پیر، 13 مارچ، 2023

نشست ۷ : روح کا قطب

0 تبصرے

​روح کا قطب

حصہ سوم------


میری عادت میں اعتبار کرنا نَہیں لکھا تھا.... فطرتا میں فوری اعتبار کرلیتی ہوں ...... میں نے دھوکے کافی کھائے بچپن سے ہی ..... میرا انسانیت سے اعتبار اُٹھ چُکا تھا .... میں شاہ صاحب سے بات کرنا نَہیں چاہتی تھی کیونکہ جب ان سے بات کرتی تھی مجھے ان کی شفاف روح ایک سفید لباس میں دکھنے لگ جاتی اور اتنی تعظیم دل میں اترتی کہ مرے دل میں مشکل ہوتا کہ میں کچھ نَہ کَہوں .... اس لیے میں ان سے بھاگ جانا چاہتی تھی .... فقیر کی نَظر محبت سے پڑ جائے آپ لاکھ دامن چھڑاوانا چاہو. آپ نَہیں چھڑوا سکتے.... میں نے بُہت جدوجہد کی ...ان کو بارہا بلاک کیا،ان سے رابطے توڑے ،ان کو بُرا بھلا کَہا .... مگر وہ ایک مہربان چہرہ لیے میرے گھر میں موجود ہُوا کرتے تھے ..... مجھے اس وقت تو سمجھ نَہیں آیا مگر جو اس وقت انہوں نے کَہا 


آپ میں طاقتور ریسیور اور ٹرانسمیٹر موجود ہے ......

آپ نہ صرف جذب کرتی ہیں بلکہ جذب ہوتی ہیں ......


بآلاخر میں نے ہتھیار ڈال دِیے. میں نے پُوچھا آپ کو مجھ سے کیا کام ہے؟ میں تو آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتی .... 


کہنے لگے *تجھ میں رب دکھتا ہے* 


اس وقت مجھے ان کی بات شرک لگا کرتی ....استغفر اللہ ...مگر ان کے منہ پر میں کہنے کی جرأت نہیں کرسکتی تھی اس لیے سوچتی تھی ان کے نظریات اور ہوں گے ... میں ایسا نَہیں سمجھتی تو اللہ مجھ سے ناراض نَہیں ہوگا ......


فقیر کو ہر اس چہرے میں رب دِکھ جاتا ہے جو سَوالی ہو... جس کا دل دکھ سے لبریز ہو.... جس کی چیخیں نکل رہی ہیں مگر وہ اتنا بے بس ہو کہ کہنے سے گریزاں ...جیسے گویائی بھی سلب .... میری چیخیں گو کہ خاموش تھیں مگر وہ عرش رسا ہوگئیں تھیں ....  اس رمز کی سمجھ مجھ بعد میں آئی جب میں نے دیکھا کہ ان کو جو دُکھی ملا....ان کو اس دکھی میں رب دکھنے لگا ....جیسے جیسے وہ اپنی زندگی سہل مطمئن ہو کے بتاتے جیسا کہ وہ اپنی نہیں کسی کی بات کر رہے ہوں ... کبھی کسی کی برائی نَہیں کی ....ہاں اپنی برائی کرجاتے جہاں سے دھوکہ ملا ہو انہیں ..... وہ مخلوق کا عیب ڈھانپنے والے اپنے آپ کو ایسے ننگا کرتے کہ ان کا ستر اللہ خود رکھتا مرے سامنے ....اُن سے ابھی تک یہ سیکھنے کی کوشش میں ہوں کہ عیب دیکھنا ہے تو خود میں دیکھنا ہے ... گالی کھائی ہے تو دعا دو...اللہ کا تحفہ سمجھو ... پتھر مِلا تو بھلائی کردو....شکوہ نَہ کرو....


ان کے لفظوں میں مکمل جہان تھا--- 

ایسا نَہیں تھا یہ محض لفظ تھے ،یہ تو روح کیطرح دل میں سرائیت کردیے جاتے تھے ...... پھر میرے سامنے ایک غزل سامنے رکھی ...یہ غزل ایک مرتبہ نَہیں بار بار گفتگو میں رکھی


دیارِ نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو

کوئی تو ہو جو میری وحشتوں کا ساتھی ہو

میں اس سے جھوٹ بولو تو وہ مجھ سے سچ بولے

میرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو

میں اس کے ہاتھ نہ آوں وہ میرا ہو کے رہے

میں گِر پڑوں تو میری پستیوں کا ساتھی ہو

وہ میرے نام کی نِسبت سے مّتعتبر ٹھرے

گلی گلی میری رسوائیوں کا ساتھی ہو

وہ کرے کلام جو تجھ سے تو میرے لحجے میں

میں چپ رہوں تو میرے تیور دل کا ساتھی ہو

میں اپنے آپ کو دیکھوں وہ مجھے دیکھے جائے

وہ میرے نفس کی گمراہیوں کا ساتھی ہو

شاعر : افتخار عارف


میں نے ان کو اپنے سامنے دیکھا جیسے مرے سامنے وہ ہیں ان کے سینے تجلیات سے معمور و لبریز ہے وہ روشنی سورج کی مانند مجھ تک پہنچ رَہی .... میں نے ان کو کہہ دیا .... آپ میں وہ مقناطیس ہے جسکو جوہر ذات کہتے ہیں ... یہ جوہر مجھے اس ذات تک لیجائے گا جسکا تہیہ میں نے خود سے کیا تھا....روح نے ان کو قطب کَہا ....کہنے لگے ایک ٹھگ و چور کو آپ قطب کہہ رہی ہیں ...میں مہاچور، مہا ٹھگ ہوں ...... آپ مجھے قطب مت کَہیں میں بہت گنہگار ....میں نے کہا میں نے بھی تو خود سے نَہیں کَہا آپکو..... یہ مری روح نے کَہا ہے ... تو کہنے لگے جو آپ نے دیکھا ...جو آپ نے کَہا ...وہ آپ کی ذات کا سچ ... آپ کی اپنی بات ہے.....

نشست ۶

0 تبصرے

​نشست: پانچویں روح کا قطب 


حصہ دوم 


مجھے مذہب سے چڑ ہوتی تھی کہ مذہب کے نام پر فرقے بنے ہوئے ---- سب دین کو بیچ رہے---- یوں لگتا تھا کہ خدائی لائسنس کی بنیاد پر ایک.فرقہ اہلِ تشیع کو کافر کہتا ... سُنی فلک سے اتری قندیل ... وہابی صفائی کا وہ ستون جنہوں نے ہر مسلم کو کافر کہہ کے جہنم واصل کرنا ہے ....


 میں مذہب کی منکر تھی اس لیے سائنس کو اپنایا تھا کہ تشکیک کی بنیاد پر چلتی. دلیل سے چلتی ..... سائنس جھوٹ نَہیں بولتی نہ یہ حقائق کا چورن بَنا کے بیچ رہی  یہ عامل بابا بن کے پیسے نَہیں بٹور رہی،لوگوں کے کام ہوں نہ ہوں مگر مجبوریوں سے کھیل ضرور ہوتے......سائنس تو انسان کو بُلندی پر اٹھا رہی .... اس کنکشن کی وجہ سے میں نے خود کو دہریہ /ایتھیسٹ کہنا شروع کردیا.....- مجھے کرسچین مذہب اچھا لگنے لگ گیا


 کیونکہ اس کے protestants اور catholicsپر  پروٹیسٹنٹ حاوی تھے ..... انہی پروٹیسٹنٹ کی امریکہ پر حکومت تھی جبکہ کیتھولکس تو روم تک محدود ہو کے رہ گئے تھے .....  یہ مذہب سے آزاد لوگ جن کا دین انسانیت تھا ---- مجھے اچھے لگنے لگے --- مجھے لگتا کم ازکم یہ مذہب کے منافق نَہیں ہیں ----- 


میں نے شاہ صاحب کو اپنے بارے میں کُچھ نَہیں بتایا----- میرے بتانے سے پہلے وہ سب جانتے تھے .... میں نے ان کو جو لکھا ہوتا وہ اتنا غیر ضروری اورمعنویت سے عاری ہوتا تھا....... میرے ہونٹوں پر دُکھ کے گیت ادا نَہیں ہوتے تھے مگر ان کا جملہ زخموں پر مرہم رکھ جایا کرتا.... میں ایک دو لفظ لکھتی، وہ حرف سے دل کی تحریر جان لیتے----- میرے لفظ میڈیم تھے دل تلک رسائی کے---- میں جو لکھ پاتی وہ اسکو بعینہ ویسے سمجھتے جیسا کہ میں سمجھانا چاہ رہی ہوتی .....پھر بارہا یہ شعر لکھ دیا کرتے ..... ایسا لگا کرتا میرے ساتھ مل کے وہ آنسو بَہارہے یعنی مرا دکھ اتنی معنویت سے محسوس کر رہے جتنی معنویت سے یہ دل میں اترا تھا،  


آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں 

تو ہائے گُل پکار ،میں چلاؤں ہائے دل 


  

یہ شعر بارہا میری معنویت سے عاری گفتگو میں رکھتے ... شاید لفظوں کے پیچھے احساس کی زبان کی تجسیم کو دیکھنے کے عادی تھے اس لیے میری ہربات ان کے لیے پرمعنی و پر مغز تھی .... کبھی کبھی مجھے حیرت ہُوا کرتی تھی کہ میرا لکھا وہ پڑھ کے سَمجھ کیسے لیا کرتے ...... میں خود اپنا لکھاپڑھا کرتی تو مجھے بڑی حیرت ہوتی اس میں کسی بات کا سر پیر نہ تھا ...بات الف سے شروع اور ی تک جا پہنچی مگر میں نے بات کی کیا یہ تو اہل نظر و اہل دل بندہ ہی جان سکتا ہے ----  کیونکہ لکھتے وقت جو بات مرے دل میں ہوتی وہ ان کو منتقل ہوجاتی تھی ----  وہ جواب اسی کے مطابق دِیا کرتے .... پھر مجھے کہنے لگے 


دراصل آپ کو ڈر لگتا ہے زمانہ، گھر والے آپ کو کٹہرے میں لا کھڑا کرتے ہیں --- کوئی ایسا ہونا چاہیے جو بلامشروط آپ کو judge کیا بنا سُنے ---  آپ مجھے ہر بات بتایا کریں .... آپ مجھے کھل کے ہر بات کہہ سکتی ہیں .... اپنے گُناہ، اپنے ثواب ،..... ان کے پاس لامحدود وسعت جیسا پیار تھا ....

شروع میں میں معترض رہی کہ یہ غم، دکھ میرے ہیں میں نے سیپ کی طرح ان کو دل میں رکھا ہے ....میں یہ سیپ کسی کو نَہیں دوں گی .....پھر ان کی نورانیت و شفافیت سے بھرپورآواز، انداز میں مٹھاس،گفتار میں پیار ہلکورے لیتا جیسے قدرت کے پاس محبت سے بڑا نغمہ کوئی نہیں --- میرے لیے وہ قدرت کا روپ ....وہ قدرت کا ایسا محبت بھرا روپ تھے جن کے قدموں میں بیٹھنے کو دل کرتا ...  میں جب خیال میں بیٹھتی .... وہ بیٹھنے نہیں دیا کرتے بلکہ سینے سے لگا لیا کرتے ..... یُوں لگتا جیسے ماں سے مل رہی ہوں ....بچھڑی ماں سے.....ماں نے گلے لگالیا .....ماں کی مامتا کا احساس، اسکی تسلی، اسکے ہونے کی بھرپور تجلی نے ایسی روشنی دی جس سے زَمین پرا گِرا طائر اُڑنے لگا ... خیال کو پرواز و مہمیز دینے میں ان کی محبت و شفقت بھی کمال کی تھی ....


جاری ہے.......

نشست ۵ : روح کا قطب

0 تبصرے

​نشست نمبر ۵: رُوح کا قطب 


حصہ اول


احساسِ زیاں میں سُلگ تو میں پہلے رَہی تھی مگر خود سے تہیہ کیا تھا کہ اب خود کے نفس کی صَفائی کرنی ہے ... مجھے جو بات سولہ سال کی عمر میں بتائی گئی تھی، میں نے اس کی جانب رِجوع کرنا ہے ....


 میں نے اس بڑی ذات کی جانب سَفر کرنا ہے جیسے دل نے یہ اذن دیا تھا تب قَلم پھر سے چلنے لگ گَیا تھا ... ابھی میری بات شاہ صاحب سے نَہیں ہوئی تھی ... دو ماہ کی قبل کی بات ہے جب دِل نے کَہا چَل اُس جانب جس کے لیے تُجھے تخلیق کیا گیا ہے .... میں نے پہلی تحریر شکوہ **** جناب موسی و خضر* کے حوالے سے لکھی ... ہاتھ اتنی تیز روی سے چَلا کہ میں خود بھی حیرت میں مبتلا ہوگئی ...میں نے خود سے سوال کیا تھا کہ اے خُدا کَہاں ہے تو؟  اس نے جواب دیا تھا جب تو نے خواہشات کو خدا بَنالیا تھا تب میں نے پوچھا تھا میں کَہاں ہوں؟ 


میں نے کبھی یہ سوچا نَہیں تھا میرا اُن سے ناطہ لکھا ہوا تھا ... جب ان سے بات ہوئی تو میں نے لکھا کہ مجھے پُرانا مل گیا ..... تَب مجھے ہلکا سا احساس ہُوا کہ میں جو لکھ رَہی میرے لیے اِس میں خَبر ہے .... میں نے اِس جانب سَفر کیوں کرنا ہے مجھے بَتایا گیا کہ میں نے اسکی محبت کو چُنا ہے ... 


میری نسبت طے ہوئی تھی عنقریب شادی ہونے لگے تھی مگر وہ کسی وجہ سے عین شادی سے اک ماہ قبل ٹوٹ گئی. یوں ساری تیاریاں دھری دھری کی رہ گئیں .... کہیں مری کردار کشی کی گئی ..میری انا کا بُت ٹوٹ گیا جس پر مجھے بڑا فخر تھا میں اپنے آئنے میں خود کو دیکھا کرتی تھی ...خود کے حسن سے مسحور رہا کرتی تھی.پھر شیشہ ایسا ٹوٹا کہ کرچیاں بکھر گئیں.... میں خود سے ان کرچیوں کو اٹھایا کرتی تو مزید زخم سے چور لہو لہو ہوجایا کرتی.... یَہاں تلک کہ مجھے کونے میں مقید ہو کے رہنا پڑا گیا ... میری ذات بکھر کے رہ گئی تھی ... خدا سے سوال کیا کرتی تھی قصیدہِ حضرت امِ عائشہ رضی تعالی عنہ لیکر .... یَہاں تلک بددعا بھی دے ڈالی جسطرح مرے ساتھ اس نے کیا، اللہ کرے اسکی بیٹی ہو اس کے ساتھ بھی ایسا ہو ....


 کردار میں منفیت اس قدر بھری ہوئی تھی کہ مرے لِیے نفس کی شناخت کافی مشکل تھی کہ میں ہوں کون؟ منفیت اپنے کیے گُناہوں کی وجہ سے بھی تھی،  ماں کی بے ادبی کرنے کی وجہ سے بھی تھی ، منفی گمان رکھنے کی عادت تھی، بہن بھائیوں سے نفرت تھی، یہاں تلک کہ میں نے اپنے والد کو بھی نہیں بخشا تھا ان کو بھی بددعا دِیا کرتی تھی ........ صاف گو ہونے کا زعم رکھتے دوسروں کی غلطی کو ان کے سامنے دہرانا،  اس صاف گوئی میں خود کو بھی نَہ بخشنا، چوبیس گھنٹے اپنے لیے بھی عدالت لگائے رکھنی، یَہاں تلک میں نے اس ہتک و کردار کشی کے نتیجے میں منفیت کی انتہا کو چھوتے اپنی کزن کے خلاف انگلی اٹھادی ....  تاکہ اسکی بہن کو سب بُرا کہہ سکیں مگر میں کامیاب نَہ ہوسکی .. اور سب نے مجھے مزید بُرا بھَلا کَہا ....


میری ایک سیدہ سے بات ہوئیں جن کو طلاق ہوچکی تھی مگر آنلائن کام کرکے وہ خود اپنے پاؤں پر کھڑی تھیں ...ان کو سب بتایا تو مجھے کہنے لگیں تم نے تو اپنا بدلہ آدھا بھی نہیں لیا .... تم اللہ پر چھوڑ دیتیں سب کچھ ...... تم نے اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا...... تم سے زیادہ دکھی تمھاری ماں ہے ..... تم اس ماں کی جانب دھیان دو ... جس کو بیٹے کی جدائی کا غم کھائے جا رہا ہے ... یا جس نے اتنی اذیتیں سہیں ... تمھارا غم تو کچھ بھی نہیں ہے ...میں نے اللہ کے خلاف کافی ملحدانہ باتیں کی تھیں ... اس نے مجھ سے کہا جاؤ وضو کرو....کلمہ دوبارہ سے پڑھو ....تم نے شرک کیا ہے .....میں دوبارہ سے مسلمان ہوئی ......


 میری بات پھر ایک  ایک بہت پیارے اللہ کے بندے سے ہوتی رہی ....جو کے بیوروکریٹ ہیں ... سی ایس ایس کرنے کے لیے رہنمائی چاہیے تھی ان سے رابطہ ہوا تھا ..... دھیرے دھیرے یہ دوستی میں بدل گئی ...بڑے بھائی /باپ کی اصل جگہ پر رکھ کے خود کو بھائی کہا کرتے ...  مجھے موررل سپورٹ دیتے .... یہ کہا نہیں جا سکتا کہ اللہ کے نیک شریف بندے اس دنیا میں نہیں ... مجھے بجائے کسی غلط بات کرنے کے گیمز میں لگا دیا ....کینڈی کرش گیم یا اسطرح کی گیمز ان کے کہنے پر کھیلنا شروع کردیں ... آج وہ مجھ سے رابطہ کرتے رہے مگر کہتے ہیں آپ مجھ سے تعلق توڑ گئیں ...میں تو جو تعلق بناتا ہوں عمر بھر نبھاتا ہے ....میرے نزدیک مرد کا ہر روپ برا نہیں ہوتا. جب مرد کسی کو اپنا سمجھ کے پیار کرتا اس سے فائدہ نہیں اٹھاتا ... اس مرد سے زیادہ اسکی ماں کو سلام جاتا ہے جس نے اسکی کی ایسی تربیت کی. سی ایس پی بیس گریڈ کے آفیسر ہوتے ہوئے بھی ان کی گردن میں سریہ نہیں تھا بلکہ وہ بہت حساس و موم دل رکھنے والے انسان ہیں ...


  اعمال کے لحاظ میں زیرو تھی مگر خود کو اسفل سافلین کہہ دینے سے میں اسفل نَہ ہوسکی کیونکہ خُدا نے بَتانا تھا کہ اپنی جہنم میں رہنے والے، نفس کے عظیم بُت کو توڑنے کے لیے گُناہ کرنا ضروری ہے. میرے پاس تو بیشمار گناہوں کی لسٹ تھی .... میں کیسے اپنی جہنم سے نکلتی؟ پھر سب کہا کرتے میں کافر ہوں ....نَماز نَہیں پڑھتی اور ساتھ خود کشی کی سیرحاصل پریکٹس...... مجھے لگتا تھا میں خُدا کے بُہت قریب تھی اور میں نے گُناہ کیے .... اس لیے اس نے میری ساری نسبتیں منسوخ کردیں ہیں ..


 قَلم کو جو اذن لڑکپن میں ہُوا تھا وہ اس جہنم کی آتش میں جلنے سے ختم ہوگیا .... یَہاں تلک میں نے نعتیں و حمد  پر لکھی شُدہ ڈائریاں جَلا دیں ..... میری والدہ نے کَہا تم نے بے ادبی کی .... میں بے ادب ہی تو تھی سراپا --- اندر جو آگ چلتی تھی ،جو پارہ جو تپش مجھے جلاتی تھی مجھے بے ادب و سرکش بناتی رہی ...میں نے پندرہ سال کی عمر سے چوبیس سال کی عمر تلک ہرممکن کوشش کی میں مَر جاؤں ---- خُدا کو یہ بتانا مقصود تھا کہ زندگی مرے ہاتھ میں ہے،اسکے ہاتھ میں نَہیں ...  


دنیا کی تمام تکالیف و اذیتوں کا بدلہ بھی خود سے لینا -----چوبیس سال کی عمر میں دوبارہ سے لکھنا شُروع کیا ....... میرے ہاتھ سے نعت!  میں اندر سے اتنی زنگ آلود اور گناہوں سے لتھڑی.... گناہ سے زیادہ منفیت میں لتھڑی ... میرے گُمان مجھے منفی قطب کی جانب جوڑتے جبکہ روح کی تڑپ، روح کا قطب تو  اثبات میں تھا ..... اتنے لمبے عرصے بعد پاک ہونے کی خواہش دل  بیدار ہوئی تھی وگرنہ میں نے تو منفیت و گمان کی تَمام حدود پار کرتے خود اذیتی کی جہنم خرید رکھی تھی .... میں لامذہب ،لا دین تھی ----- 


جاری ہے.........

چوتھی نشست

0 تبصرے

​چوتھی نشست:


قارئین! 

کیا آپ کو لگتا ہے کہ داستان میں لکھ رَہی ہوں؟  میں تو خود بھی حیران ہوں کہ اس دِل میں صَدا مجھے چابک لَگاتے کہتی ہے: چَل لکھ 

میں خود سے پوچھتی ہوں کیسے؟ 

صدائے دل ادائے بے نیازی سے یہ جواب دیتی ہے 

لکھ وہ سچے فسانے، وہ امانتیں 

احسان(محبت) کا بدلہ (احسان) ہے 

فاذکرونی ..... 

اس کے محبوب کا ذکر کر.....

میں نے شدت مجبوری میں قَلم اُٹھایا ہے جس کا لِکھا حرف حرف حقیقت پر مبنی ہے 

آپ فیصلہ کیجیے گا کہ میں سید نایاب حسین شاہ نقوی عرف شاہ بابا رحمتُ اللہ کا ذکر کرپائی جیسا کہ یہ صَدا للکار رَہی ہے

کیا آپ اِسے عشق کا نام دیں گے؟ 

کیا ہے عشق؟  


یہ داستان میں نہیں لکھ رہی ہوں بلکہ شاہ صاحب ،سید من،رہبرِ من،پیرِ من  نے یہ لوحِ دل پر ثبت کیا ہے اسکو. بظاہر میں سُنا رہی ہوں.... یہ ہے تو میری ہڈبیتی مگر صدا مجھ میں انہی کی ہے. زمان و مکان سے پرے کا یہ ساتھ، اس ساتھ کو قلم لکھ رہا ہے........ میرا اُن سے ساتھ اَزل سے ہے اور اَبد تک منسلک رَہے گا.....


. پہلی ،دوسری نشست اور تیسری نشست کا حاصل "احساس زیاں " کی آگ تھی. اس آگ کو ایک تحریر نے بڑھا .جس میں تحریر تھا کہ تم اپنا قطب نُما کھوچُکے ہو مگر اندر کے خالی پَن نے تُمھیں دنیاوی جاہ اسکا اَسیر نَہیں کیا ہے اس لیے تم قابلِ احترام ہو....تم نے احساسِ زیاں کے ہاتھوں اپنے نفس کا قتل نہیں کیا .یہ احساسِ زیاں تمھارا اثاثہ ہے...سمت کو کھو بیٹھنا، منزل گم کر بیٹھنا ......یہ اس وقت تلک ممکن نَہیں جب تَلک تم اس احساسِ زیاں سے گزرتے نَہ ہو....


میں احساسِ زیاں کی سُلگتی روح جو قطب نُما کی تَلاش میں، جس کے مدار میں سیارہ، ستارہِ عشق بن کر ابھرے....احساس زیاں سے سلگتی، بلکتی روح نے حرفِ دل جانبِ قطبی مقناطیس رَکھ دِیا.... دل سیسہ، موم، بلکتی روح نے شاہ صاحب سے کَہا کہ .....


"میرا قطب نُما کھو گیا ہے ...

کعبہ ء دل میں شرک سے زمین کو بنجر کردیا ہے

ملحدانہ اطوار مرے

پاتال میں گرا ہوا طائر ہوں میں

میں "سفل "ہوں کیونکہ گہرائیاں مجھے پکار چکیں ہیں

دوذخ کا ایندھن بَنا دل جانے کس اوور جانا چاہتا ہے

کس اوور...

دل سے صدا یہی سُنائی دیتی ہے

تو اسفل ہے

تو اسفل ہے

تو اسفل ہے

چہار سو اندھیرا

میرا وجود اور احساس زیاں..


ترا مقام تو پاتال کی گہرائی ہے کیونکہ تو نے ملٹن کے شیطان کی طرح، مارلو کے فاسٹس کی طرح خدا کو للکارا تھا اور فاسٹس کی طرح توبہ کا در بند دکھا. ہر جانب اندھیرا ہے....


  لٹریچر نے مری نفسیات کو اسطرح متاثر کیا. The Tragical History of Dr Fatustus میں مجھے اپنا آئنہ دکھائی دیتا تھا. فاسٹس نے فزکس میں،  اور فلسفے میں ٹرینیٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہوتی ہے مگر علم کی کھوج میں کالا جادو، میٹا فزکس کا سَہارا لیتا ہے. اپنی جنت کے لیے ابدی  دوذخ lucifer سے خریدتا ہے ... اور عیش عشرت کی سانسیں جب ختم ہونے لگتی تو اسکو اپنا آپ بوڑھے شخص میں دکھائی دیتا ہے جو اسکو کہتا ہے معافی مانگ لو.اسکا ایمان اس بوڑھے شخص کی تمثیل ہے کہ وہ سمجھتا ہے آخری سانسوں میں خدا کیسے معاف کرسکتا ہے. وہ مایوسی میں توبہ نَہیں کرتا اور lucifer,beilzibub اسے جہنم لیجاتے ہیں .... ملٹن کا خدا جس نے استعاراتی طور پر وقت کے بادشاہوں کے خلاف بغاوت کرتے شیطان کو آلہ بناتے لکھا 


Better to reign in hell to serve in heaven 


اس بغاوت میں وہ کام جس سے خدا کو اشتعال ملے میں نے کیا ...بآلاخر تھک ہار کہ میں مایوس ہوگئی ..... میں نے ہر رشتے سے بغاوت کی .... میں نے خود کیساتھ ساتھ، اپنے سے منسلک رشتوں سے زیادتی کی .... مجھے لگا خُدا اتنا ظالم ہے مجھے معاف نَہیں کریگا  اس لیے میں نے خود سے نفس کو دھکا دے کے پاتال کی گہرائی میں گرا دیا .. مرے ہی نفس نے مرے نفس کے کسی حصے کو پاتال میں گرایا. جب ہم خدا کو چھوڑتے ہیں تب ہم خدا کے مقابل نفس کو خدا مانتے ہیں ..... میں نے خود کو تین چار سال معاف نَہیں کیا ...نَجانے کس اذیت میں یہ سال گزارے .... جب تلک شاہ صاحب سے واسطہ نَہیں ہوا...


شاہ بابا:  ایسے کونسے گُناہ کر ڈالے جن کے سبب یہ گُمان ہُوا اور یہ کس وجہ سے گُمان کیا کہ خدا کی محبت پر اسکی قہاری و جباری غالب ہے.....انسان چاہے جتنے گناہ کرڈالے،  اسکی محبت،  اسکی قہاری پر حاوی ہے. مایوسی تو کفر ہے بٹیا جی! انسان امید کے سائے یہ زندگی کی جنگ لڑتا ہے اور بامراد ٹھہرتا ہے


میں تو پڑھا لکھا نہیں ہوں بٹیا جی

یہ بتائیے فاسٹس کون تھا اور کس وجہ سے راندہ درگاہ ٹھہرا


فاسٹس نے خدائی کو للکارا تھا گویا وہ خود خُدا سے زیادہ طاقتور ہے. شیطان سے آسائشاتِ زیست کے لیے معاہدہ کِیا ............جب موت کا وقت قریب آیا تو اسے احساس ہوا کہ وہ تو اک حقیر ساذرہ ہے اور توبہ کرنا چاہتا تھا مگر بے یقینی نے اسے ایسا کرنے نہیں دیا


شاہ بابا:  آپ نے خدا کو للکارا مگر اس نے کبھی آپ پر نعمتوں کی بے بہا بارش کم کی؟ اس نے کبھی اپنا نام لینے سے روکا؟ مشکل میں کس کو پُکارا آپ نے؟


یقینا اللہ کو.


پتر!  یاد رکھ!  یہ ہم سوچتے رہتے ہیں کہ ہم اس سے بُرا کریں گے تو وہ بھی جوابا بُرا کرے گا!


سنیں!

دھیان سے ...

خُدا انسان نہیں، انسان کے اعمال سے بے نیاز ہے اور محبت دینے میں اتنا کریم ہے کہ رحمت للعالمین کو ہمارے پاس بھیجا اور ان کی محبت کی شمع دل میں جلائی


میں نے خدا سے شکوہ کیا

کیوں پیدا کیا؟

پیدا ہونا بھی جُرم تھا کیا ...!

نواز دیتے ہو اچھوں کو

بُروں کے دنیا میں گِرا دیتے ہو

پاؤں کی ٹھوکر بَنایا مجھ

تو سُنو

اب تم کو نَہیں مانوں گی

تم ہوتے تو، تو ایسا، ویسا ہوتا میرے ساتھ؟

یہ وقت جو بے رحم ہے، یہی تم ہو تو

میں تمھارے ہونے سے انکار کرتی ہوں

نَہیں ہو!

ہاں، نَہیں ہو

تم.اگر ہو تو فقط تباہی لانے والے عظیم خُدا ہو

پھر تم کو کیونکر مانا جائے

اسکو یہ انکار اچھا کَہاں لَگا تھا اور دل سے یہ صدا کسی موذن کی تلاوت جیسے اُبھرتی رہی

پاتال کی گہرائی ترا مقدر ہے


شاہ بابا:  آپ کو پَتا ہے کہ آپ کا مسئلہ کیا ہے؟


خدا جب کسی کو اپنے پاس بُلاتا ہے یا قرب عطا کرتا ہے تو اس سے جناب آدم کی طرح شجر ممنوعہ کی جانب لیجاتا ہے ..تاکہ صفتِ آدمیت کو پہچان سکے....یہیں سے پہچان کا سفر شروع ہوتا ہے.. انسان شجرِ ممنوعہ نہیں چکھتا اسکا جنت سے زَمین تلک آنے کا سفر شروع نَہیں ہوتا .....  وہ زَمین جس کو آپ پاتال کہہ رَہیں اسکا احساس بھی حساس رُوح کو ہوتا ہے.... ورنہ سب جنت میں رہتے گُم یہ احساس نَہیں کرپاتے کہ وہ پاتال میں ہیں .... جب تلک انسان خطا کے کسبی و وہبی مخمصے سے نَہیں نکلتا. تب تلک اسکو نَہ خود کی اور نَہ ہی رَب کی پہچان ہوتی ہے .... جب اس کا احساس ہوجاتا ہے تب گریے کا وجود آتا ہے....


گریہ .... گریہ ... گریہ ..

ہاں!  یہ گریہ ہی تو ہے جو بندے کو عبدیت کا احساس دلاتا ہے


یاد رکھیے!


انسانی روح کے سفر کا آغاز جناب آدم علیہ سلام سے شُروع ہوتا ہے! جب وہ ممنوعہ شجر کا ذائقہ چکھتا ہے اور آپ نے بھی چکھا اس لیے اب آپکو لگ رہا ہے آپ پاتال کی گہرائیوں میں ہیں!  درحقیقت ایسا نَہیں ہے!  آپ سے اللہ کس قدر پیار کرتا ہے،  آپکو اسکا اندازہ تلک نہیں ہے!


میں دم بَخود ممنوعہ شجر کی اس جَہت پر سوچ رَہی تھی اور احساس ہورہا تھا کہ انکار و اقرار سے پرے خَدا موجود ہے . انسان انکار کرے گا تو ہی اسکو احساس ہوگا کہ اقرار و تسلیم کتنی بَڑی نعمت ہے


"بابا --- ممنوعہ شجر تو قران پاک میں کچھ اور بات بَتاتا ہے 


شاہ بابا: ہر انسان کا صحیفہِ دل الگ ہے اور یہ صحیفہ اسکے لیے اسکا قران ہے. اسے پڑھنا ضروری ہے


اپنا صحیفہ کیا ہوتا ہے؟

کیا دل کاغذ ہوتا ہے؟

کیا دل میں کاغذات کا انبار ہوتا ہے؟

اور اسکو پڑھا کیسے جاسکتا ہے؟


شاہ بابا:  سُن بٹیا میری!


دل کے مصحف کو پڑھنے کے لیے اُس قران پاک کو پڑھیں، جو صدیوں قبل رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ مبارک پر نازل ہوا.... اس سینہِ مبارک پر نزول شُدہ لفظ دل کے خالی صفحے پر نور بکھیریں.گے تب اندر کی دُنیا کا دَر کھُلے گا....


"بابا!  دل کے مصحف کے پڑھنا کیوں ضروری ہے؟

دل کے مصحف کا قران پاک سے کیا رشتہ ہے؟


شاہ بابا نے محبت بھری نگاہ ڈالی


بولے

"بٹیا جی! 

کسی بند کمرے کو کِس سے کھولا جاتا ہے؟

آپ کہیں گی، چابی سے


قران کریم ایسی چابی ہے جس سے سینہ ایسا کھلتا ہے کہ عرش تلک رسائی ہوجاتی ہے. اک مقام پھر ایسا آتا ہے کہ نہاں عیاں ہوجاتا ہے.... قرآن پاک محض صفحات نَہیں. یہ چلتی پھرتی آیات ہیں ... صورت آدم تو کہیں صورتِ شیث تو کہیں صورتِ ابراہیم تو کہیں صورتِ موسی تو کہیں صورتِ انبیاء اور جب تَمام آیات یکجا ہوتی ہیں تو در محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تلک رَسائی ہوجاتی ہے ....... ! یہ انسان چلتی پھرتی آیات ہیں ....


یَتْلُوْ عَلَیْھِمْ اٰیَاتِہِ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُبِیْنٍ


کتابِ حکمت کھولنے والا کوئی ایسا ہوتا ہے جس کی زندگی چلتی پھرتی قرآن ہوتی ہے .....


یہ الفاظ تھے یا نور کا صندوق جو سینہ میں ایسے دکھنے لگا،


مقفل صندوق

مقفل ہے

قفل کیسے کھلے گا

چوتھی نشست

0 تبصرے

​چوتھی نشست:


قارئین! 

کیا آپ کو لگتا ہے کہ داستان میں لکھ رَہی ہوں؟  میں تو خود بھی حیران ہوں کہ اس دِل میں صَدا مجھے چابک لَگاتے کہتی ہے: چَل لکھ 

میں خود سے پوچھتی ہوں کیسے؟ 

صدائے دل ادائے بے نیازی سے یہ جواب دیتی ہے 

لکھ وہ سچے فسانے، وہ امانتیں 

احسان(محبت) کا بدلہ (احسان) ہے 

فاذکرونی ..... 

اس کے محبوب کا ذکر کر.....

میں نے شدت مجبوری میں قَلم اُٹھایا ہے جس کا لِکھا حرف حرف حقیقت پر مبنی ہے 

آپ فیصلہ کیجیے گا کہ میں سید نایاب حسین شاہ نقوی عرف شاہ بابا رحمتُ اللہ کا ذکر کرپائی جیسا کہ یہ صَدا للکار رَہی ہے

کیا آپ اِسے عشق کا نام دیں گے؟ 

کیا ہے عشق؟  


یہ داستان میں نہیں لکھ رہی ہوں بلکہ شاہ صاحب ،سید من،رہبرِ من،پیرِ من  نے یہ لوحِ دل پر ثبت کیا ہے اسکو. بظاہر میں سُنا رہی ہوں.... یہ ہے تو میری ہڈبیتی مگر صدا مجھ میں انہی کی ہے. زمان و مکان سے پرے کا یہ ساتھ، اس ساتھ کو قلم لکھ رہا ہے........ میرا اُن سے ساتھ اَزل سے ہے اور اَبد تک منسلک رَہے گا.....


. پہلی ،دوسری نشست اور تیسری نشست کا حاصل "احساس زیاں " کی آگ تھی. اس آگ کو ایک تحریر نے بڑھا .جس میں تحریر تھا کہ تم اپنا قطب نُما کھوچُکے ہو مگر اندر کے خالی پَن نے تُمھیں دنیاوی جاہ اسکا اَسیر نَہیں کیا ہے اس لیے تم قابلِ احترام ہو....تم نے احساسِ زیاں کے ہاتھوں اپنے نفس کا قتل نہیں کیا .یہ احساسِ زیاں تمھارا اثاثہ ہے...سمت کو کھو بیٹھنا، منزل گم کر بیٹھنا ......یہ اس وقت تلک ممکن نَہیں جب تَلک تم اس احساسِ زیاں سے گزرتے نَہ ہو....


میں احساسِ زیاں کی سُلگتی روح جو قطب نُما کی تَلاش میں، جس کے مدار میں سیارہ، ستارہِ عشق بن کر ابھرے....احساس زیاں سے سلگتی، بلکتی روح نے حرفِ دل جانبِ قطبی مقناطیس رَکھ دِیا.... دل سیسہ، موم، بلکتی روح نے شاہ صاحب سے کَہا کہ .....


"میرا قطب نُما کھو گیا ہے ...

کعبہ ء دل میں شرک سے زمین کو بنجر کردیا ہے

ملحدانہ اطوار مرے

پاتال میں گرا ہوا طائر ہوں میں

میں "سفل "ہوں کیونکہ گہرائیاں مجھے پکار چکیں ہیں

دوذخ کا ایندھن بَنا دل جانے کس اوور جانا چاہتا ہے

کس اوور...

دل سے صدا یہی سُنائی دیتی ہے

تو اسفل ہے

تو اسفل ہے

تو اسفل ہے

چہار سو اندھیرا

میرا وجود اور احساس زیاں..


ترا مقام تو پاتال کی گہرائی ہے کیونکہ تو نے ملٹن کے شیطان کی طرح، مارلو کے فاسٹس کی طرح خدا کو للکارا تھا اور فاسٹس کی طرح توبہ کا در بند دکھا. ہر جانب اندھیرا ہے....


  لٹریچر نے مری نفسیات کو اسطرح متاثر کیا. The Tragical History of Dr Fatustus میں مجھے اپنا آئنہ دکھائی دیتا تھا. فاسٹس نے فزکس میں،  اور فلسفے میں ٹرینیٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہوتی ہے مگر علم کی کھوج میں کالا جادو، میٹا فزکس کا سَہارا لیتا ہے. اپنی جنت کے لیے ابدی  دوذخ lucifer سے خریدتا ہے ... اور عیش عشرت کی سانسیں جب ختم ہونے لگتی تو اسکو اپنا آپ بوڑھے شخص میں دکھائی دیتا ہے جو اسکو کہتا ہے معافی مانگ لو.اسکا ایمان اس بوڑھے شخص کی تمثیل ہے کہ وہ سمجھتا ہے آخری سانسوں میں خدا کیسے معاف کرسکتا ہے. وہ مایوسی میں توبہ نَہیں کرتا اور lucifer,beilzibub اسے جہنم لیجاتے ہیں .... ملٹن کا خدا جس نے استعاراتی طور پر وقت کے بادشاہوں کے خلاف بغاوت کرتے شیطان کو آلہ بناتے لکھا 


Better to reign in hell to serve in heaven 


اس بغاوت میں وہ کام جس سے خدا کو اشتعال ملے میں نے کیا ...بآلاخر تھک ہار کہ میں مایوس ہوگئی ..... میں نے ہر رشتے سے بغاوت کی .... میں نے خود کیساتھ ساتھ، اپنے سے منسلک رشتوں سے زیادتی کی .... مجھے لگا خُدا اتنا ظالم ہے مجھے معاف نَہیں کریگا  اس لیے میں نے خود سے نفس کو دھکا دے کے پاتال کی گہرائی میں گرا دیا .. مرے ہی نفس نے مرے نفس کے کسی حصے کو پاتال میں گرایا. جب ہم خدا کو چھوڑتے ہیں تب ہم خدا کے مقابل نفس کو خدا مانتے ہیں ..... میں نے خود کو تین چار سال معاف نَہیں کیا ...نَجانے کس اذیت میں یہ سال گزارے .... جب تلک شاہ صاحب سے واسطہ نَہیں ہوا...


شاہ بابا:  ایسے کونسے گُناہ کر ڈالے جن کے سبب یہ گُمان ہُوا اور یہ کس وجہ سے گُمان کیا کہ خدا کی محبت پر اسکی قہاری و جباری غالب ہے.....انسان چاہے جتنے گناہ کرڈالے،  اسکی محبت،  اسکی قہاری پر حاوی ہے. مایوسی تو کفر ہے بٹیا جی! انسان امید کے سائے یہ زندگی کی جنگ لڑتا ہے اور بامراد ٹھہرتا ہے


میں تو پڑھا لکھا نہیں ہوں بٹیا جی

یہ بتائیے فاسٹس کون تھا اور کس وجہ سے راندہ درگاہ ٹھہرا


فاسٹس نے خدائی کو للکارا تھا گویا وہ خود خُدا سے زیادہ طاقتور ہے. شیطان سے آسائشاتِ زیست کے لیے معاہدہ کِیا ............جب موت کا وقت قریب آیا تو اسے احساس ہوا کہ وہ تو اک حقیر ساذرہ ہے اور توبہ کرنا چاہتا تھا مگر بے یقینی نے اسے ایسا کرنے نہیں دیا


شاہ بابا:  آپ نے خدا کو للکارا مگر اس نے کبھی آپ پر نعمتوں کی بے بہا بارش کم کی؟ اس نے کبھی اپنا نام لینے سے روکا؟ مشکل میں کس کو پُکارا آپ نے؟


یقینا اللہ کو.


پتر!  یاد رکھ!  یہ ہم سوچتے رہتے ہیں کہ ہم اس سے بُرا کریں گے تو وہ بھی جوابا بُرا کرے گا!


سنیں!

دھیان سے ...

خُدا انسان نہیں، انسان کے اعمال سے بے نیاز ہے اور محبت دینے میں اتنا کریم ہے کہ رحمت للعالمین کو ہمارے پاس بھیجا اور ان کی محبت کی شمع دل میں جلائی


میں نے خدا سے شکوہ کیا

کیوں پیدا کیا؟

پیدا ہونا بھی جُرم تھا کیا ...!

نواز دیتے ہو اچھوں کو

بُروں کے دنیا میں گِرا دیتے ہو

پاؤں کی ٹھوکر بَنایا مجھ

تو سُنو

اب تم کو نَہیں مانوں گی

تم ہوتے تو، تو ایسا، ویسا ہوتا میرے ساتھ؟

یہ وقت جو بے رحم ہے، یہی تم ہو تو

میں تمھارے ہونے سے انکار کرتی ہوں

نَہیں ہو!

ہاں، نَہیں ہو

تم.اگر ہو تو فقط تباہی لانے والے عظیم خُدا ہو

پھر تم کو کیونکر مانا جائے

اسکو یہ انکار اچھا کَہاں لَگا تھا اور دل سے یہ صدا کسی موذن کی تلاوت جیسے اُبھرتی رہی

پاتال کی گہرائی ترا مقدر ہے


شاہ بابا:  آپ کو پَتا ہے کہ آپ کا مسئلہ کیا ہے؟


خدا جب کسی کو اپنے پاس بُلاتا ہے یا قرب عطا کرتا ہے تو اس سے جناب آدم کی طرح شجر ممنوعہ کی جانب لیجاتا ہے ..تاکہ صفتِ آدمیت کو پہچان سکے....یہیں سے پہچان کا سفر شروع ہوتا ہے.. انسان شجرِ ممنوعہ نہیں چکھتا اسکا جنت سے زَمین تلک آنے کا سفر شروع نَہیں ہوتا .....  وہ زَمین جس کو آپ پاتال کہہ رَہیں اسکا احساس بھی حساس رُوح کو ہوتا ہے.... ورنہ سب جنت میں رہتے گُم یہ احساس نَہیں کرپاتے کہ وہ پاتال میں ہیں .... جب تلک انسان خطا کے کسبی و وہبی مخمصے سے نَہیں نکلتا. تب تلک اسکو نَہ خود کی اور نَہ ہی رَب کی پہچان ہوتی ہے .... جب اس کا احساس ہوجاتا ہے تب گریے کا وجود آتا ہے....


گریہ .... گریہ ... گریہ ..

ہاں!  یہ گریہ ہی تو ہے جو بندے کو عبدیت کا احساس دلاتا ہے


یاد رکھیے!


انسانی روح کے سفر کا آغاز جناب آدم علیہ سلام سے شُروع ہوتا ہے! جب وہ ممنوعہ شجر کا ذائقہ چکھتا ہے اور آپ نے بھی چکھا اس لیے اب آپکو لگ رہا ہے آپ پاتال کی گہرائیوں میں ہیں!  درحقیقت ایسا نَہیں ہے!  آپ سے اللہ کس قدر پیار کرتا ہے،  آپکو اسکا اندازہ تلک نہیں ہے!


میں دم بَخود ممنوعہ شجر کی اس جَہت پر سوچ رَہی تھی اور احساس ہورہا تھا کہ انکار و اقرار سے پرے خَدا موجود ہے . انسان انکار کرے گا تو ہی اسکو احساس ہوگا کہ اقرار و تسلیم کتنی بَڑی نعمت ہے


"بابا --- ممنوعہ شجر تو قران پاک میں کچھ اور بات بَتاتا ہے 


شاہ بابا: ہر انسان کا صحیفہِ دل الگ ہے اور یہ صحیفہ اسکے لیے اسکا قران ہے. اسے پڑھنا ضروری ہے


اپنا صحیفہ کیا ہوتا ہے؟

کیا دل کاغذ ہوتا ہے؟

کیا دل میں کاغذات کا انبار ہوتا ہے؟

اور اسکو پڑھا کیسے جاسکتا ہے؟


شاہ بابا:  سُن بٹیا میری!


دل کے مصحف کو پڑھنے کے لیے اُس قران پاک کو پڑھیں، جو صدیوں قبل رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ مبارک پر نازل ہوا.... اس سینہِ مبارک پر نزول شُدہ لفظ دل کے خالی صفحے پر نور بکھیریں.گے تب اندر کی دُنیا کا دَر کھُلے گا....


"بابا!  دل کے مصحف کے پڑھنا کیوں ضروری ہے؟

دل کے مصحف کا قران پاک سے کیا رشتہ ہے؟


شاہ بابا نے محبت بھری نگاہ ڈالی


بولے

"بٹیا جی! 

کسی بند کمرے کو کِس سے کھولا جاتا ہے؟

آپ کہیں گی، چابی سے


قران کریم ایسی چابی ہے جس سے سینہ ایسا کھلتا ہے کہ عرش تلک رسائی ہوجاتی ہے. اک مقام پھر ایسا آتا ہے کہ نہاں عیاں ہوجاتا ہے.... قرآن پاک محض صفحات نَہیں. یہ چلتی پھرتی آیات ہیں ... صورت آدم تو کہیں صورتِ شیث تو کہیں صورتِ ابراہیم تو کہیں صورتِ موسی تو کہیں صورتِ انبیاء اور جب تَمام آیات یکجا ہوتی ہیں تو در محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تلک رَسائی ہوجاتی ہے ....... ! یہ انسان چلتی پھرتی آیات ہیں ....


یَتْلُوْ عَلَیْھِمْ اٰیَاتِہِ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُبِیْنٍ


کتابِ حکمت کھولنے والا کوئی ایسا ہوتا ہے جس کی زندگی چلتی پھرتی قرآن ہوتی ہے .....


یہ الفاظ تھے یا نور کا صندوق جو سینہ میں ایسے دکھنے لگا،


مقفل صندوق

مقفل ہے

قفل کیسے کھلے گا

شاہ بابا کا تعارف

0 تبصرے

​شاہ صاحب کا تعارف 

قسط نمبر ۱

آج سے ٹھیک سات دن بعد میرے مرشد پاک کا وصال ہوا تھا ـ ان کی یاد دل کے بام و در میں زندہ ہے ـ محبت عشق اللہ جانے کیا شے ہے، مگر میں اتنا جانتی ہوں ان کے خیال کی اگربتی دل میں جب نہیں جلتی تو میں نہ زندوں میں خود کو شمار کر سکتی ہوں نہ مردوں میں ـ جب یہ خیال سوچ میں رواں رہتا ہے تو احساس ہوتا ہے وہ کیا تھے ـ وہ ایسے انسان تھے جو اس دنیا میں دینے آئے تھے،  ان کو بچپن سے "ماں " جیسے اوصاف سے متصوف کرنے والی ہستی نے ان کو درد تو مگر یہ درد اہل دل جانتے ـ یہ وہ درد تھا جس میں،  میں نہیں بس رب تو کی بات ہوتی ـ انہوں نے اپنی زندگی میں لینے کی سعی نہیں کی بلکہ دینے والے دیا اسطرح کہ رحمن کی رحمانیت کے سائے تلے رہتے دیا ـ انہوں نے زمانے کو وہ دیا،  جس کی ان کے پاس محرومی تھی ـ 


* ہم دعا دینے والوں سے ہیں ـ ہمیں بس یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمانے کے لیے دعا کی ـ جب اللہ نے آپ کو بددعا کے لیے کہا تب بھی دعا دی ـ ہمیں اچھا ملے یا برا ملے ـ ہم نے فقط دعا ہی دینا ہے ـ خیر خواہی کرنی ہے 


* بادشاہ بننے کے بجائے بادشاہ گر بن جاؤ ـ دوسروں کو موقع دو تاکہ تم میں ہوس نہ رہے ـ 

* اپنے عمل سے یہ دیکھو کہ تم دوسروں کو فائدہ دے رہے یا نقصان ـ وہ عمل جو شرعی لحاظ سے درست ہو مگر اس سے دوسرے کا نقصان ہو تو بہتر ہے وہ کرو جس سے فائدہ ملے ـ دوسرے کو فائدہ دینا بھی عین شریعت ہی ہے 


* ایسا سچ جس سے نفاق پیدا ہو،  اس سے بہتر وہ جھوٹ ہے جس سے امن قائم ریے 


* خالی شریعت کا کوئی ثواب ملتا نہیں بلکہ عبادات منہ پر مار دی جاتی ہیں  جو بندہ طریقت نبھاتا ہے مگر شریعت نہیں تو طریقت کا ثواب مل جاتا ہے ـ مگر جو شریعت و طریقت دونوں نبھا لے اس کو معارفت نصیب ہو جاتی ہے 


* سید وہ نہیں ہوتا جس نسبی نسبی سید ہو ـ سید وہ ہے جس کا کردار سرداروں والا ہو.  


* اپنے قلم سے ہمیشہ سچ تحریر کرنا کبھی کسی کو دھوکا مت دینا 


* جب انسان "میں " مٹا دیتا ہے تو رب سچا اسے وہ سب دیتا ہے جس کی اسے خواہش ہوتی ہے 


* قران پاک اسطرح پڑھیں جس طرح خالق آپ سے کلام کر رہا ہے ـ قران پاک پڑھنے میں دشواری ہوتی کہتی کہ مشکل ہے ـ تو فرمایا کرتے:  اک آیت اک رکوع روز کا پڑھنا کونسا مشکل کام ہے. آپ نے اسے یاد نہیں کرنا یاد کرانا سمجھانا خالق کا کام ہے. آپ اسے کہانی کی طرح پڑھ ڈالیں پھر یہ آپ کے دل میں اترے گا 


* نیت کے بغیر کچھ نہیں ملتا ـ اگر نیت خراب ہے تو جتنی عبادات کرلو جتنا نیک بن کے دکھا لو کچھ نہیں بنتا مگر جس نے نیت صاف کی ـ رب اسے وہیں مل گیا 


* انسان ساری زندگی جن جنات جادو کے پیچھے پڑا رہتا ہے ـجادو کچھ نہیں بگاڑ سکتا انسان کا ماسوا کچھ ایسے اشکالات دکھ جائیں. جس نے رب سچے کو یاد رکھا ـ اسے کبھی کوئ ڈرا ہی نہیں سکتا 


* میں نہ سنی ہوں نہ شیعہ ہوں ـ اگر مجھے دیار غیر میں دفنایا جائے تو وہابی کہلاؤں گا اگر وطن مین تو شیعہ ـ  کسی بھی فرقے میں فساد ڈالنے والی بات سے دور رہو 


* ایسی کوئی بات منہ سے نہ نکالو جس سے فساد پھیلے چاہے وہ قران پاک کی کسی آیت کی بات کیوں نہ ہو 

.* جتنا ہو بحث سے دور ہو ـ کیونکہ رب ثابت ہے اسکو اثبات ہے ـ اسکو ثابت کرنا ازخود شرک ہے 


* لطائف وغیرہ یا اشغالات محض راغب کرنے کا بہانہ ہیں میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ: اللہ لطیف بالعباد ـ اللہ چاہے تو کرم کی انتہا کردے ــــ 


* گن کے ذکر کبھی نہ کرو ـ اس کا ذکر گن کے کرو گے تو وہ بھی گن کے دےگا ـ اسکا ذکر بے حساب کرو گے تو وہ جو اپنی جناب سے چاہے نواز دے 


* دل یار ول، ہتھ کار ول ـ ہمیشہ ہر کام میں یاد اللہ کو رکھو اور اس کے ساتھ کام کرتے دنیا نبھا دو


* ذکر یہ نہیں ہوتا کہ رٹو طوطے کی طرح اللہ اللہ کرتے رہو ـ جب احکامات کو عملی طور پر بجالاؤ کہ دوست نے کہا تو یہ ذکر افضل ترین ہے ـ آپ کو چاہیے زبان کے ذکر سے زیادہ،  اس کے احکامات کو اس نیت سے بجالائیں کہ یہ اللہ نے کہا ـ دنیا بھی اس لیے نبھائیں کہ اللہ نے کہا ـ دین بھی اس لیے ـ کسی کو دیں،  کسی کو پیار کریں یہ سوچ کے اللہ نے کہا ہے ـ زبان سے ذکر کرنا اچھا یے مگر افضل ذکر یہی ہے 


*کھا کباب،  پی شراب تے بال ہڈاں دا بالن ... مرشد پاک فرماتے تھے کہ نفس کو خوراک ضرور دینی چاہیے کیونکہ ایسی زندگی نبھانی چاہیے جو حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گزاری مگر نفس کی خدمت کرکے دھیان و ریاضت اللہ کی جانب کر دینے چاہیے ـ اسطرح نفس کبھی تنگ نہیں کرتا 


*  غصہ نہ کیا کرو بلکہ چڑاچڑاہٹ سے دور رہنے کا طریقہ پوچھا ـ یا پوچھا غصہ کیوں نہیں آتا تو فرمایا:  میں انسان ہوں غصہ آتا ہے مجھے ـ جب غصہ آتا ہے میں درود شریف پڑھ لیتا ہے ـ وہیں پر غصہ ختم ہوجاتا ہے ـ 


* جب میں مکہ جاتا ہوں تو لگتا ہے اللہ کا پیار پیار ہے ـ وہ بہت رحیم ہے ـ جب  مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اک عجب جلال گھیرے رکھتا ہے کہ کہیں گستاخی نہ ہوجائے کوئی 

 

*جب ان سے کہا گیا:  آپ میں مجھے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملتا تو کہا اللہ سے معافی مانگیں قلم نے گستاخی کردی. کوئ بھی بندہ لاکھ ریاضت کرلے ان کے جیسا نہیں ہو سکتا ہے ـ ہاں کسی اک صفت کی جھلک مل سکتی یے 


* اللہ کی راہ میں چلنے  کے لیے یا عام زندگی گزارنے کے لیے اسوہ ء حسنہ اہم ہے ـ آپ کو چاہیے اسوہ حسنہ پڑھیں تاکہ آپ کو علم ہو سکے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فلاں مقام پر کیا ردعمل ظاہر کیا اور اس میں ڈھلنے کی کوشش کریں. اگر آپ نے آٹھ دس صفات ہی اپنا لیں تو آپ کو دیدار رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو جائے گا

نشست ۳

0 تبصرے

​نشست ۳: مجذوبیت 


تلاش اور کھوج کی سوئی مَقامِ دل کے گھڑیال پر منادی دے رَہی تھی، تو جِس کی تَلاش میں کھوئی کھوئی رَہی، جس کو پانے کی خاطر، جس کی دید کی لَگن مانند آتش رواں تن من کو جَلا رَہی تھی ... وِجدان کی ترتیب نئی فریکوئنسی پر مرتب ہورَہی تھی وہ ارتعاش مانندِ  دُھواں دُھواں وجود میں اک الوہی تار جَگا رَہی تھی. وہ اَلوہی تار تھا کہ میں کون ہوں؟  میرا شُمار کیا اسفل سافلین میں ہے یا اس سے بھی نچلے درجے میں.... جس کو میں پاتال کی گہرائی سے معتبر کرتی ہوں ..یہ سَفر تو شُروع روز اول سے ہوتا ہے جب آپ پیدا ہوتے ہیں ...گاہے گاہے آپ کو خبر مل جاتی ہے کہ آپ کیساتھ اللہ ہے مگر اللہ کو دیکھنے کی لگن نے اس کے خلاف جنگ شُروع کردی بالکل ایسے نمردو نے تیر فلک پر پھیکنے کہ خدا پر حملہ کرے ...  میں نے بھی گستاخانہ کلمے ادا کیے ....نماز میں اللہ نَہیں ملتا تھا..... مجھے نماز کی تلقین کی جاتی تو میں کہا کرتی 

*کہاں ہے اللہ؟  لاؤ اللہ کو دکھاؤ *.

پہلے میں اللہ کو دیکھوں گی..... 

پھر نَماز پڑھوں گی....


میری ساری زندگی گناہوں میں لتھڑی گزری ہے. اس لیے اس گنہگار کو رب بُہت پیار کرتا جو بڑے پیار سے مان سے اسکی جانب قدم رکھتا .... میں نے شاہ بابا کو بَتایا 


*میں نے جب اللہ کے وجود سے انکار کیا تھا، میں نماز نَہیں پڑھ سکتی تھی مگر تب تب جب ماہِ رمضان ہوتا .... میں خشوع و خضوع سے نَماز ادا کیا کرتی .... میں نے شہر ملتان میں کسی سید سے پوچھا کہ اسکی وجہ کیا ہے؟ 


وہ کہنے لگے: آپ کا معاملہ اور ہے .... خُدا آپ پر آپ کی گرہیں جلد کھول دیگا * 


شاہ بابا:  نور بابا سے اتنا نَہ ہوسکا کہ آپ کو آپ کے بارے میں آگاہ کرتے. یہ اللہ بنے بیٹھے ہیں. مخلوق کی راہ کھوٹی کرتے ہیں اللہ کی ضد سے لَگا کے ان کو دنیا تھما کے ..... یہ صریحا شرک ہے ... ایک کی خواہش کئی لوگوں کے معصوم خواہشوں کا گلا گھونٹ دیتی ہیں، کئی گھر اجاڑ دیتی ہیں ...بلاشک یہ گھاٹے کا سودا کر رہے ہیں ......


میں اس تَمام میں دم بَخود تھی کہ ان کو کیسے علم ہُوا کہ ان کا نام نور بابا ہے ..... میں نے اپنی chat ساری ٹٹولی کہ دیکھوں کہ کہیں میں نے تو نام نَہیں لکھ دِیا مگر میں نے ایسا نام نَہیں لکھا تھا .....


ان سید بابا جن کو لوگ نور بابا بھی کَہا کرتے میری حالت ٹھیک ہوئی مگر انہوں نے نذرانے کا نام پر ہزاروں روپے ادا مانگے. میرے لیے ممکن نَہ تھا ان کو دینا مگر مجھے ان سے بات کرکے بہت سَکون ملا تھا   ..... ہر ہفتے ہزاروں روپے سکون کی خاطر نہیں دے سکتی تھی اس لیے تعلق قائم نَہ ہوسکا .... 


مجھے تو خود علم نَہیں تھا مری روح کا سوال کیا ... میں نے الٹی سیدھی حرکات شروع کردیں ...کچھ ناولز کے کردار کا تاثر تھا کچھ اندر درد کی شدید لہریں پیدا ہوتا جن کو برداشت کرنا ناقابل فہم ہوتا گیا. اس درد کی لہر کو دبانے کے لیے اللہ سے لو لگائی .... درد کی سانجھ ایسی تھی کہ چوٹ کسی کو لگتی، تکلیف مجھے ہوتی تھی... درد کی دَوا کرنی نَہیں آتی تھی تو ایک کونے میں بیٹھ کے خدا سے گیان کیا کرتی تھی ....  مجھے جو شدت سے درد کی چوٹ پہنچتی ہے ویسی چوٹ میرے بہن بھائی بھی محسوس کرتے ہیں؟  وہ تو ہنستے کھیلتے ... جبکہ میں معاشرے سے کٹ کے اپنی تخلیق شُدہ میں گم .... 


شاہ بابا بولے!  بٹیا جی .... انسان کی اپنی تخلیق کیساتھ موکلات و فرشتے جنم لیتے ہیں .. یہی صدقہِ ناریہ و صدقہِ جاریہ بنتے ہیں ....  جس بات کو آپ شکوہ و گستاخی کہہ رہی ہیں    وہ آپکا کفر نَہیں تھا   ... وہ کچھ اور بات تھی ..   وقت گرہ کھول دیگا .... آپ مجذوبیت کی جانب جارہی ہیں    نور بابا آپ کو یہ خبر نہ دے سکے ... نَماز پڑھواتا اللہ ہے .. جو اللہ رمضان المبارک میں پڑھواتا ہے وہ اتنا نامہربان ہے آپ کو باقی ایام میں روکے گا ..  بٹیا جی!  خود سے نکلیں ..  درد سے نکلیں ..   جہان سارا درد سے پُر ہے ..  جذب میں رہنے کے بجائے خود کو بھی سَہارا دیں، زمانے کو بھی سَہارا دیں ....  آپ کیا سَمجھتی ہیں یہ جو بَڑے بَڑے بزرگ گزرے ہیں، ان کو تکلیف نَہیں پُہنچی کیا کبھی؟  انہی کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچی ہے اور انہوں نے اس تکلیف پر سرخم کیا ہے ...شکر ادا کیا ہے کہ مالک جس حال میں رہے، مالک کا بندہ اس سے راضی ہے .....

دوسری نشست

0 تبصرے

​دوسری نشست


انسان فکرو سوچ سے خیال تلک ایک الگ وجود رکھتا ہے. اسکا جسم اس کے خیال سے منظم ہوتا ہے. ڈپریشن، مایوسی،خودکشی، بیماریوں کا جَنم روح کے سافٹ وئیر میں ٹروجنز ,ایڈوئیر سے بھرجاتی ہے  جس سے سطحی فکر میں خرابی تو پیدا ہوتی ہے مگر اس فکر و تفکر میں خَرابی حد سے بڑھ جاتی ہے. تب اس کو جسمانی عوارض کا سامنا کرنا پَڑتا ہے. اس کمزور نفسیات کے حامل شخص کو ہیپناٹائز کرکے اسکے تفکرات میں بدلاؤ لایا جاتا ہے. یہ بھی جان کی بازی لَگا کے کھیلنے والا کام ہوتا ہے .... اس خوابیدہ صلاحیت کو فکر و سوچ کا طریقہ درست کرنے کے لیے تو استعمال کیا جاتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک مرشد /بابا ایسے افکار بذریعہ خواب منتقل کرتا ہے. ادھر بابا سوچتا ہے، ادھر مرید اسکی سوچ کے مطابق ڈھلتا جاتا ہے. وہ اسکا آئنہ بنتا جاتا ہے.....بابا اسکو وہ خبر / پیام دیتا ہے جس کے لیے وہ منتخب کیا جاتا ہے...


بابا مجھے خبر دینے آئے تھے ...... 

آپ کا انتخاب کِیا گیا ہے، اب آپ نے اپنے انتخاب کو درست ثابت کرنا ہے ......مجھے آپ کی جانب بھیجا گیا ہے .... آپ کی ماں کی دُعا کے توسط میں آپ تک پُہنچا ہوں .....


یہ انتخاب کس نے کیا ہے؟ 

میں نے ان سے  پوچھا 


فرمانے لگے:  کوئی دَر دَر کی خاک چھانتا ہے تو کسی کو گھر بیٹھے سَب کُچھ مل جاتا ہے......


ان کی اس نے بات نے بَرسوں کی بلکہ صدیوں کی تشنگی میرے سامنے آئنے کے جیسا روبَرو کردی 


میں کس مقصد کے لیے تخلیق کی گئی؟ 

میں کون ہوں؟  

کون ہوں میں.....؟

میں اِس دُنیا میں کیوں آئی؟

میں نے مقصدِ حیات کیوں نَہیں پایا؟

 زندگی جینے کا مقصد کیا ہے!  


شاہ بابا:  ہر حساس روح انہی سوالات سے گزرتی ہے ....انہی جوابات کی جستجو و لگن اسے بامراد کرتی ہے .... یہ کھوج اسے تب تلک چین سے بیٹھنے نَہیں دیتی جب تک وُہ اپنے خلق ہونے کا مقصد جان نَہیں لیتی....


آپ اس دنیا میں کیا کرنے آئی ہیں،  یہ سوال آپ اپنے دِل سے پوچھیے ... "


"دِل،  دِل سے بس ابھی ابھی یہی صدا آئی ہے کہ "ترا تو رنگ کالا ہے،  تو کیا کرے گی دنیا میں " 


شاہ بابا:  کالے رنگ سے کیا مراد ہے آپکی؟ 


"فزکس کا اک اصول ہے جب سارے رنگ کسی object سے نکال لیے جائیں تو پیچھے اندھیرا بچتا ہے ... میں نے جذبات کے،  احساسات کے، محبتوں کے اور خواہشات کے رنگ نکال دِیے ہیں ...اب دِل میں کچھ نَہیں بَچا ماسِوا "خلا " کے ... یہی کالا رنگ ہے ... "


شاہ بابا: خود کی نَفی کبھی خُدا نے حُکم نَہیں دِیا..... خود کی نَفی رہبانیت ہے. دین تو اسکی ترغیب نَہیں دیتا ،نہ مذہب ....آپ ان تمام رنگوں کو اپنے اندر اتارتی، ان کی معنویت کو محسوس کرتے شُکر اَدا کرتی .... یہ آپ کو خُدا تک لیجاتی ....سرمئی رنگ سب سے زیادہ کشش کا حامل ہے کیونکہ یہ خود میں سب رنگوں کو سموئے ہوئے ہے ....


شفاف روحیں انہی گمانوں میں الجھ کے راہ کھوٹی کرتی ہیں..... یہ اپنی مرضی سے بَنائے قانون کہ خدا ایسا چاہتا ہے یہ محض ایک گُمان ہے .... ہر شفاف کا روح رب سے براہِ راست جڑی ہوتی ہے ....خدا خود اسکو اپنے لیے مخصوص کررکھتا ہے تاکہ وہ جو نَذر اس نے ہابیل و قابیل کی تمثیل کی صورت بَتائی. ایک نے دُنیا لی اور دوسرا خدا کی محبت میں شہید ہوگیا ..  وقت آگے بڑھا تو حضرت ابراہیم علیہ سَلام کو تعجب ہوا کہ یہ فنِ آذری بھلا خدا کیسے ہوسکتی ہے؟ انسان کے بَنایا بُت اسکا خدا کیسے ہوسکتا ہے؟ اس حقیقت کی کھوج میں مجاز سے ہوتے حقیقت تک پُہنچے .... 


وہ راہ جو انسانیت کی راہ ہے

وہ راہ جس میں درد لیا جاتا ہے 

درد ہی آشنا کے پاس لیجاتا ہے  ....!

آشنا راز رکھتا ہے....

کسی کو راز وہبی طریق تو کسی کو راز بذریعہ کسب دِیا جاتا ہے ....


شاہ بابا نے رسمی تعلیم حاصل نہیں کی تھی. ان کا بچپن کھوج، جستجو اور خدا کو پانے کی لگن میں گزرا تھا. میں دل ہی دل میں ان کی فراست کی قائل ہوئے بنا نَہیں رہ سکی .... ان کے آگے عقلی دلائل رکھدیے.....


 " فزکس یہ بھی کہتی ہے کہ روشنی کی absence سے اندھیرا بنتا ہے،  اندھیرے کا رنگ کالا ہے ... پھر میں دل کو نہ سنوں،  جو کہتا ہے "ترا تو رنگ کالا ہے " 


شاہ بابا:  دل کیوں کہتا ہے ایسا، دل کی مکمل سنا کیجیے !  


" دل کہتا ہے خواہشات کی نفی کرنی ہے...،مجھے خواہش کے ہونے نے جلا دیا ہے ....اب خواہشات کا نہ ہونا مری زندگی کی وہ عبارت ہے جس پر چلنا فریضہِ اولین میرا "


شاہ بابا:  زندگی رواں دواں خواہشات کے ہونے سے ہے ... 

آپ نے غلط تار چُنی تھی، کنکشن اس لیے جڑ نہیں سکا... 

اب آپ نے سمجھ لیا ہے زندگی ختم ... زندگی بہت لمبی ہے اور زندگی کی جنگ یقین، حوصلے اور ہمت سے لڑتی جائیں .. 


" میں نے زندہ رہ کر کرنا کیا ہے؟  اس لیے تو پوچھا ہے کہ مقصدِ حیات کیا ہے میرا؟  "


اِس بات کے آگے اَن کَہی خاموشی نے پہرا لگانا شُروع کردِیا .. دل کی گہرائیوں سے سیپ سطحِ آب پر تیرنے لگے. موجِ رفتہ و فردا مدھم ہوتے معدوم ہونے لگیں.  ساحل سمندر پر لہروں کا شور تھم گیا .. رازداں کے راز کھلنے لگے تھے... ہُوا یوں  کہ شاہ بابا کے دِل سے نکلی روشنی کی شعاعوں نے میرا کالا رنگ دھونا شُروع کردیا ... میری ذہنی رو،  خیالات کی رو، اُن کے خیالات کی برقی رو سے ملنے لگی ... مجھے لگنے لگا اندھیرے میں ذات روشن ہے. دِل میں خواہش بیدار ہوئی جس ذات کے "ہونے " کی رمق ملی ہے میں اس پاک ذات کو سجدہ کروں ... 


" مجھے اپنے من میں ذات کا جلوہ ملا ہے،

بتائیے کہ کیسے سجدہ کروں؟

میں خود سے نکل نہیں سکتی تو سجدہ کیسے ادا ہو؟ 


ابھی جمال میں محو ۔۔۔!!!


ابھی اشکوں نے شرر بار کردیا ! ابھی ندامت میں سر جھک گیا ! ابھی حلاوت نے فرحت ختم کردی ! ابھی رموز و آداب سے واقف نہیں ہوں۔ اس لیے اپنے آپ میں محو ہوں ۔ ابھی سجدہ کیا ! سجدہ کیا کہ معبود کا سجدہ عین العین ہے ۔۔۔ ابھی گُناہوں کی معاف مانگی ۔! انسان سمجھتا نہیں ہے کہ انسان جمال کا طالب ہے ، حسن کا مشتاق ہے اور کچے گھڑے پر بھروسہ ہوتا . حاصل ِ ذات اگر کامل ذات نہ ہو تو فائدہ ؟"


شاہ بابا خاموش تھے اور خاموشی کی ہزار زبانیں ہوتی ہے .. میں تو خوابیدہ کیفیت میں ان کے پاس تھی مگر مجھے خواب میں خواب دکھنے لگا ... شاہ بابا کے سامنے بظاہر مگر وہیں بیٹھے بیٹھے میں کسی اور جہان میں پہنچ گئی. جہاں سے انجانی آواز دور پرے سے آتی محسوس ہوئی ..


"نور کو کالے کپڑے کی ضرورت نَہیں،  رنگوں کا نفی اثبات چلتا رہے گا ... "


میں جس جہان میں تھی وہاں سے آواز اس بات کے جواب میں آتی محسوس ہوئی ... شاید میری اپنی ہی آواز تھی


"تم کون ہو؟  "


وہی الوہی سی آواز پھر سنائی دینے لگی 


"میں کالا رنگ ہوں،رنگینیاں ڈھانپے ہوئے ہُوں .... "

یہ کس ذات نے "کالے رنگ " کی آواز کو جواب دِیا تھا، میں انجان تھی... 


" کالا رنگ تو روشنی کا حجاب ہے "  


کالارنگ: میری حیثیت کیا ہے پھر؟ کیا نسبت تم سے؟ 


 آواز کسی دور اجنبی کنواں سے، ناشناس آواز کی صورت مجھ پر وارد ہوئی! 


"وہی جو "معلوم " سے پہلے کسی شخص کو ہوتی ہے "



یہ مکالمہ جاری رَہا مگر حکمت کی فصیلیں پھلانگ گیا، آگہی کے دَر وا کرتا رَہا.  میں جب multi-layered خواب سے واپس آئی، کچھ نہ بَچا تھا ...کالا رنگ خواہشات کی نفی کا رنگ ہوتا ہے، یہ فلسفہ بَدل چُکا تھا.  اب کالے رنگ کے نَئے فلسفے نے جگہ لے لی تھی، زندگی کا یہ رُخ بہت عجیب، بہت نَیا تھا .بیخودی کا جام ملا تھا اور اس نے مست مدام کر رکھا تھا....... کالا رنگ سرمئی ہوتا ہے جو خدا کا رنگ ہے. صبغتہ اللہ..... اللہ کا رنگ...

نشست اول

0 تبصرے
شاہ بابا اور میرے درمیان بُہت سے ایسے نقاط پر گفتگو رَہی. وہ گفتگو اللہ کی تَلاش و کھوج پر مبنی ایک کھُلی حقیقت ہے.جس کا حُکم مجھے ان سَفر کرجانے کے بعد مِلا.... ان کا حُکم مجھ سے یہ داستان لکھوا رَہا ہے جس داستان کا نقطہ نقطہ محبت ہے. یہ باطنی دنیا کے اسرار کھول دے گی تو کَہیں آپ پر آپ کے ذات کے ایسے ایسے حجابات کو وا کریگی کہ آپ دنگ رہ جائیں گے .......یہ تن بیتی، ہڈبیتی، عشق بیتی بھی ہے اور تلاش حق کا سَفر بھی ..... مرشد و بابا ----- بڑا فرق ہوتا ہے ---- بابا طَریقہ ہوتا زندگی ہے ...  مرشد آپ کو حق و سچ کا راستہ بَتاتا ہے مگر اس راستے پر سَفر آپ نے خود کرنا ہوتا ہے ........ بابا سراپا شفقت میں ڈھلا ایسا نورانی پیکر ہوتا ہے جو آپ کے عذاب جھیل کے آپکو آپ کی جنت حوالے کردیتا ہے .... سید نایاب حُسین شاہ نقوی میرے لیے ایسے *شاہ بابا * ہیں ..... میری ہوئی ان کی گفتگو نہ صرف مرے لیے مشعلِ حرم ہے بلکہ یہ مشعل جو میں نے اس کتاب کی صورت پہنچائی ہے یہ جس جس تک پہنچے گی اسکا باطن منور ہوجائے گا ......میں اب بھی اس مشعل سے استفادہ حاصل کرتی ہوں جہاں کَہیں غلطی ہوتی ہے ان کی باتوں کو پڑھتی ہوں .... اس سے مستفید ہوتی ہوں ..... میں خود ابھی ان کے بَتائے گئے طریقوں پر عمل کرنے میں کوشاں ہے. یہ جہدِ مسلسل ہے ...اس ریاضت کو تاعمر جاری رہنا ہے ....

وہ درویش صفت ایک آزاد منش انسان تھے . جن کی زندگی ایک مکمل راز ہے. درویش ایک مکمل راز ہوتا ہے.... ان کو راز کی حفاظت کرنی تھی .... تاہم مجھے یہ ڈیوٹی تھما گئے کہ ان کی زندگی کے ان پہلوؤں کو گفتگو میں لاؤں جس سے انسانیت و آدمیت کا فلسفہ سَمجھ میں آتا ہے ....میں ان کی امانت آپ تک پہنچانے کے لیے یہ کتاب لکھ رہی ہوں ...جس کسی کو اس سے فائدہ ملا،  شاہ صاحب اور خُدا کے سامنے میں سرخرو ہوجاؤں گی ....اس لیے اس کتاب میں جس کی امانت ہوئی، وہ اس تک پہنچ جائے گی .... جس کو سَمجھ نہ آئے وہ جان لے یہ کتاب اس کے لیے ہے ہی نَہیں. میں بس ایک پیام کو عام کررہی ہوں ....  جس کو اپنے حصے کا پیام ملے وہ اسکو تھام لے .... یہ اس کتاب کا مقصد ہے.....

راہِ عشق کا اصول الگ ہے یَہاں کنواں پیاسے کے پاس چَل کے آتا ہے جیسا کہ رومی کے پاس شمس ..... جیسا کہ اقبال کے پاس رومی کا فیض بول اُٹھا.... یہ فیض کہیں بُکل کا چور بن کے تڑپاتا ہے تو کبھی آئنہ مثلِ شمس بن کے پوری آب و تاب سے کثیف دل کو منور کردیتا ہے ..... جن کا نَصیبہ عشق ہوتا ہے وہ کبھی اللہ والے سے محروم نَہیں رہتے. خُدا خود اُن کو وہ سب عَطا کرتا ہے جس کا اس نے لکھ رَکھا ہوتا ہے ....ہم میں سے اکثر راہِ حق کے متلاشی کہتے ہیں کہ کاش مجھے مرشدِ کامل مل جائے۔ اس کے لیے وہ در در جھانکتے ہیں، ہر جگہ کی خاک چھانتے ہیں۔ کبھی کسی کے روحانی چھابڑے میں ہاتھ مارتے ہیں کبھی کہیں کی ونڈو شاپنگ کررہے ہوتے ہیں۔ کبھی کسی در کا نمک چکھ کر تھُو کردیتے ہیں کہ یہ تو کڑوا ہے یہ میرے ذائقے کا نہیں۔ یہ ایسا نہیں یہ ویسا نہیں۔ درحقیقت ایسا یا ویسا باہر کچھ نہیں ہوتا سب اپنے اندر ہوتا ہے۔ آپ طالبِ صادق بنیں اس عشق کی نگری میں کنواں خود چل کر پیاسے کے پاس آتا ہے۔

یہاں کنواں خود اپنے پیاسے کا پیاسا ہوتا ہے۔ ہاں کنویں کی بھی پیاس ہوتی ہے کہ آؤ اور مجھ سے پانی بھر بھر پیو سیر ہوجاؤ تاکہ میرے سینے کو بھی قرار مِلے۔

جسطرح طالب صادق کی جستُجو اللہ ہوتی ہے بالکل اسی طرح بابا جس کے پاس *اللہ* ہوتا ہے وہ بھی کسی سچے مرید کو امانت حَوالے کرتا ہے تاکہ یہ سلسلہ جس سے زَمانہ جگمگا رَہا ہے وہ جاری و ساری رَہے. اس کے نُمائندے بھیس بھر کے کسی عام آدمی جیسے کسی الیکڑیشن تو کبھی کسی مزدور کی صورت موجود ہوتے تو کَہیں یہ ظاہر میں ڈیوٹی دیتے ہیں ....  یہ داستان اک متلاشی کی ہے جس کی تَلاش خدا مگر اس نے تلاش کو جگہ جگہ جا کے عیاں نَہیں کیا. گھر میں بیٹھے خدا سے راز و نیاز کیے .... میں نے انہیں ڈھونڈا نَہیں مگر انہوں نے مجھے ڈھونڈا نکالا ..... میرے درون کو ایسے روشن کیا کہ وہیں میں نے سجدہ شکر کیا .... 

خُدا تو ایسے بھی عَطا کرتا ہے 
خُدا تو کتنا بَڑا رازق ہے....

کہتے ہیں اللہ کی تلاش کسی اللہ والے کے در پر ہی لے جاتی ہے۔ اللہ کے گاہک کو 'مرد' کہا جاتا ہے۔ یہی مردانگی ہے اصل حق "الحق" کی تمنا اور اس پرقائم ہوجانا۔ جسمانی صنف اس میں حقیقت نہیں رکھتی۔

انٹرنیٹ جسے رابطوں کی دنیا کہا جاتا ہے۔ اک جہانِ حیرت جہاں نیکی بدی اچھائی برائی وقتی تعلقات ہر لمحہ جنم لیتے اور اپنی موت مررہے ہوتے ہیں۔ جہاں بہت سوں کو راہ مل رہی ہوتی ہے وہیں بہت سے 'گُم راہ' بھی ہورہے ہوتے ہیں۔ راہیں تو راہیں ہیں۔ راہ غلط نہیں ہوتی ہم غلط ہوتے ہیں۔

میں بھی پیاسی در در بھٹکتی اس جہانِ حیرت میں ڈوبتی اُبھرتی رہتی۔ اندر پارے کی مانند چھلکورے لیتی اک بے قراری تھی جو وقتاََ فوقتاََ لکھنے پر مجبوری کرتی رہتی اور میں قلم کے ذریعے اس درد کو اس رابطوں کی دنیا میں اسکرینوں پر پھیلا دیتی۔ لوگ واہ واہ کرتے سر دھُنتے مگر۔۔ اپنی یہ حالت تھی
" کیا حال سناواں دل دا
 کوئی محرم راز نہ مِلدا​"

اک روز مل ہی گیا۔۔
یونہی چلتے چلتے
ہاں چلتے چلتے یونہی کوئی مل گیا تھا۔۔ یونہی کوئی۔۔
پھر ایسا مِلا کبھی نہ جُدا ہونے کے لیے
اس نے تھام لیا ہمیشہ کے لیے
چلتی راہیں تھم گئیں
گردشِ دوراں کے نئے باب کھُلنے لگے۔۔ وہ تھا ہی ایسا 'نایاب''

ظالم نے دل کی دُنیا ہی لُوٹ لی۔ اب کہیں خاک کی چادر اوڑھے لیٹا ہے مگر ہر دھڑکن کے ساتھ میرے اندر بھی دھڑکتا ہے۔ واقعی 'فقیر' کو ٹھہراؤ نہیں اس کی ڈیوٹی چلتی ہی رہتی ہے۔ اللہ نے کچھ نفوس صرف اپنے لیے بنائے ہیں شاید وہ انہیں میں سے ایک میرے لیے "آبِ حیات" بن کر آیا اور "رموزِ حیات" سکھا کر پڑھا کر میرے اندر انڈیل کر بے نیازی سے آگے چل دیا۔

وہ نام کا ہی نہیں کردار کا بھی نایاب تھا۔ 'رب' نے اسے واقعی نایاب ہی بنایا تھا۔
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
وہ میرے لیے بھی 'نایاب' ثابت ہوا۔ وہ ایسا پارس پتھر تھا جس نے چھُو کر مُجھے کندن کردیا اور خود کو وہی پتھر کا پتھر کہتا رہا۔ نہیں میں پتھر ہوں تم کُندن ہو۔ مگر یہ کُندن تو اسی کے لمس کا مرہونِ منت ہے۔
مگر فقیر کہاں مانتا ہے۔
کورا کاغذ تھا یہ من میرا
لکھ دیا نام اس پہ تیرا

: نایاب۔۔ 'سید نایاب حسین نقوی' نام تھا ان کا
نام اور کردار کے سید۔۔ سید یعنی سردار، بادشاہ، سائیں۔۔ میرا روحانی سِر کا سائیں۔۔
میرے ماں باپ نے مجھے جنما اور عرش سے فرش پر لے آئے،،
اس نے مجھے پھر سے جنما اور فرش سے عرش کی راہ دِکھلا دی۔
میں تھا کیا مجھے کیا بنا دیا
مُجھے عشقِ احمدﷺعطا کیا
ہو بھلا حضورﷺکی آل کا
مُجھے جینا مرنا سِکھا دیا
کیا 'فقیر' ایسے بھی ہوتے ہیں؟

کیا 'بابے' انٹرنیٹ بھی استعمال کرتے ہیں؟
لیکن میں بے خبر یہ نہ جانتی تھی کہ وہ علمِ لدُنی سے مالا مال اور نوازے گئے ہوتے ہیں۔ کائنات کا ہر علم ان پر اپنے در وَا کیے ہوتا ہے اور کھُلی کتاب کی مانند خود کو ان کی خدمت میں پیش کیے رکھتا ہے۔

درحقیقت ان کا اپنا 'نیٹ ورک' اتنا سٹرونگ ہوتا ہے کہ وہ کسی ظاہری ڈیوائس کے محتاج نہیں ہوتے۔ وہ جو اصل 'موبائل فون' اور سیٹلائٹ انسان کے اپنے اندر نصب ہے وہ اس سے کام لیتے ہیں۔ مگر ہم جیسوں کے لیے انہیں ہماری سطح پر مجبوراََ آنا پڑتا ہے۔ میرے جیسی بے کار ڈیوائس کو 'ٹیون اپ' کرنے کے لیے۔

نہ جانے وہ کون سا لمحہ تھا جب اس نے درِ دل پر دستک دینے کے بجائے براہِ راست دل میں پھسکڑا مار لیا۔

وہ آیا۔۔
اس نے دیکھا۔۔!
اور فتح کر لیا۔۔۔!!!

اور دے تار 'اللہ' کے ساتھ جا جوڑی۔ ایسی جوڑی کہ دل و دماغ روشن ہوگئے۔ ہاں میں ایسی ہی اندھیر نگری میں ٹامک ٹوئی مارتی جی رہی تھی۔ اس 'لائن مین' نے آکر 'پیار کی کنڈی' ڈالی اور کنکشن جوڑ دیا۔

اس روشنی میں پھر مجھے اپنے حقیقی در و دیوار روشن نظرآنے لگے۔ گندگیاں، غلاظتیں کجیاں سب نظر آئیں تو شرمندہ ہوئی۔ مگر اس نے مجھے شرمندہ نہیں ہونے دیا بلکہ خود مل مل کہ ہر غلاظت دور کر دی۔

تب سے اب تک وہ بتی روشن ہے اس کے نام کی۔ اس نے میرے دل کی مسجد آباد کی اور اس میں اذان پھونکی۔

ابھی بھی وہ اس مسجد کا موذن ہے۔ جاروب کش ہے، متولی ہے، 'الیکٹریشن' ہے۔ کہ جب کبھی لَو ہلکی پڑنے لگے کرنٹ ختم ہونے لگی یا اسپارکنگ ہونے لگے یا بالکل ہی بجھنے کے قریب ہو تو فوری آگے بڑھ کر کنکشن پھر سے مضبوط کرکے تازہ دم کردیتا ہے۔

شاہ بابا کون ہیں

0 تبصرے
شاہ بابا اور میرے درمیان بُہت سے ایسے نقاط پر گفتگو رَہی. وہ گفتگو اللہ کی تَلاش و کھوج پر مبنی ایک کھُلی حقیقت ہے.جس کا حُکم مجھے ان سَفر کرجانے کے بعد مِلا.... ان کا حُکم مجھ سے یہ داستان لکھوا رَہا ہے جس داستان کا نقطہ نقطہ محبت ہے. یہ باطنی دنیا کے اسرار کھول دے گی تو کَہیں آپ پر آپ کے ذات کے ایسے ایسے حجابات کو وا کریگی کہ آپ دنگ رہ جائیں گے .......یہ تن بیتی، ہڈبیتی، عشق بیتی بھی ہے اور تلاش حق کا سَفر بھی ..... مرشد و بابا ----- بڑا فرق ہوتا ہے ---- بابا طَریقہ ہوتا زندگی ہے ...  مرشد آپ کو حق و سچ کا راستہ بَتاتا ہے مگر اس راستے پر سَفر آپ نے خود کرنا ہوتا ہے ........ بابا سراپا شفقت میں ڈھلا ایسا نورانی پیکر ہوتا ہے جو آپ کے عذاب جھیل کے آپکو آپ کی جنت حوالے کردیتا ہے .... سید نایاب حُسین شاہ نقوی میرے لیے ایسے *شاہ بابا * ہیں ..... میری ہوئی ان کی گفتگو نہ صرف مرے لیے مشعلِ حرم ہے بلکہ یہ مشعل جو میں نے اس کتاب کی صورت پہنچائی ہے یہ جس جس تک پہنچے گی اسکا باطن منور ہوجائے گا ......میں اب بھی اس مشعل سے استفادہ حاصل کرتی ہوں جہاں کَہیں غلطی ہوتی ہے ان کی باتوں کو پڑھتی ہوں .... اس سے مستفید ہوتی ہوں ..... میں خود ابھی ان کے بَتائے گئے طریقوں پر عمل کرنے میں کوشاں ہے. یہ جہدِ مسلسل ہے ...اس ریاضت کو تاعمر جاری رہنا ہے ....

وہ درویش صفت ایک آزاد منش انسان تھے . جن کی زندگی ایک مکمل راز ہے. درویش ایک مکمل راز ہوتا ہے.... ان کو راز کی حفاظت کرنی تھی .... تاہم مجھے یہ ڈیوٹی تھما گئے کہ ان کی زندگی کے ان پہلوؤں کو گفتگو میں لاؤں جس سے انسانیت و آدمیت کا فلسفہ سَمجھ میں آتا ہے ....میں ان کی امانت آپ تک پہنچانے کے لیے یہ کتاب لکھ رہی ہوں ...جس کسی کو اس سے فائدہ ملا،  شاہ صاحب اور خُدا کے سامنے میں سرخرو ہوجاؤں گی ....اس لیے اس کتاب میں جس کی امانت ہوئی، وہ اس تک پہنچ جائے گی .... جس کو سَمجھ نہ آئے وہ جان لے یہ کتاب اس کے لیے ہے ہی نَہیں. میں بس ایک پیام کو عام کررہی ہوں ....  جس کو اپنے حصے کا پیام ملے وہ اسکو تھام لے .... یہ اس کتاب کا مقصد ہے.....

راہِ عشق کا اصول الگ ہے یَہاں کنواں پیاسے کے پاس چَل کے آتا ہے جیسا کہ رومی کے پاس شمس ..... جیسا کہ اقبال کے پاس رومی کا فیض بول اُٹھا.... یہ فیض کہیں بُکل کا چور بن کے تڑپاتا ہے تو کبھی آئنہ مثلِ شمس بن کے پوری آب و تاب سے کثیف دل کو منور کردیتا ہے ..... جن کا نَصیبہ عشق ہوتا ہے وہ کبھی اللہ والے سے محروم نَہیں رہتے. خُدا خود اُن کو وہ سب عَطا کرتا ہے جس کا اس نے لکھ رَکھا ہوتا ہے ....ہم میں سے اکثر راہِ حق کے متلاشی کہتے ہیں کہ کاش مجھے مرشدِ کامل مل جائے۔ اس کے لیے وہ در در جھانکتے ہیں، ہر جگہ کی خاک چھانتے ہیں۔ کبھی کسی کے روحانی چھابڑے میں ہاتھ مارتے ہیں کبھی کہیں کی ونڈو شاپنگ کررہے ہوتے ہیں۔ کبھی کسی در کا نمک چکھ کر تھُو کردیتے ہیں کہ یہ تو کڑوا ہے یہ میرے ذائقے کا نہیں۔ یہ ایسا نہیں یہ ویسا نہیں۔ درحقیقت ایسا یا ویسا باہر کچھ نہیں ہوتا سب اپنے اندر ہوتا ہے۔ آپ طالبِ صادق بنیں اس عشق کی نگری میں کنواں خود چل کر پیاسے کے پاس آتا ہے۔

یہاں کنواں خود اپنے پیاسے کا پیاسا ہوتا ہے۔ ہاں کنویں کی بھی پیاس ہوتی ہے کہ آؤ اور مجھ سے پانی بھر بھر پیو سیر ہوجاؤ تاکہ میرے سینے کو بھی قرار مِلے۔

جسطرح طالب صادق کی جستُجو اللہ ہوتی ہے بالکل اسی طرح بابا جس کے پاس *اللہ* ہوتا ہے وہ بھی کسی سچے مرید کو امانت حَوالے کرتا ہے تاکہ یہ سلسلہ جس سے زَمانہ جگمگا رَہا ہے وہ جاری و ساری رَہے. اس کے نُمائندے بھیس بھر کے کسی عام آدمی جیسے کسی الیکڑیشن تو کبھی کسی مزدور کی صورت موجود ہوتے تو کَہیں یہ ظاہر میں ڈیوٹی دیتے ہیں ....  یہ داستان اک متلاشی کی ہے جس کی تَلاش خدا مگر اس نے تلاش کو جگہ جگہ جا کے عیاں نَہیں کیا. گھر میں بیٹھے خدا سے راز و نیاز کیے .... میں نے انہیں ڈھونڈا نَہیں مگر انہوں نے مجھے ڈھونڈا نکالا ..... میرے درون کو ایسے روشن کیا کہ وہیں میں نے سجدہ شکر کیا .... 

خُدا تو ایسے بھی عَطا کرتا ہے 
خُدا تو کتنا بَڑا رازق ہے....

کہتے ہیں اللہ کی تلاش کسی اللہ والے کے در پر ہی لے جاتی ہے۔ اللہ کے گاہک کو 'مرد' کہا جاتا ہے۔ یہی مردانگی ہے اصل حق "الحق" کی تمنا اور اس پرقائم ہوجانا۔ جسمانی صنف اس میں حقیقت نہیں رکھتی۔

انٹرنیٹ جسے رابطوں کی دنیا کہا جاتا ہے۔ اک جہانِ حیرت جہاں نیکی بدی اچھائی برائی وقتی تعلقات ہر لمحہ جنم لیتے اور اپنی موت مررہے ہوتے ہیں۔ جہاں بہت سوں کو راہ مل رہی ہوتی ہے وہیں بہت سے 'گُم راہ' بھی ہورہے ہوتے ہیں۔ راہیں تو راہیں ہیں۔ راہ غلط نہیں ہوتی ہم غلط ہوتے ہیں۔

میں بھی پیاسی در در بھٹکتی اس جہانِ حیرت میں ڈوبتی اُبھرتی رہتی۔ اندر پارے کی مانند چھلکورے لیتی اک بے قراری تھی جو وقتاََ فوقتاََ لکھنے پر مجبوری کرتی رہتی اور میں قلم کے ذریعے اس درد کو اس رابطوں کی دنیا میں اسکرینوں پر پھیلا دیتی۔ لوگ واہ واہ کرتے سر دھُنتے مگر۔۔ اپنی یہ حالت تھی
" کیا حال سناواں دل دا
 کوئی محرم راز نہ مِلدا​"

اک روز مل ہی گیا۔۔
یونہی چلتے چلتے
ہاں چلتے چلتے یونہی کوئی مل گیا تھا۔۔ یونہی کوئی۔۔
پھر ایسا مِلا کبھی نہ جُدا ہونے کے لیے
اس نے تھام لیا ہمیشہ کے لیے
چلتی راہیں تھم گئیں
گردشِ دوراں کے نئے باب کھُلنے لگے۔۔ وہ تھا ہی ایسا 'نایاب''

ظالم نے دل کی دُنیا ہی لُوٹ لی۔ اب کہیں خاک کی چادر اوڑھے لیٹا ہے مگر ہر دھڑکن کے ساتھ میرے اندر بھی دھڑکتا ہے۔ واقعی 'فقیر' کو ٹھہراؤ نہیں اس کی ڈیوٹی چلتی ہی رہتی ہے۔ اللہ نے کچھ نفوس صرف اپنے لیے بنائے ہیں شاید وہ انہیں میں سے ایک میرے لیے "آبِ حیات" بن کر آیا اور "رموزِ حیات" سکھا کر پڑھا کر میرے اندر انڈیل کر بے نیازی سے آگے چل دیا۔

وہ نام کا ہی نہیں کردار کا بھی نایاب تھا۔ 'رب' نے اسے واقعی نایاب ہی بنایا تھا۔
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
وہ میرے لیے بھی 'نایاب' ثابت ہوا۔ وہ ایسا پارس پتھر تھا جس نے چھُو کر مُجھے کندن کردیا اور خود کو وہی پتھر کا پتھر کہتا رہا۔ نہیں میں پتھر ہوں تم کُندن ہو۔ مگر یہ کُندن تو اسی کے لمس کا مرہونِ منت ہے۔
مگر فقیر کہاں مانتا ہے۔
کورا کاغذ تھا یہ من میرا
لکھ دیا نام اس پہ تیرا

: نایاب۔۔ 'سید نایاب حسین نقوی' نام تھا ان کا
نام اور کردار کے سید۔۔ سید یعنی سردار، بادشاہ، سائیں۔۔ میرا روحانی سِر کا سائیں۔۔
میرے ماں باپ نے مجھے جنما اور عرش سے فرش پر لے آئے،،
اس نے مجھے پھر سے جنما اور فرش سے عرش کی راہ دِکھلا دی۔
میں تھا کیا مجھے کیا بنا دیا
مُجھے عشقِ احمدﷺعطا کیا
ہو بھلا حضورﷺکی آل کا
مُجھے جینا مرنا سِکھا دیا
کیا 'فقیر' ایسے بھی ہوتے ہیں؟

کیا 'بابے' انٹرنیٹ بھی استعمال کرتے ہیں؟
لیکن میں بے خبر یہ نہ جانتی تھی کہ وہ علمِ لدُنی سے مالا مال اور نوازے گئے ہوتے ہیں۔ کائنات کا ہر علم ان پر اپنے در وَا کیے ہوتا ہے اور کھُلی کتاب کی مانند خود کو ان کی خدمت میں پیش کیے رکھتا ہے۔

درحقیقت ان کا اپنا 'نیٹ ورک' اتنا سٹرونگ ہوتا ہے کہ وہ کسی ظاہری ڈیوائس کے محتاج نہیں ہوتے۔ وہ جو اصل 'موبائل فون' اور سیٹلائٹ انسان کے اپنے اندر نصب ہے وہ اس سے کام لیتے ہیں۔ مگر ہم جیسوں کے لیے انہیں ہماری سطح پر مجبوراََ آنا پڑتا ہے۔ میرے جیسی بے کار ڈیوائس کو 'ٹیون اپ' کرنے کے لیے۔

نہ جانے وہ کون سا لمحہ تھا جب اس نے درِ دل پر دستک دینے کے بجائے براہِ راست دل میں پھسکڑا مار لیا۔

وہ آیا۔۔
اس نے دیکھا۔۔!
اور فتح کر لیا۔۔۔!!!

اور دے تار 'اللہ' کے ساتھ جا جوڑی۔ ایسی جوڑی کہ دل و دماغ روشن ہوگئے۔ ہاں میں ایسی ہی اندھیر نگری میں ٹامک ٹوئی مارتی جی رہی تھی۔ اس 'لائن مین' نے آکر 'پیار کی کنڈی' ڈالی اور کنکشن جوڑ دیا۔

اس روشنی میں پھر مجھے اپنے حقیقی در و دیوار روشن نظرآنے لگے۔ گندگیاں، غلاظتیں کجیاں سب نظر آئیں تو شرمندہ ہوئی۔ مگر اس نے مجھے شرمندہ نہیں ہونے دیا بلکہ خود مل مل کہ ہر غلاظت دور کر دی۔

تب سے اب تک وہ بتی روشن ہے اس کے نام کی۔ اس نے میرے دل کی مسجد آباد کی اور اس میں اذان پھونکی۔

ابھی بھی وہ اس مسجد کا موذن ہے۔ جاروب کش ہے، متولی ہے، 'الیکٹریشن' ہے۔ کہ جب کبھی لَو ہلکی پڑنے لگے کرنٹ ختم ہونے لگی یا اسپارکنگ ہونے لگے یا بالکل ہی بجھنے کے قریب ہو تو فوری آگے بڑھ کر کنکشن پھر سے مضبوط کرکے تازہ دم کردیتا ہے۔

شاہ بابا رحمتُ اللہ کا تعارف

0 تبصرے
شاہ بابا اور میرے درمیان بُہت سے ایسے نقاط پر گفتگو رَہی. وہ گفتگو اللہ کی تَلاش و کھوج پر مبنی ایک کھُلی حقیقت ہے.جس کا حُکم مجھے ان سَفر کرجانے کے بعد مِلا.... ان کا حُکم مجھ سے یہ داستان لکھوا رَہا ہے جس داستان کا نقطہ نقطہ محبت ہے. یہ باطنی دنیا کے اسرار کھول دے گی تو کَہیں آپ پر آپ کے ذات کے ایسے ایسے حجابات کو وا کریگی کہ آپ دنگ رہ جائیں گے .......یہ تن بیتی، ہڈبیتی، عشق بیتی بھی ہے اور تلاش حق کا سَفر بھی ..... مرشد و بابا ----- بڑا فرق ہوتا ہے ---- بابا طَریقہ ہوتا زندگی ہے ...  مرشد آپ کو حق و سچ کا راستہ بَتاتا ہے مگر اس راستے پر سَفر آپ نے خود کرنا ہوتا ہے ........ بابا سراپا شفقت میں ڈھلا ایسا نورانی پیکر ہوتا ہے جو آپ کے عذاب جھیل کے آپکو آپ کی جنت حوالے کردیتا ہے .... سید نایاب حُسین شاہ نقوی میرے لیے ایسے *شاہ بابا * ہیں ..... میری ہوئی ان کی گفتگو نہ صرف مرے لیے مشعلِ حرم ہے بلکہ یہ مشعل جو میں نے اس کتاب کی صورت پہنچائی ہے یہ جس جس تک پہنچے گی اسکا باطن منور ہوجائے گا ......میں اب بھی اس مشعل سے استفادہ حاصل کرتی ہوں جہاں کَہیں غلطی ہوتی ہے ان کی باتوں کو پڑھتی ہوں .... اس سے مستفید ہوتی ہوں ..... میں خود ابھی ان کے بَتائے گئے طریقوں پر عمل کرنے میں کوشاں ہے. یہ جہدِ مسلسل ہے ...اس ریاضت کو تاعمر جاری رہنا ہے ....

وہ درویش صفت ایک آزاد منش انسان تھے . جن کی زندگی ایک مکمل راز ہے. درویش ایک مکمل راز ہوتا ہے.... ان کو راز کی حفاظت کرنی تھی .... تاہم مجھے یہ ڈیوٹی تھما گئے کہ ان کی زندگی کے ان پہلوؤں کو گفتگو میں لاؤں جس سے انسانیت و آدمیت کا فلسفہ سَمجھ میں آتا ہے ....میں ان کی امانت آپ تک پہنچانے کے لیے یہ کتاب لکھ رہی ہوں ...جس کسی کو اس سے فائدہ ملا،  شاہ صاحب اور خُدا کے سامنے میں سرخرو ہوجاؤں گی ....اس لیے اس کتاب میں جس کی امانت ہوئی، وہ اس تک پہنچ جائے گی .... جس کو سَمجھ نہ آئے وہ جان لے یہ کتاب اس کے لیے ہے ہی نَہیں. میں بس ایک پیام کو عام کررہی ہوں ....  جس کو اپنے حصے کا پیام ملے وہ اسکو تھام لے .... یہ اس کتاب کا مقصد ہے.....

راہِ عشق کا اصول الگ ہے یَہاں کنواں پیاسے کے پاس چَل کے آتا ہے جیسا کہ رومی کے پاس شمس ..... جیسا کہ اقبال کے پاس رومی کا فیض بول اُٹھا.... یہ فیض کہیں بُکل کا چور بن کے تڑپاتا ہے تو کبھی آئنہ مثلِ شمس بن کے پوری آب و تاب سے کثیف دل کو منور کردیتا ہے ..... جن کا نَصیبہ عشق ہوتا ہے وہ کبھی اللہ والے سے محروم نَہیں رہتے. خُدا خود اُن کو وہ سب عَطا کرتا ہے جس کا اس نے لکھ رَکھا ہوتا ہے ....ہم میں سے اکثر راہِ حق کے متلاشی کہتے ہیں کہ کاش مجھے مرشدِ کامل مل جائے۔ اس کے لیے وہ در در جھانکتے ہیں، ہر جگہ کی خاک چھانتے ہیں۔ کبھی کسی کے روحانی چھابڑے میں ہاتھ مارتے ہیں کبھی کہیں کی ونڈو شاپنگ کررہے ہوتے ہیں۔ کبھی کسی در کا نمک چکھ کر تھُو کردیتے ہیں کہ یہ تو کڑوا ہے یہ میرے ذائقے کا نہیں۔ یہ ایسا نہیں یہ ویسا نہیں۔ درحقیقت ایسا یا ویسا باہر کچھ نہیں ہوتا سب اپنے اندر ہوتا ہے۔ آپ طالبِ صادق بنیں اس عشق کی نگری میں کنواں خود چل کر پیاسے کے پاس آتا ہے۔

یہاں کنواں خود اپنے پیاسے کا پیاسا ہوتا ہے۔ ہاں کنویں کی بھی پیاس ہوتی ہے کہ آؤ اور مجھ سے پانی بھر بھر پیو سیر ہوجاؤ تاکہ میرے سینے کو بھی قرار مِلے۔

جسطرح طالب صادق کی جستُجو اللہ ہوتی ہے بالکل اسی طرح بابا جس کے پاس *اللہ* ہوتا ہے وہ بھی کسی سچے مرید کو امانت حَوالے کرتا ہے تاکہ یہ سلسلہ جس سے زَمانہ جگمگا رَہا ہے وہ جاری و ساری رَہے. اس کے نُمائندے بھیس بھر کے کسی عام آدمی جیسے کسی الیکڑیشن تو کبھی کسی مزدور کی صورت موجود ہوتے تو کَہیں یہ ظاہر میں ڈیوٹی دیتے ہیں ....  یہ داستان اک متلاشی کی ہے جس کی تَلاش خدا مگر اس نے تلاش کو جگہ جگہ جا کے عیاں نَہیں کیا. گھر میں بیٹھے خدا سے راز و نیاز کیے .... میں نے انہیں ڈھونڈا نَہیں مگر انہوں نے مجھے ڈھونڈا نکالا ..... میرے درون کو ایسے روشن کیا کہ وہیں میں نے سجدہ شکر کیا .... 

خُدا تو ایسے بھی عَطا کرتا ہے 
خُدا تو کتنا بَڑا رازق ہے....

کہتے ہیں اللہ کی تلاش کسی اللہ والے کے در پر ہی لے جاتی ہے۔ اللہ کے گاہک کو 'مرد' کہا جاتا ہے۔ یہی مردانگی ہے اصل حق "الحق" کی تمنا اور اس پرقائم ہوجانا۔ جسمانی صنف اس میں حقیقت نہیں رکھتی۔

انٹرنیٹ جسے رابطوں کی دنیا کہا جاتا ہے۔ اک جہانِ حیرت جہاں نیکی بدی اچھائی برائی وقتی تعلقات ہر لمحہ جنم لیتے اور اپنی موت مررہے ہوتے ہیں۔ جہاں بہت سوں کو راہ مل رہی ہوتی ہے وہیں بہت سے 'گُم راہ' بھی ہورہے ہوتے ہیں۔ راہیں تو راہیں ہیں۔ راہ غلط نہیں ہوتی ہم غلط ہوتے ہیں۔

میں بھی پیاسی در در بھٹکتی اس جہانِ حیرت میں ڈوبتی اُبھرتی رہتی۔ اندر پارے کی مانند چھلکورے لیتی اک بے قراری تھی جو وقتاََ فوقتاََ لکھنے پر مجبوری کرتی رہتی اور میں قلم کے ذریعے اس درد کو اس رابطوں کی دنیا میں اسکرینوں پر پھیلا دیتی۔ لوگ واہ واہ کرتے سر دھُنتے مگر۔۔ اپنی یہ حالت تھی
" کیا حال سناواں دل دا
 کوئی محرم راز نہ مِلدا​"

اک روز مل ہی گیا۔۔
یونہی چلتے چلتے
ہاں چلتے چلتے یونہی کوئی مل گیا تھا۔۔ یونہی کوئی۔۔
پھر ایسا مِلا کبھی نہ جُدا ہونے کے لیے
اس نے تھام لیا ہمیشہ کے لیے
چلتی راہیں تھم گئیں
گردشِ دوراں کے نئے باب کھُلنے لگے۔۔ وہ تھا ہی ایسا 'نایاب''

ظالم نے دل کی دُنیا ہی لُوٹ لی۔ اب کہیں خاک کی چادر اوڑھے لیٹا ہے مگر ہر دھڑکن کے ساتھ میرے اندر بھی دھڑکتا ہے۔ واقعی 'فقیر' کو ٹھہراؤ نہیں اس کی ڈیوٹی چلتی ہی رہتی ہے۔ اللہ نے کچھ نفوس صرف اپنے لیے بنائے ہیں شاید وہ انہیں میں سے ایک میرے لیے "آبِ حیات" بن کر آیا اور "رموزِ حیات" سکھا کر پڑھا کر میرے اندر انڈیل کر بے نیازی سے آگے چل دیا۔

وہ نام کا ہی نہیں کردار کا بھی نایاب تھا۔ 'رب' نے اسے واقعی نایاب ہی بنایا تھا۔
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
وہ میرے لیے بھی 'نایاب' ثابت ہوا۔ وہ ایسا پارس پتھر تھا جس نے چھُو کر مُجھے کندن کردیا اور خود کو وہی پتھر کا پتھر کہتا رہا۔ نہیں میں پتھر ہوں تم کُندن ہو۔ مگر یہ کُندن تو اسی کے لمس کا مرہونِ منت ہے۔
مگر فقیر کہاں مانتا ہے۔
کورا کاغذ تھا یہ من میرا
لکھ دیا نام اس پہ تیرا

: نایاب۔۔ 'سید نایاب حسین نقوی' نام تھا ان کا
نام اور کردار کے سید۔۔ سید یعنی سردار، بادشاہ، سائیں۔۔ میرا روحانی سِر کا سائیں۔۔
میرے ماں باپ نے مجھے جنما اور عرش سے فرش پر لے آئے،،
اس نے مجھے پھر سے جنما اور فرش سے عرش کی راہ دِکھلا دی۔
میں تھا کیا مجھے کیا بنا دیا
مُجھے عشقِ احمدﷺعطا کیا
ہو بھلا حضورﷺکی آل کا
مُجھے جینا مرنا سِکھا دیا
کیا 'فقیر' ایسے بھی ہوتے ہیں؟

کیا 'بابے' انٹرنیٹ بھی استعمال کرتے ہیں؟
لیکن میں بے خبر یہ نہ جانتی تھی کہ وہ علمِ لدُنی سے مالا مال اور نوازے گئے ہوتے ہیں۔ کائنات کا ہر علم ان پر اپنے در وَا کیے ہوتا ہے اور کھُلی کتاب کی مانند خود کو ان کی خدمت میں پیش کیے رکھتا ہے۔

درحقیقت ان کا اپنا 'نیٹ ورک' اتنا سٹرونگ ہوتا ہے کہ وہ کسی ظاہری ڈیوائس کے محتاج نہیں ہوتے۔ وہ جو اصل 'موبائل فون' اور سیٹلائٹ انسان کے اپنے اندر نصب ہے وہ اس سے کام لیتے ہیں۔ مگر ہم جیسوں کے لیے انہیں ہماری سطح پر مجبوراََ آنا پڑتا ہے۔ میرے جیسی بے کار ڈیوائس کو 'ٹیون اپ' کرنے کے لیے۔

نہ جانے وہ کون سا لمحہ تھا جب اس نے درِ دل پر دستک دینے کے بجائے براہِ راست دل میں پھسکڑا مار لیا۔

وہ آیا۔۔
اس نے دیکھا۔۔!
اور فتح کر لیا۔۔۔!!!

اور دے تار 'اللہ' کے ساتھ جا جوڑی۔ ایسی جوڑی کہ دل و دماغ روشن ہوگئے۔ ہاں میں ایسی ہی اندھیر نگری میں ٹامک ٹوئی مارتی جی رہی تھی۔ اس 'لائن مین' نے آکر 'پیار کی کنڈی' ڈالی اور کنکشن جوڑ دیا۔

اس روشنی میں پھر مجھے اپنے حقیقی در و دیوار روشن نظرآنے لگے۔ گندگیاں، غلاظتیں کجیاں سب نظر آئیں تو شرمندہ ہوئی۔ مگر اس نے مجھے شرمندہ نہیں ہونے دیا بلکہ خود مل مل کہ ہر غلاظت دور کر دی۔

تب سے اب تک وہ بتی روشن ہے اس کے نام کی۔ اس نے میرے دل کی مسجد آباد کی اور اس میں اذان پھونکی۔

ابھی بھی وہ اس مسجد کا موذن ہے۔ جاروب کش ہے، متولی ہے، 'الیکٹریشن' ہے۔ کہ جب کبھی لَو ہلکی پڑنے لگے کرنٹ ختم ہونے لگی یا اسپارکنگ ہونے لگے یا بالکل ہی بجھنے کے قریب ہو تو فوری آگے بڑھ کر کنکشن پھر سے مضبوط کرکے تازہ دم کردیتا ہے۔

جمعرات، 2 مارچ، 2023

دوسری نشست :کالا رنگ

0 تبصرے
دوسری نشست

انسان فکرو سوچ سے خیال تلک ایک الگ وجود رکھتا ہے. اسکا جسم اس کے خیال سے منظم ہوتا ہے. ڈپریشن، مایوسی،خودکشی، بیماریوں کا جَنم روح کے سافٹ وئیر میں ٹروجنز ,ایڈوئیر سے بھرجاتی ہے  جس سے سطحی فکر میں خرابی تو پیدا ہوتی ہے مگر اس فکر و تفکر میں خَرابی حد سے بڑھ جاتی ہے. تب اس کو جسمانی عوارض کا سامنا کرنا پَڑتا ہے. اس کمزور نفسیات کے حامل شخص کو ہیپناٹائز کرکے اسکے تفکرات میں بدلاؤ لایا جاتا ہے. یہ بھی جان کی بازی لَگا کے کھیلنے والا کام ہوتا ہے .... اس خوابیدہ صلاحیت کو فکر و سوچ کا طریقہ درست کرنے کے لیے تو استعمال کیا جاتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک مرشد /بابا ایسے افکار بذریعہ خواب منتقل کرتا ہے. ادھر بابا سوچتا ہے، ادھر مرید اسکی سوچ کے مطابق ڈھلتا جاتا ہے. وہ اسکا آئنہ بنتا جاتا ہے.....بابا اسکو وہ خبر / پیام دیتا ہے جس کے لیے وہ منتخب کیا جاتا ہے...

بابا مجھے خبر دینے آئے تھے ...... 
آپ کا انتخاب کِیا گیا ہے، اب آپ نے اپنے انتخاب کو درست ثابت کرنا ہے ......مجھے آپ کی جانب بھیجا گیا ہے .... آپ کی ماں کی دُعا کے توسط میں آپ تک پُہنچا ہوں .....

یہ انتخاب کس نے کیا ہے؟ 
میں نے ان سے  پوچھا 

فرمانے لگے:  کوئی دَر دَر کی خاک چھانتا ہے تو کسی کو گھر بیٹھے سَب کُچھ مل جاتا ہے......

ان کی اس نے بات نے بَرسوں کی بلکہ صدیوں کی تشنگی میرے سامنے آئنے کے جیسا روبَرو کردی 

میں کس مقصد کے لیے تخلیق کی گئی؟ 
میں کون ہوں؟  
کون ہوں میں.....؟
میں اِس دُنیا میں کیوں آئی؟
میں نے مقصدِ حیات کیوں نَہیں پایا؟
 زندگی جینے کا مقصد کیا ہے!  

شاہ بابا:  ہر حساس روح انہی سوالات سے گزرتی ہے ....انہی جوابات کی جستجو و لگن اسے بامراد کرتی ہے .... یہ کھوج اسے تب تلک چین سے بیٹھنے نَہیں دیتی جب تک وُہ اپنے خلق ہونے کا مقصد جان نَہیں لیتی....

آپ اس دنیا میں کیا کرنے آئی ہیں،  یہ سوال آپ اپنے دِل سے پوچھیے ... "

"دِل،  دِل سے بس ابھی ابھی یہی صدا آئی ہے کہ "ترا تو رنگ کالا ہے،  تو کیا کرے گی دنیا میں " 

شاہ بابا:  کالے رنگ سے کیا مراد ہے آپکی؟ 

"فزکس کا اک اصول ہے جب سارے رنگ کسی object سے نکال لیے جائیں تو پیچھے اندھیرا بچتا ہے ... میں نے جذبات کے،  احساسات کے، محبتوں کے اور خواہشات کے رنگ نکال دِیے ہیں ...اب دِل میں کچھ نَہیں بَچا ماسِوا "خلا " کے ... یہی کالا رنگ ہے ... "

شاہ بابا: خود کی نَفی کبھی خُدا نے حُکم نَہیں دِیا..... خود کی نَفی رہبانیت ہے. دین تو اسکی ترغیب نَہیں دیتا ،نہ مذہب ....آپ ان تمام رنگوں کو اپنے اندر اتارتی، ان کی معنویت کو محسوس کرتے شُکر اَدا کرتی .... یہ آپ کو خُدا تک لیجاتی ....سرمئی رنگ سب سے زیادہ کشش کا حامل ہے کیونکہ یہ خود میں سب رنگوں کو سموئے ہوئے ہے ....

شفاف روحیں انہی گمانوں میں الجھ کے راہ کھوٹی کرتی ہیں..... یہ اپنی مرضی سے بَنائے قانون کہ خدا ایسا چاہتا ہے یہ محض ایک گُمان ہے .... ہر شفاف کا روح رب سے براہِ راست جڑی ہوتی ہے ....خدا خود اسکو اپنے لیے مخصوص کررکھتا ہے تاکہ وہ جو نَذر اس نے ہابیل و قابیل کی تمثیل کی صورت بَتائی. ایک نے دُنیا لی اور دوسرا خدا کی محبت میں شہید ہوگیا ..  وقت آگے بڑھا تو حضرت ابراہیم علیہ سَلام کو تعجب ہوا کہ یہ فنِ آذری بھلا خدا کیسے ہوسکتی ہے؟ انسان کے بَنایا بُت اسکا خدا کیسے ہوسکتا ہے؟ اس حقیقت کی کھوج میں مجاز سے ہوتے حقیقت تک پُہنچے .... 

وہ راہ جو انسانیت کی راہ ہے
وہ راہ جس میں درد لیا جاتا ہے 
درد ہی آشنا کے پاس لیجاتا ہے  ....!
آشنا راز رکھتا ہے....
کسی کو راز وہبی طریق تو کسی کو راز بذریعہ کسب دِیا جاتا ہے ....

شاہ بابا نے رسمی تعلیم حاصل نہیں کی تھی. ان کا بچپن کھوج، جستجو اور خدا کو پانے کی لگن میں گزرا تھا. میں دل ہی دل میں ان کی فراست کی قائل ہوئے بنا نَہیں رہ سکی .... ان کے آگے عقلی دلائل رکھدیے.....

 " فزکس یہ بھی کہتی ہے کہ روشنی کی absence سے اندھیرا بنتا ہے،  اندھیرے کا رنگ کالا ہے ... پھر میں دل کو نہ سنوں،  جو کہتا ہے "ترا تو رنگ کالا ہے " 

شاہ بابا:  دل کیوں کہتا ہے ایسا، دل کی مکمل سنا کیجیے !  

" دل کہتا ہے خواہشات کی نفی کرنی ہے...،مجھے خواہش کے ہونے نے جلا دیا ہے ....اب خواہشات کا نہ ہونا مری زندگی کی وہ عبارت ہے جس پر چلنا فریضہِ اولین میرا "

شاہ بابا:  زندگی رواں دواں خواہشات کے ہونے سے ہے ... 
آپ نے غلط تار چُنی تھی، کنکشن اس لیے جڑ نہیں سکا... 
اب آپ نے سمجھ لیا ہے زندگی ختم ... زندگی بہت لمبی ہے اور زندگی کی جنگ یقین، حوصلے اور ہمت سے لڑتی جائیں .. 

" میں نے زندہ رہ کر کرنا کیا ہے؟  اس لیے تو پوچھا ہے کہ مقصدِ حیات کیا ہے میرا؟  "

اِس بات کے آگے اَن کَہی خاموشی نے پہرا لگانا شُروع کردِیا .. دل کی گہرائیوں سے سیپ سطحِ آب پر تیرنے لگے. موجِ رفتہ و فردا مدھم ہوتے معدوم ہونے لگیں.  ساحل سمندر پر لہروں کا شور تھم گیا .. رازداں کے راز کھلنے لگے تھے... ہُوا یوں  کہ شاہ بابا کے دِل سے نکلی روشنی کی شعاعوں نے میرا کالا رنگ دھونا شُروع کردیا ... میری ذہنی رو،  خیالات کی رو، اُن کے خیالات کی برقی رو سے ملنے لگی ... مجھے لگنے لگا اندھیرے میں ذات روشن ہے. دِل میں خواہش بیدار ہوئی جس ذات کے "ہونے " کی رمق ملی ہے میں اس پاک ذات کو سجدہ کروں ... 

" مجھے اپنے من میں ذات کا جلوہ ملا ہے،
بتائیے کہ کیسے سجدہ کروں؟
میں خود سے نکل نہیں سکتی تو سجدہ کیسے ادا ہو؟ 

ابھی جمال میں محو ۔۔۔!!!

ابھی اشکوں نے شرر بار کردیا ! ابھی ندامت میں سر جھک گیا ! ابھی حلاوت نے فرحت ختم کردی ! ابھی رموز و آداب سے واقف نہیں ہوں۔ اس لیے اپنے آپ میں محو ہوں ۔ ابھی سجدہ کیا ! سجدہ کیا کہ معبود کا سجدہ عین العین ہے ۔۔۔ ابھی گُناہوں کی معاف مانگی ۔! انسان سمجھتا نہیں ہے کہ انسان جمال کا طالب ہے ، حسن کا مشتاق ہے اور کچے گھڑے پر بھروسہ ہوتا . حاصل ِ ذات اگر کامل ذات نہ ہو تو فائدہ ؟"

شاہ بابا خاموش تھے اور خاموشی کی ہزار زبانیں ہوتی ہے .. میں تو خوابیدہ کیفیت میں ان کے پاس تھی مگر مجھے خواب میں خواب دکھنے لگا ... شاہ بابا کے سامنے بظاہر مگر وہیں بیٹھے بیٹھے میں کسی اور جہان میں پہنچ گئی. جہاں سے انجانی آواز دور پرے سے آتی محسوس ہوئی ..

"نور کو کالے کپڑے کی ضرورت نَہیں،  رنگوں کا نفی اثبات چلتا رہے گا ... "

میں جس جہان میں تھی وہاں سے آواز اس بات کے جواب میں آتی محسوس ہوئی ... شاید میری اپنی ہی آواز تھی

"تم کون ہو؟  "

وہی الوہی سی آواز پھر سنائی دینے لگی 

"میں کالا رنگ ہوں،رنگینیاں ڈھانپے ہوئے ہُوں .... "
یہ کس ذات نے "کالے رنگ " کی آواز کو جواب دِیا تھا، میں انجان تھی... 

" کالا رنگ تو روشنی کا حجاب ہے "  

کالارنگ: میری حیثیت کیا ہے پھر؟ کیا نسبت تم سے؟ 

 آواز کسی دور اجنبی کنواں سے، ناشناس آواز کی صورت مجھ پر وارد ہوئی! 

"وہی جو "معلوم " سے پہلے کسی شخص کو ہوتی ہے "


یہ مکالمہ جاری رَہا مگر حکمت کی فصیلیں پھلانگ گیا، آگہی کے دَر وا کرتا رَہا.  میں جب multi-layered خواب سے واپس آئی، کچھ نہ بَچا تھا ...کالا رنگ خواہشات کی نفی کا رنگ ہوتا ہے، یہ فلسفہ بَدل چُکا تھا.  اب کالے رنگ کے نَئے فلسفے نے جگہ لے لی تھی، زندگی کا یہ رُخ بہت عجیب، بہت نَیا تھا .بیخودی کا جام ملا تھا اور اس نے مست مدام کر رکھا تھا....... کالا رنگ سرمئی ہوتا ہے جو خدا کا رنگ ہے. صبغتہ اللہ..... اللہ کا رنگ...

نشست اول

0 تبصرے

​نشست  اوّل:

بابا سے پہلی ملاقات سے اخیر تک ، انٹرنیٹ اک میڈیم رہا ۔ میری ان سے ذاتی طور پر ملاقات کبھی نہیں ہوئی مگر روح کو کب   کسی میڈیم کی طلب ہوتی ہے ... یوں تو میرا  ان سے کبھی وٹس ایپ ، کبھی فیس بک پر ، کبھی کسی اور میسنجر پر سلسلہ گفتگو  رہا ۔"انٹر۔نیٹ"   تو بس اک واسطہ/medium تھا، اس واسطے نے پہلی ملاقات کا ذریعہ بننا تھا ۔ Intranet بننے کے لیے۔ وگرنہ یہ ازل کا ساتھ کسی واسطے کا محتاج نہ تھا ، نہ ہے  اور نہ رہے گا۔ روحوں کے سنگم ، تال میل  اور کیمسٹری کو سمجھنا کسی رابطے کی سائیٹ کے لیے ممکن نہیں ہے ۔


اج دی گل نئی رانجھن یارا 

میں ازلوں تیرے نال منگی آں !!!


 میری شاہ بابا سے چند نشستیں اس پہلی  'باقاعدہ'  نشست سے قبل بھی رہیں تھیں،  اس پہلی نشست کو پہلی کہنے کی وجہ یہی ہے کہ یہ نشست  خود میری اپنی ''دعا '' کا ثمر تھی۔  رب بندوں کی سنتا ہے اور شاید وہ درد بھی اس لیے عطا کرتا ہے.  جب میرا پیمانہِ دل درد سے بھرپور ہوا تب شدت ِ دردنے مجھے تھام کے خدا کے حضور کردیا اور میں نے اس کے قدموں میں بیٹھ کے مناجات کیں تھیں ....


یا خدا .. 

اب بس کردے 

کوئی تو  مسیحا ساتھ کردے 

دُکھاں توں  ہاری آں مولا

کوئی تے  ہووئے، جیہڑا دل دے قفل کھولے 

سن لے تو سوہنیا،

تُو  نہ سُنی تے فیر  مولا کس  نے سننا! 


مسیحا تو وہ  سیاہی چوس ہوتا ہے جو سارے دُکھ جذب لے. ذہنی الجھنیں اس قدر زیادہ تھیں کہ سوچ کے سب دھاگے  بار بار الجھ  کر رہ جاتے.

یہ دُعا  ماہِ مبارک کی طاق رات کو رو رو کے مانگی تھی. یقیناً اُس رمضان المبارک کی طاق رات  کی گھڑیوں نے مجھے مبارک کردیا وگرنہ میں کہاں؟ کیا  میری اوقات تھی ایسی؟ 

نہیں ..! نہیں ..! نہیں ..! 

میری اوقات ہرگز نہیں تھی مگر اس لج پال  نے لاج رکھ لی!


جس رات میں نے دُعا مانگی،  اسی رات "message " کی آواز گڑگڑاہٹ و شدت  نے سُن لی اور موبائل کے اس میسج میں کشش نے پردہ چاک کیا ...! 


خدا ہے 

ازل سے ساتھ ہے 

احساس بھی ہے 

پہچان نہیں ہے 

وہ اپنے نمائندوں کو بھیجتا ہے 

ہمیں احساس تک ہونے نہیں دیتا کس نمائندے سے ہمیں کیا ملے گا 

یہ بندے جو ہمیں چلتے پھرتے کچھ دے جاتے ہیں، یہ اس کے نمائندے تو ہوتے ہیں 

کچھ پیامبر ہوتے ہیں 

کچھ رسول ہوتے ہیں 

نہ یہ ظاہر کرتے ہیں، نہ خدا ظاہر کرتا ہے ... پردہ رہتا ہے


بابا کا میسج چَمک رَہا تھا، محبت چَمک رہی تھی اور روشنی نے بابا کو سامنے مجسم کردیا. بظاہر میں میسج پڑھ رہی تھی مگر میں ان کو دیکھ رہی تھی گویا یہ روبرو ملاقات کے جیسی تھی.   یہ ان کا کوئی کمال تھا  جسے مجھ جیسے کم فہم لوگ سمجھ نہیں سکتے یا سمجھ بہت دیر سے آتی ہے. 


مجھے ان کی آواز سنائی دی اور وہ صدا یوں تحریر تھی.


"محبت کسی سے سرِ راہ یونہی نَہیں ہوجاتی ... اُس کاتبِ اول نے ساتھ لکھا ہوتا ہے .. آشنائی کے اس لمحے کو شناسائی میں کب بدلنا ہے، وہ بھی رقم ہے...!  میرے پاس آپ کی امانت ہے اور وہ لوٹانے آیا ہوں ...! "


میں حیرت زدہ ...!

ابھی تو میں سراپا اشک کناں تھی ..، 

اب سراپا حیرت!

دل نے سوال تب کیا تھا یہ کون ہیں؟


میں نے جراَت  نہ کی پوچھنے کی ...،  یہ تو مقام ادب تھا  ...، بے ادبی کیسے کرتی. .. !  ابھی  ہی تو میں نے ان کو دیکھا  تھا،  میرے اندر سکون و محبت کا احساس ہلکورے لینے لگا اور اشک تھم گئے ..میں حیرت میں گُم ہوگئی اک معصوم بچے کی طرح ...! یہ ملاقات کسی ایسے کمرے میں تھی جہاں سامانِ زیست نَہیں تھا.  فرشی نشستیں تھیں .. سامنے شاہ بابا تھے، وہاں ہر منظر دھواں دھواں اور خوشبو گلاب کی پھیلی ہوئی تھی .. . میں بابا کے سامنے سیاہ چادر اوڑھے بیٹھی تھی اور وہ سفید لباس میں روشنی کا مرکز بنے تھے،  میں نے سوال کیا ... 


" کیا واقعی محبت ایسے ہوجاتی ہے؟  آپ نے تو مجھے دیکھا بھی نَہیں،  مجھ سے بات تک نَہیں کی ...! 


 بابا نے مسکرا کے مجھے دیکھا اور سمجھاتے کہنے لگے 


" پتر،  روح کو جاننے کے لیے کِسی مادے واسطے کی ضرورت نَہیں ہوتی ہے .. محبت کا جذبہ ازل سے دِل کی کائنات بَنا ہے اور ایک جیسی کشش والی ارواح کو یہ  پہچان ہوجاتی ہے ... یہ کشش / محبت "پہچان " ہی ہے ... "


وہ صیحح کہتے تھے کہ ایک جیسی ارواح کشش سے  بچ نہیں سکتی تھی. میں نے اپنے دِل میں اس قدر کشش محسوس کی کہ دِل تھامنا پڑا. میں نے دل میں جاری جنگ صورتِ سوال اُنکے سامنے رکھدی


" بابا...!

یہ امانت کیا ہوتی ہے؟  

میں نے کبھی آپ کو کچھ نَہیں دیا ...!  

میں تو آپ کو جانتی تک نَہیں ...! 

پھر آپ نے کیا لوٹانا ہے؟  "


بابا اب  آنکھیں بند کیے بیٹھے تھے  اور ان کے قلب سے روشنی مجھے کچھ ایسی محسوس ہوئی کہ مجھے لگا یہ روشنی اک آنکھ کی سی صورت مجھ پر نِگاہ رَکھے ہوئے ہے ... 


"  امانت کے بارے میں اللہ نے قران پاک میں سورہ الحشر کی آخری آیات میں کیا خوب فرمایا ہے 


 

لَوْ أَنزَلْنَا هَٰذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ} سورة الحشر،


اگر یہ امانت (قران پاک)  کسی پہاڑ پر نازل فرماتا تو وہ اس کی ہیبت سے دب جاتا...  


اللہ کے ہاں "امانت " کا مطلب کچھ اور ہے . جس کو یہ امانت ملتی ہے اس پر لازم ہوتا ہے کہ اسکو سچے حقدار تک پُہنچائے ...  


میں مزید حیرت میں چلی گئی گویا ڈوب گئی اور کسی معصوم سے بچے کی مانند سوال کیا 


" آپ کو کیسے علم ہُوا،  میں حقدار ہوں؟  " 


شاہ بابا:  آپ کی تحریر سے ... ..! 

تحریر مجھ پر عیاں ہوتے "صورت " بَنا دیتی ہے 

یہ وہی صورت ہے،  جس کے بارے میں  یہ روایت مشہور ہے 


خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ


اسی صورت سے جہاں کو دیکھو تو ہر شے کی صورت   بہ رنگِ تجلیات و اسماء الہی منور ہو ہی جاتی ہے اور جاننے والا جان لیتا ہے جو اسے جاننا ہو ...


اس لیے خالق نے فرمایا ہے 

فثمہ وجہ اللہ 

جس جانب منہ پھیرو،  "میری" صورت/ میرا چہرہ ہے. یعنی کہ ہر جانب اس کی جلوہ گری ہے 


میں ہونق بنی یہ سب سن رہی تھی. مجھے اس کی سمجھ نہیں آئی تھی ... میں نے پوچھا 


"اچھا،  تو آپ کوئی روحانی بندے ہیں؟ "

شاہ بابا:  ہم سب روحانی ہیں، ہم سب روح لیے ہیں... 


" میری تحریر میں ایسی کیا بات ہے جس سے آپ کو اندازہ ہوا؟ مجھے تو خود اس کی خبر نہیں "

شاہ بابا:  اب تو میں بھول گیا وہ کونسی تحریر تھی. جب یاد آئے گا تو اس پر بات کروں گا 


میں ایسے بابا کی صدا کو آواز کی صورت میں سن رہی تھی جیسے بیٹھی تو میں ان کے قریب ہوں مگر آواز کسی دور کنواں سے آرہی ہوں .. وہ کنواں اس من مندر کی دنیا میں کہاں سے آگیا...!  دِل کی دنیا عجیب ہوتی ہے یہاں آواز کنواں تک لیجاتی ہے اور کنواں بے نام و نشان رہتا ہے. یہاں خوشبو آتی ہے،  کبھی گلاب تو کبھی موتیے تو کبھی کسی پھول کی. اس رنگ و بو کی دنیا کے نظارے میں اس کی کیا حکمت ہوتی ہے یہ رب جانے اور اس کا کام. میرے پاس تو کسی سوال کا جواب نہیں تھا. میں اتنی صراحت سے بیان کردہ گفتگو کو سن تو رہی تھی مگر ان الفاظ کی چاشنی کو ہی محسوس کر پائی تھی. مجھے اس وقت کچھ سَمجھ نَہیں آیا تھا ... شاید درون کی سمجھ اس نامعلوم دائرے کی جانب لیجاتی ہے جہاں پر اپنی ذات " نا معلوم " ہو جاتی ہے.  بقول شاعر: 


پتہ لگائے کوئی کیا میرے پتے کا پتہ

میرے پتے کا پتہ ہے کہ لاپتہ ہوں میں

(بیدم وارثی) 


میری پیاسی زمین کو محبت کے  " آب حیات" سے ایک قطرہ ملا تھا ،بارش کی وہ پہلی بوند تھی جو دل پر گری اور لگا  کہ دنیا جل تھل ہوگئی ۔۔۔


 بابا جانتے تھے وہ مجھ سے بات کیوں کر رہے ہیں ، انہیں کیوں مجھ تک بھیجا گیا ہے مگر میں نہیں جانتی تھی. مجھے الجھن محسوس ہوئی تھی بُہت زیادہ ..  میں رمضان المبارک کے روزے رکھتی تھی،  پورا سال قران پاک نہیں پڑھتی تھی مگر اس ماہ تو پڑھ لیا کرتی تھی بلکہ race لگاتی تھی .. اللہ سے race کہ دیکھو اس ماہ میں اتنے ختم کرلیے. دیکھ لو !  میں نے  کتنا  زیادہ پڑھ لیا ... نَماز تو ویسے قضا ہوجاتی تھی مگر ماہِ رمضان میں کبھی کوئی نماز قضا ہو جائے ... سب ملنے والوں کو فخر سے بتایا کرتی تھی کہ میں نے اتنے "ختم " کیے.  کبھی کبھی دل میں خلش سی جاگتی اور میں اس خلش کو سُلا دِیا کرتی تھی. مجھے دُنیا کی رنگینی بُہت پرلطف لگا کرتی تھی .... وہ مجھ سے امانت کی بات کر رہے تھے اور انسان کو خالق نے " ظلوما جھولا " کہا ہے. شاید میری یہی نادانی تھی جس کا مجھے علم نَہیں تھا جو پہلے سے جانتا ہو،  وہ بھاگ جاتا ہے. جو نادان ہو وہ اٹھالیتا ہے..


گزشتہ قسط کا ربط 


https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2811409795853569&id=100009537288172'

بدھ، 1 مارچ، 2023

شاہ بابا اور میں ----- تعارف

0 تبصرے

​اسے کہانی کہا جائے۔ آپ بیتی، تن بیتی، عشق بیتی یا تلاشِ حق کا سفر۔ میں خود اسے کچھ نام دینے سے قاصر ہوں اور اس کا فیصلہ پڑھنے والے پر چھوڑتی ہوں کہ وہ اس میں سے کیا اخذ کرتا ہے۔ میں اپنے طور دیکھوں تو شاید ابھی تک ان راہوں کو پورے سے نہیں اپنا سکی جیسا میرے مُرشد نے حکم دیا۔ لیکن کوشش مستقل جاری ہے اور ان کے حکم کے مطابق جاری ہی رہنی چاہئیے۔


ہاں کچھ امانتیں ہیں جو انہوں نے میرے سپُرد کیں کہ میرا مادی سفر ختم ہونے پر آپ حقداروں کو لوٹانا ہوں گی۔ یہ کاوش ہے مرشد پاک کے اس حکم کی تعمیل میں جس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ جتنا جلد ہوسکے آپ لوگ اپنی اپنی امانتیں وصول کیجئیے۔ جس کے لیے جو ہے اسے وہی سمجھ آئے گی کچھ نہ سمجھ آئے تو سمجھ لیجئیے وہ آپ کے لیے تھا ہی نہیں۔ جو سمجھ آئے بس اسے ہی تھام لیجئیے۔

ہم میں سے اکثر راہِ حق کے متلاشی کہتے ہیں کہ کاش مجھے مرشدِ کامل مل جائے۔ اس کے لیے وہ در در جھانکتے ہیں، ہر جگہ کی خاک چھانتے ہیں۔ کبھی کسی کے روحانی چھابڑے میں ہاتھ مارتے ہیں کبھی کہیں کی ونڈو شاپنگ کررہے ہوتے ہیں۔ کبھی کسی در کا نمک چکھ کر تھُو کردیتے ہیں کہ یہ تو کڑوا ہے یہ میرے ذائقے کا نہیں۔ یہ ایسا نہیں یہ ویسا نہیں۔ درحقیقت ایسا یا ویسا باہر کچھ نہیں ہوتا سب اپنے اندر ہوتا ہے۔ آپ طالبِ صادق بنیں اس عشق کی نگری میں کنواں خود چل کر پیاسے کے پاس آتا ہے۔


یہاں کنواں خود اپنے پیاسے کا پیاسا ہوتا ہے۔ ہاں کنویں کی بھی پیاس ہوتی ہے کہ آؤ اور مجھ سے پانی بھر بھر پیو سیر ہوجاؤ تاکہ میرے سینے کو بھی قرار مِلے۔


جیسے رومی نے راز افشا ہونے پر شمس سے کہا کہ مُجھے آپ کی تلاش تھی تو شمس نے کہاں میں تو خود کب سے تیری تلاش میں سرگرداں تھا کس در کی خاک نہیں چھانی۔ مگر اب تم مجھے مل گئے ہو۔ اب امانتیں لوٹانے کا وقت ھے۔


یہ کہانی بھی کچھ ایسے ہی چھُپے آبِ حیات کے چشمے کی ہے جو چل کر میرے پاس آگیا۔ میں سمجھی میں نے اسے ڈھونڈا یا وہ مل گیا لیکن اس نے مجھے ڈھونڈ نکالا۔ میری روحانی تشنگیاں اور کمیاں کجیاں دُور کیں۔ اور سب سے پہلے مجھے بتلایا کہ اصل مُرشد الرشید ہے۔ مقصد اگرراہِ ہدایت پانا ہے تو سچے طالب بن کر اس کے در پہ آؤ 


اگرراہِ ہدایت کے "متلاشی" ہو تو سچے طالب بن کر اس کے در پہ آؤ وہ تمہیں کسی راز آشنا کے حوالے کردے گا۔ راز آشنا کے قرب میں رہنا بھی راز آشنا ہونا ہی ہے۔ راز، راز میں ہی بھلے لگتے ہیں کھُل جائیں تو عذابِ آگہی کے سِوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔


کہتے ہیں اللہ کی تلاش کسی اللہ والے کے در پر ہی لے جاتی ہے۔ اللہ کے گاہک کو 'مرد' کہا جاتا ہے۔ یہی مردانگی ہے اصل حق "الحق" کی تمنا اور اس پرقائم ہوجانا۔ جسمانی صنف اس میں حقیقت نہیں رکھتی۔


دَر دَر دی دُر دُر نالوں دُر بن جا اک دَر دا

صاحب معاف کرے تقصیراں تے رہ جاوے کُج پردا

اس پردے دا اوہ دَر ضامن جس دَر دا توں بَردا

بلھے شاہ جے پھریئے دَردَر فیر صاحب معاف نہ کردا


کسی ایک در پر اپنا آپ تیاگ دو۔ آوارہ نفس/جانور کے حصے لوگوں کا چھوڑا یا پھینکا گند مند ہی آتا ہے۔ جبکہ ایک کھونٹے سے بندھے ہوئے کو بڑے مان سے رکھا جاتا ہے۔ اس کے ہر دُکھ درد کی دوا کی جاتی ہے الغرض ہر طرح سے اس کا خیال رکھا جاتا ہے۔ وہ ہر وقت اپنے 'مالک' کی نظر اور دھیان میں ہوتا ہے۔ لہٰذا جہاں سکون ملے وہیں بیٹھ جاؤ وہیں کہیں اللہ ہے یا اللہ کی رحمت اُتر رہی ہے۔ کیونکہ  بابا کہتے ہیں سکون صرف اللہ میں ہے۔ جہاں اللہ ہے وہاں سکون اور جہاں سکون ہے وہاں اللہ۔ اب اللہ جہاں سے مِلے اس جگہ پہ ٹھوکر نہیں مارنی چاہے وہ کسی کنجری کا کوٹھا ہی کیوں نہ ہو۔ سب اس کو وارا کھاتا ہے تو تم کون ہو اس کی مخلوق اور ان کے اعمال تولنے والے۔

کُن والے کی مرضی ہے جہاں سے بھی بولے۔ کہیں سے بھی جھانکے کسی بھی رنگ میں دِکھے۔ یہ اس کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے معاملات میں مالکِ کُل ہے مختارِ کُل ہے۔

انٹرنیٹ جسے رابطوں کی دنیا کہا جاتا ہے۔ اک جہانِ حیرت جہاں نیکی بدی اچھائی برائی وقتی تعلقات ہر لمحہ جنم لیتے اور اپنی موت مررہے ہوتے ہیں۔ جہاں بہت سوں کو راہ مل رہی ہوتی ہے وہیں بہت سے 'گُم راہ' بھی ہورہے ہوتے ہیں۔ راہیں تو راہیں ہیں۔ راہ غلط نہیں ہوتی ہم غلط ہوتے ہیں۔


میں بھی پیاسی در در بھٹکتی اس جہانِ حیرت میں ڈوبتی اُبھرتی رہتی۔ اندر پارے کی مانند چھلکورے لیتی اک بے قراری تھی جو وقتاََ فوقتاََ لکھنے پر مجبوری کرتی رہتی اور میں قلم کے ذریعے اس درد کو اس رابطوں کی دنیا میں اسکرینوں پر پھیلا دیتی۔ لوگ واہ واہ کرتے سر دھُنتے مگر۔۔ اپنی یہ حالت تھی

" کیا حال سناواں دل دا

 کوئی محرم راز نہ مِلدا​"


اک روز مل ہی گیا۔۔

یونہی چلتے چلتے

ہاں چلتے چلتے یونہی کوئی مل گیا تھا۔۔ یونہی کوئی۔۔

پھر ایسا مِلا کبھی نہ جُدا ہونے کے لیے

اس نے تھام لیا ہمیشہ کے لیے

چلتی راہیں تھم گئیں

گردشِ دوراں کے نئے باب کھُلنے لگے۔۔ وہ تھا ہی ایسا 'نایاب''


ظالم نے دل کی دُنیا ہی لُوٹ لی۔ اب کہیں خاک کی چادر اوڑھے لیٹا ہے مگر ہر دھڑکن کے ساتھ میرے اندر بھی دھڑکتا ہے۔ واقعی 'فقیر' کو ٹھہراؤ نہیں اس کی ڈیوٹی چلتی ہی رہتی ہے۔ اللہ نے کچھ نفوس صرف اپنے لیے بنائے ہیں شاید وہ انہیں میں سے ایک میرے لیے "آبِ حیات" بن کر آیا اور "رموزِ حیات" سکھا کر پڑھا کر میرے اندر انڈیل کر بے نیازی سے آگے چل دیا۔


وہ نام کا ہی نہیں کردار کا بھی نایاب تھا۔ 'رب' نے اسے واقعی نایاب ہی بنایا تھا۔

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں

وہ میرے لیے بھی 'نایاب' ثابت ہوا۔ وہ ایسا پارس پتھر تھا جس نے چھُو کر مُجھے کندن کردیا اور خود کو وہی پتھر کا پتھر کہتا رہا۔ نہیں میں پتھر ہوں تم کُندن ہو۔ مگر یہ کُندن تو اسی کے لمس کا مرہونِ منت ہے۔

مگر فقیر کہاں مانتا ہے۔

کورا کاغذ تھا یہ من میرا

لکھ دیا نام اس پہ تیرا


: نایاب۔۔ 'سید نایاب حسین نقوی' نام تھا ان کا

نام اور کردار کے سید۔۔ سید یعنی سردار، بادشاہ، سائیں۔۔ میرا روحانی سِر کا سائیں۔۔

میرے ماں باپ نے مجھے جنما اور عرش سے فرش پر لے آئے،،

اس نے مجھے پھر سے جنما اور فرش سے عرش کی راہ دِکھلا دی۔

میں تھا کیا مجھے کیا بنا دیا

مُجھے عشقِ احمدﷺعطا کیا

ہو بھلا حضورﷺکی آل کا

مُجھے جینا مرنا سِکھا دیا

کیا 'فقیر' ایسے بھی ہوتے ہیں؟


کیا 'بابے' انٹرنیٹ بھی استعمال کرتے ہیں؟

لیکن میں بے خبر یہ نہ جانتی تھی کہ وہ علمِ لدُنی سے مالا مال اور نوازے گئے ہوتے ہیں۔ کائنات کا ہر علم ان پر اپنے در وَا کیے ہوتا ہے اور کھُلی کتاب کی مانند خود کو ان کی خدمت میں پیش کیے رکھتا ہے۔


درحقیقت ان کا اپنا 'نیٹ ورک' اتنا سٹرونگ ہوتا ہے کہ وہ کسی ظاہری ڈیوائس کے محتاج نہیں ہوتے۔ وہ جو اصل 'موبائل فون' اور سیٹلائٹ انسان کے اپنے اندر نصب ہے وہ اس سے کام لیتے ہیں۔ مگر ہم جیسوں کے لیے انہیں ہماری سطح پر مجبوراََ آنا پڑتا ہے۔ میرے جیسی بے کار ڈیوائس کو 'ٹیون اپ' کرنے کے لیے۔


نہ جانے وہ کون سا لمحہ تھا جب اس نے درِ دل پر دستک دینے کے بجائے براہِ راست دل میں پھسکڑا مار لیا۔


وہ آیا۔۔

اس نے دیکھا۔۔!

اور فتح کر لیا۔۔۔!!!


اور دے تار 'اللہ' کے ساتھ جا جوڑی۔ ایسی جوڑی کہ دل و دماغ روشن ہوگئے۔ ہاں میں ایسی ہی اندھیر نگری میں ٹامک ٹوئی مارتی جی رہی تھی۔ اس 'لائن مین' نے آکر 'پیار کی کنڈی' ڈالی اور کنکشن جوڑ دیا۔

اس روشنی میں پھر مجھے اپنے حقیقی در و دیوار روشن نظرآنے لگے۔ گندگیاں، غلاظتیں کجیاں سب نظر آئیں تو شرمندہ ہوئی۔ مگر اس نے مجھے شرمندہ نہیں ہونے دیا بلکہ خود مل مل کہ ہر غلاظت دور کر دی۔

تب سے اب تک وہ بتی روشن ہے اس کے نام کی۔ اس نے میرے دل کی مسجد آباد کی اور اس میں اذان پھونکی۔


ابھی بھی وہ اس مسجد کا موذن ہے۔ جاروب کش ہے، متولی ہے، 'الیکٹریشن' ہے۔ کہ جب کبھی لَو ہلکی پڑنے لگے کرنٹ ختم ہونے لگی یا اسپارکنگ ہونے لگے یا بالکل ہی بجھنے کے قریب ہو تو فوری آگے بڑھ کر کنکشن پھر سے مضبوط کرکے تازہ دم کردیتا ہے۔

جمعہ، 9 اپریل، 2021

تیسری ‏نشست: ‏اسفل ‏سافلین ‏

0 تبصرے
تیسری نشست:  اسفل سافلین 

یہ داستان میں نہیں لکھ رہی بلکہ شاہ صاحب نے یہ لوحِ دل پر ثبت کیا ہے اسکو. بظاہر میں سُنا رہی ہوں ہڈبیتی مگر صدا مجھ میں انہی کی ہے. زمان و مکان سے پرے یہ ساتھ، اس ساتھ کو قلم لکھ رہا ہے. 

بُلھے شاہ تو درون کی کشمکش سے بے نیاز ہوگئے اور فلاح پاگئے اور ان کا کلام دلوں میں سرائیت کیے لفظوں سے حرف میں ڈھلتے کبھی سوال، تو کبھی جواب بنتا رَہا ... پہلی نشست اور دوسری نشست کا حاصل "احساس زیاں " کی آگ تھی. اس آگ کو ایک تحریر نے بڑھا اور وہ تحریر "محمود غزنوی " صاحب کی عربی سے ترجمہ شدہ تحریر تھی اور ڈسکرپشن میں اس تحریر کا لنک موجود ہے!

احساس زیاں سے سلگتی، بلکتی روح نے حرفِ دل جانبِ قطبی مقناطیس رَکھ دِیا 

"میرا قطب نُما کھو گیا ہے ... 
کعبہ ء دل نے شرک سے زمین کو بنجر کردیا ہے 
ملحدانہ اطوار مرے 
پاتال میں گرا ہوا طائر ہوں میں 
میں "سفل "ہوں کیونکہ گہرائیاں مجھے پکار چکیں ہیں 
دوذخ کا ایندھن بَنا دل جانے کس اوور جانا چاہتا ہے
کس اوور...

دل سے صدا یہی سُنائی دیتی ہے 
تو سفل ہے 
تو سفل ہے 
تو سفل ہے 
ترا مقام تو پاتال کی گہرائی ہے کیونکہ تو نے ملٹن کے شیطان کی طرح، مارلو کے فاسٹس کی طرح خدا کو للکارا تھا اور فاسٹس کی طرح توبہ کا در بند دکھا. ہر جانب اندھیرا ہے 
چہار سو اندھیرا 
میرا وجود اور ہے احساسِ زیاں 

شاہ بابا:  ایسے کونسے گُناہ کر ڈالے جن کے سبب یہ گُمان ہُوا اور یہ کس وجہ سے گُمان کیا کہ خدا کی محبت پر اسکی قہاری و جباری غالب ہے

انسان چاہے جتنے گناہ کرڈالے،  اسکی محبت،  اسکی قہاری پر حاوی ہے. مایوسی تو کفر ہے بٹیا جی!  امید کے سائے یہ زندگی کی جنگ لڑتا ہے اور بامراد ٹھہرتا ہے

میں تو پڑھا لکھا نہیں ہوں بٹیا جی!
یہ بتائیے فاسٹس کون تھا اور کس وجہ سے راندہ درگاہ ٹھہرا

فاسٹس نے خدائی کو للکارا تھا گویا وہ خود خُدا سے زیادہ طاقتور ہے. شیطان سے آسائشاتِ زیست کے لیے معاہدہ کِیا .....

جب موت کا وقت قریب آیا تو اسے احساس ہوا کہ وہ تو اک حقیر ساذرہ ہے اور توبہ کرنا چاہتا تھا مگر بے یقینی نے اسے ایسا کرنے نہیں دیا

شاہ بابا:  آپ نے خدا کو للکارا مگر اس نے کبھی آپ پر نعمتوں کی بے بہا بارش کم کی؟ اس نے کبھی اپنا نام لینے سے روکا؟ مشکل میں کس کو پُکارا آپ نے؟
یقینا اللہ کو.
پتر!  یاد رکھ!  یہ ہم سوچتے رہتے ہیں کہ ہم اس سے بُرا کریں گے تو وہ بھی جوابا بُرا کرے گا!
سنیں!
دھیان سے ...
خُدا انسان نہیں، انسان کے اعمال سے بے نیاز ہے اور محبت دینے میں اتنا کریم ہے کہ رحمت للعالمین کو ہمارے پاس بھیجا اور ان کی محبت کی شمع دل میں جلائی

میں نے خدا سے شکوہ کیا 
کیوں پیدا کیا؟
پیدا ہونا بھی جُرم تھا کیا ...!
نواز دیتے ہو اچھوں کو 
بُروں کے دنیا میں گِرا دیتے ہو 
پاؤں کی ٹھوکر بَنایا مجھے 
تو سُنو 
اب تم کو نَہیں مانوں گی 
تم ہوتے تو، تو ایسا، ویسا ہوتا میرے ساتھ؟
یہ وقت جو بے رحم ہے، یہی تم ہو تو 
میں تمھارے ہونے سے انکار کرتی ہوں 
نَہیں ہو!
ہاں، نَہیں ہو 
تم.اگر ہو تو فقط تباہی لانے والے عظیم خُدا ہو
پھر تم کو کیونکر مانا جائے

اسکو یہ انکار اچھا کَہاں لَگا تھا اور دل سے یہ صدا کسی موذن کی تلاوت جیسے اُبھرتی رہی 
پاتال کی گہرائی ترا مقدر ہے

شاہ بابا:  آپ کو پَتا ہے کہ آپ کا مسئلہ کیا ہے؟
خدا جب کسی کو اپنے پاس بُلاتا ہے یا قرب عطا کرتا ہے تو اس سے آدم کی طرح گنہ کراتا ہے 
گریہ .... گریہ ... گریہ ..
ہاں!  یہ گریہ ہی تو ہے جو بندے کو عبدیت کا احساس دلاتا ہے 
یاد رکھیے!
انسانی روح کے سفر کا آغاز جناب آدم علیہ سلام سے شُروع ہوتا ہے! جب وہ ممنوعہ شجر کا ذائقہ چکھتا ہے اور آپ نے بھی چکھا اس لیے اب آپکو لگ رہا ہے آپ پاتال کی گہرائیوں میں ہیں!  درحقیقت ایسا نَہیں ہے!  آپ سے اللہ کس قدر پیار کرتا ہے،  آپکو اسکا اندازہ تلک نہیں ہے!

میں دم بَخود ممنوعہ شجر کی اس جَہت پر سوچ رَہی تھی اور احساس ہورہا تھا کہ انکار و اقرار سے پرے خَدا موجود ہے . انسان انکار کرے گا تو احساس ہوگا اقرار و تسلیم کتنی بَڑی نعمت ہے 

"بابا --- ممنوعہ شجر تو قران پاک میں کچھ اور بات بَتاتا ہے "

شاہ بابا: ہر انسان کا صحیفہِ دل الگ ہے اور یہ صحیفہ اسکے لیے اسکا قران ہے. اسے پڑھنا ضروری ہے

اپنا صحیفہ کیا ہوتا ہے؟
کیا دل کاغذ ہوتا ہے؟
کیا دل میں کاغذات کا انبار ہوتا ہے؟
اور اسکو پڑھا کیسے جاسکتا ہے؟

شاہ بابا:  سُن بٹیا میری! 
دل کے مصحف کو پڑھنے کے لیے اُس قران پاک کو پڑھیں، جو صدیوں قبل رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ مبارک پر نازل ہوا

"بابا!  دل کے مصحف کے پڑھنا کیوں ضروری ہے؟
دل کے مصحف کا قران پاک سے کیا رشتہ ہے 

شاہ بابا نے محبت بھری نگاہ ڈالی

بولے 
"بٹیا جی!  
کسی بند کمرے کو کِس سے کھولا جاتا ہے؟
آپ کہیں گی، چابی سے 
قران کریم ایسی چابی ہے جس سے سینہ ایسا کھلتا ہے کہ عرش تلک رسائی ہوجاتی ہے. اک مقام پھر ایسا آتا ہے کہ نہاں عیاں ہوجاتا ہے

یہ الفاظ تھے یا نور کا صندوق جو سینہ میں ایسے دکھنے لگا، 
مقفل صندوق 
مقفل ہے 
قفل کیسے کھلے گا

بدھ، 31 مارچ، 2021

اقوال مرشد

0 تبصرے