معمول کی بات تھی... میرے لیے اُس سے تعلق کا ٹوٹ جانا جیتے جی مرجانے والی بات تھی....

پھر میں مَر گئی .... جاں بَلب مردہ .....

بیہوشی ... موت کا سکتہ طاری ہوگیا....


 

کچھ دیر کو خاموشی طاری رَہی .... .

جیسے استاد،مربی چھوٹے بچے کی کیفیت جانچ و پَرکھ رَہا ہوتا ہے.....خاموشی کے ایسے لمحات میں خیال وحدت بَن کے نقاشِ اول کی مصوری کو تکتے ہیں ... نور نے جب نقاشِ اول کی مصور کو بصورت انسان میسر پایا تب اس کے اندر اطمینان لازمان و لامکان سے در آیا.... 


کہنے لگے 


سوہنی من موہنی بٹیا جی 

میں کہ اک ٹھگ ... 

ٹھگوں کا ٹھگ .... 

وہ شخص آپ کی محبت کے قابل نَہیں تھا...

اس محبت کو عشق میں بدلا .... 

آپ کو جس نے دھتکارا ...

آپ نے بیک وقت اسی کے خیال سے محبت بھی کی... 

اسی کے خیال سے نفرت بھی کی ہے.....

لیکن نفرت و محبت کے جذبے کے ساتھ ساتھ وہ آپ کے خیال میں موجود رہا ہے.محبت ایک تسبیح کی مانند ہے جس کے ہونے سے سرشاری کے نغمے پھوٹتے ہیں ... آپ نے اپنی محبت کی مانگت میں مانگا کیا؟  محبت؟ یہ محبت کی توہین ہے. اگر وہ محبت کے جواب میں نفرت دے گیا تھا تو نفرت کو ایسے قبول کرنا تھا جیسا کہ وہ محبوب کے آنگن سے آئے گلدستے خوشبو چھوڑتے ....یہ کام آسان نَہیں ہوتا.اس لیے ہم جان نہیں سکتے محبت ہے کیا.... محبت چاہے جانے کا نام ہے ...محبوب کی تسبیح کرنے کا نام ہے کہ وہ اچھا کرے یا برا....آپ کا جواب محبت ہو... جو اس کے پاس تھا وہ اس نے تجھے دیا.. ترے خدا نے تجھ سے اسکو محبت دلوائی ..


بھول جائیں اسے....

اسکی یاد کو....

جو دکھ دیے اس نے...

وہ بددعا واپس لیں جو آپ نے اسکو دی....

دعا دیں اسکو...

یاد رکھیں بٹیا جی  ..

ہم دعا دینے والوں سے ہیں ...

بددعا دینے والوں سے نہیں ....

معاف کرناجب مشکل ہونے لگے تو طائف کا وہ منظر یاد کیجیے گا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لہولہان تھے ... خون بہہ رہا تھا.... مٹی خون جذب کررہی تھی..... اس وقت قادر مطلق کو جلال آگیا....آپ نے ان کے لیے کیا کیا؟ دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے ... ان کی آنے والی نسلوں کے لیے....ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتے معاف کرنا ہے .... دعائیں دینی ہے...یاد رکھیے گا یہ کائنات دعا سے چل رہی ہے....  


میرے ذہن کے آگے ان کے کہتے کہتے وہ منظر گھومنے لگا....جیسا سیدی بولتے گئے.... وہ بولتے گئے...  میرا دل صاف ہوتا گیا....میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چشم تصور سے طائف کے میدان میں پتھر کھاتا دیکھ رہی تھی ...لہولہان ہوتے...... اور ان کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھ گئے تھے ....


.دعا نکل گئی ...... بددعا پر شرمساری ہوگئی

انسانی نفس کی خباثت و کمینگی یہی ہے کہ وہ بددعا پر اتر آئے اور امتی ہونے کا دعوی کرے ...ان سے عشق کا دعوی کرے مگر اتباع محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بہت پیچھے ہو....

اس وقت مجھے اپنے نفس کی کمینگی کی پہچان ہوئی 

میں نے شاہ صاحب سے یہی بات کی تو کہنے لگے


آپ بہت نادان ہیں ...اللہ کی مخلوق(خود میں) کجی ڈھونڈ رہی ہیں .... خود کی بھی معاف کریں ہر گناہ کے بار سے اور دعا دینے والوں میں رہیں

0 تبصرے: