چوتھی نشست:
قارئین!
کیا آپ کو لگتا ہے کہ داستان میں لکھ رَہی ہوں؟ میں تو خود بھی حیران ہوں کہ اس دِل میں صَدا مجھے چابک لَگاتے کہتی ہے: چَل لکھ
میں خود سے پوچھتی ہوں کیسے؟
صدائے دل ادائے بے نیازی سے یہ جواب دیتی ہے
لکھ وہ سچے فسانے، وہ امانتیں
احسان(محبت) کا بدلہ (احسان) ہے
فاذکرونی .....
اس کے محبوب کا ذکر کر.....
میں نے شدت مجبوری میں قَلم اُٹھایا ہے جس کا لِکھا حرف حرف حقیقت پر مبنی ہے
آپ فیصلہ کیجیے گا کہ میں سید نایاب حسین شاہ نقوی عرف شاہ بابا رحمتُ اللہ کا ذکر کرپائی جیسا کہ یہ صَدا للکار رَہی ہے
کیا آپ اِسے عشق کا نام دیں گے؟
کیا ہے عشق؟
یہ داستان میں نہیں لکھ رہی ہوں بلکہ شاہ صاحب ،سید من،رہبرِ من،پیرِ من نے یہ لوحِ دل پر ثبت کیا ہے اسکو. بظاہر میں سُنا رہی ہوں.... یہ ہے تو میری ہڈبیتی مگر صدا مجھ میں انہی کی ہے. زمان و مکان سے پرے کا یہ ساتھ، اس ساتھ کو قلم لکھ رہا ہے........ میرا اُن سے ساتھ اَزل سے ہے اور اَبد تک منسلک رَہے گا.....
. پہلی ،دوسری نشست اور تیسری نشست کا حاصل "احساس زیاں " کی آگ تھی. اس آگ کو ایک تحریر نے بڑھا .جس میں تحریر تھا کہ تم اپنا قطب نُما کھوچُکے ہو مگر اندر کے خالی پَن نے تُمھیں دنیاوی جاہ اسکا اَسیر نَہیں کیا ہے اس لیے تم قابلِ احترام ہو....تم نے احساسِ زیاں کے ہاتھوں اپنے نفس کا قتل نہیں کیا .یہ احساسِ زیاں تمھارا اثاثہ ہے...سمت کو کھو بیٹھنا، منزل گم کر بیٹھنا ......یہ اس وقت تلک ممکن نَہیں جب تَلک تم اس احساسِ زیاں سے گزرتے نَہ ہو....
میں احساسِ زیاں کی سُلگتی روح جو قطب نُما کی تَلاش میں، جس کے مدار میں سیارہ، ستارہِ عشق بن کر ابھرے....احساس زیاں سے سلگتی، بلکتی روح نے حرفِ دل جانبِ قطبی مقناطیس رَکھ دِیا.... دل سیسہ، موم، بلکتی روح نے شاہ صاحب سے کَہا کہ .....
"میرا قطب نُما کھو گیا ہے ...
کعبہ ء دل میں شرک سے زمین کو بنجر کردیا ہے
ملحدانہ اطوار مرے
پاتال میں گرا ہوا طائر ہوں میں
میں "سفل "ہوں کیونکہ گہرائیاں مجھے پکار چکیں ہیں
دوذخ کا ایندھن بَنا دل جانے کس اوور جانا چاہتا ہے
کس اوور...
دل سے صدا یہی سُنائی دیتی ہے
تو اسفل ہے
تو اسفل ہے
تو اسفل ہے
چہار سو اندھیرا
میرا وجود اور احساس زیاں..
ترا مقام تو پاتال کی گہرائی ہے کیونکہ تو نے ملٹن کے شیطان کی طرح، مارلو کے فاسٹس کی طرح خدا کو للکارا تھا اور فاسٹس کی طرح توبہ کا در بند دکھا. ہر جانب اندھیرا ہے....
لٹریچر نے مری نفسیات کو اسطرح متاثر کیا. The Tragical History of Dr Fatustus میں مجھے اپنا آئنہ دکھائی دیتا تھا. فاسٹس نے فزکس میں، اور فلسفے میں ٹرینیٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہوتی ہے مگر علم کی کھوج میں کالا جادو، میٹا فزکس کا سَہارا لیتا ہے. اپنی جنت کے لیے ابدی دوذخ lucifer سے خریدتا ہے ... اور عیش عشرت کی سانسیں جب ختم ہونے لگتی تو اسکو اپنا آپ بوڑھے شخص میں دکھائی دیتا ہے جو اسکو کہتا ہے معافی مانگ لو.اسکا ایمان اس بوڑھے شخص کی تمثیل ہے کہ وہ سمجھتا ہے آخری سانسوں میں خدا کیسے معاف کرسکتا ہے. وہ مایوسی میں توبہ نَہیں کرتا اور lucifer,beilzibub اسے جہنم لیجاتے ہیں .... ملٹن کا خدا جس نے استعاراتی طور پر وقت کے بادشاہوں کے خلاف بغاوت کرتے شیطان کو آلہ بناتے لکھا
Better to reign in hell to serve in heaven
اس بغاوت میں وہ کام جس سے خدا کو اشتعال ملے میں نے کیا ...بآلاخر تھک ہار کہ میں مایوس ہوگئی ..... میں نے ہر رشتے سے بغاوت کی .... میں نے خود کیساتھ ساتھ، اپنے سے منسلک رشتوں سے زیادتی کی .... مجھے لگا خُدا اتنا ظالم ہے مجھے معاف نَہیں کریگا اس لیے میں نے خود سے نفس کو دھکا دے کے پاتال کی گہرائی میں گرا دیا .. مرے ہی نفس نے مرے نفس کے کسی حصے کو پاتال میں گرایا. جب ہم خدا کو چھوڑتے ہیں تب ہم خدا کے مقابل نفس کو خدا مانتے ہیں ..... میں نے خود کو تین چار سال معاف نَہیں کیا ...نَجانے کس اذیت میں یہ سال گزارے .... جب تلک شاہ صاحب سے واسطہ نَہیں ہوا...
شاہ بابا: ایسے کونسے گُناہ کر ڈالے جن کے سبب یہ گُمان ہُوا اور یہ کس وجہ سے گُمان کیا کہ خدا کی محبت پر اسکی قہاری و جباری غالب ہے.....انسان چاہے جتنے گناہ کرڈالے، اسکی محبت، اسکی قہاری پر حاوی ہے. مایوسی تو کفر ہے بٹیا جی! انسان امید کے سائے یہ زندگی کی جنگ لڑتا ہے اور بامراد ٹھہرتا ہے
میں تو پڑھا لکھا نہیں ہوں بٹیا جی
یہ بتائیے فاسٹس کون تھا اور کس وجہ سے راندہ درگاہ ٹھہرا
فاسٹس نے خدائی کو للکارا تھا گویا وہ خود خُدا سے زیادہ طاقتور ہے. شیطان سے آسائشاتِ زیست کے لیے معاہدہ کِیا ............جب موت کا وقت قریب آیا تو اسے احساس ہوا کہ وہ تو اک حقیر ساذرہ ہے اور توبہ کرنا چاہتا تھا مگر بے یقینی نے اسے ایسا کرنے نہیں دیا
شاہ بابا: آپ نے خدا کو للکارا مگر اس نے کبھی آپ پر نعمتوں کی بے بہا بارش کم کی؟ اس نے کبھی اپنا نام لینے سے روکا؟ مشکل میں کس کو پُکارا آپ نے؟
یقینا اللہ کو.
پتر! یاد رکھ! یہ ہم سوچتے رہتے ہیں کہ ہم اس سے بُرا کریں گے تو وہ بھی جوابا بُرا کرے گا!
سنیں!
دھیان سے ...
خُدا انسان نہیں، انسان کے اعمال سے بے نیاز ہے اور محبت دینے میں اتنا کریم ہے کہ رحمت للعالمین کو ہمارے پاس بھیجا اور ان کی محبت کی شمع دل میں جلائی
میں نے خدا سے شکوہ کیا
کیوں پیدا کیا؟
پیدا ہونا بھی جُرم تھا کیا ...!
نواز دیتے ہو اچھوں کو
بُروں کے دنیا میں گِرا دیتے ہو
پاؤں کی ٹھوکر بَنایا مجھ
تو سُنو
اب تم کو نَہیں مانوں گی
تم ہوتے تو، تو ایسا، ویسا ہوتا میرے ساتھ؟
یہ وقت جو بے رحم ہے، یہی تم ہو تو
میں تمھارے ہونے سے انکار کرتی ہوں
نَہیں ہو!
ہاں، نَہیں ہو
تم.اگر ہو تو فقط تباہی لانے والے عظیم خُدا ہو
پھر تم کو کیونکر مانا جائے
اسکو یہ انکار اچھا کَہاں لَگا تھا اور دل سے یہ صدا کسی موذن کی تلاوت جیسے اُبھرتی رہی
پاتال کی گہرائی ترا مقدر ہے
شاہ بابا: آپ کو پَتا ہے کہ آپ کا مسئلہ کیا ہے؟
خدا جب کسی کو اپنے پاس بُلاتا ہے یا قرب عطا کرتا ہے تو اس سے جناب آدم کی طرح شجر ممنوعہ کی جانب لیجاتا ہے ..تاکہ صفتِ آدمیت کو پہچان سکے....یہیں سے پہچان کا سفر شروع ہوتا ہے.. انسان شجرِ ممنوعہ نہیں چکھتا اسکا جنت سے زَمین تلک آنے کا سفر شروع نَہیں ہوتا ..... وہ زَمین جس کو آپ پاتال کہہ رَہیں اسکا احساس بھی حساس رُوح کو ہوتا ہے.... ورنہ سب جنت میں رہتے گُم یہ احساس نَہیں کرپاتے کہ وہ پاتال میں ہیں .... جب تلک انسان خطا کے کسبی و وہبی مخمصے سے نَہیں نکلتا. تب تلک اسکو نَہ خود کی اور نَہ ہی رَب کی پہچان ہوتی ہے .... جب اس کا احساس ہوجاتا ہے تب گریے کا وجود آتا ہے....
گریہ .... گریہ ... گریہ ..
ہاں! یہ گریہ ہی تو ہے جو بندے کو عبدیت کا احساس دلاتا ہے
یاد رکھیے!
انسانی روح کے سفر کا آغاز جناب آدم علیہ سلام سے شُروع ہوتا ہے! جب وہ ممنوعہ شجر کا ذائقہ چکھتا ہے اور آپ نے بھی چکھا اس لیے اب آپکو لگ رہا ہے آپ پاتال کی گہرائیوں میں ہیں! درحقیقت ایسا نَہیں ہے! آپ سے اللہ کس قدر پیار کرتا ہے، آپکو اسکا اندازہ تلک نہیں ہے!
میں دم بَخود ممنوعہ شجر کی اس جَہت پر سوچ رَہی تھی اور احساس ہورہا تھا کہ انکار و اقرار سے پرے خَدا موجود ہے . انسان انکار کرے گا تو ہی اسکو احساس ہوگا کہ اقرار و تسلیم کتنی بَڑی نعمت ہے
"بابا --- ممنوعہ شجر تو قران پاک میں کچھ اور بات بَتاتا ہے
شاہ بابا: ہر انسان کا صحیفہِ دل الگ ہے اور یہ صحیفہ اسکے لیے اسکا قران ہے. اسے پڑھنا ضروری ہے
اپنا صحیفہ کیا ہوتا ہے؟
کیا دل کاغذ ہوتا ہے؟
کیا دل میں کاغذات کا انبار ہوتا ہے؟
اور اسکو پڑھا کیسے جاسکتا ہے؟
شاہ بابا: سُن بٹیا میری!
دل کے مصحف کو پڑھنے کے لیے اُس قران پاک کو پڑھیں، جو صدیوں قبل رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ مبارک پر نازل ہوا.... اس سینہِ مبارک پر نزول شُدہ لفظ دل کے خالی صفحے پر نور بکھیریں.گے تب اندر کی دُنیا کا دَر کھُلے گا....
"بابا! دل کے مصحف کے پڑھنا کیوں ضروری ہے؟
دل کے مصحف کا قران پاک سے کیا رشتہ ہے؟
شاہ بابا نے محبت بھری نگاہ ڈالی
بولے
"بٹیا جی!
کسی بند کمرے کو کِس سے کھولا جاتا ہے؟
آپ کہیں گی، چابی سے
قران کریم ایسی چابی ہے جس سے سینہ ایسا کھلتا ہے کہ عرش تلک رسائی ہوجاتی ہے. اک مقام پھر ایسا آتا ہے کہ نہاں عیاں ہوجاتا ہے.... قرآن پاک محض صفحات نَہیں. یہ چلتی پھرتی آیات ہیں ... صورت آدم تو کہیں صورتِ شیث تو کہیں صورتِ ابراہیم تو کہیں صورتِ موسی تو کہیں صورتِ انبیاء اور جب تَمام آیات یکجا ہوتی ہیں تو در محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تلک رَسائی ہوجاتی ہے ....... ! یہ انسان چلتی پھرتی آیات ہیں ....
یَتْلُوْ عَلَیْھِمْ اٰیَاتِہِ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُبِیْنٍ
کتابِ حکمت کھولنے والا کوئی ایسا ہوتا ہے جس کی زندگی چلتی پھرتی قرآن ہوتی ہے .....
یہ الفاظ تھے یا نور کا صندوق جو سینہ میں ایسے دکھنے لگا،
مقفل صندوق
مقفل ہے
قفل کیسے کھلے گا