پیر، 13 مارچ، 2023

شاہ بابا کا تعارف

0 تبصرے

​شاہ صاحب کا تعارف 

قسط نمبر ۱

آج سے ٹھیک سات دن بعد میرے مرشد پاک کا وصال ہوا تھا ـ ان کی یاد دل کے بام و در میں زندہ ہے ـ محبت عشق اللہ جانے کیا شے ہے، مگر میں اتنا جانتی ہوں ان کے خیال کی اگربتی دل میں جب نہیں جلتی تو میں نہ زندوں میں خود کو شمار کر سکتی ہوں نہ مردوں میں ـ جب یہ خیال سوچ میں رواں رہتا ہے تو احساس ہوتا ہے وہ کیا تھے ـ وہ ایسے انسان تھے جو اس دنیا میں دینے آئے تھے،  ان کو بچپن سے "ماں " جیسے اوصاف سے متصوف کرنے والی ہستی نے ان کو درد تو مگر یہ درد اہل دل جانتے ـ یہ وہ درد تھا جس میں،  میں نہیں بس رب تو کی بات ہوتی ـ انہوں نے اپنی زندگی میں لینے کی سعی نہیں کی بلکہ دینے والے دیا اسطرح کہ رحمن کی رحمانیت کے سائے تلے رہتے دیا ـ انہوں نے زمانے کو وہ دیا،  جس کی ان کے پاس محرومی تھی ـ 


* ہم دعا دینے والوں سے ہیں ـ ہمیں بس یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمانے کے لیے دعا کی ـ جب اللہ نے آپ کو بددعا کے لیے کہا تب بھی دعا دی ـ ہمیں اچھا ملے یا برا ملے ـ ہم نے فقط دعا ہی دینا ہے ـ خیر خواہی کرنی ہے 


* بادشاہ بننے کے بجائے بادشاہ گر بن جاؤ ـ دوسروں کو موقع دو تاکہ تم میں ہوس نہ رہے ـ 

* اپنے عمل سے یہ دیکھو کہ تم دوسروں کو فائدہ دے رہے یا نقصان ـ وہ عمل جو شرعی لحاظ سے درست ہو مگر اس سے دوسرے کا نقصان ہو تو بہتر ہے وہ کرو جس سے فائدہ ملے ـ دوسرے کو فائدہ دینا بھی عین شریعت ہی ہے 


* ایسا سچ جس سے نفاق پیدا ہو،  اس سے بہتر وہ جھوٹ ہے جس سے امن قائم ریے 


* خالی شریعت کا کوئی ثواب ملتا نہیں بلکہ عبادات منہ پر مار دی جاتی ہیں  جو بندہ طریقت نبھاتا ہے مگر شریعت نہیں تو طریقت کا ثواب مل جاتا ہے ـ مگر جو شریعت و طریقت دونوں نبھا لے اس کو معارفت نصیب ہو جاتی ہے 


* سید وہ نہیں ہوتا جس نسبی نسبی سید ہو ـ سید وہ ہے جس کا کردار سرداروں والا ہو.  


* اپنے قلم سے ہمیشہ سچ تحریر کرنا کبھی کسی کو دھوکا مت دینا 


* جب انسان "میں " مٹا دیتا ہے تو رب سچا اسے وہ سب دیتا ہے جس کی اسے خواہش ہوتی ہے 


* قران پاک اسطرح پڑھیں جس طرح خالق آپ سے کلام کر رہا ہے ـ قران پاک پڑھنے میں دشواری ہوتی کہتی کہ مشکل ہے ـ تو فرمایا کرتے:  اک آیت اک رکوع روز کا پڑھنا کونسا مشکل کام ہے. آپ نے اسے یاد نہیں کرنا یاد کرانا سمجھانا خالق کا کام ہے. آپ اسے کہانی کی طرح پڑھ ڈالیں پھر یہ آپ کے دل میں اترے گا 


* نیت کے بغیر کچھ نہیں ملتا ـ اگر نیت خراب ہے تو جتنی عبادات کرلو جتنا نیک بن کے دکھا لو کچھ نہیں بنتا مگر جس نے نیت صاف کی ـ رب اسے وہیں مل گیا 


* انسان ساری زندگی جن جنات جادو کے پیچھے پڑا رہتا ہے ـجادو کچھ نہیں بگاڑ سکتا انسان کا ماسوا کچھ ایسے اشکالات دکھ جائیں. جس نے رب سچے کو یاد رکھا ـ اسے کبھی کوئ ڈرا ہی نہیں سکتا 


* میں نہ سنی ہوں نہ شیعہ ہوں ـ اگر مجھے دیار غیر میں دفنایا جائے تو وہابی کہلاؤں گا اگر وطن مین تو شیعہ ـ  کسی بھی فرقے میں فساد ڈالنے والی بات سے دور رہو 


* ایسی کوئی بات منہ سے نہ نکالو جس سے فساد پھیلے چاہے وہ قران پاک کی کسی آیت کی بات کیوں نہ ہو 

.* جتنا ہو بحث سے دور ہو ـ کیونکہ رب ثابت ہے اسکو اثبات ہے ـ اسکو ثابت کرنا ازخود شرک ہے 


* لطائف وغیرہ یا اشغالات محض راغب کرنے کا بہانہ ہیں میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ: اللہ لطیف بالعباد ـ اللہ چاہے تو کرم کی انتہا کردے ــــ 


* گن کے ذکر کبھی نہ کرو ـ اس کا ذکر گن کے کرو گے تو وہ بھی گن کے دےگا ـ اسکا ذکر بے حساب کرو گے تو وہ جو اپنی جناب سے چاہے نواز دے 


* دل یار ول، ہتھ کار ول ـ ہمیشہ ہر کام میں یاد اللہ کو رکھو اور اس کے ساتھ کام کرتے دنیا نبھا دو


* ذکر یہ نہیں ہوتا کہ رٹو طوطے کی طرح اللہ اللہ کرتے رہو ـ جب احکامات کو عملی طور پر بجالاؤ کہ دوست نے کہا تو یہ ذکر افضل ترین ہے ـ آپ کو چاہیے زبان کے ذکر سے زیادہ،  اس کے احکامات کو اس نیت سے بجالائیں کہ یہ اللہ نے کہا ـ دنیا بھی اس لیے نبھائیں کہ اللہ نے کہا ـ دین بھی اس لیے ـ کسی کو دیں،  کسی کو پیار کریں یہ سوچ کے اللہ نے کہا ہے ـ زبان سے ذکر کرنا اچھا یے مگر افضل ذکر یہی ہے 


*کھا کباب،  پی شراب تے بال ہڈاں دا بالن ... مرشد پاک فرماتے تھے کہ نفس کو خوراک ضرور دینی چاہیے کیونکہ ایسی زندگی نبھانی چاہیے جو حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گزاری مگر نفس کی خدمت کرکے دھیان و ریاضت اللہ کی جانب کر دینے چاہیے ـ اسطرح نفس کبھی تنگ نہیں کرتا 


*  غصہ نہ کیا کرو بلکہ چڑاچڑاہٹ سے دور رہنے کا طریقہ پوچھا ـ یا پوچھا غصہ کیوں نہیں آتا تو فرمایا:  میں انسان ہوں غصہ آتا ہے مجھے ـ جب غصہ آتا ہے میں درود شریف پڑھ لیتا ہے ـ وہیں پر غصہ ختم ہوجاتا ہے ـ 


* جب میں مکہ جاتا ہوں تو لگتا ہے اللہ کا پیار پیار ہے ـ وہ بہت رحیم ہے ـ جب  مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اک عجب جلال گھیرے رکھتا ہے کہ کہیں گستاخی نہ ہوجائے کوئی 

 

*جب ان سے کہا گیا:  آپ میں مجھے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملتا تو کہا اللہ سے معافی مانگیں قلم نے گستاخی کردی. کوئ بھی بندہ لاکھ ریاضت کرلے ان کے جیسا نہیں ہو سکتا ہے ـ ہاں کسی اک صفت کی جھلک مل سکتی یے 


* اللہ کی راہ میں چلنے  کے لیے یا عام زندگی گزارنے کے لیے اسوہ ء حسنہ اہم ہے ـ آپ کو چاہیے اسوہ حسنہ پڑھیں تاکہ آپ کو علم ہو سکے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فلاں مقام پر کیا ردعمل ظاہر کیا اور اس میں ڈھلنے کی کوشش کریں. اگر آپ نے آٹھ دس صفات ہی اپنا لیں تو آپ کو دیدار رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو جائے گا

شاہ بابا رحمتُ اللہ کا تعارف

0 تبصرے
شاہ بابا اور میرے درمیان بُہت سے ایسے نقاط پر گفتگو رَہی. وہ گفتگو اللہ کی تَلاش و کھوج پر مبنی ایک کھُلی حقیقت ہے.جس کا حُکم مجھے ان سَفر کرجانے کے بعد مِلا.... ان کا حُکم مجھ سے یہ داستان لکھوا رَہا ہے جس داستان کا نقطہ نقطہ محبت ہے. یہ باطنی دنیا کے اسرار کھول دے گی تو کَہیں آپ پر آپ کے ذات کے ایسے ایسے حجابات کو وا کریگی کہ آپ دنگ رہ جائیں گے .......یہ تن بیتی، ہڈبیتی، عشق بیتی بھی ہے اور تلاش حق کا سَفر بھی ..... مرشد و بابا ----- بڑا فرق ہوتا ہے ---- بابا طَریقہ ہوتا زندگی ہے ...  مرشد آپ کو حق و سچ کا راستہ بَتاتا ہے مگر اس راستے پر سَفر آپ نے خود کرنا ہوتا ہے ........ بابا سراپا شفقت میں ڈھلا ایسا نورانی پیکر ہوتا ہے جو آپ کے عذاب جھیل کے آپکو آپ کی جنت حوالے کردیتا ہے .... سید نایاب حُسین شاہ نقوی میرے لیے ایسے *شاہ بابا * ہیں ..... میری ہوئی ان کی گفتگو نہ صرف مرے لیے مشعلِ حرم ہے بلکہ یہ مشعل جو میں نے اس کتاب کی صورت پہنچائی ہے یہ جس جس تک پہنچے گی اسکا باطن منور ہوجائے گا ......میں اب بھی اس مشعل سے استفادہ حاصل کرتی ہوں جہاں کَہیں غلطی ہوتی ہے ان کی باتوں کو پڑھتی ہوں .... اس سے مستفید ہوتی ہوں ..... میں خود ابھی ان کے بَتائے گئے طریقوں پر عمل کرنے میں کوشاں ہے. یہ جہدِ مسلسل ہے ...اس ریاضت کو تاعمر جاری رہنا ہے ....

وہ درویش صفت ایک آزاد منش انسان تھے . جن کی زندگی ایک مکمل راز ہے. درویش ایک مکمل راز ہوتا ہے.... ان کو راز کی حفاظت کرنی تھی .... تاہم مجھے یہ ڈیوٹی تھما گئے کہ ان کی زندگی کے ان پہلوؤں کو گفتگو میں لاؤں جس سے انسانیت و آدمیت کا فلسفہ سَمجھ میں آتا ہے ....میں ان کی امانت آپ تک پہنچانے کے لیے یہ کتاب لکھ رہی ہوں ...جس کسی کو اس سے فائدہ ملا،  شاہ صاحب اور خُدا کے سامنے میں سرخرو ہوجاؤں گی ....اس لیے اس کتاب میں جس کی امانت ہوئی، وہ اس تک پہنچ جائے گی .... جس کو سَمجھ نہ آئے وہ جان لے یہ کتاب اس کے لیے ہے ہی نَہیں. میں بس ایک پیام کو عام کررہی ہوں ....  جس کو اپنے حصے کا پیام ملے وہ اسکو تھام لے .... یہ اس کتاب کا مقصد ہے.....

راہِ عشق کا اصول الگ ہے یَہاں کنواں پیاسے کے پاس چَل کے آتا ہے جیسا کہ رومی کے پاس شمس ..... جیسا کہ اقبال کے پاس رومی کا فیض بول اُٹھا.... یہ فیض کہیں بُکل کا چور بن کے تڑپاتا ہے تو کبھی آئنہ مثلِ شمس بن کے پوری آب و تاب سے کثیف دل کو منور کردیتا ہے ..... جن کا نَصیبہ عشق ہوتا ہے وہ کبھی اللہ والے سے محروم نَہیں رہتے. خُدا خود اُن کو وہ سب عَطا کرتا ہے جس کا اس نے لکھ رَکھا ہوتا ہے ....ہم میں سے اکثر راہِ حق کے متلاشی کہتے ہیں کہ کاش مجھے مرشدِ کامل مل جائے۔ اس کے لیے وہ در در جھانکتے ہیں، ہر جگہ کی خاک چھانتے ہیں۔ کبھی کسی کے روحانی چھابڑے میں ہاتھ مارتے ہیں کبھی کہیں کی ونڈو شاپنگ کررہے ہوتے ہیں۔ کبھی کسی در کا نمک چکھ کر تھُو کردیتے ہیں کہ یہ تو کڑوا ہے یہ میرے ذائقے کا نہیں۔ یہ ایسا نہیں یہ ویسا نہیں۔ درحقیقت ایسا یا ویسا باہر کچھ نہیں ہوتا سب اپنے اندر ہوتا ہے۔ آپ طالبِ صادق بنیں اس عشق کی نگری میں کنواں خود چل کر پیاسے کے پاس آتا ہے۔

یہاں کنواں خود اپنے پیاسے کا پیاسا ہوتا ہے۔ ہاں کنویں کی بھی پیاس ہوتی ہے کہ آؤ اور مجھ سے پانی بھر بھر پیو سیر ہوجاؤ تاکہ میرے سینے کو بھی قرار مِلے۔

جسطرح طالب صادق کی جستُجو اللہ ہوتی ہے بالکل اسی طرح بابا جس کے پاس *اللہ* ہوتا ہے وہ بھی کسی سچے مرید کو امانت حَوالے کرتا ہے تاکہ یہ سلسلہ جس سے زَمانہ جگمگا رَہا ہے وہ جاری و ساری رَہے. اس کے نُمائندے بھیس بھر کے کسی عام آدمی جیسے کسی الیکڑیشن تو کبھی کسی مزدور کی صورت موجود ہوتے تو کَہیں یہ ظاہر میں ڈیوٹی دیتے ہیں ....  یہ داستان اک متلاشی کی ہے جس کی تَلاش خدا مگر اس نے تلاش کو جگہ جگہ جا کے عیاں نَہیں کیا. گھر میں بیٹھے خدا سے راز و نیاز کیے .... میں نے انہیں ڈھونڈا نَہیں مگر انہوں نے مجھے ڈھونڈا نکالا ..... میرے درون کو ایسے روشن کیا کہ وہیں میں نے سجدہ شکر کیا .... 

خُدا تو ایسے بھی عَطا کرتا ہے 
خُدا تو کتنا بَڑا رازق ہے....

کہتے ہیں اللہ کی تلاش کسی اللہ والے کے در پر ہی لے جاتی ہے۔ اللہ کے گاہک کو 'مرد' کہا جاتا ہے۔ یہی مردانگی ہے اصل حق "الحق" کی تمنا اور اس پرقائم ہوجانا۔ جسمانی صنف اس میں حقیقت نہیں رکھتی۔

انٹرنیٹ جسے رابطوں کی دنیا کہا جاتا ہے۔ اک جہانِ حیرت جہاں نیکی بدی اچھائی برائی وقتی تعلقات ہر لمحہ جنم لیتے اور اپنی موت مررہے ہوتے ہیں۔ جہاں بہت سوں کو راہ مل رہی ہوتی ہے وہیں بہت سے 'گُم راہ' بھی ہورہے ہوتے ہیں۔ راہیں تو راہیں ہیں۔ راہ غلط نہیں ہوتی ہم غلط ہوتے ہیں۔

میں بھی پیاسی در در بھٹکتی اس جہانِ حیرت میں ڈوبتی اُبھرتی رہتی۔ اندر پارے کی مانند چھلکورے لیتی اک بے قراری تھی جو وقتاََ فوقتاََ لکھنے پر مجبوری کرتی رہتی اور میں قلم کے ذریعے اس درد کو اس رابطوں کی دنیا میں اسکرینوں پر پھیلا دیتی۔ لوگ واہ واہ کرتے سر دھُنتے مگر۔۔ اپنی یہ حالت تھی
" کیا حال سناواں دل دا
 کوئی محرم راز نہ مِلدا​"

اک روز مل ہی گیا۔۔
یونہی چلتے چلتے
ہاں چلتے چلتے یونہی کوئی مل گیا تھا۔۔ یونہی کوئی۔۔
پھر ایسا مِلا کبھی نہ جُدا ہونے کے لیے
اس نے تھام لیا ہمیشہ کے لیے
چلتی راہیں تھم گئیں
گردشِ دوراں کے نئے باب کھُلنے لگے۔۔ وہ تھا ہی ایسا 'نایاب''

ظالم نے دل کی دُنیا ہی لُوٹ لی۔ اب کہیں خاک کی چادر اوڑھے لیٹا ہے مگر ہر دھڑکن کے ساتھ میرے اندر بھی دھڑکتا ہے۔ واقعی 'فقیر' کو ٹھہراؤ نہیں اس کی ڈیوٹی چلتی ہی رہتی ہے۔ اللہ نے کچھ نفوس صرف اپنے لیے بنائے ہیں شاید وہ انہیں میں سے ایک میرے لیے "آبِ حیات" بن کر آیا اور "رموزِ حیات" سکھا کر پڑھا کر میرے اندر انڈیل کر بے نیازی سے آگے چل دیا۔

وہ نام کا ہی نہیں کردار کا بھی نایاب تھا۔ 'رب' نے اسے واقعی نایاب ہی بنایا تھا۔
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
وہ میرے لیے بھی 'نایاب' ثابت ہوا۔ وہ ایسا پارس پتھر تھا جس نے چھُو کر مُجھے کندن کردیا اور خود کو وہی پتھر کا پتھر کہتا رہا۔ نہیں میں پتھر ہوں تم کُندن ہو۔ مگر یہ کُندن تو اسی کے لمس کا مرہونِ منت ہے۔
مگر فقیر کہاں مانتا ہے۔
کورا کاغذ تھا یہ من میرا
لکھ دیا نام اس پہ تیرا

: نایاب۔۔ 'سید نایاب حسین نقوی' نام تھا ان کا
نام اور کردار کے سید۔۔ سید یعنی سردار، بادشاہ، سائیں۔۔ میرا روحانی سِر کا سائیں۔۔
میرے ماں باپ نے مجھے جنما اور عرش سے فرش پر لے آئے،،
اس نے مجھے پھر سے جنما اور فرش سے عرش کی راہ دِکھلا دی۔
میں تھا کیا مجھے کیا بنا دیا
مُجھے عشقِ احمدﷺعطا کیا
ہو بھلا حضورﷺکی آل کا
مُجھے جینا مرنا سِکھا دیا
کیا 'فقیر' ایسے بھی ہوتے ہیں؟

کیا 'بابے' انٹرنیٹ بھی استعمال کرتے ہیں؟
لیکن میں بے خبر یہ نہ جانتی تھی کہ وہ علمِ لدُنی سے مالا مال اور نوازے گئے ہوتے ہیں۔ کائنات کا ہر علم ان پر اپنے در وَا کیے ہوتا ہے اور کھُلی کتاب کی مانند خود کو ان کی خدمت میں پیش کیے رکھتا ہے۔

درحقیقت ان کا اپنا 'نیٹ ورک' اتنا سٹرونگ ہوتا ہے کہ وہ کسی ظاہری ڈیوائس کے محتاج نہیں ہوتے۔ وہ جو اصل 'موبائل فون' اور سیٹلائٹ انسان کے اپنے اندر نصب ہے وہ اس سے کام لیتے ہیں۔ مگر ہم جیسوں کے لیے انہیں ہماری سطح پر مجبوراََ آنا پڑتا ہے۔ میرے جیسی بے کار ڈیوائس کو 'ٹیون اپ' کرنے کے لیے۔

نہ جانے وہ کون سا لمحہ تھا جب اس نے درِ دل پر دستک دینے کے بجائے براہِ راست دل میں پھسکڑا مار لیا۔

وہ آیا۔۔
اس نے دیکھا۔۔!
اور فتح کر لیا۔۔۔!!!

اور دے تار 'اللہ' کے ساتھ جا جوڑی۔ ایسی جوڑی کہ دل و دماغ روشن ہوگئے۔ ہاں میں ایسی ہی اندھیر نگری میں ٹامک ٹوئی مارتی جی رہی تھی۔ اس 'لائن مین' نے آکر 'پیار کی کنڈی' ڈالی اور کنکشن جوڑ دیا۔

اس روشنی میں پھر مجھے اپنے حقیقی در و دیوار روشن نظرآنے لگے۔ گندگیاں، غلاظتیں کجیاں سب نظر آئیں تو شرمندہ ہوئی۔ مگر اس نے مجھے شرمندہ نہیں ہونے دیا بلکہ خود مل مل کہ ہر غلاظت دور کر دی۔

تب سے اب تک وہ بتی روشن ہے اس کے نام کی۔ اس نے میرے دل کی مسجد آباد کی اور اس میں اذان پھونکی۔

ابھی بھی وہ اس مسجد کا موذن ہے۔ جاروب کش ہے، متولی ہے، 'الیکٹریشن' ہے۔ کہ جب کبھی لَو ہلکی پڑنے لگے کرنٹ ختم ہونے لگی یا اسپارکنگ ہونے لگے یا بالکل ہی بجھنے کے قریب ہو تو فوری آگے بڑھ کر کنکشن پھر سے مضبوط کرکے تازہ دم کردیتا ہے۔

بدھ، 31 مارچ، 2021

اقوال مرشد

0 تبصرے










 

ہفتہ، 27 مارچ، 2021

قولِ ‏مرشدی ‏

0 تبصرے

جمعہ، 26 مارچ، 2021

درودِ ‏اویسیہ

0 تبصرے

جمعرات، 4 مارچ، 2021

video of Irshadat

0 تبصرے

بدھ، 3 مارچ، 2021

پیر، 1 مارچ، 2021

سچ ‏

0 تبصرے

فرض ‏

0 تبصرے

حجاب

0 تبصرے

محویت

0 تبصرے

جمعرات، 25 فروری، 2021

دل ‏جواب ‏دیتا ‏ہے ‏

0 تبصرے

شہ ‏رگ ‏

0 تبصرے

اتوار، 21 فروری، 2021

جمعہ، 1 جنوری، 2021

اٹ ‏کھڑکے ‏،ٹکر ‏پکے

0 تبصرے
اِٹّ کَھڑَکّے، ٹُکر پّکے،
تتّا ہووے چُلّھا
آن فِقیر تے کھا کھا جاوَن،
راضِی ہووے بُلّھا

جِس تن لگیّا عشق کمال
ناچے بے سُر، تے بے تال
درد مند نوں کوئ نہ چھیڑے
جس نے آپے دُکھ سہیڑے
جمنا جیونا مُول اُکھیڑے
بُوجھے اپنا آپ خیال
جِس تن لگیّا عشق کمال
ناچے بے سُر، تے بے تال

جِس نے ویس عشق دا کیتا
دُھر درباروں فتوٰے لیتا
جدُوں حضُوروں پیالہ پیتا
کُجھ نہ رہیا جواب سوال
جِس تن لگیّا عشق کمال
ناچے بے سُر، تے بے تال

جِس دے اندر وسّیا یار
اُٹّھیا یار و یار پُکار
نہ اوہ چاہے راگ نہ تار
اینویں بیٹھا، کھیڈے حال
جِس تن لگیّا عشق کمال
ناچے بے سُر، تے بے تال

بُلّھیا! شَوہ نگر سچ پایا
جھُوٹھا رولا سبّھ مُکایا
سچّیاں کارن سچّ سُنایا
پایا اُس دا پاک جمال
جِس تن لگیّا عشق کمال
ناچے بے سُر، تے بے تال
بابا بُلھے شاہ رح

نشست ‏نمبر۱

0 تبصرے
نشست  اوّل:
بابا سے پہلی ملاقات سے اخیر تک ، انٹرنیٹ اک میڈیم رہا ۔ میری ان سے ذاتی طور پر ملاقات کبھی نہیں ہوئی مگر روح کو کب   کسی میڈیم کی طلب ہوتی ہے ... یوں تو میرا  ان سے کبھی وٹس ایپ ، کبھی فیس بک پر ، کبھی کسی اور میسنجر پر سلسلہ گفتگو  رہا ۔"انٹر۔نیٹ"   تو بس اک واسطہ/medium تھا، اس واسطے نے پہلی ملاقات کا ذریعہ بننا تھا ۔ Intranet بننے کے لیے۔ وگرنہ یہ ازل کا ساتھ کسی واسطے کا محتاج نہ تھا ، نہ ہے  اور نہ رہے گا۔ روحوں کے سنگم ، تال میل  اور کیمسٹری کو سمجھنا کسی رابطے کی سائیٹ کے لیے ممکن نہیں ہے ۔

اج دی گل نئی رانجھن یارا 
میں ازلوں تیرے نال منگی آں !!!

 میری شاہ بابا سے چند نشستیں اس پہلی  'باقاعدہ'  نشست سے قبل بھی رہیں تھیں،  اس پہلی نشست کو پہلی کہنے کی وجہ یہی ہے کہ یہ نشست  خود میری اپنی ''دعا '' کا ثمر تھی۔  رب بندوں کی سنتا ہے اور شاید وہ درد بھی اس لیے عطا کرتا ہے.  جب میرا پیمانہِ دل درد سے بھرپور ہوا تب شدت ِ دردنے مجھے تھام کے خدا کے حضور کردیا اور میں نے اس کے قدموں میں بیٹھ کے مناجات کیں تھیں ....

یا خدا .. 
اب بس کردے 
کوئی تو  مسیحا ساتھ کردے 
دُکھاں توں  ہاری آں مولا
کوئی تے  ہووئے، جیہڑا دل دے قفل کھولے 
سن لے تو سوہنیا،
تُو  نہ سُنی تے فیر  مولا کس  نے سننا! 

مسیحا تو وہ  سیاہی چوس ہوتا ہے جو سارے دُکھ جذب لے. ذہنی الجھنیں اس قدر زیادہ تھیں کہ سوچ کے سب دھاگے  بار بار الجھ  کر رہ جاتے.
یہ دُعا  ماہِ مبارک کی طاق رات کو رو رو کے مانگی تھی. یقیناً اُس رمضان المبارک کی طاق رات  کی گھڑیوں نے مجھے مبارک کردیا وگرنہ میں کہاں؟ کیا  میری اوقات تھی ایسی؟ 
نہیں ..! نہیں ..! نہیں ..! 
میری اوقات ہرگز نہیں تھی مگر اس لج پال  نے لاج رکھ لی!

جس رات میں نے دُعا مانگی،  اسی رات "message " کی آواز گڑگڑاہٹ و شدت  نے سُن لی اور موبائل کے اس میسج میں کشش نے پردہ چاک کیا ...! 

خدا ہے 
ازل سے ساتھ ہے 
احساس بھی ہے 
پہچان نہیں ہے 
وہ اپنے نمائندوں کو بھیجتا ہے 
ہمیں احساس تک ہونے نہیں دیتا کس نمائندے سے ہمیں کیا ملے گا 
یہ بندے جو ہمیں چلتے پھرتے کچھ دے جاتے ہیں، یہ اس کے نمائندے تو ہوتے ہیں 
کچھ پیامبر ہوتے ہیں 
کچھ رسول ہوتے ہیں 
نہ یہ ظاہر کرتے ہیں، نہ خدا ظاہر کرتا ہے ... پردہ رہتا ہے

بابا کا میسج چَمک رَہا تھا، محبت چَمک رہی تھی اور روشنی نے بابا کو سامنے مجسم کردیا. بظاہر میں میسج پڑھ رہی تھی مگر میں ان کو دیکھ رہی تھی گویا یہ روبرو ملاقات کے جیسی تھی.   یہ ان کا کوئی کمال تھا  جسے مجھ جیسے کم فہم لوگ سمجھ نہیں سکتے یا سمجھ بہت دیر سے آتی ہے. 

مجھے ان کی آواز سنائی دی اور وہ صدا یوں تحریر تھی.

"محبت کسی سے سرِ راہ یونہی نَہیں ہوجاتی ... اُس کاتبِ اول نے ساتھ لکھا ہوتا ہے .. آشنائی کے اس لمحے کو شناسائی میں کب بدلنا ہے، وہ بھی رقم ہے...!  میرے پاس آپ کی امانت ہے اور وہ لوٹانے آیا ہوں ...! "

میں حیرت زدہ ...!
ابھی تو میں سراپا اشک کناں تھی ..، 
اب سراپا حیرت!
دل نے سوال تب کیا تھا یہ کون ہیں؟

میں نے جراَت  نہ کی پوچھنے کی ...،  یہ تو مقام ادب تھا  ...، بے ادبی کیسے کرتی. .. !  ابھی  ہی تو میں نے ان کو دیکھا  تھا،  میرے اندر سکون و محبت کا احساس ہلکورے لینے لگا اور اشک تھم گئے ..میں حیرت میں گُم ہوگئی اک معصوم بچے کی طرح ...! یہ ملاقات کسی ایسے کمرے میں تھی جہاں سامانِ زیست نَہیں تھا.  فرشی نشستیں تھیں .. سامنے شاہ بابا تھے، وہاں ہر منظر دھواں دھواں اور خوشبو گلاب کی پھیلی ہوئی تھی .. . میں بابا کے سامنے سیاہ چادر اوڑھے بیٹھی تھی اور وہ سفید لباس میں روشنی کا مرکز بنے تھے،  میں نے سوال کیا ... 

" کیا واقعی محبت ایسے ہوجاتی ہے؟  آپ نے تو مجھے دیکھا بھی نَہیں،  مجھ سے بات تک نَہیں کی ...! 

 بابا نے مسکرا کے مجھے دیکھا اور سمجھاتے کہنے لگے 

" پتر،  روح کو جاننے کے لیے کِسی مادے واسطے کی ضرورت نَہیں ہوتی ہے .. محبت کا جذبہ ازل سے دِل کی کائنات بَنا ہے اور ایک جیسی کشش والی ارواح کو یہ  پہچان ہوجاتی ہے ... یہ کشش / محبت "پہچان " ہی ہے ... "

وہ صیحح کہتے تھے کہ ایک جیسی ارواح کشش سے  بچ نہیں سکتی تھی. میں نے اپنے دِل میں اس قدر کشش محسوس کی کہ دِل تھامنا پڑا. میں نے دل میں جاری جنگ صورتِ سوال اُنکے سامنے رکھدی

" بابا...!
یہ امانت کیا ہوتی ہے؟  
میں نے کبھی آپ کو کچھ نَہیں دیا ...!  
میں تو آپ کو جانتی تک نَہیں ...! 
پھر آپ نے کیا لوٹانا ہے؟  "

بابا اب  آنکھیں بند کیے بیٹھے تھے  اور ان کے قلب سے روشنی مجھے کچھ ایسی محسوس ہوئی کہ مجھے لگا یہ روشنی اک آنکھ کی سی صورت مجھ پر نِگاہ رَکھے ہوئے ہے ... 

"  امانت کے بارے میں اللہ نے قران پاک میں سورہ الحشر کی آخری آیات میں کیا خوب فرمایا ہے 

 
لَوْ أَنزَلْنَا هَٰذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ} سورة الحشر،

اگر یہ امانت (قران پاک)  کسی پہاڑ پر نازل فرماتا تو وہ اس کی ہیبت سے دب جاتا...  

اللہ کے ہاں "امانت " کا مطلب کچھ اور ہے . جس کو یہ امانت ملتی ہے اس پر لازم ہوتا ہے کہ اسکو سچے حقدار تک پُہنچائے ...  

میں مزید حیرت میں چلی گئی گویا ڈوب گئی اور کسی معصوم سے بچے کی مانند سوال کیا 

" آپ کو کیسے علم ہُوا،  میں حقدار ہوں؟  " 

شاہ بابا:  آپ کی تحریر سے ... ..! 
تحریر مجھ پر عیاں ہوتے "صورت " بَنا دیتی ہے 
یہ وہی صورت ہے،  جس کے بارے میں  یہ روایت مشہور ہے 

خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ

اسی صورت سے جہاں کو دیکھو تو ہر شے کی صورت   بہ رنگِ تجلیات و اسماء الہی منور ہو ہی جاتی ہے اور جاننے والا جان لیتا ہے جو اسے جاننا ہو ...

اس لیے خالق نے فرمایا ہے 
فثمہ وجہ اللہ 
جس جانب منہ پھیرو،  "میری" صورت/ میرا چہرہ ہے. یعنی کہ ہر جانب اس کی جلوہ گری ہے 

میں ہونق بنی یہ سب سن رہی تھی. مجھے اس کی سمجھ نہیں آئی تھی ... میں نے پوچھا 

"اچھا،  تو آپ کوئی روحانی بندے ہیں؟ "
شاہ بابا:  ہم سب روحانی ہیں، ہم سب روح لیے ہیں... 

" میری تحریر میں ایسی کیا بات ہے جس سے آپ کو اندازہ ہوا؟ مجھے تو خود اس کی خبر نہیں "
شاہ بابا:  اب تو میں بھول گیا وہ کونسی تحریر تھی. جب یاد آئے گا تو اس پر بات کروں گا 

میں ایسے بابا کی صدا کو آواز کی صورت میں سن رہی تھی جیسے بیٹھی تو میں ان کے قریب ہوں مگر آواز کسی دور کنواں سے آرہی ہوں .. وہ کنواں اس من مندر کی دنیا میں کہاں سے آگیا...!  دِل کی دنیا عجیب ہوتی ہے یہاں آواز کنواں تک لیجاتی ہے اور کنواں بے نام و نشان رہتا ہے. یہاں خوشبو آتی ہے،  کبھی گلاب تو کبھی موتیے تو کبھی کسی پھول کی. اس رنگ و بو کی دنیا کے نظارے میں اس کی کیا حکمت ہوتی ہے یہ رب جانے اور اس کا کام. میرے پاس تو کسی سوال کا جواب نہیں تھا. میں اتنی صراحت سے بیان کردہ گفتگو کو سن تو رہی تھی مگر ان الفاظ کی چاشنی کو ہی محسوس کر پائی تھی. مجھے اس وقت کچھ سَمجھ نَہیں آیا تھا ... شاید درون کی سمجھ اس نامعلوم دائرے کی جانب لیجاتی ہے جہاں پر اپنی ذات " نا معلوم " ہو جاتی ہے.  بقول شاعر: 

پتہ لگائے کوئی کیا میرے پتے کا پتہ
میرے پتے کا پتہ ہے کہ لاپتہ ہوں میں
(بیدم وارثی) 

میری پیاسی زمین کو محبت کے  " آب حیات" سے ایک قطرہ ملا تھا ،بارش کی وہ پہلی بوند تھی جو دل پر گری اور لگا  کہ دنیا جل تھل ہوگئی ۔۔۔

 بابا جانتے تھے وہ مجھ سے بات کیوں کر رہے ہیں ، انہیں کیوں مجھ تک بھیجا گیا ہے مگر میں نہیں جانتی تھی. مجھے الجھن محسوس ہوئی تھی بُہت زیادہ ..  میں رمضان المبارک کے روزے رکھتی تھی،  پورا سال قران پاک نہیں پڑھتی تھی مگر اس ماہ تو پڑھ لیا کرتی تھی بلکہ race لگاتی تھی .. اللہ سے race کہ دیکھو اس ماہ میں اتنے ختم کرلیے. دیکھ لو !  میں نے  کتنا  زیادہ پڑھ لیا ... نَماز تو ویسے قضا ہوجاتی تھی مگر ماہِ رمضان میں کبھی کوئی نماز قضا ہو جائے ... سب ملنے والوں کو فخر سے بتایا کرتی تھی کہ میں نے اتنے "ختم " کیے.  کبھی کبھی دل میں خلش سی جاگتی اور میں اس خلش کو سُلا دِیا کرتی تھی. مجھے دُنیا کی رنگینی بُہت پرلطف لگا کرتی تھی .... وہ مجھ سے امانت کی بات کر رہے تھے اور انسان کو خالق نے " ظلوما جھولا " کہا ہے. شاید میری یہی نادانی تھی جس کا مجھے علم نَہیں تھا جو پہلے سے جانتا ہو،  وہ بھاگ جاتا ہے. جو نادان ہو وہ اٹھالیتا ہے..

گزشتہ قسط کا ربط 

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2811409795853569&id=100009537288172'

میں ‏اور ‏شاہ ‏بابا ‏

0 تبصرے
اسے کہانی کہا جائے۔ آپ بیتی، تن بیتی، عشق بیتی یا تلاشِ حق کا سفر۔ میں خود اسے کچھ نام دینے سے قاصر ہوں اور اس کا فیصلہ پڑھنے والے پر چھوڑتی ہوں کہ وہ اس میں سے کیا اخذ کرتا ہے۔ میں اپنے طور دیکھوں تو شاید ابھی تک ان راہوں کو پورے سے نہیں اپنا سکی جیسا میرے مُرشد نے حکم دیا۔ لیکن کوشش مستقل جاری ہے اور ان کے حکم کے مطابق جاری ہی رہنی چاہئیے۔

ہاں کچھ امانتیں ہیں جو انہوں نے میرے سپُرد کیں کہ میرا مادی سفر ختم ہونے پر آپ حقداروں کو لوٹانا ہوں گی۔ یہ کاوش ہے مرشد پاک کے اس حکم کی تعمیل میں جس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ جتنا جلد ہوسکے آپ لوگ اپنی اپنی امانتیں وصول کیجئیے۔ جس کے لیے جو ہے اسے وہی سمجھ آئے گی کچھ نہ سمجھ آئے تو سمجھ لیجئیے وہ آپ کے لیے تھا ہی نہیں۔ جو سمجھ آئے بس اسے ہی تھام لیجئیے۔
ہم میں سے اکثر راہِ حق کے متلاشی کہتے ہیں کہ کاش مجھے مرشدِ کامل مل جائے۔ اس کے لیے وہ در در جھانکتے ہیں، ہر جگہ کی خاک چھانتے ہیں۔ کبھی کسی کے روحانی چھابڑے میں ہاتھ مارتے ہیں کبھی کہیں کی ونڈو شاپنگ کررہے ہوتے ہیں۔ کبھی کسی در کا نمک چکھ کر تھُو کردیتے ہیں کہ یہ تو کڑوا ہے یہ میرے ذائقے کا نہیں۔ یہ ایسا نہیں یہ ویسا نہیں۔ درحقیقت ایسا یا ویسا باہر کچھ نہیں ہوتا سب اپنے اندر ہوتا ہے۔ آپ طالبِ صادق بنیں اس عشق کی نگری میں کنواں خود چل کر پیاسے کے پاس آتا ہے۔

یہاں کنواں خود اپنے پیاسے کا پیاسا ہوتا ہے۔ ہاں کنویں کی بھی پیاس ہوتی ہے کہ آؤ اور مجھ سے پانی بھر بھر پیو سیر ہوجاؤ تاکہ میرے سینے کو بھی قرار مِلے۔

جیسے رومی نے راز افشا ہونے پر شمس سے کہا کہ مُجھے آپ کی تلاش تھی تو شمس نے کہاں میں تو خود کب سے تیری تلاش میں سرگرداں تھا کس در کی خاک نہیں چھانی۔ مگر اب تم مجھے مل گئے ہو۔ اب امانتیں لوٹانے کا وقت ھے۔

یہ کہانی بھی کچھ ایسے ہی چھُپے آبِ حیات کے چشمے کی ہے جو چل کر میرے پاس آگیا۔ میں سمجھی میں نے اسے ڈھونڈا یا وہ مل گیا لیکن اس نے مجھے ڈھونڈ نکالا۔ میری روحانی تشنگیاں اور کمیاں کجیاں دُور کیں۔ اور سب سے پہلے مجھے بتلایا کہ اصل مُرشد الرشید ہے۔ مقصد اگرراہِ ہدایت پانا ہے تو سچے طالب بن کر اس کے در پہ آؤ 

اگرراہِ ہدایت کے "متلاشی" ہو تو سچے طالب بن کر اس کے در پہ آؤ وہ تمہیں کسی راز آشنا کے حوالے کردے گا۔ راز آشنا کے قرب میں رہنا بھی راز آشنا ہونا ہی ہے۔ راز، راز میں ہی بھلے لگتے ہیں کھُل جائیں تو عذابِ آگہی کے سِوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

کہتے ہیں اللہ کی تلاش کسی اللہ والے کے در پر ہی لے جاتی ہے۔ اللہ کے گاہک کو 'مرد' کہا جاتا ہے۔ یہی مردانگی ہے اصل حق "الحق" کی تمنا اور اس پرقائم ہوجانا۔ جسمانی صنف اس میں حقیقت نہیں رکھتی۔

دَر دَر دی دُر دُر نالوں دُر بن جا اک دَر دا
صاحب معاف کرے تقصیراں تے رہ جاوے کُج پردا
اس پردے دا اوہ دَر ضامن جس دَر دا توں بَردا
بلھے شاہ جے پھریئے دَردَر فیر صاحب معاف نہ کردا

کسی ایک در پر اپنا آپ تیاگ دو۔ آوارہ نفس/جانور کے حصے لوگوں کا چھوڑا یا پھینکا گند مند ہی آتا ہے۔ جبکہ ایک کھونٹے سے بندھے ہوئے کو بڑے مان سے رکھا جاتا ہے۔ اس کے ہر دُکھ درد کی دوا کی جاتی ہے الغرض ہر طرح سے اس کا خیال رکھا جاتا ہے۔ وہ ہر وقت اپنے 'مالک' کی نظر اور دھیان میں ہوتا ہے۔ لہٰذا جہاں سکون ملے وہیں بیٹھ جاؤ وہیں کہیں اللہ ہے یا اللہ کی رحمت اُتر رہی ہے۔ کیونکہ  بابا کہتے ہیں سکون صرف اللہ میں ہے۔ جہاں اللہ ہے وہاں سکون اور جہاں سکون ہے وہاں اللہ۔ اب اللہ جہاں سے مِلے اس جگہ پہ ٹھوکر نہیں مارنی چاہے وہ کسی کنجری کا کوٹھا ہی کیوں نہ ہو۔ سب اس کو وارا کھاتا ہے تو تم کون ہو اس کی مخلوق اور ان کے اعمال تولنے والے۔
کُن والے کی مرضی ہے جہاں سے بھی بولے۔ کہیں سے بھی جھانکے کسی بھی رنگ میں دِکھے۔ یہ اس کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے معاملات میں مالکِ کُل ہے مختارِ کُل ہے۔
انٹرنیٹ جسے رابطوں کی دنیا کہا جاتا ہے۔ اک جہانِ حیرت جہاں نیکی بدی اچھائی برائی وقتی تعلقات ہر لمحہ جنم لیتے اور اپنی موت مررہے ہوتے ہیں۔ جہاں بہت سوں کو راہ مل رہی ہوتی ہے وہیں بہت سے 'گُم راہ' بھی ہورہے ہوتے ہیں۔ راہیں تو راہیں ہیں۔ راہ غلط نہیں ہوتی ہم غلط ہوتے ہیں۔

میں بھی پیاسی در در بھٹکتی اس جہانِ حیرت میں ڈوبتی اُبھرتی رہتی۔ اندر پارے کی مانند چھلکورے لیتی اک بے قراری تھی جو وقتاََ فوقتاََ لکھنے پر مجبوری کرتی رہتی اور میں قلم کے ذریعے اس درد کو اس رابطوں کی دنیا میں اسکرینوں پر پھیلا دیتی۔ لوگ واہ واہ کرتے سر دھُنتے مگر۔۔ اپنی یہ حالت تھی
" کیا حال سناواں دل دا
 کوئی محرم راز نہ مِلدا​"

اک روز مل ہی گیا۔۔
یونہی چلتے چلتے
ہاں چلتے چلتے یونہی کوئی مل گیا تھا۔۔ یونہی کوئی۔۔
پھر ایسا مِلا کبھی نہ جُدا ہونے کے لیے
اس نے تھام لیا ہمیشہ کے لیے
چلتی راہیں تھم گئیں
گردشِ دوراں کے نئے باب کھُلنے لگے۔۔ وہ تھا ہی ایسا 'نایاب''

ظالم نے دل کی دُنیا ہی لُوٹ لی۔ اب کہیں خاک کی چادر اوڑھے لیٹا ہے مگر ہر دھڑکن کے ساتھ میرے اندر بھی دھڑکتا ہے۔ واقعی 'فقیر' کو ٹھہراؤ نہیں اس کی ڈیوٹی چلتی ہی رہتی ہے۔ اللہ نے کچھ نفوس صرف اپنے لیے بنائے ہیں شاید وہ انہیں میں سے ایک میرے لیے "آبِ حیات" بن کر آیا اور "رموزِ حیات" سکھا کر پڑھا کر میرے اندر انڈیل کر بے نیازی سے آگے چل دیا۔

وہ نام کا ہی نہیں کردار کا بھی نایاب تھا۔ 'رب' نے اسے واقعی نایاب ہی بنایا تھا۔
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
وہ میرے لیے بھی 'نایاب' ثابت ہوا۔ وہ ایسا پارس پتھر تھا جس نے چھُو کر مُجھے کندن کردیا اور خود کو وہی پتھر کا پتھر کہتا رہا۔ نہیں میں پتھر ہوں تم کُندن ہو۔ مگر یہ کُندن تو اسی کے لمس کا مرہونِ منت ہے۔
مگر فقیر کہاں مانتا ہے۔
کورا کاغذ تھا یہ من میرا
لکھ دیا نام اس پہ تیرا

: نایاب۔۔ 'سید نایاب حسین نقوی' نام تھا ان کا
نام اور کردار کے سید۔۔ سید یعنی سردار، بادشاہ، سائیں۔۔ میرا روحانی سِر کا سائیں۔۔
میرے ماں باپ نے مجھے جنما اور عرش سے فرش پر لے آئے،،
اس نے مجھے پھر سے جنما اور فرش سے عرش کی راہ دِکھلا دی۔
میں تھا کیا مجھے کیا بنا دیا
مُجھے عشقِ احمدﷺعطا کیا
ہو بھلا حضورﷺکی آل کا
مُجھے جینا مرنا سِکھا دیا
کیا 'فقیر' ایسے بھی ہوتے ہیں؟

کیا 'بابے' انٹرنیٹ بھی استعمال کرتے ہیں؟
لیکن میں بے خبر یہ نہ جانتی تھی کہ وہ علمِ لدُنی سے مالا مال اور نوازے گئے ہوتے ہیں۔ کائنات کا ہر علم ان پر اپنے در وَا کیے ہوتا ہے اور کھُلی کتاب کی مانند خود کو ان کی خدمت میں پیش کیے رکھتا ہے۔

درحقیقت ان کا اپنا 'نیٹ ورک' اتنا سٹرونگ ہوتا ہے کہ وہ کسی ظاہری ڈیوائس کے محتاج نہیں ہوتے۔ وہ جو اصل 'موبائل فون' اور سیٹلائٹ انسان کے اپنے اندر نصب ہے وہ اس سے کام لیتے ہیں۔ مگر ہم جیسوں کے لیے انہیں ہماری سطح پر مجبوراََ آنا پڑتا ہے۔ میرے جیسی بے کار ڈیوائس کو 'ٹیون اپ' کرنے کے لیے۔

نہ جانے وہ کون سا لمحہ تھا جب اس نے درِ دل پر دستک دینے کے بجائے براہِ راست دل میں پھسکڑا مار لیا۔

وہ آیا۔۔
اس نے دیکھا۔۔!
اور فتح کر لیا۔۔۔!!!

اور دے تار 'اللہ' کے ساتھ جا جوڑی۔ ایسی جوڑی کہ دل و دماغ روشن ہوگئے۔ ہاں میں ایسی ہی اندھیر نگری میں ٹامک ٹوئی مارتی جی رہی تھی۔ اس 'لائن مین' نے آکر 'پیار کی کنڈی' ڈالی اور کنکشن جوڑ دیا۔
اس روشنی میں پھر مجھے اپنے حقیقی در و دیوار روشن نظرآنے لگے۔ گندگیاں، غلاظتیں کجیاں سب نظر آئیں تو شرمندہ ہوئی۔ مگر اس نے مجھے شرمندہ نہیں ہونے دیا بلکہ خود مل مل کہ ہر غلاظت دور کر دی۔
تب سے اب تک وہ بتی روشن ہے اس کے نام کی۔ اس نے میرے دل کی مسجد آباد کی اور اس میں اذان پھونکی۔

ابھی بھی وہ اس مسجد کا موذن ہے۔ جاروب کش ہے، متولی ہے، 'الیکٹریشن' ہے۔ کہ جب کبھی لَو ہلکی پڑنے لگے کرنٹ ختم ہونے لگی یا اسپارکنگ ہونے لگے یا بالکل ہی بجھنے کے قریب ہو تو فوری آگے بڑھ کر کنکشن پھر سے مضبوط کرکے تازہ دم کردیتا ہے۔

جمعہ، 18 دسمبر، 2020

شاہ ‏جی ‏سے ‏سوالات ‏و ‏جوابات ‏

0 تبصرے
فرحت کیانی نے کہا ہے
ممتاز مفتی کی کتاب لبیک پڑھنے کا اتفاق ہوا؟ اگر ہاں تو آپ کا اس پر تبصرہ۔

کیا ہی زبردست مطالعہ و مشاہدہ ہے محترم جناب ممتاز مفتی صاحب کا
" لبیک " بلا شبہ اک استعارا ہے " انسان اور اس کے خالق اللہ " کے درمیان پیار و بے تکلفی کا ۔
میں اپنی ذاتی کیفیت بیان کروں تو جب بھی عمرہ کی سعادت حاصل ہوتی ہے تو
مدینہ منورہ پہنچتے ہی جسم و سوچ پر اک لرزہ سا طاری ہو جاتا ہے ۔ جسم و جان کی سب طاقتیں
سوچ و فکر و وجدان پر پہرےداری پر صرف ہونے لگتی ہیں ۔ کہیں کوئی گستاخی نہ ہو جائے ۔ کہیں کوئی بے ادبی نہ ہو جائے ۔
اک غیر مرئی " جلال " اپنا اسیر کیئے رکھتا ہے ۔
مگر جب مکہ المکرمہ پہنچتا ہوں تو سوچ فکر و وجدان سب آزادی سے مصروف عمل رہتے ہیں ۔
ایسے ہی لگتا ہے جیسے کوئی بچہ ماں کی گود میں بے فکری سے کھیل رہا ہو

فرحت کیانی نے کہا ہے
اور ایک آخری سوال یہ جو اشفاق احمد، ممتاز مفتی اور قدرت اللہ شہاب کے 'بابے' ہیں۔
کیا واقعی ایسے بابے ہوتے ہیں؟ ان کو پہچانا کیسے جائے؟

کسی بھی " بابے کے لبادے " میں چھپے حقیقی بابے کی شناخت ہمارا وجدان و ضمیر با آسانی کر سکتا ہے ۔
اگر ہم ذرا غور کرتے ان کے قول و عمل کو پرکھ لیں ۔
اخلاق ۔ انسان دوستی ۔ اپنی ذات کی نفی ۔قربانی ۔ اختیار کے وقت عجز
یہ علامت ہیں کسی بھی اللہ کے سچے بندے کی ۔
آپ کے دستخط میں موجود شعر بھی اک علامت ہے ایسے لوگوں کی
کہ " وہ اپنے حصے کی شمع جلانے میں مصروف " رہتے ہیں ۔ بنا کسی دوسرے کی شمع پر زبان دراز کیئے ۔

فرحت کیانی نے کہا ہے
اتنی دشت نوردی کے بعد ابھی بھی کوئی چیز ہے جو آپ کی توجہ اپنی طرف کھینچتی ہے؟ جیسے تاریخی عمارتیں ، صحرا، سمندر وغیرہ

تاریخی عمارتیں مجھے مسحور کر دیتی ہیں ۔ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجاتا ہوں ۔
میری سوچ و وجدان جب اس عمارت کی تعمیر کی جانب رواں ہوتے ہیں تو مجھے ایسے لگتا ہے کہ
یہاں اپنی زندگی بتانے والے میرے آس پاس ہیں اور مجھے اپنی کہانیاں سنا رہے ہیں ۔
صحرا ۔۔۔۔۔۔۔
چودھویں کی رات اور صحرا کی تنہائی
اس منظر اور کیفیت کو الفاظ میں بیان کیا ہی نہیں جا سکتا میری بہنا
سمندر ۔۔ جانے کیوں مجھے سمندر کبھی کشش نہیں کرتا ۔۔۔۔۔


فرحت کیانی نے کہا ہے
اب تک پاکستان میں کہاں کہاں اور پاکستان سے باہر کن ممالک میں جانا ہوا ہے

پاکستان میں 1990 تک رہا ہوں ۔
دولتالہ ۔ مری ۔ راولپنڈی ۔ لاہور ۔ ڈسکہ ان جگہوں پر بکھری ہوئی ہے داستان میری ۔
ان کے علاوہ " جئے شاہ نورانی " درگاہ سے لیکر " پیر بابا " درگاہ سوات تک
یعنی کراچی سے لیکر سوات تک شاید ہی کوئی درگاہ ایسی ہوگی جہاں میں نے کچھ راتیں نہ بتائی ہوں ۔
پاکستان میں آوارگی کی ملی سزا یہاں " سعودی عرب " میں مزدوری کرتے پوری کر رہا ہوں ۔



جمعرات، 17 دسمبر، 2020

ویلے ‏تایا ‏جی

0 تبصرے
ویلے تایا جی!  اک اور اسرار بھری داستان 
یہ "کجی" کا کیا مطلب ہے؟؟؟

انسانی شخصیت میں موجود ایسی خامی جو اس کی شخصیت میں موجود تمام خوبیوں کو دھندلا دے ۔
"کجی یا ٹیڑھ " کہلاتی ہے

آپ کسر نفسی سے کام لیتے ہیں جبکہ ماشاءاللہ آپ بہت بہت ذہین اور عالم و فاضل ہیں
اللہ آپکے علم میں اور اضافہ کرے

جزاک اللہ خیراء
اللہ تعالی اس گمان کو حقیقت میں بدل دے اور آپ کی دعا کو شرف قبولیت بخشے آمین ثم آمین

یہ بتائیں کہ جنہیں آپ نے احمقانہ شوق کہا ہے اور جن کا ذکر بھی کیا ہے
ان میں یہ کون کون سے فن آپ کو آتے ہیںِ؟؟؟

اک ڈرائیونگ نہیں آتی محترم بہنا
باقی تمام علوم سے حسب منشاء استفادہ حاصل کرتے اس سچے اللہ سمیع العلیم کا شکر ادا کرتا ہوں ۔
جس نے مجھے ان علوم کو سمجھنے کی توفیق سے نوازا ۔۔۔
ان علوم میں کامل ہونے کا درجہ رکھنے والے کس صورت حال کا شکار ہوتے ہیں اس کی وضاحت اک مختصر واقعہ سے ۔
سن 79 کی بات ہے یہ ۔ ہم کچھ آوارہ دوستوں نے مل کر ریلوے کی زمین پر قبضہ کرتے اک ڈیرہ بنا رکھا تھا ۔
منشیات کے عادی اور درویشی کے لبادے اوڑھے ملنگ اور کچھ بے سہارا بے خانماں ضعیف العمر بزرگ
اس ڈیرے کو اپنے آرام و سکون کے لیئے استعمال کرتے تھے ۔ ان میں اک شخصیت " ویلے تایا " کی بھی تھی ۔
میلے کچیلے رہنا نہ کبھی نہانا نہ کبھی منہ ہاتھ دھونا ۔ جگے تایا کہلاتے ڈیرے پہ خاموش بیٹھے رہتے وقت پاس کرنا ۔
ہم دو دوست اس ڈیرے کے روح رواں کہلاتے تھے ۔ اور ہمارا زیادہ وقت یہاں ہی گزرتا تھا ۔
اس لیئے سب ڈرامے باز قسم کے لوگ ہمارے سامنے کھلی کتاب تھے ۔
اک دن میرے دوست " یاسین بھٹی " نے کہا کہ شاہ جی
" ایس ویلے تایا بارے جاندے او ؟ اے کی شئے اے ؟"
میں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ اس بوڑھے کو گھر والوں نے نکال دیا ہے اس لیئے یہاں پڑا رہتا ہے ۔
کہنے لگا کہ نہیں مجھے علم ہے کہ اس بابے کے اگے پیچھے کوئی نہیں ہے ۔ اور یہ اپنے ہاتھ دیکھنے کے فن میں کبھی کامل کہلاتا تھا ۔
صدر ایوب تک اس کی پہنچ تھی ۔ لیکن پھر جانے کیا ہوا کہ یہ نشے میں ڈوب گیا ۔ اور آوارگی کرتے زندگی گزارنے لگا ۔
اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ۔ سو اب تایا جی پر نظر رہنے لگی ۔ جب کبھی اکیلے ہونا تایا جی کو چھیڑنا انہیں بات کرنے پر مجبور کرنا ۔
ان کی سپیشل خدمت کرنی ۔ آہستہ آہستہ ان سے بے تکلفی ہو گئی ۔
ہم چونکہ اس زمانے میں نئے نئے عشق کے اسیر ہوئے تھے ۔ اور اپنے عشق کے انجام بارے متفکر رہتے تھے ۔
اک دن کسی ایسی ہی سوچ میں مبتلا اپنے دھیان میں گم تھا ۔ یکبارگی جو نگاہ اٹھی تو دیکھا کہ
تایا جی میرے ہاتھ پر نظر جمائے ہوئے ہیں ۔میں ویسے ہی کچھ پریشان تھا چھوٹتے ہی تایا جی سے کہا کہ
ویلے تایا جی کدے ساہنوں وی کج دس دیو کہ کی بنے گا ساڈھا " یہ سن کر ہنسنے لگے اور کہنے لگے کہ
" سید بادشاہ اک عمر گزرے گی تیری اس آوارگی میں " لیکن اک دن تو راہ پر آ جائے گا ۔
عشق تیرا تجھے وہ ضرب لگائے گا کہ تو اپنے اس تجسس کی اسیر سب ذہانت و چالاکی بھول جائے گا ۔
اور کچھ ایسی حقیقتوں سے آگہی دی جو کہ سو فیصد درست تھیں ۔ اب جب وقت ملنا ان سے اسی پامسٹری کے موضوع پر
بات چیت ہونے لگی ۔ تایا جی بہت پڑھے لکھے وسیع علم کا حامل نکلے ۔ اک دن میں نے اس سے کہا کہ
تایا جی آپ کو کیا مشکل ہے جو آپ اتنے گندے رہتے ہیں نہ نہاتے ہیں نہ منہ ہاتھ دھوتے ہیں ۔
کتنی بو آتی ہے آپ میں سے ۔ لوگ آپ کے پاس بیٹھتے بھی نہیں ۔
یہ سن کر روانے لگے اور کہنے لگے کہ سید کیا بتاؤں تجھے میرا یہ منہ ہاتھ دھونا اور نہانا کیوں چھوٹ گیا ۔۔
اس ہاتھ دیکھنے کے علم نے جہاں مجھے بے انتہا عزت دی وہیں ایسی اذیت بھی دی کہ
اس سے ملی سب عزت بھی گئی اور اذیت عمر بھر کا ساتھ بنی ۔
ات چیت ہونے لگی ۔ تایا جی بہت پڑھے لکھے وسیع علم کا حامل نکلے ۔ اک دن میں نے اس سے کہا کہ
تایا جی آپ کو کیا مشکل ہے جو آپ اتنے گندے رہتے ہیں نہ نہاتے ہیں نہ منہ ہاتھ دھوتے ہیں ۔
کتنی بو آتی ہے آپ میں سے ۔ لوگ آپ کے پاس بیٹھتے بھی نہیں ۔
یہ سن کر روانے لگے اور کہنے لگے کہ سید کیا بتاؤں تجھے میرا یہ منہ ہاتھ دھونا اور نہانا کیوں چھوٹ گیا ۔۔
اس ہاتھ دیکھنے کے علم نے جہاں مجھے بے انتہا عزت دی وہیں ایسی اذیت بھی دی کہ اس سے ملی
سب عزت بھی گئی اور اذیت عمر بھر کا ساتھ بنی ۔
میں جب اپنا ہاتھ اٹھاتا تھا منہ دھونے کے لیئے ۔ تو میرے ہاتھ کی لکیریں مجھ پر ہنستی تھیں ۔
مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی اس آگہی سے گزرنا پڑتا تھا میرا کوئی چاہنے والا تو اک بار مرتا تھا مگر مجھے اس کے نہ مرنے
تک بار بار مرنا پڑتا تھا ۔ مجھے میرے ہاتھ کی لکیریں میرے آنے والے وقت کو جیسے مجسم کر دیتی تھیں ۔
میں نے ان لیکروں سے آگہی پاکر اپنے والدین اپنے بیوی بچوں کی موت
کب کیوں کیسے ہو گی کو جان کران کی موت تک کتنی اذیت پائی ہے ۔
کہ مجھے ہاتھ اپنے سامنے کرتے ڈر لگتا تھا ۔
اللہ سچے نے انسان سے ان تمام باتوں کو چھپا رکھتے انسان پر اپنا فضل کر رکھا ہے ۔
ایسے علم جو " غیب " سے مطلع کرنے سے منسوب ہوں ان میں کاملیت حاصل کرنے کی خواہش گویا
اپنے آپ پر آگہی سے بھرپور دروازہ کھولنا جیسا ہے ۔
" غیب کا علم صرف اللہ کو ہی سزاوار ہے ۔ "
ان تایا جی ہی سے کچھ پامسٹری کے علم کا اکتساب کیا ۔
کامل تو نہیں ہوں مگر خاندان والے ہی کیا اک زمانہ مجھے ہاتھ دکھا اپنے خوابوں میں گم ہوجاتا ہے ۔
اور میرے لیئے چائے پینے کا سبب

" حلول ووحدت الوجود والشہود "
یہ مجھے سمجھ نہیں آیا ۔

حلول ۔۔۔۔ اللہ تعالی کا کسی جسم انسانی میں سما جانا
اک مردود فلسفہ ہے
وحدت الوجود ۔۔۔۔ روح کے نفخ الہی کو سب اجسام میں یکساں سمجھنا
اک اختلافی فلسفہ ہے
وحدت الشہود ۔۔۔۔۔۔۔ سب کائناتی اجسام میں خالق کی جھلک دیکھنا
یہ بھی اختلافی فلسفہ ہے

× یہ بتائیں کہ نشے کی لت کیوں اور کن وجوہات کے بنا پر پڑتی ہے؟؟؟

نشے میں مبتلا ہونے کی صرف اک وجہ ہوتی ہے
" فرد کا اپنی معاشرتی روحانی جسمانی خواہشوں کے کسی بھی صورت نامکمل اور نا آسودہ رہنے پر
اسکے شعور میں ابھرنے والی سوچ کی اذیت سے فرار "
اب یہ فرار چاہے شعوری ہو یا لاشعوری بہرصورت فرد کو اک ایسی پناہگاہ تلاش کرنے پر ابھارتا ہے
جہاں وہ اپنی کسی ناآسودگی اور کسی کمتری کے باعث دوسرے افراد کی نگاہوں سے ابھرنے
والی تضحیک و تذلیل سے بچ سکے ۔
اور نشہ اسے یہ پناہگاہ فراہم کر دیتا ہے ۔
نشہ ہے کیا ؟یہ کن کیفیات کو ابھارتا ہے ۔ ؟
" نشہ شراب میں ہوتا تو ناچتی بوتل "
نشہ کسی بھی فرد کا کسی بھی صورت کسی شئے کا سہارا لیتے اپنے شعور کو یہ آگہی دینا ہوتی ہے کہ
اس شئے کے استعمال سے اب مین نشے میں ہوں ۔ اور یہ آگہی اس قدر طاقتور ہوتی ہے کہ فرد نشے میں مدہوش دکھتا ہے ۔
اسی مدہوشی میں وہ بیرونی دنیا کے بکھیڑوں میں الجھے بنا اپنے اپ میں ڈوبا باریکیاں تلاش کرتا رہتا ہے
نشہ دراصل انسان میں موجود اس " میں " کو سلا دیتا ہے جو کہ
انسان کو دوسروں کی نظر میں اپنا آپ سنوارنے اور نمایاں کرنے کے مددگار ہوتی ہے ۔
جب یہ " میں " نشے کے زیر اثر ہوتی ہے تو فرد کو یہ پرواہ نہیں ہوتی کہ اسے کون کس نظر اور کس صورت سے دیکھ رہا ہے ۔
اور فرد نشے کے زیر اثر اک یک گونہ مستی اور اپنے آپ میں مگن رہتا ہے ۔
اور اس کی یہ مستی اور اپنے آپ میں مگن رہنے والی کیفیت اسے بیرونی دنیا سے یکسر بے نیاز کر دیتی ہے ۔
کچھ تو نشے کو مجبوری کے عالم میں اختیار کرتے ہیں ۔
اور کچھ اپنے تجسس کی تسکین کے لیئے جب کسی نشہ آور شئے کا استعمال کرتے ہیں ۔
تو وہ جسمانی طور پر اپنے آپ کو عمومی طور سے زیادہ ہشاش باش پاتے ہیں اور اس نشے کے اسیر ہوجاتے ہیں ۔
نشہ اک لعنت ہے کیونکہ یہ فرد کو تو ذہنی طور پر توانا کرتا ہے مگر جسمانی اور معاشرتی طور پر بے انتہا نقصان کا سبب بنتا ہے ۔
جسمانی عوارض تو اپنی جگہ مگر اس کی معاشرتی برائی یہ ہے کہ فرد صرف اپنے آپ میں ڈوبا
ان تمام فرائض سے غافل ہو جاتا ہے جوکہ کسی بھی معاشرے میں موجود انسانوں کے لیئے فلاح کا سبب بنتے ہیں ۔